Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

پاکستان اور دانشوروں کا کردار

یہاں یہ معاملہ زیرِ بحث نہیں کہ دانشور کی تعریف کیا ہے۔ یا یہ کہ دانشور کسے کہا جائے۔ ان معاملات سے تفصیلی بحث میری نئی آنے والی کتاب، ’’دانشور اشرافیہ: تانا بانا، اجارہ، کردار‘‘ میں موجود ہے۔

لہٰذا، یہ جان لینا کافی ہے کہ پاکستان میں عملاً کون لوگ دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اور کون نہیں۔

اساتذہ، خواہ وہ کالجوں سے تعلق رکھتے ہوں، یا یونیورسیٹیوں سے، یا دوسرے تدریسی اداروں سے، انھیں دانشوروں میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ تدریس کا دانش یا دانشوری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ان میں ایک مختصر تعداد ایسے اساتذہ کی بھی ہے، جو دانش یا دانشوری کی طرف نکل آتے ہیں۔ ان میں سے کالم نگار اہم ہیں۔ اس کے علاوہ، ان میں سے کچھ، صحافی، اور پھر سیاست دانوں کے مشیر، وغیرہ، بن جاتے ہیں۔ یا کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔

ایک قلیل تعداد اساتذہ میں ایسے لوگوں کی بھی ہے، جو اپنے زور پر لکھتے پڑھتے اور کچھ نہ کچھ دانشورانہ کام بھی کر لیتے ہیں۔

پھر افسرشاہیہ ہے۔ ان کی ایک معتد بہ تعداد دانشور کہلاتی ہے۔ سروس میں ہوتے ہوئے بھی، اور ریٹائر ہو جانے کے بعد تو زیادہ شدومد سے، یہ دانشوری کا سکہ بٹھانے لگتے ہیں۔ کتابیں لکھتے ہیں۔ کالم نگار بن جاتے ہیں۔ اخباروں میں چھپتے  اور ٹی وی چینلوں پر نمودار ہوتے ہیں۔

اردو اور انگریزی اور غالباً دوسری زبانوں میں نکلنے والے اخبارات میں لکھنے والے لوگ، یعنی کالم نگار اور مضامین نگار بھی دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں۔

اور جب سے ٹی وی چینلوں کا فروغ ہوا ہے، تب سے جو لوگ ان چینلوں پر میزبان، اینکر اور تجزیہ کار کے طور پر سامنے آئے ہیں، وہ بھی دانشوروں میں شامل ہو گئے ہیں۔

ان دانشوروں میں فوجی افسرشاہیہ سے تعلق رکھنے والے حاضرسروس اور ریٹائر لوگ بھی ہیں۔ یہ بھی دانشوروں کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ اردو اور انگریزی اخبارات میں بھی شائع ہوتے ہیں۔

ایک بہت ہی کم تعداد ایسے دانشوروں کی بھی ہے، جو حقیقتاً فکری اور تحقیقی کام کرتے ہیں، اور کبھی کبھی ان ذرائع پر نمودار ہوتے نظر آ جاتے ہیں، جہاں سے بڑے پیمانے پر آراء، خیالات و تصورات، اور نظریات کی ترسیل ہوتی ہے۔

ان زمروں میں ایک قسم اور جمع کی جانی چاہیے۔ یہ ان دانشوروں پر مشتمل ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ کتاب شائع ہو جانے سے (قطع نظر کتاب کے مواد سے)، اخبار میں چھپ جانے سے (جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے قطع نظر)، ٹی وی چینل پر آ جانے سے (گفتگو کے مواد سے قطع نظر)، وہ دانشور بن جاتے ہیں۔ یعنی ان کا زور ظاہر پر ہوتا ہے، اور باطن ان کی نظر سے مخفی رہتا ہے۔ یہ ڈپٹی نذیراحمد کی اصطلاح میں ’’ظاہر دار‘‘ دانشور ہیں۔

ایک چیز واضح رہے کہ یہ مختلف زمرے ایک دوسرے کے ساتھ مخلوط بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر پرانداز بھی ہوتے رہتے ہیں۔

اس تمہید سے یہ عیاں ہے کہ فی الوقت پاکستان میں دانشوروں میں وہ لوگ شمار ہوتے ہیں، جو کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی اعتبار سے لوگوں کی رائے پر اثرانداز ہونے اور ان تک معلومات و اخبار پہنچانے کی سرکاری، نیم سرکاری، نجی، نیم نجی، اور نجی و سرکاری طور پر مخلوط  سعی کا حصہ ہیں۔

