Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

پاکستان کی سیاست میں ایک بنیادی تبدیلی

[نوٹ: یہ تحریر لکھنے کے بعد میں بارہا یہ سوچتا رہا ہوں کہ سیاست دانوں میں اگر عزم و ارادہ موجود ہو، اور وہ کچھ کرنے کا تہیہ کر لیں، تو وہ کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں۔ یعنی سیاسی و حکومتی اور سول معاملات میں قائمیہ کی ازلی و بھرپور مداخلت اور بالادستی کے باوجود وہ شہریوں کی بہتری کے لیے کچھ کام تو ضرور انجام دے سکتے ہیں۔ جیسا کہ اس تحریر میں کہا گیا ہے کہ تھانہ کلچر کی تبدیلی اور ٹیکس اصلاحات، یہ دو کام اور پھر اور بہت سے کام تو کیے جا سکتے ہیں۔ ہاں، شرط یہ ہے کہ سیاست دان شہریوں پر اعتماد کریں اور ان کی طاقت پر انحصار کریں، پھر وہ کچھ بھی کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ 17 جنوری، 2023 ]

یہ محض رائے تبدیل ہونے کا معاملہ نہیں۔

ویسے جب باہر کچھ تبدیل ہوتا ہے، رائے بھی تو تب ہی تبدیل ہوتی ہے، اور ہونی بھی چاہیے۔

یعنی سیاسی حالات میں کوئی اہم تبدیلی واقع ہوئی ہے، جب ہی ان حالات کی نوعیت تبدیل ہوئی ہے۔

ہوا یہ ہے کہ ابھی 2017 تک میرا یہ خیال تھا اور میں اس کا اظہار بھی کرتا رہا ہوں کہ کئی معاملات ہیں، جنھیں سیاست دان خود سدھارنا نہیں چاہتے، وگرنہ انھیں سدھارنے میں قائمیہ کی طرف سے کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ یعنی سیاست دان چاہیں تو ان معاملات کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔

ان معاملات میں سے دو معاملات کے بارے میں، میں لکھ بھی چکا ہوں۔ ایک معاملہ تو وہ ہے، جسے ’’تھانہ کلچر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اور دوسرا معاملہ ہے ٹیکس سے متعلق اصلاحات کا۔

بظاہر اب بھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ سیاست دان اگر ارادہ کریں، تو ان دونوں معاملات کو حل کر سکتے ہیں۔ لیکن غور سے دیکھیں تو اب ایسا ممکن نہیں رہا، یا یہ کہ بہت مشکل ہو گیا ہے۔

اپنی رائے کے ضمن میں، اب میں اس بات کی طرف مائل ہو رہا ہوں کہ دریں حالات اگر سیاست دان ان دو اہم معاملات کو حل کرنا بھی چاہیں، تو حل نہیں کر سکتے۔

قبل ازیں، پاکستان کے ریاستی اور حکومتی معاملات میں قائمیہ کی دخل اندازی کا دستِ دراز اس حد تک دراز نہیں ہوا تھا، اب گذشتہ تین چار برسوں میں یہ جس حد کو عبور کر گیا ہے۔ اور یہی سبب تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ سیاست دان کچھ معاملات کو دانستہ حل نہیں کرنا چاہتے۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ وہ اب بھی انھیں حل کرنے میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں۔ میں صرف یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ فرض کیجیے کہ اگر سیاست دان یہ ارادہ کریں کہ چلیں تھانہ کلچر اور ٹیکس اصلاحات کے معاملات پر توجہ دیتے ہیں اور انھیں حل کرتے ہیں، مگر وہ بوجوہ انھیں حل نہیں کر پائیں گے۔

سبب یہ ہے کہ ریاستی و حکومتی معاملات میں قائمیہ کی دخل اندازی وہ تمام حدیں عبور کر گئی ہے، جن سے پاکستان کی ریاست اور حکومتیں پہلے شناسا رہی ہیں۔ اور یہ بنیادی تبدیلی عمران خان کی سیاست کا شاخسانہ ہے۔

’’عمران خان منصوبے‘‘ کی تیاری اور پھر اس پر عمل درآمد نے قائمیہ کو خیمے میں گھُسا ضرب المثل کا اونٹ بنا دیا، اور بے چارہ خیمہ نشین عرب اب باہر کھلے آسمان تلے پڑا ہے۔ اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اس اونٹ کے لیے خیمہ بھی تنگ ثابت ہو رہا ہے۔

یہ وہ بنیادی تبدیلی ہے، جو پاکستان کی سیاست میں 2018 سے لے کر 2022 کے ابتدائی مہینوں کے درمیان واقع ہوئی۔

یہ بھی واضح رہے کہ نئی اتحادی (کولیشن، یعنی پی ڈی ایم کی) حکومت کسی بھی صورت میں اس بنیادی تبدیلی کا تریاق نہیں۔ بلکہ یہ اس بنیادی تبدیلی کی توثیق سے عبارت ہے۔

جہاں تک قائمیہ کے غیرجانبدار (’’نیوٹرل‘‘) ہونے کا تعلق ہے، یہ محض ایک التباس ہے۔ نظر کا دھوکہ ہے۔

