اس تحریر کا مقصد امریکہ ـ طالبان معاہدے کا جائزہ لینا یا اس پر کسی قسم کو کوئی تبصرہ کرنا نہیں۔
اس تحریر کا مقصد اس معاہدے پر جو ردِ عمل سامنے آ رہے ہیں، ان کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا ہے۔
پہلی بات یہ کہ وہی پرانی حکایت دہرائی جا رہی ہے، جس میں ایک کسان اور اس کا بیٹا اپنا گدھا بیچنے کے لیے منڈی لے جاتے ہیں۔ باپ بیٹے کو گدھے پر بٹھا دیتا ہے، اور خود پیدل چلتا ہے۔ لوگوں کو اس پر اعتراض ہے کہ دیکھو کیسا بیٹا ہے باپ پیدل چل رہا ہے، اور یہ خود گدھے پر سوار ہے۔ اب باپ گدھے پر سوار ہو جاتا ہے، اور بیٹا پیدل چلتا ہے۔ لوگ اس پر بھی معترض ہیں کہ دیکھو کیسا باپ ہے، خود گدھے پر سوار ہے اور بیٹا پیدل چل رہا ہے۔ اب دونوں گدھے پر سوار ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی پسند نہیں۔ کہتے ہیں کہ کیسے ظالم باپ اور بیٹا ہیں، دونوں بے چارے گدھے پر سوار ہو گئے۔ اب وہ دونوں گدھے کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں۔ لوگ اس پر بھی مطمئن نہیں۔ کہتے ہیں دیکھو کیسے بیوقوف ہیں دونوں، گدھا سواری کے لیے ہے اور یہ خود گدھے کو اٹھائے جار ہے ہیں۔
امریکہ ـ طالبان معاہدے پر بھی ایسے ہی اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ انیس برسوں کی جنگ سے کیا حاصل ہوا۔ کتنے لوگ مارے گئے۔ جان و مال کا کتنا نقصان ہوا۔ وغیرہ، وغیرہ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امن تو اب بھی قائم نہیں ہو گا۔
پھر یہ رائے بھی دی جا رہی ہے کہ امریکہ کو شکست ہو گئی۔ اچھا بھئی اگر امریکہ کو فتح ہوتی، تو وہ کیسی ہوتی۔ کیا امریکہ، افغانستان کو اپنی ریاست بنا لیتا۔ یا امریکہ ہمیشہ کے لیے افغانستان پر قابض رہتا۔ یا طالبان کا وجود ختم کر دیتا۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکہ، افغانستان میں امن قائم کیے بغیر واپس جا رہا ہے۔ اب وہاں خون ریز قسم کی خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔
یہاں ایک بات نظر میں رہے، گوکہ یوں میں بھی معاہدے کی تفصیلات میں الجھ جاتا ہوں۔ مگر یہ چیز معاہدے کا نہایت اہم حصہ ہے۔ اگر ایک طرف امریکہ نے طالبان کی امارت کو قبول نہیں کیا، تو دوسری طرف اس نے طالبان کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ افغانستان کی زمین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ یہی وہ چیز ہے، جو ابتدا سے امریکہ کا مطالبہ رہا ہے۔ مزید یہ کہ طالبان، القاعدہ کا ساتھ ترکِ تعلق کریں گے اور اسے افغانستان میں پاؤں جمانے نہیں دیں گے۔
بہرحال، جیسے کہا جاتا ہے، جتنے منہہ اتنی باتیں۔ لیکن یہ باتیں یا ردِ عمل ان کے پیچھے جو ذہن اور ذہنیت پوشیدہ ہے، اس کی چغلی بھی کھاتے ہیں۔
رائے کی آزادی اپنی جگہ۔ مگر یہ بھی عیاں ہے کہ کہیں نہ کہیں لوگ اس معاہدے سے خوش نہیں۔ وہ وقت کو پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔ وہ اٹھارہ انیس برس میں جو کچھ ہوا، اسے لوٹانا چاہتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کچھ بھی واپس نہیں آتا۔ اچھا یا برا کچھ بھی واپس نہیں لایا جا سکتا۔ وقت پیچھے کی طرف نہیں جاتا۔ اگر کوئی چیز ممکن ہوتی ہے، تو وہ کسی قسم کی تلافی یا تلافی کا شائبہ ہوتا ہے۔
معاہدے پر جتنے بھی ردِ عمل دیکھنے سننے اور پڑھنے کو ملے، ان میں سے اکثر میں ایک اور بات مشترک ہے۔ وہ سب ماضی کی طرف اِستادہ ہیں، جیسے کہ وہ مستقبل کی طرف دیکھ نہیں سکتے۔ یا مستقبل کی طرف دیکھنے کے قابل نہیں، یا دیکھنا نہیں چاہتے۔ یہی سبب ہے کہ یہ سب ردِ عمل شاکی ہیں، دل گرفتہ ہیں، رنجیدہ ہیں، قنوطی ہیں، منفی ہیں۔
دیکھیں کہ 29 فروری کو معاہدے پر دستخط ہوئے، اور یکم مارچ کو ہی اخبارات اور سوشل میڈیا پر ’’بڑے فخر‘‘ کے ساتھ یہ خبر پھیلیے لگی کہ لیں جی اشرف غنی نے معاہدے میں پہلی دراڑ ڈال دی۔ وہ طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ بھئی یہ ایک رکاوٹ ہے، جسے دور کیا جا سکتا ہے اور دور کر لیا جائے گا۔
اصل بات پیچھے کارفرما ذہن کی ہے۔ یہ ذہن چیزوں کو کیا رنگ دیتا ہے، اور انھیں کیسے پیش کرتا ہے۔ مثبت اور مستقبل کی طرف دیکھنے والا ذہن چیزوں کے روشن پہلو کو سامنے رکھے گا، اور منفی اور ماضی کے ساتھ پیوستہ ذہن چیزوں کو تاریکی کی طرف دھکیلے گا۔
اگر منفی اور ماضی زدہ ردِ عمل دینے والے مستقبل کی طرف دیکھنے کے قابل ہوتے، تو وہ ایسے نہ ہوتے۔ ان میں کچھ نہ کچھ امید ہوتی، ایجابی سوچ ہوتی، مثبت پیش بینی ہوتی، اچھائی اور بہتری کی توقع ہوتی۔ ان کے لیے مستقبل کچھ نہ کچھ روشنی کا حامل ہوتا۔ مگر ایسا کچھ نہیں۔
ہاں، کچھ ردِ عمل ایسے ضرور ہیں، جو روشن پہلو پر مرتکز ہیں۔ مگر یہ بہت کم ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دنیا نہایت سستی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ زقند لگا کر نہیں!