یہ ہیں وہ دانشور، یہاں جن کے کردار پر بات کرنا مقصود ہے۔ اور وہ بھی محض ایک مثال کے ذریعے۔ اور یہ ایک مثال نہایت اہم ہے اور خطرناک بھی۔

سوال یہ ہے کہ آیا دانشوروں کو کسی سیاسی شخصیت، یا کسی سیاسی پارٹی کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنا چاہیے؟ یعنی آیا دانشوروں کو لوگوں کو یہ بتانا چاہیے کہ یہی وہ مسیحا ہے، جس کے وہ منتظر تھے، یا جس پر انھیں اندھا اعتماد کرنا چاہیے۔

عملاً یہی وہ کردار ہے، گذشتہ کئی دہائیوں سے دانشوروں نے جس کی ادائیگی پر کمر باندھی ہوئی ہے۔

صاف بات ہے کہ ہر کوئی بشمول دانشوروں کے سیاسی وابستگی کا حامل ہوتا ہے۔ اور اسے اپنی وابستگی کا ڈھنڈورا پیٹنے کی آزادی بھی حاصل ہے۔ لیکن جب کوئی شخص کسی پبلک پلیٹ فارم پر براجمان ہو جاتا ہے، جیسے کہ اخبار، ریڈیو چینل، ٹی وی چینل، اشاعت داری (یعنی کسی پبلشر کی تحصیل)، وغیرہ، تو وہ ایک عام شخص نہیں رہ جاتا۔ یا صرف کسی پارٹی کا ترجمان نہیں رہ جاتا۔ یعنی اب وہ کسی پارٹی کا ترجمان بن کے نہیں رہ سکتا۔ یعنی یہ پبلک پلیٹ فارم ہیں، اور وہ ان کا سیاسی استعمال نہیں کر سکتا۔ بشرطیکہ جیسے کہ کوئی ریڈیو یا ٹی وی چینل کسی سیاسی پارٹی کا آرگن بن جائے۔ یا یہ کسی پارٹی کا زرخرید آرگن نہ بن جائے اور ایسے ہی جانا جائے۔

یعنی ایک عام شخص کی حیثیت اور ایک پیشہ ورانہ شخص کی حیثیت میں فرق ہے، اور یوں ان کے کردار اور ذمے داریوں میں بھی۔ یعنی ایک دانشور کی حیثیت اور ذمے داری ایک عام شخص سے مختلف ہو جاتی ہے۔ وہ پبلک یعنی لوگوں کو جواب دہ بن جاتا ہے۔ اور اسے جواب دہ ہونا چاہیے۔

مراد یہ کہ جن دانشوروں نے اپنی اس حیثیت کو کسی سیاسی شخصیت، یا کسی سیاسی پارٹی کے حق میں پروپیگینڈے اور لوگوں کی ذہن سازی کے لیے استعمال کیا، انھوں نے اپنے کردار سے تجاوز کیا۔ اپنے کردار سے انحراف کیا۔

جیسا کہ آج کل صحافی، سلیم صافی اپنے یوٹیوب چینل پر ایک خاص عنوان، ’’وہ جن کے خواب بکھر گئے‘‘ کے تحت ایسے دانشوروں کے انٹرویو کر رہے ہیں، جنھوں نے کھلم کھلا اپنی پیشہ ورانہ حیثیت کو عمران خان اور پاکستان تحریکِ انصاف کے حق میں پروپیگینڈے اور ذہن سازی کے لیے استعمال کیا، اور اب جبکہ، سلیم صافی کے الفاظ میں، ان دانشوروں کے خواب بکھر گئے ہیں، تو وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہیں، اور مان رہے ہیں کہ وہ غلط تھے، اور انھوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کو غلط سمجھا۔

وہ جن کے خواب بکھر گئے، ان میں یہ دانشور شامل ہیں: مبشر لقمان۔ کامران شاہد۔ ارشاد بھٹی۔ ڈاکٹر دانش۔ کامران خان۔ محسن بیگ۔ ڈاکٹر فرخ سلیم (اس ضمن میں تاحال یہی انٹرویو سامنے آئے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں صرف دانشوروں کے نام دیے گئے ہیں۔ سلیم صافی نے جیسے کہ تحریکِ انصاف کے بانی رکن، اکبر ایس بابر، وغیرہ، کے انٹرویو بھی کیے ہیں۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے۔)