جیسا کہ مذکور ہوا، اگر کوئی سیاسی (سویلین) حکومت تھانہ کلچر تبدیل کرنا چاہے گی، تو یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ کیونکہ سیاسی حکومت کی ایک فورس کے طور، پر پولیس اپنا مقام و مرتبہ اور حوصلہ (موریل) پہلے ہی کھو چکی ہے۔ یہ قائمیہ کے افسران کے سامنے سر اٹھا کر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ ہر معاملے اور تنازعے میں سیاسی حکومتیں بجائے اس کے اس کی پشت پر کھڑی ہوں، اسے پیچھے ہٹنے اور جھکنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یعنی پولیس اپنے قانونی اختیار سے ہاتھ دھو چکی ہے۔ سیاسی مصلحتوں کے پیشِ نظر، سیاست دانوں نے اسے بے سمت اور بے حوصلہ کر دیا ہے۔

پھر یہ بھی کہ پولیس سیاسی اور مذہبی جتھوں کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی، کیونکہ اسے کچھ کرنے نہیں دیا جاتا۔ بلکہ اسے ان جتھوں کا نشانہ بننے دیا جاتا ہے۔ یعنی، ایسا معلوم ہوتا ہے، سیاسی حکومتوں نے پسپائی اور ذلت کو ہمیشہ کے لیے پولیس کا مقدر بنا دیا ہے۔

یہ چیز تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے کے ضمن میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جبکہ یہ چیز عیاں ہے کہ پولیس کو ایک سیاسی فورس میں ڈھال دیا گیا ہے، جو قانون کے بجائے، سیاست دانوں کی مصلحتوں اور خواہشوں کی غلام بن گئی ہے۔ اور یوں تھانہ کلچر سے جو مراد لی جاتی ہے، وہ ’’تھانہ کلچر‘‘ کمزور ہونے کے بجائے، اور زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔ اسے اور زیادہ تقویت حاصل ہو گئی ہے۔ یعنی پولیس ہر اعتبار سے اب ایک ایسی فورس بن گئی ہے، جو نفسیاتی اور سماجی طور پر عام لوگوں کو اپنا ’’شکار‘‘ سمجھتی ہے، کیونکہ عام لوگوں کی تذلیل و تحقیر اور تعذیب پر اس کی کوئی جوابدہی نہیں ہوتی (پہلے بھی نہیں ہوتی تھی!)۔ اور جب سیاست دان اور سیاسی حکومتیں اسے تذلیل و تحقیر کا نشانہ بنواتی ہیں، تو یہ جواباً لوگوں سے اسی چیز کا بدلہ لیتی ہے، اور قانون کو سرے پسِ پشت ڈال دیتی ہے۔

مختصر یہ کہ جب تک کوئی سیاسی حکومت، پولیس کے کھوئے ہوئے مقام و مرتبے اور حوصلے کی بحالی کا بیڑا نہیں اٹھاتی، اور اسے قانون کے تحت اور قانون کے لیے کام کرنے والی ایک فورس میں منتقل نہیں کرتی، تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہو گا۔

دوسرا معاملہ ہے ٹیکس اصلاحات کا۔ پہلے میں سمجھتا کہ سیاست دان خود اسے حل نہیں کرنا چاہتے۔ مگر اب میری رائے یہ بنی ہے کہ فرض کیجیے کہ سیاست دان اسے حل کرنا چاہتے ہیں، تو وہ اسے بوجوہ حل نہیں کر سکتے۔ یا حل نہیں کر سکیں گے۔

قائمیہ اور اس کے عہدیداروں، اداروں اور کاروباروں کو مختلف ٹیکسوں، قاعدوں اور ضابطوں سے جو استثنیٰ حاصل ہیں، آیا انھیں ختم کیا جا سکے گا۔ آیا موجودہ سیاست دان اور جماعتیں یہ کام کرنے کی جرآت و طاقت رکھتی ہیٍں۔ جبکہ خود یہ قائمیہ کو ہر روز نئی سے نئی مراعات مہیا کر رہی ہوتی ہیں۔ یا پھر یہ کہ ملک میں ٹیکسوں، قاعدوں اور ضابطوں سے متعلق دو قسم کے نظام کام کریں گے۔

مراد یہ کہ جیسا کہ قائمیہ نے ملک میں خود اپنی ایک کاروباری مملکت کھڑی کر لی ہوئی ہے، آیا اسے ان مختلف ٹیکسوٍں، قاعدوں اور ضابطوں کے تحت لایا جائے گا، باقی معاشرے کے افراد کے کاروبار جن کے تحت کام کریں گے۔

آیا اس صورتِ حالات میں ٹیکسوں کے ڈھانچے اور نظام میں کوئی اصلاحات ممکن ہو سکیں گی؟ اور آیا یہ سیاست دان اور یہ سیاسی جماعتیں ان اصلاحات کا نام بھی لے سکیں گی؟

جبکہ ضرب المثل کا اونٹ پہلے ہی خیمے میں براجمان ہو چکا ہے۔ اور خیمہ اس کے وجود کی حجم اور پھیلاؤ سے تار تار ہوا جا رہا ہے۔

یعنی سیاست میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔ اب سیاست دان کچھ کرنا بھی چاہیں، تو نہیں کر سکیں گے، تاآنکہ وہ اس بنیادی مسئلے کا تدارک کر چکیں۔

سیاست دان اب ایک مکھی کی طرح مکڑی کے جال میں پوری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ اور وہ ان کے گرد مزید جالا بن رہی ہے۔

باقی جو ضرب المثل کے خیمے کا ’’عرب‘‘ (یعنی شہری) ہے، اس بے چارے کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ کیونکہ کوئی بھی سیاست دان اور سیاسی جماعت اس کا ساتھ دینے اور اس کا مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں۔ جبکہ اسے اب اپنے خیمے کی واپسی بھی درکار ہے، اور اس کی پیوندی بھی۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments