جھوٹ کے پاؤں اور جھوٹ کا دماغ

کیسی حیرانی کی بات ہے کہ جھوٹ کے پاؤں تو ہوتے ہی تھے، اب جھوٹ کے ہاتھ بھی نکل آئے ہیں، آنکھیں بھی، صورت شکل بھی، اور جھوٹ ایک سوچنے سمجھنے والے دماغ کا حامل بھی ہو چکا ہے۔

اس کے چند کارنامے ملاحظہ کیجیے:


[روزنامہ جنگ، 12 ستمبر، 2013]

مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ میڈیا کی کیا مجبوری ہوتی ہے کہ اسے ایسے ’’اشتہارات‘‘ بغیر پیسوں کے چھاپنے پڑتے ہیں۔ یا اس کے پیچھے کیا میکانزم کارفرما ہوتا ہے!

انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت کی انتہا

پیپلز پارٹی کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے پہلے دور میں ملک کے انتظامی معاملات میں فاش قسم کی جس مداخلت کی ابتدا ہوئی، اور جس نے نہ صرف انتظامی نظم و نسق کو تباہ و برباد کیا بلکہ پاکستان کی سماجی زندگی کو سیاست زدہ بھی کیا اور انتشار کا شکار بھی، آج صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے تحت یہ مداخلت اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔

اس بات سے قطع نظر کے اس کے کیا مقصد بتائے جا رہے ہیں، اور اس کے درپردہ محرکات کیا ہیں، دیکھنے والے بات یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔

اس اقدام سے متعلق خبریں کئی روز سے اخبارات میں گردش کر رہی تھیں، آج اس کی متوقع شکل سامنے آئی ہے۔ تفصیل جاننے کے لیے یہ خبر ملاحظہ کیجیے:

[روزنامہ جنگ، 12 ستمبر، 2013]

اک ملک بنا بے در دیکھا

[پاکستان کے 66 سال پورے ہونے پر ایک غزل]
جینا ہے کیا، جی کر دیکھا
خود سوچا، اور پھر مر دیکھا
اندر کا گنبد ٹوٹا جب
کھڑکی، دروازہ، در دیکھا
آنکھوں میں نیند اتر آئی
کل خواب میں اپنا گھر دیکھا
ہاں، جیت میں کیا مل جائے گا
آخر کو ہم ہَر دیکھا
تحقیر کی حد جب پار ہوئی
پاؤں میں پڑا تھا سر دیکھا
کتنے گھر اجڑے تب جا کر
اک ملک بنا بے در دیکھا

پاکستان کے طفیلیے سیاست دان

پاکستان کی ریاست سونے کی کان ہے۔ اس میں سے سونا نکالنے اور لوٹنے کے لیے ریاست کے ساتھ کسی نہ کسی حیثیت میں وابستہ ہونا ضروری ہے۔ خواہ کوئی فوج میں اعلیٰ عہدے پر براجمان ہو سکے، بیوروکریسی میں شامل ہو جائے، یا سیاست دان بن بیٹھے۔ یا پھر ان تینوں قسم کے خواص سے کوئی رابطہ استوار کرے اور استوار رکھے۔ یوں پاکستانی ریاست کو لوٹنا ’’قانونی‘‘ کے زمرے میں شمار ہو جاتا ہے۔

یہی سبب ہے کہ میں نے یہ نظریہ وضع کیا کہ پاکستان کی ریاست پر مختلف طبقات کے اتحاد نے قبضہ جما لیا ہے۔ ان طبقات کو ایک نئی اصطلاح سے سمجھنا ضروری ہے: یعنی ریاستی اشرافیہ۔

سو یہ یہی ریاستی اشرافیہ ہے، جو پاکستان کی ریاست پر قبضہ جمائے ہوئے ہے اور یوں پاکستان کے شہریوں کو لوٹ رہی ہے۔

ریاستی اشرافیہ ایک بیل کی طرح ہے، جو پاکستان کی ریاست کے

سیاست اور جرم ساتھ ساتھ

ایک خبر سے ایک مختصر اقتباس دیکھیے:

’’امریکی ادارے کا کہنا ہے کہ کراچی میں بد امنی اور پھیلے تشدد کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات بد دلی اور ایڈہاک بنیادوں پر کیے جاتے ہیں جس کا کوئی اثر نہیں ہوتا پولیس میں سیاسی بھرتیوں، کمزور سیاسی نظام اور شہری نظم و نسق کی خرابیوں نے کراچی کے حالات کو اور بھی بگاڑ دیا پاک فوج اور سپریم کورٹ کی اعلیٰ ترین سطح پر مداخلت سے حالات وقتی طور پر تو ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن  یہ مسئلے کا پائیدار حل نہیں۔ ٹارگٹ کلرز کا بڑی جماعتوں کے ساتھ تعلق ثابت ہو چکا ہے۔ آئی ایس آئی، انٹیلی جنس بیورو، ایم آئی، سی آئی ڈی، رپورٹ میں جو ستمبر 2011 میں مکمل ہوئی کہا گیا کہ 2010 میں کراچی کے تشدد میں ملوث 26 ٹارگٹ کلرز نے اعتراف کیا تھا کہ ان کا تعلق ایم کیو ایم، اے