یہ بات درست ہے کہ غلطی ہر کسی سے ہو سکتی ہے، مگر یہ تو وہ بات ہے، جس کا ذکر افسانے میں ہوا۔ جس بات کا ذکر افسانے میں نہیں ہوا، وہ یہ ہے کہ آیا انھیں ایسا کرنا چاہیے تھا۔ آیا ان دانشوروں کا ایسا کرنا صحیح تھا۔ یا نہیں۔ کیا ایک دانشور کا یہی کردار ہے کہ وہ کسی سیاسی شخصیت، یا کسی سیاسی پارٹی کے حق میں ’’مہم‘‘ چلائے۔

اس کا صاف اور کھرا جواب یہ ہے کہ کوئی دانشور آئین اور قانون کی بات تو کر سکتا ہے، لوگوں کو ان کے بارے میں بتا سکتا ہے، مگر انھیں کسی سیاسی شخصیت یا کسی سیاسی پارٹی، یا عمران خان اور تحریکِ انصاف کا ترجمان نہیں بننا چاہیے تھا۔ بلکہ بات اس سے کہیں بڑھ کر ہے، جسیا کہ نیچے ذکر آ رہا ہے۔

گو کہ سلیم صافی ان دانشوروں سے یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ آیا انھیں ایسا کرنے کے لیے کہا گیا (خواہ یہ عمران خان کی طرف سے کہا گیا یا ان کی پارٹی کی طر ف سے، یا کسی اور کی طرف سے)، اور یقیناً وہ اس کا جواب نفی میں دے رہے ہیں، اور نفی میں ہی دیں گے۔

لیکن اصل سوال یہ ہے ہی نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ آیا انھیں ایسا کرنا چاہیے تھا۔

بلکہ یہی سوال ہر اس اخبار اور چینل کے ضمن میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے، جنھوں نے کسی بھی سیاسی شخصیت، یا کسی سیاسی پارٹی کے حق میں مہم چلائی۔

جیسا کہ امریکہ میں، یا اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے، بالعموم اخبارات اور چینل اپنی سیاسی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں، مگر وہ اپنے اخبار اور چینل کو کسی سیاسی شخصیت یا کسی سیاسی پارٹی کے حق میں مہم کے لیے وقف نہیں کرتے (گو کہ بعض صورتوں میں جزوی طور پر ایسا ہوتا بھی ہے!)۔ مگر وہ اپنی ادارتی پالیسی کو اس وابستگی سے آزاد رکھتے ہیں۔ یعنی کم از کم وہ کسی سیاسی شخصیت یا پارٹی کے آرگن کا کردار نہیں سنبھالتے۔ یا وہ اگر ایسا کرتے ہیں، تو کسی نہ کسی قیمت پر۔

ان دانشوروں کے ضمن میں ایک یہ بات نہایت چونکا دینے والی ہے۔ ان میں سے اکثر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ دو سیاسی پارٹیوں، یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن سے، ان کی کرپشن سے، اور ان کی باریوں کی سیاست سے تنگ تھے، اور چاہتے تھے کہ کوئی تیسرا آئے۔ اور لوگوں کے مسائل حل کرے۔ اور یہ کہ یہ عمران خان تھا، جو یہ کام کر سکتا تھا۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ آیا اس چیز کا فیصلہ ان دانشوروں نے کرنا ہے کونسی سیاسی پارٹی حکومت میں آئے اور کونسی سیاسی پارٹی ختم ہو جائے۔ آیا جمہوریت اور انتخابات، ان دانشوروں کی پسند ناپسند پر منحصر ہیں۔

یہ دانشور کون ہیں یہ طے کرنے والے کہ کونسی سیاسی پارٹی انتخابات میں جیتے اور کونسی ہارے۔ کیا یہ چیز لوگوں کے اختیار میں نہیں کہ وہ کس پارٹی کو اقتدار میں لائیں، اور کسے نہیں۔ کیا آئین یہ اختیار پاکستان کے شہریوں کو نہیں دیتا۔ بلکہ کیا آئین لوگوں کی رضا کا آئینہ دار نہیں۔

