غزلِ مسلسل ـ پھول یہ کیسا ہے اندر باغ میں

یہ غزلِ مسلسل جب میں کلر سیداں (تحصیل کہوٹہ، ضلع راولپنڈی) میں تھا، تب لکھی تھی۔ اس نے دو دن مجھے اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ یہ 2 اور 3 مارچ (1994) کے دوران مکمل ہوئی۔ آج کل پھر کچھ دنوں سے بار بار تنگ کر رہی ہے۔ ذہن خود بخود، اب اور تب، اس کا مطلع پڑھنے لگتا ہے۔ پھر باقی اشعار گو کہ پورے پورے سامنے نہیں آتے، مگر ان کا آہنگ پس منظر میں گونجنے لگتا ہے۔ 

اس غزل کو پڑھ کر شاید یہ کہا جائے کہ یہ وحدت الوجود کے کرب کو بیان کرتی ہے۔ لیکن اس مفہوم سے میں شدید اختلاف بھی کروں گا اور اس پر شدید احتجاج بھی کروں گا۔ یہ غزل جو کچھ بھی ہو، وحدت الوجود میں ڈوبی ہوئی نہیں۔ اسے وحدت الوجود سے بھاگنے کی روداد کا نا م تو دیا جا سکتا ہے۔ تاہم، یہ اس سے

کس قیامت کے یہ انتخابات آئے ہیں!

اب تو اس بات میں کوئی شک نہیں رہ گیا کہ یہ انتخابات، سیاست دانوں کے لیے ”یومِ حساب“ ثابت ہو رہے ہیں۔ مراد یہ کہ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک ہر طرح اور ہر رنگ کے سیاست دانوں، ان کی آل اولاد، اور ان کے حواریوں کے لیے انتخابات کچھ یوں ہوتے تھے، جیسے پنجابی میں کہتے ہیں: موجاں لگیاں نیں۔ یعنی عیش ہی عیش۔ آپ نے ایک اور بات بھی سنی ہو گی: عقل نئیں تے موجاں ای موجاں۔ یعنی عقل نہ ہو تو مزے ہی مزے ہیں۔ اسے پاکستانی صورتِ حال کے حوالے سے یوں تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ آئین اور قانون نہ ہو تو مزے ہی مزے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2008 کے انتخابات میں اچھے اچھوں نے انتخابات لڑے، اور آئین اور قانون کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا مذاق بھی اڑایا اور مضحکہ بھی۔

[یہ کارٹون انگریزی روزنامے پاکستان آبزرور

پولیو کے قطرے، چیچک کا ٹیکا

پولیو کے قطرے پاکستان کے لیے دردِ سر بن گئے ہیں۔ بلکہ خون کے قطرے ثابت ہو رہے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ گذشتہ دنوں میں مولانا عبدالحلیم شرر کے مضامین کا مجموعہ، ”مضامینِ شرر“ جلد ہفتم پڑھ رہا تھا۔ یہ 1893 میں چھپی۔ اس میں شامل ایک مضمون مجھے بہت دلچسپ لگا۔ اس کا عنوان ہے: ”چیچک کا ٹیکا اورلیڈی مانٹیگو“۔ اس کے کچھ حصے مولانا شرر کے لفظوں میں آپ بھی ملاحظہ کیجیے:

کتنی بڑی حیرت کی بات ہے کہ چیچک کا ٹیکا، جو آج دنیا میں خدا کی ایک بڑی بھاری برکت ہے، اور جس کے رواج دینے پر یورپ جس قدر فخر کرے، بجا ہے۔ دراصل ایک مشرقی علاج ہے۔ اورغالباً مسلمانوں سے ہی لیا گیا ہے۔ ہم ہندوستان میں دیکھتے ہیں کہ کامیابی کے اتنے تجربوں کے بعد بھی اب تک یہ حال ہے کہ ٹیکا لگائے جانے کے خوف سے مائیں بچوں کو

عبوری حکومت: خواب یا سازش

ابھی 23 مارچ کے دن ایک انگریزی اخبار میں سابق وفاقی وزیر برائے سائینس اور ٹیکنالوجی، اور سابق چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن عطاالرحمان کا ایک مضمون شائع ہوا۔ بہت ڈرانے والا مضمون ہے۔ اگر اس کے عنوان کا ترجمہ کیا جائے تو کچھ یہ مطلب بنتا ہے: چٹان کے کنارے پر۔ وہ لکھتے ہیں: ’آج پاکستان لُٹا پُٹا کھڑا ہے، اس کرپشن کی وجہ سے، جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ پانچ برس پاکستان کی تاریخ کے بد ترین سال تھے، جن کے دوران ہمارے حکومتی اہلکاروں اورمختلف اداروں میں ان کے مقررہ حواریوں نے 18 کھرب سے زیادہ روپے (تقریباً 180 بلین ڈالر) لوٹ لیے۔‘ انھوں نے اپنے مضمون میں اس طرح کے مزید حقائق بیان کیے ہیں، جو دہشت زدہ بھی کرتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان کے شہری کتنی دولت تخلیق کرتے ہیں، اور یہ دولت

ایک اور عظیم دھوکہ

[نوٹ: یہ تحریر ’’اردو بلاگ ـ سب کا پاکستان‘‘ کے لیے 26 دسمبر 2011 کو لکھی اور پوسٹ کی گئی۔ تحریکِ انصاف کے مظہر کے بارے میں آج بھی میری رائے یہی ہے!]
پاکستان کے شہریوں کے ساتھ ایک اور عظیم دھوکہ ہونے جا رہا ہے!
پہلا عظیم دھوکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی صورت میں شروع ہوا تھا، اور ابھی تک جاری و ساری ہے۔ اور پاکستان کے شہریوں کی ایک معتدبہ تعداد ابھی تک اس دھوکے سے باہر نکلنے پر راضی نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کی بنیاد 1967میں رکھی گئی تھی۔ جو خواب اس وقت پاکستان کے شہریوں کو دکھائے گئے تھے، وہ آج تقریباً پینتالیس سال بعد بھی پورے نہیں ہوئے ہیں ۔ پورے ہونے کی بات تو چھوڑیں، ان کا عشر ِ عشیر بھی شرمندہ ءتعبیر نہیں ہوا۔ ہاں، اس عرصے میں کیا ہوا، بہت سے مہم جو لیڈر بن گئے ۔ نہ صرف لیڈر بن گئے

سیاست دانوں کی ناکامی کی ”آمد“

پہلی بات تو یہ کہ یہاں سیاست دانوں کی ناکامی کی ”آمد“ سے جینرل مشرف (ریٹائرڈ) کی جلاوطنی سے وطن واپسی مراد ہے۔ اور پھر ان کی جلاوطنی بھی کیسی جلا وطنی تھی کہ اپنے دیس کے شب وروز سے کہیں بہتر زندگی، وہ بدیس میں گزار رہے تھے۔ کوئی بے چارے عام پاکستانیوں سے پوچھے، کتنے ہیں، جو اس طرح کی جلاوطنی کے لیے ترس رہے ہیں۔ سبک دوش وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے، جب وہ سریرآرائے سلنطت تھے، فرمایا تھا کہ جن پاکستانیوں کوان کی حکومت پسند نہیں، وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ کاش ایسا ہو سکتا تو ان کی سلطنتِ ویراں میں آج الو بول رہے ہوتے۔عام پاکستانیوں کا پاکستان سے کیا تعلق، پاکستان تو بنا ہے اشراف کے لیے۔ پاکستانی ریاست پر یہی اشراف تو قابض ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھاگ بھاگ کر وطن واپس آتے ہیں۔ ریاستی اشرافیہ کوجو رشکِ

مکمل ہوئی: مضامینِ شرر

جلد ہفتم
ـ ـ ـ ـ ـ

یہ بات قابلِ غور ہے کہ شرر اپنا نام، محمد عبدالحلیم شرر لکھتے تھے ۔ دیکھیے صفحہ: 81

یہ کتاب 29 مارچ کو مکمل ہوئی۔ چونکہ کتاب کے ابتدائی صفحات مفقود ہیں، لہٰذا، اس کی مزید تفصیل دستیاب نہیں۔ اس جلد میں جمع کیے گئے مضامین، وغیرہ، اولاً ’’دلگداز‘‘ میں شائع ہوئے۔ کل صفحات 177 ہیں۔

ہاں، جو ںظمیں، ڈرامے اور مضامین اس میں شامل ہیں، ان کی فہرست درجِ ذیل ہے:

شبِ وصل (نظم)
شبِ غم (نظم)
زمانہ اور اسلام (نظم)
بلینک ورس یا نظمِ غیر مقفیٰ (مضمون اور منظوم ڈراما)
نظمِ معریٰ (مضمون)
نظمِ معریٰ (مضمون)
مظلوم ورجینا (منظوم ڈراما)
اسیری بابل (مضمون اور منظوم ڈراما)
بنی اسرائیل کی مختصر تاریخ (مضمون)
نیچرل شاعری (مضمون)
ازماست کہ برماست (مضمون)
شادی وغم (مضمون)
ریختی گوئی (مضمون)
مانی (مضمون)
ایک اصلاح (مضمون)
پھر وہی اصلاحِ زبان (مضمون)
قبرستانوں کا مسئلہ (مضمون)
بدقسمت

کالے شیشوں والی گاڑیاں اور بے چارہ گورا قانون

ایک خبر کے مطاقب نگران وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، نواب غوث بخش باروزئی نے اپنی گاڑی سے کالے شیشے اتار دیے، اور کوئیٹہ کے بڑے پولیس افسر کو ہدایت کی کہ کالے شیشے والی سرکاری و نجی گاڑیوں کے خلاف قانون کے مطابق کاروئی کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون پہلے موجود نہ تھا، اور جس گاڑی کے کالے شیشیے وزیرِ اعلیٰ نے اتارے، وہ غالباً سرکاری گاڑی ہو گی، تو اس پر کالے شیشے کیسے لگے، کس نے لگائے، اور پہلے یہ گاڑی کون استعمال کرتا رہا۔

]روزنامہ ایکسپریس، 28 مارچ، 2013]



[روزنامہ ایکسپریس، 28 مارچ، 2013]

گاڑیوں میں کالے شیشے خلافِ قانون ہیں، تاہم، یہ قانون بھی صرف عام شہریوں کے لیے ہے۔ اشرافیہ اور بالخصوص ریاستی اشرافیہ، یعنی وہ اشرافیہ جو ریاستی اداروں پر پلتی اور زندہ رہتی ہے، اس قانون سے بلند ہے ـ اسی طرح، شراب نوشی سے متعلق

وزارتِ عظمیٰ کے تمنائی

سیاست دان تو بدنام ہیں، اور صحیح بدنا م ہیں۔ وہ صرف نام کے، یا نام کے لیے بدنام نہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے: بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ بلکہ سیاست دانوں نے کام ہی ایسے کیے، اور کیے ہی جا رہے ہیں ، جنھوں نے ان کی شہرت ایسی بنا دی۔ یہاں تک کہ بدنامی ان کے گلے کا طوق بن چکی ہے۔ وہ عہدے، رتبے، حیثیت، مرتبے، اور اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کے ٹیکس کے پیسے کے بھوکے مشہور ہیں۔ وہ جھوٹ بولنے میں طاق ہیں۔ جعل سازی کے گُرو ہیں۔ آئین کو توڑنے مروڑنے کے کاریگر ہیں۔ قانون کو پامال کرنے کے کھلاڑی ہیں۔ اس قبیل کی کی کونسی صفات ہیں، جنھیں ان سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے کرتوتوں کے سبب پاکستان میں لفظ، ’’سیاست“ کا مفہوم بالکل بدل گیا ہے۔ سیاست کا مطلب بن گیا ہے: جھوٹ،

تحریکِ انصاف اور پارٹی انتخابات

تحریکِ انصاف نے پارٹی انتخابات کیا کروائے، جیسے کوئی انہونی ہو گئی۔ پاکستان میں کچھ ایسا ہو گیا، جو کبھی نہ ہوا تھا، اور یوں لگا بس اب پاکستان کے عام شہریوں کا مقدر بدلنے ہی والا ہے۔ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے ہی والی ہیں۔ ان انتخابات کے دوران جو کچھ ہوا، اس سے قطع نظر تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کا رویہ قابلِ دید اور قابلِ غور ہے۔ یہ رویہ اس تکبر سے کسی طرح مختلف نہیں، جس کا اظہار تحریکِ انصاف پہلے سے کرتی آ رہی ہے۔ یہ رویہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ تحریکِ انصاف، خود پسندی کا شکار ہے۔ اور اپنی اس خود پسندی کے زیرِ اثر دوسروں کو ذرا بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ مثال کے طور پر عمران خان اور دوسرے رہنما، جو نئے نئے تحریکی رہنما بنے ہیں، یہ ایک مصرع دہراتے نہیں تھکتے: پیپلز پارٹی بھی کرپٹ

بزدل ایٹم بم

پاکستان میں خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی موجود ہے، جو چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے تو اس کا کوئی استعمال بھی ہونا چاہیے۔ ابھی 28 فروری کو روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں جماعتِ اسلامی کے امیر کا ایک بیان شائع ہوا، ملاحظہ کیجیے:

ریاستی اشرافیہ کے گھریلو معاملات

جیسا  کہ پہلے بھی ایک پوسٹ میں یہ ذکرآ چکا ہے کہ حامد میر کے کالم معلومات سے بھرے ہوتے ہیں۔ تاہم، ان معلومات کو کسی فکری لڑی میں پرونا غالباً ان کے بس کی بات نہیں۔ آج کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ان کا جو کالم چھپا ہے، اسے ریاستی اشرافیہ کے گھریلو تعلقات کی معلومات کا خرینہ کہا جا سکتا ہے۔

اس کالم میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے گھریلوراز، جنھیں عام طور پر ’’چغلیاں‘‘ کہا جاتا ہے، کھولے گئے ہیں۔ملاحظہ کیجیے اور لطف اندوز ہوئیے:

[روزنامہ جنگ، 9 ستمبر، 2013

پارٹی انتخابات کا ڈھونگ

پاکستان کی فکری فضا مغالطوں سے آلودہ ہے۔ یہاں ہرقسم کے مغالطے وافر دستیاب ہیں۔ مغالطے ایسے تصورات ہوتے ہیں، جو بظاہر درست معلوم ہوتے ہیں، لیکن بغور دیکھنے پر یہ غلط ثابت ہوتے ہیں۔ مغالطوں کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سوچنے، کھنگالنے، چھاننے پھٹکنے، اور تحقیق و تفتیش جیسے کام کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہاں وہاں، فیصلہ کن انداز میں، ہر جگہ انھیں دہرائے جاؤ، اور” ڈنگ ٹپائے“ جاؤ۔ یوں، دوسروں کے منہ بند کرنے کے ساتھ ساتھ بحث و مباحثے کو دفنانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ مغالطوں کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ یہ ایک ناقابلِ عبور رکاوٹ کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ بلکہ خاصی حد تک تقدس کے حامل قرار پا جاتے ہیں۔ مغالطوں کو تقدیس سے آمیز کرنے کا حربہ، سونے پر سہاگہ ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح، کوئی بھی ان سے انکار کرنے، یا ان پر سوال

مبارک سلامت!

کیا آپ نے کبھی ایسا کوئی منظر دیکھا ہے کہ نغمۂ شادی کے ساتھ ساتھ نغمۂ غم بھی گونج رہا ہو! یا شادی خانہ آبادی کا کوئی ایسا منظر کہ جس میں عروسی بندھن میں بندھنے والوں کے بجائے، مبارک سلامت کسی اور کو دی جا رہی ہو! پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جو کچھ نہیں ہوا، وہ آج ہونے جا رہا ہے۔ ایک منتخب سیاسی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے۔ پہلے یہ مدت پوری کیوں نہیں ہو پاتی تھی، یہ سوال بھی غور طلب ہے؛ اوراتنا ہی اس سوال کا جواب بھی غور طلب ہے۔ اگر پہلے سیاسی حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پاتی تھیں، تو اس کی اصل ذمے داری بھی ان کے سر آتی تھی۔ مگر آج یہ چیز کچھ مختلف انداز میں جلوہ گر ہو رہی ہے۔ اگر آج ایک منتخب سیاسی حکومت اپنی

حکومت میلہ

پہلے ایک نظم ملاحظہ کیجیے، جو میں نے سال 2010 میں لکھی تھی۔ یہ آج بھی حالات کے مطابق ہے۔ بلکہ گزرے برسوں کے ساتھ ساتھ آنے والے برسوں کے حکومت میلوں کا ہو بہو نقشہ پیش کرتی ہے:
میلہ لگا ہوا ہے حکومت کے نام پر
میں تیرے کام کرتا ہوں، تو میرے کام کر
تجھ کو خودی سے اور طریقے سے کام کیا
سب کچھ تو بیچ ڈال، کھرے اپنے دام کر
بیٹھا ہے تیرے سر پہ ہما، تو ہے بادشاہ
یہ عدلیہ، یہ میڈیا، ان کو غلام کر
صبح کو عہد، شام کو پامال کر اسے
پیدا نیا زمانہ، نئے صبح و شام کر
ہاں تو بھی جھول، عظمیٰ وزارت کا جھولنا
جو چیختے ہیں چیخنے دے، اپنا کام کر
دنیا نے ابر و آب سے بجلی کشید کی
بجلی سے زرکشید کا تو انتظام کر
باقی ہے جو اثاثہِ قومی کی ذیل میں
نام و نشان

جان لینا صرف ریاست کا حق ہے!

فلسفی جان ڈیوی کا کہنا تھا کہ انسانیت کا نہایت اہم مسئلہ اکٹھے مل کر رہنا ہے۔ یعنی انسانوں کا اجتماع کی صورت میں رہنا۔ اس مسئلے سے کسی بھی صورت فرار ممکن نہیں، اور اس کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈنا لازمی ہے۔ جب ایک گھر میں چند افراد مل کر رہتے ہیں تو لاتعداد اختلافات جنم لیتے ہیں، اوریوں نئے سے نئے مسائل بھی۔ چونکہ سب جانتے ہیں کہ اکٹھے مل کر رہنا ہے، لہٰذا، وہ اختلافات کا کوئی حل نکالتے اور مل کر رہتے ہیں۔ یا پھر اگر وسائل کے اعتبار سے اور جذباتی طور پر وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ علاحدہ گھر بنا اور بسا لیں تو ایک نیا گھر بن اور بس جاتا ہے۔ پر اس صورت میں بھی، اگر تعلقات خراب ہیں تو اب یا تب بہتر کر لیے جاتے ہیں، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ وہ آپس میں رشتوں اور انسانی تعلقات

انصاف کے انسانی تقاضے

انصاف کی فراہمی کے لیے کوئی بھی نظام وضع کر لیا جائے، اس میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہے گی۔ وجہ یہ ہے کہ ”انصاف“ حقیقتاً کبھی ممکن نہیں ہو پاتا۔ اگر کسی انسان کی جان غیر قانونی اندازمیں لی گئی ہے، تو کیا اس کا کوئی بدل ممکن ہو سکتا ہے۔ اسی طرح، اگر کسی فرد کو کوئی نقصان پہنچایا گیا ہے تو کیا اس کی کوئی تلافی ہو سکتی ہے۔ قطعاً نہیں۔ اس حوالے سے کم سِن بچوں میں موجود انصاف کی تڑپ سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ اور یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ بچے جس طرح کا خالص انصاف طلب کرتے ہیں، وہ وجود نہیں رکھتا۔ جب کسی بچے کا کوئی کھلونا، کوئی دوسرا بچہ توڑ دیتا یا یہ کھیل کے دوران کسی بچے سے ٹوٹ جاتا ہے، تو کھلونے کا مالک بچہ، وہی اصل کھلونا واپس چاہتا ہے۔ انصاف کی اس ضد کا

جعل ساز یا قانون ساز

پاکستان میں ”جرم“، ریاست، سیاست اور حکومت کے ساتھ لازم و ملزوم بن گیا ہے۔ جرائم پیشہ سیاست اور جرائم پیشہ حکومتوں نے پاکستان کو جرائم پیشہ ریاست بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس کی تازہ مثال بلوچستان کے انسپیکٹر جینرل پولیس نے مہیا کی ہے۔ انھوں نے حال ہی میں کالعدم جہادی تنظیموں کے رہنماؤں سے اپنی ملاقات کے حوالے سے، جو انھوں نے اپنی مرضی سے نہیں، بلکہ کسی حکم کی تعمیل کے لیے کی ہو گی، ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان روابط کا مقصد جہادی جنگجوؤں کو یہ یقین دلانا ہے کہ پاکستان ان سمیت ہر شہری کا ملک ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ قومی اور صوبائی اسیمبلیوں کے منتخب سیاست دان، اور نمائندہ بننے کے خواہش مند سیاست دان، اس کی سینکڑوں مثالیں مہیا کر چکے ہیں۔

جرم کی اس کہانی کی ابتدا 2002 میں ہوئی۔ جینرل مشرف کی

انصاف کی قابلِ تقلید مثال

کیاانصاف ممکن ہے؟ بالخصوص اگر ایک فرد یا افراد کا ایک مختصر گروہ، قتلِ عام کا مرتکب ہو تو پھر انصاف کی نوعیت کیا ہو گی؟ یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ انصاف ممکن نہیں۔ مثلاً اگر کسی فرد کی جان لی گئی ہے، یا اسے کوئی نقصان پہنچایا گیا ہے، تو اس کی کوئی تلافی ممکن نہیں۔ تاہم، انسانی تہذیب نے ”قانونی انصاف“ کا تصور ضرور وضع کیا ہے، جسے انصاف کو گرفت کرنے کی بڑی کوشش ضرور کہا جا سکتا ہے۔ اور حقیقتاً یہی قانون پر مبنی انصاف ہے، جو کسی مثالی انصاف کا بدل ہو سکتا ہے۔ پھر جیسا کہ یہ بھی واضح ہے کہ عدالتیں لفظ بہ لفظ قانون پر عمل درآمد نہیں کر سکتیں؛ انھیں ہر کیس کو ”فطری انصاف“ کی رو سے دیکھنا اور جانچنا ہوتا ہے، اور اس کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔

حال ہی میں ناروے میں ایسی ایک مثال سامنے آئی