آج اخبار میں دیکھا، موسیقار وزیر افضل کل بروز منگل (7 ستمبر2021 ) 87 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
شکوہ نہ کر، گلہ نہ کر، یہ دنیا ہے پیارے، یہاں غم کے مارے ۔۔۔
دل کو ایک دھچکا سا لگا۔
میں نے دو ڈھائی برس پی ٹی وی لاہور میں بطور معاون پروڈیوسر اور اپرینٹس پروڈیوسر کام کیا تھا۔ فروری 1985 سے لے 1987 کے آخر تک۔
اس دوران انھیں کئی مرتبہ دیکھا۔
جب ایک دن کسی نے بتایا، یہ وزیر افضل ہیں۔ میں حیران رہ گیا۔
ان میں کوئی بات ایسی نہیں تھی، جو منہہ پھاڑ پھاڑ کر بتاتی ہو کہ میں وزیر افضل ہوں، میں ایک بڑا موسیقار ہوں۔
بھاری جسم۔ لمبا قد۔ اور سانولا چمکتا ہوا رنگ۔
منکسرالمزاجی چہرے سے عیاں تھی۔ وہ تو مجسم عاجزی کی تصویر تھے۔
دیکھنے میں دیہاتی لگتے۔ آدمی پہلے سے سوچ لے کہ جب بولیں گے تو کسی اکھڑ کی طرح۔
مگر ایسا نہیں تھا۔ بہت سادگی اور تسلیم خوئی سے بات کرتے۔ مختلف لوگوں سے انھیں بات کرتے سنا۔
میرے ذہن میں ان کا جو ہیولا موجود ہے، اس میں وہ کتھئی رنگ کی شلوار قمیض پہنے ہوئے ہیں۔ پتا نہیں کیوں۔ غالباً انھیں جب بھی دیکھا اسی رنگ میں ملبوس دیکھا۔ یا پھر جب انھوں نے یہ رنگ پہنا ہوا تھا، وہ تصویر میرے ذہن میں محفوظ ہو گئی۔
پی ٹی وی لاہور میں موسیقار بابا جی اے چشتی کو دیکھا۔ موسیقار میاں شہریار کو دیکھا۔ موسیقار بخشی وزیر کو دیکھا۔
جب بھی ان میں سے کوئی نظر آتا، حیران ہوتا، یہ کیا عظیم موسیقار ہیں، اور اس قدر سادہ اور بے نیاز، خود سے بھی لاپروا۔
یہ وہ لوگ تھے، جن کی قدر نہیں ہوئی۔
پی ٹی وی میں بھی ان کی قدر نہیں ہوئی۔ پی ٹی وی نے بھی ان کی قدر نہیں کی۔ بلکہ پی ٹی وی نے تو ان کی بے قدری کی۔
شاید جو معمول ہوتا ہے، وہ ہر چیز کو پیس کر رکھ دیتا ہے۔
مگر یہ لوگ معمول کے لوگ نہیں تھے۔
پی ٹی وی کے ملازم، پروڈیوسر اور دوسرے افسران، سب کے سب اسی ہلاکت خیز معمول کا شکار تھے اور کسی حد تک نخوت کا بھی۔
اور یہ عظیم لوگ ان کے دستِ نگر بنے ہوئے تھے۔ افسوس ناک۔
میں اس چیز پر بھی حیران ہوتا تھا۔ مغموم بھی۔ ملول بھی اور مشتعل بھی۔
مگر کیا ہو سکتا تھا؟ کچھ نہیں۔
میں بہت جلد پی ٹی وی کو چھوڑ دینا چاہتا تھا۔ چھوڑ دیا۔
آج وزیر افضل کے انتقال کی خبر پڑھ کر پھر مغموم ہوں۔ ملول بھی ہوں۔
اور حیران بھی ہوں کہ کس قدر سادہ لوگ تھے، مگر کتنی عظیم ہستیاں تھے۔
ان کے اندر سُر اور راگ کا کتنا بڑا جن پردہ کیے بیٹھا تھا۔
اور جب وہ کسی نغمے کی موسیقی ترتیب دیتے تھے، تب یہ راز کھلتا تھا کہ اس سادگی میں کیا پُرکاری چھپی ہوئی ہے۔
یہ یاد لکھتے وقت میرے ذہن میں ایک نغمہ گونج رہا ہے۔ اس کی موسیقی انھوں نے ترتیب دی تھی۔
یہ نغمہ فلم، ’’زمین‘‘ سے ہے، جو ستمبر 1965 میں ریلیز ہوئی۔
ذرا یہ نغمہ سنیے، اور سوچیے، جس نے یہ طرز اور یہ بندش ترتیب دی، وہ خود کیا چیز ہو گا۔
شکوہ نہ کر گلا نہ کر، یہ دنیا ہے پیارے، یہاں غم کے مارے، تڑپتے رہے۔
صرف یہ ایک نغمہ ہی وزیر افضل کو ایک عظیم موسیقار کے مرتبے پر لا بٹھاتا ہے۔
مختصر ، با معنی ، تلخ اور فکرانگیز تحریر