آیا یہ دانشور کہیں خود آئین تو نہیں بن گئے۔ یا بالائے آئین اور ماورائے آئین متمکن ہو گئے۔ اور لوگوں کے مینڈیٹ پر حاوی ہو گئے۔ یا انھیں فریب دینے والے بن گئے۔

یہ ہیں وہ گھناؤنے سوال جو ان دانشوروں کے کردار کو ’’داغدار‘‘ بناتے ہیں۔

یعنی یہ کہ ان دانشوروں نے بالائے آئین اور ماورائے آئین کردار اپنا لیا۔

واضح رہے کہ ہر دانشور آئین سے متعلق کسی تبدیلی و ترمیم کے ضمن میں رائے ہموار کرنے میں آزاد ہے، اور یہ بات اس کے کردار سے میل بھی کھاتی ہے، مگر پرامن انداز میں اور آئینی اور قانونی انداز میں۔

اور جیسا کہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کی کل سیاست، اور پھر حکومت، آئین، قانون، اخلاقیات، روایات، کی دشمن رہی تھی، اور ہے بھی، لہٰذا، یہ دانشور ان ’’غلطیوں‘‘ کے مرتکب بھی ہوئے۔ یعنی ان کا اپنی غلطی کا اعتراف کرنا، اصل میں ’’شریکِ جرم‘‘ ہونے کا اعتراف ہے۔

آخر میں چند وضاحتیں ضروری ہیں۔

ایک تو یہ کہ میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ جتنا پروپیگینڈا کر لیا جائے، ذہن سازی کی جتنی کوشش کر لی جائے، اس میں کامیابی کا تناسب بالعموم بہت کم ہوتا ہے۔ یعنی بہت کم لوگ ہوتے ہیں، جو اس پروپیگینڈے اور ذہن سازی سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہاں ایک چیز کو استثنیٰ حاصل ہے، وہ ہے جھوٹ کو حقیقت بنا کر پیش کرنا اور اس کے لیے دلائل اور شواہد بھی گھڑ لینا۔ صاف بات ہے کہ جھوٹ کو حقیقت بنا کر پیش کرنے سے، لوگ دھوکہ کھا سکتے ہیں، اور کھا جاتے ہیں۔ اور یہ دھوکہ دیا گیا۔ سو ایسے تمام دانشور جو لوگوں کو دیے گئے اس دھوکے کے سعی میں شریک رہے، وہ محض غلطی کے مرتکب نہیں۔

دوسرے یہ کہ یہ چیز عیاں ہے اور اس ضمن میں کافی شواہد موجود ہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات کو توڑا مروڑا گیا۔ قبل از انتخابات بھی سازباز اور دھونس دھاندلی سے کام لیا گیا، اور پھر بعد از انتخابات بھی سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے ایک مخصوص سیاسی شخصیت اور پارٹی یعنی عمران خان اور تحریکِ انصاف ک غیرمنصفانہ اور غیرشفاف طور پر جتا کر حکومت میں لایا گیا۔

تیسرے یہ کہ ان دانشوروں کے تمام پروپیگینڈے اور ذہن سازی کی کوششوں کے باوجود، عمران خان اور تحریکِ انصاف خود اپنے تئیں انتخابات جیت نہیں سکتے تھے، لہٰذا، انھیں جتوانے کے لیے ہر قسم کے پاپڑ بیلے گئے۔ اور جتوایا گیا۔ پھر بھی تحریکِ انصاف تنہا حکومت نہیں بنا سکتی تھی۔ سو حکومت بھی بنوائی گئی۔

ان چیزوں کے پیشِ نظر یہ سوال بیجا نہیں کہ ان دانشوروں نے جو کردار ادا کیا، آیا وہ مجرمانہ نہیں اور کیا یہ ان کا کام تھا، جسے وہ انجام دیتے رہے۔ اور اب اپنی غلطی کو تسلیم کر رہے ہیں۔ کیا یہ محض اتنی سی بات ہے کہ ایک غلطی کی اور اسے مان لیا۔

یعنی یہ جو آئین، قانون، اخلاقیات، وغیرہ، کے خلاف اتنا بڑا کھلواڑ کیا گیا، کھیل کھیلا گیا، آیا یہ دانشور اس کا حصہ نہیں تھے۔ آیا انھیں اس کھلواڑ کا حصہ بننا چاہیے تھا۔

کوئی ہے جو ان سے یہ سوال بھی پوچھے!

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments