آج کل یوں معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے بائیں بازو کی سیاست کا احیا ہو رہا ہے۔ منظور پشتین کی گرفتاری پر مختلف شہروں اور خاص طور پر اسلام آباد میں جو احتجاج ہوئے، بائیں بازو کی جماعت، عوامی ورکرز پارٹی، نے اس میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیا۔ اس کے بعد جو گرفتاریاں ہوئیں، ان میں ’’پشتون تحفظ موومینٹ‘‘ (پی ٹی ایم) کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے کارکن بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل جب اپریل 2018 میں پی ٹی ایم نے لاہور میں جلسہ کیا۔ اس وقت بھی عوامی ورکرز پارٹی نے اس کی ’’کچھ نہ کچھ‘‘ میزبانی کی تھی۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ عوامی ورکرز پارٹی، جو کہ سوشل ازم (اشتراکیت) کی دعویدار ہے، وہ پی ٹی ایم کے ساتھ کیونکر متحد ہو سکتی ہے۔ سوشل ازم (اشتراکیت) میں تو حقوق کا کوئی ذکر نہیں۔ جبکہ پی ٹی مجسم ایک ایسی تحریک ہے، جو حقوق سے عبارت ہے، اور آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔
بائیں بازو کے پاس اس بات کا کوئی جواب موجود نہیں کہ بائیں بازو کو پی ٹی ایم میں کیا کشش نظر آتی ہے۔ لیکن اس کا جواب بائیں بازو کی ماضی کی سیاست میں پوشیدہ ہے۔
چونکہ بائیں بازو کی جماعتیں کبھی یہاں کی زمین میں پیوست نہیں رہیں۔ انھوں نے اس معاشرے اور یہاں کی تہذیب و ثقافت کو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی، اور اسے قبول بھی نہیں کیا۔ لہٰذا، وہ یہاں لوگوں میں مقبول بھی نہیں ہو سکیں۔
باایں سبب، شروع سے بائیں بازو کی یہ حکمتِ عملی رہی ہے کہ کوئی کندھا ڈھونڈا جائے۔ اسے کسی جماعت میں داخل ہونا اور اس پر قبضہ کر لینا کہا جاتا تھا۔
اس داخلے اور قبضے کا پہلا موقع پاکستان پیپلز پارٹی کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بائیں بازو کو خوب نچوڑا، اور پھوک بنا کر پھینک دیا۔
میرا نظریہ اب بھی یہی ہے کہ بایاں بازو یا عوامی ورکرز پارٹی اصل میں ایک ’’بینڈ ویگن‘‘ یا کسی ایسی جماعت یا موقعے کی تلاش میں تھی، وہ جس پر سوار ہو کر خود کو مقبولیت دلوا سکے۔ وہ مونڈھا اسے پی ٹی ایم کی صورت میں میسر آ گیا۔
فی الوقت بائیں بازو کا جو کچھ احیا نظر آ رہا ہے، وہ ظاہرہ ہے۔ حقیقی نہیں۔ کیونکہ بائیں بازو کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ وہی پرانی گردان ہے، جسے اب بھی دہرایا جا رہا ہے۔ یہ جو تھوڑا بہت احیا ہے، یہ ایک تو پی ٹی ایم کے مونڈھے کا مرہونِ منت ہے۔ دوسرے، اس کے پیچھے نوجوانوں میں سلگتا ہوا وسیع تر اضطراب ہے۔
ابھی جب میں گذشتہ دسمبر میں ’’نیا دور‘‘ (www.NayaDaur.tv) کے لیے لکھ رہا تھا، تو میں نے ایک مضمون لکھا، جس کا اصل استدلال آئین کی حاکمیت اور بالادستی کے حق میں تھا۔ جب یہ اشاعت کے لیے بھیجا، تو اس کا عنوان تبدیل کر دیا گیا، اور ایک ضمنی بات جو مضمون میں در آئی تھی، اسے عنوان بنا دیا گیا۔
مضمون کا اصل عنوان تھا: ’’ ریاست کو نئے سرے سے آئین کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔‘‘
نیا عنوان، ’’ بائیں بازو سے امید ہے اگر انقلابی رومانویت اور لذت پسندی سے دامن چھڑائے،‘‘ رکھ دیا گیا۔
یہ ہیں وہ سطور جو میں نے مذکورۂ بالا مضمون میں پوری وضاحت کے ساتھ لکھی تھیں:
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ تمام سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی کوئی امید نہیں باندھی جا سکتی (’کہ وہ آئین کی حاکمیت قائم کریں گی‘)۔ نہ ہی باندھنی چاہیے۔ یہ سب جماعتیں لوگوں کے پیسے پر پلنے والے طفیلی گروہ ہیں۔
ہاں، بائیں بازو سے کچھ امید اس شرط پر باندھی جا سکتی ہے کہ پہلے تو یہ اپنے نظریاتی و فکری انتشار سے چھٹکارا حاصل کرے۔ دوسرے یہ اپنی انقلابی رومانویت اور لذت پسندی سے دامن چھڑائے۔ اسے اپنے گذشتہ تمام رویوں اور تعصبات کو بھی طاق میں رکھنا ہو گا۔ اسے اپنا پرانا ساز و سامان پیچھے چھوڑ کر ایک نئے انداز میں لوگوں کے سامنے آنا ہو گا۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے بائیں بازو کو صرف ایک نکتے پر اکٹھا ہونا ہو گا کہ پاکستان کی ریاست کو، جو آئین موجود ہے، اس کے مطابق تراشنا اور ڈھالنا ہے، تو یہ لوگوں کا اعتماد حاصکل کر سکے گا۔
لیکن مجھے معلوم ہے کہ بائیں بازو سے یہ امید باندھنا کارِ عبث ہے۔ یہ خود اپنے کنوئیں کا مینڈک بنا ہوا ہے۔ اس کا اس کنوئیں سے باہر نکلنا قریب قریب ناممکن ہے۔
ایسے میں بس یہ سوچا اور چاہا جا سکتا ہے کہ کوئی ایک نئی سیاسی جماعت وجود میں آئے، جس کا یک نکاتی منشور یہ ہو کہ پاکستان کی ریاست کو نئے سرے سے آئین کے مطابق تعمیرِ کرنا ہے۔‘‘
اب ان سطور میں، میں نے باقی تمام جماعتوں کو رد کر کے سوچا کہ چلو بائیں بازو کا بھی ذکر ہو جائے۔ جبکہ یہ ایک انتہائی دورازکار بات تھی۔ مگر ذکر ضروری تھا۔ کیونکہ بہرحال پاکستان میں، جو بھی جیسا بھی ہے، بایاں بازو موجود تو ہے۔
اور جیسا کہ آج کل یہ چیز زیرِ بحث ہے کہ تحریکِ انصاف اخبارات اور ٹی وی چینلز فتح کرنے کے بعد ’’سوشل میڈیا‘‘ کو اپنا باجگزار بنانے جا رہی ہے، اور یوں اس کا فسطائی (فاشسٹ) کردار پوری طرح عیاں ہو رہا ہے۔ تو میرے ذہن میں یوں ہی یہ خیال گزرا کہ اگر کبھی بائیں بازو کو حکومت مل جائے، خواہ جیسے بھی ملے، تو وہ کیا کریں گے۔ اور میں یہ سوچ کر ڈر گیا کہ یہ تو ’’انصافی حکومت‘‘ سے بھی بڑھ کر فسطائی (فاشسٹ) ثابت ہوں گے۔
بھلا کیوں؟
وجہ اس کی یہ ہے کہ جو بھی پارٹی کسی ایک طبقے یا چند طبقات کو ظالم قرار دیتی ہے، اور دوسرے طبقے یا طبقات کو مظلوم گردانتی ہے، جب اسے طاقت ملتی ہے، وہ ’’ظالم‘‘ طبقے کے نام پر ہر مخالف آواز کو دباتی ہے۔ خواہ یہ خود اس کی ناکامی ہو، مگر یہ اپنی ناکامی کو ’’ظالم طبقوں‘‘ کا کام اور ’’سازش‘‘ بتاتی ہے۔ جیسے تحریکِ انصاف کر رہی ہے۔
تب ہی مجھے یاد آیا کہ دنیا میں جہاں جہاں سوشلٹ (اشتراکی یا ’’پرولتاریہ‘‘ کی) حکومتیں قائم ہوئیں، وہاں وہاں ہر طرح کی آزادیاں ختم کر دی گئیں۔ جیسا کہ اب پاکستان میں ہو رہا ہے۔
اصل میں یہ فسطائی (فاشسٹ) حکومتیں تھیں۔ جیسے تحریکِ انصاف میں ابتدا سے فسطائی (فاشسٹ) رجحانات موجود تھے، اسی طرح بائیں بازو میں بھی فسطائی (فاشسٹ) رجحانات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ اور انھیں جب طاقت ملے گی، یہ بھی پورے پورے فسطائی (فاشسٹ) ثابت ہوں گے۔
Can a party or an organization survive without any romanticism?
But it cannot survive only with romanticism.