شہباز شریف پر جو مقدمات قائم ہوئے ہیں، ان سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔
نہ ہی ان سے میری کوئی ذاتی مخاصمت ہے۔
ان سب باتوں سے جدا، انھوں نے جو ’’جرم‘‘ کیا ہے، وہ کوئی چھوٹا ’’جرم‘‘ نہیں۔
یہ بہت بڑا ’’جرم‘‘ ہے، جس نے لاکھوں شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انھوں نے ترقی کے نام پر لاہور اور کچھ دوسرے شہروں میں جو تباہی پھیلائی ہے، وہ تو ایک خوفناک کہانی ہے۔
اصل تباہی جو انھوں نے پھیلائی اور جس نے شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا، اس کی طرف نہ میڈیا کی توجہ ہے، نہ تجزیہ کاروں کی، نہ کالم نگاروں کی، اور نہ ہی خود ان شہریوں کی، جن کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
لاہور میں جو سڑکیں تعمیر کی گئیں، وہاں فٹ پاتھ تباہ و برباد اور ختم کر دیے گئے۔
دوسرے شہروں میں جہاں جہاں شہباز شریف کی ’’نظرِ کرم‘‘ پڑی، غالباً وہاں بھی یہی حال ہو گا۔
یوں لگتا ہے ان کے اور ان کے منصوبہ سازوں کے ذہن میں انسان نہیں صرف گاڑیاں تھیں۔
یہی سبب ہے کہ نہ تو فٹ پاتھ رہے، اور نہ ہی لوگوں کے لیے سڑک پار کرنے کا کوئی انتظام۔
لاہور میں ایک دو جگہوں پر پہلے کبھی سڑک پار کرنے کے لیے کچھ اوورہیڈ پُل تعمیر ہو گئے تھے، بس وہ موجود ہیں۔ جیسے کہ گلبرگ میں اور جیل روڈ پر۔
وگرنہ پورے لاہور میں، اور دوسرے شہروں میں بھی، نہ تو زیبرا کراسنگ رہنے دیے گئے، اور نہ ہی سڑک پار کرنے کے لیے ٹریفک اشاروں کا کوئی انتظام۔
جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کا رش بہت زیادہ ہو چکا ہے، اور چلنے والی گاڑیوں کی رفتار بھی بہت زیادہ ہے۔
مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، جنھیں سڑک پار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سب خاصی دیر تک سڑک خالی ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں، اور سڑک خالی نہیں ہوتی۔ وہ تنگ آ کر چل پڑتے ہیں، اور اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ وہ اور کیا کر سکتے ہیں؟
میرے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں، ورنہ یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ اس وجہ سے حادثوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔
یہ ہے شہباز شریف کا وہ ’’جرم‘‘ ہے، جس کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔
مناسب ہے کہ اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں انھیں ایسی سزا دی جائے کہ ان کی زندگی بھی اسی طرح خطرے میں پڑے، جیسے انھوں نے لاکھوں شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا ہے۔
اور ان کے اس ’’جرم‘‘ کی سزا یہ ہو سکتی ہے کہ انھیں روزانہ لاہور اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر، جہاں کوئی فٹ پاتھ نہیں، پیدل چلنے پر مجبور کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ چند کلومیٹر چلنے کے بعد انھیں سڑک پار کرنے کی سزا بھی دی جائے۔
یعنی انھیں صبح ساتھ سات بجے لاہور اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر لا کر چھوڑ دیا جائے اور وہ سارا دن شام پانچ بجے تک سڑکوں کے کنارے چلیں اور ہر چند کلومیٹر کے بعد سڑک پار کیا کریں۔
تب انھیں احساس ہو گا کہ انھوں نے عام شہریوں کے ساتھ کیا ظلم کیا ہے۔
یہ سزا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جیسا ’’جرم‘‘ ویسی سزا ہونی چاہیے۔