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ـ تردید کا تماشا

آج، اگلے روز ہی پاکستان ٹیلی کام اتھاریٹی کی طرف سے اخبارات میں گذشتہ روز شائع ہونے والی خبر کی تردید آ گئی ہے۔ مگر یہ واضح رہے کہ پاکستان میں بالخصوص ریاستی ادارے اور حکومت جن باتوں کی تردید کرتی ہے، وہ تردید بذاتِ خود ایک خبر بن جاتی ہے، کیونکہ اس میں اسی بات کو گھما پھرا کر کہنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کی تردید مقصود ہوتی ہے۔

یہ تردید ملاحظہ کیجیے:


[روزنامہ ’’جنگ‘‘ 31 اگست، 2013]

اس تردید میں سیل فون پیکیجز پر پابندی کی ذمے داری دوسروں پر ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی ہے، جن میں سپریم کورٹ، پارلیمان کی قائمہ کمیٹیاں، سینیٹرز، اور صوبائی و قومی اسیمبلیوں کے ارکان شامل ہیں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ یہ سب ادارے اور خاص افراد، اخلاقی اقدار پر خود کتنا عمل کرتے ہیں۔ اور کیا انھیں یہ سوچنے اور دیکھنے کے علاوہ

آج کا اخبار اور پاکستان کی حالتِ زار

پاکستان کے اخبارات میں روزانہ لاتعداد ایسی  خبریں سامنے آتی ہیں، جنھیں رد و مسترد کرنے، اور جن کی تحقیق و تفتیش کے لیے ہزاروں لاکھوں بلاگ، تھِنک ٹینکس، اور شہری تنظیمیں درکار ہیں۔ میں یہاں حکومت کو خارج از بحث کر رہا ہوں، کیونکہ اگر حکومت کی بالا دستی موجود ہو تو ایسی خبریں وجود میں ہی نہ آئیں۔

پھر یہاں یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ کتنی خبریں ایسی بھی ہوں گی، جو چھپنے سے رہ جاتی ہوں گی۔ یعنی کتنا کچھ ایسا ہوتا ہو گا، جو پاکستانی شہریوں کے ساتھ بیتتا ہو گا، لیکن اخبار میں جگہ نہیں پا سکتا۔

میں کافی عرصے  سے یہ سوچتا رہا ہوں کہ اخبارات میں جو کچھ چھپتا ہے، اسے روزانہ کی بنیاد پر پر کھا اور جانچا جائے، مگر تنہا فرد کے لیے یہ ممکن نہیں۔ خود اس بلاگ میں، میں نے کئی سلسلے شروع کیے، پر انھیں وقت

ایٹم بم کے ٹکڑے یا پاکستان کے ٹکرے!

موجودہ پاکستان میں کس قسم کا مکالمہ چل رہا ہے، آئیے ایک مثال پر رکتے ہیں:

آج 27 اگست کو روزنامہ جنگ کی خصوصی اشاعت میں میر خلیل الرحمٰن سوسائیٹی (جنگ گروپ آف نیوز پیپرز) اور دی سٹی سکول کے زیرِ اہتمام ’’ویلیو ایجوکیشن کانفریرینس‘‘ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ کانفیرینس کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر عبد القدیر خان تھے۔

[یہ تصویر تحریکِ تحفظِ پاکستان کے فیس بک صفحے سے لی گئی ہے۔]

رپورٹ کے کچھ حصے ملاحظہ کیجیے:

’’پاکستان کے پاس اگر ایٹم بم نہ ہوتا تو بھارت کب کا ہمارے ٹکڑے کر دیتا اور یہ بم کوئی اور نہیں بنا سکتا تھا۔ یہ کام صرف اور صرف میں ہی کر سکتا تھا۔ کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ میں نے کن حالات میں کتنی کم لاگت اور کتنے کم عرصہ میں ایٹم بم بنا دیا۔ پاکستان اگر آج ناقابلِ تسخیر ہے تو صرف اور صرف ایٹم بم کی وجہ سے

انکشافات کا لمحہ ـ دیکھیں کیا ظہور میں آتا ہے!

پہلے درج ذیل خبر دیکھیے۔ یہ 28 اگست کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی ہے۔ میں نے اس کی مزید تفصیلات تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ خبر ملاحظہ کیجیے:

یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ جب قائدِ اعظم محمد علی جناح اور دوسرے مسلم لیگ رہنماؤں کی تقسیم سے پہلے کی تقاریر سامنے آتی ہیں تو پاکستانی ریاست کی نوعیت کے تعین میں کس بازو کو تقویت ملتی ہے، بائیں بازو کو یا دائیں بازو کو۔

جو بھی ہو، ایک طرف مورخین، عالموں اور صحافیوں کو ایک بڑا ذخیرہ ہاتھ آنےوالا ہے۔ اور دوسری طرف سیاسی تجزیہ نگاروں اور سیاست دانوں کے لیے ہر دو قسم کے انکشافات کا لمحہ سامنے آنے والا ہے: یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دایاں بازو مزید اکڑ جائے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بائیں بازو کو نئی طاقت کے ساتھ کمر کسنے کا موقع مل جائے۔

تاہم، میں

جلتی مرتی دنیا کے لیے ایک ’’شہر آشوب‘‘

دنیا بکھر رہی ہے
ٹکڑوں میں مر رہی ہے
بیٹھی تھی جو کثافت
تہہ سے ابھر رہی ہے
برپا ہے اک تلاطم
ہر موج ڈر رہی ہے
اٹھتا ہے شورِ محشر
بستی اجڑ رہی ہے
جوڑے گا کون پھر سے
ہر شے بگڑ رہی ہے

[یکم اگست، 2013]

پرانے کالم: اقتدار کا کھونٹا اور مسلم لیگ

پاکستان مسلم لیگ حکومت سے باہر ہوئی تو اسے متحد رکھنا ایک مسئلہ بن گیا۔ اقتدار کا کھونٹا اکھڑتے ہی جس کا منہ جدھر اٹھا وہ ڈکراتے ہوئے ادھر بھاگ کھڑا ہوا، جیسے باڑے میں بند مویشی یا گھوڑ ے یکدم آزاد ہو جائیں۔ کچھ تو ”آزادی“ سے خوفزدہ ہو گئے۔ کچھ اپنی اصل کھرلیوں تک جا پہنچے اور منہ مارنے لگے۔ کچھ نئے مالکوں کو رجھانے میں رجھ گئے۔ بپتا ہی کچھ ایسی آن پڑی تھی۔ ناگہانی آفت جیسی۔ چند دن تو کسی کو کچھ سمجھ ہی نہ آئی کہ کیا ہوا ہے۔ ہر کوئی ”مجرموں“ کی طرح چھپا چھپا اور غائب غائب رہا کہ کہیں وہی پکڑ میں نہ آ جائے۔

خیر، آہستہ آہستہ، ایک طرف پردے سے معشوق بر آمد ہوا۔ اس کے غمزے اور عشوے سامنے آئے۔ کشتوں کے پشتے لگنے لگے۔ اعلان اور آرڈر جاری ہوئے۔ وزیر مشیر نمودار ہوئے اور حکومتیں براجمان ہوئیں۔ حیلوں

یہ خبر کیا کہتی ہے؟

آج کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والی ایک مختصر سی خبر کیا کہتی ہے۔ بہت کچھ کہتی ہے۔

اسے پاکستان کے ضمن میں وہ ’’بارہ من کی دھوبن دیکھو‘‘ والی بائیسکوپ (کیلائیڈو سکوپ) سمجھنا چاہیے۔ یعنی یہ ایک کیلائیڈو سکوپک نیوز ہے! قطرے میں دجلہ دکھاتی ہے!

اسی لیے بعض اوقات پاکستانی میڈیا کے لیے تعریف و تحسین کے لفظ ہونٹوں پر آ جاتے ہیں۔ ایسی خبریں، خواہ اختصار کے ساتھ ہی صحیح، اخبار میں چھپ تو جاتی ہیں! مکمل غائب غلہ تو نہیں ہو جاتیں۔

پرانے کالم: مُہم جوﺅں کی سر زمین

مہم عربی زبان کا لفظ، اور اسمِ مونث ہے۔ اس کے جہانِ معنی کو کھولنے اور مفاہیم و مطالب کو سمجھنے کے لیے مختلف لغات پر نظر ڈالتے ہیں۔ مہم: بڑا کام، بھاری کام، معرکے کا کام، مشکل کام، جنگ، لڑائی، غم میں ڈالنے والا کام، دشوار کام، کارِ عظیم، امرِ دشوار، امرِ مشکل، جان جوکھوں کا کام، ضروری کام، یدھ، جدال و قتال۔

یونہی عمر اپنی بسر ہو گئی
بڑی یہ مہم تھی جو سر ہو گئی
(مجروح)

مہم جیتنا: سخت یا مشکل کام کو انجام پر پہنچانا، لڑائی مارنا، مہم سر کرنا، لڑائی فتح کرنا، نہایت دشوار اور سخت کام کا آسان کر لینا یا انجام پر پہنچا دینا۔

دل میں تیرے جو کوئی گھر کر گیا
سخت مہم تھی کہ وہ سر کر گیا
(جرأت)

جب تک جیئے مصیبت غم کی نہ سر سے سرکی
سر سے گزر کے آ خر ہم نے یہ مہم سر کی

اس خبر کا کیا مطلب ہے؟

آج کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ کیجیے۔ اور سوچیے یہ خبر کیا کہتی ہے۔ حیران ہوئیے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور پاکستان کدھر جا رہا ہے!

[روزنامہ جنگ لاہور، 22 اگست، 2013

صحافت کی طاقت اور فائدہ

پاکستان میں فوج، سیاست، صحافت، بیوروکریسی، وغیرہ، سے وابستہ خواص آئین، قانون اور اخلاقیات سے ماورا ہوتے ہیں۔ انھیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ بلکہ الٹا انھیں خوش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ یہ دو خبریں دیکھیے، اور صحافیوں کے زورِ بازو کا اندازہ کیجیے:

[روزنامہ جنگ، 19 اگست، 2013]

[روزنامہ جنگ، 20 اگست، 2013]

جہاں تک نجی سکولوں کا تعلق ہے تو ان کا یہ فعل ان تک محدود ہے۔ وہ ایسا کرنے میں آزاد ہیں۔ ہاں، جو بچے ان سکولوں میں پڑھتے ہوں گے ان کے والدین اس پر معترض ہو سکتے ہیں۔ گو کہ صحافیوں کو جو فائدہ دیا جائے گا نجی سکول اس کی قیمت ان پیسوں سے ادا کریں گے، جو یہ سکول شہریوں سے کمائیں گے۔ تاہم، جہاں تک نادرا (یا ریاست) کا تعلق ہے، تو اس صورت میں صحافیوں کو

14 اگست کو کیا ہوا!

گذشتہ پینتیس چھتیس سالوں سے ہر ”14“ اگست کو آزادی کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسے سالانہ جشنِ آزادی کے طور پر منایا جانے لگا ہے۔ 14 اگست، آزادی، اور جشنِ آزادی کا مفہوم کیا ہے، عام لوگ اور بالخصوص نئی نسل کی اکثریت اس سے بالکل بے بہرہ ہے۔ ان پڑھ تو چلو پروپیگینڈے کا شکار ہیں، لیکن پڑھے لکھے بھی غیر تاریخ کے طوطے بنے ہوئے ہیں۔ آزادی کا تصور ان سب کے لیے ایک مجرد اور رومانوی تصور کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بس یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے 14 اگست کو آزادی حاصل کی۔ کس سے حاصل کی، کیوں حاصل کی، اور کیسے حاصل کی؛ ان بنیادی سوالات سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ اس روز ایسے بینر بھی آویزاں کیے جاتے ہیں، جن پر آزادی کے شہیدوں کو سلام پیش کیا جاتا ہے۔ اس بے خبری کا نتیجہ

کراچی کا اخلاقی مقدر

ایک تاثر عام ہے کہ جو بیٹا زیادہ کماتا ہے، ماں اس کا زیادہ خیال رکھتی ہے۔ مگر کراچی جتنا کماتا ہے، پاکستانی ریاست نے اسے اتنا ہی بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے!

اسی طرح، کراچی ایک اور تاثر کو بھی جھٹلاتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے غربت اور بے مائیگی جرم کو جنم دیتی ہے۔ دیکھا جائے تو کراچی میں دولت کی تخلیق نے جرم کو بہار بخشی ہے۔ اس معاملے پر تھوڑا رکتے ہیں۔ پچھلے سال ایک خبر نظر سے گذری تھی۔ ’کراچی میں بہت سے مزدوروں نے جامعۂ بنوریہ میں فتوے کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جس طرح اسلام میں مرتے ہوئے شخص کے لیے حرام کھانا جائز ہے، اسی طرح انھیں مہنگائی میں جان بچانے کے لیے چوری ڈکیتی کی اجازت دی جائے۔ مہتمم جامعۂ بنوریہ، مفتی محمد نعیم کے مطابق علما مل کر لائحۂ عمل طے کر رہے ہیں۔‘

کالم نگاروں کی کالم چنگاریاں

عرفان صدیقی ان کالم نگاروں میں سے ہیں، میری کوشش ہوتی ہے جن کے کالم میں باقاعدگی سے پڑھوں۔ ابھی کچھ دیر پہلے آج (6 اگست) کے ’’جنگ‘‘ میں ان کا تازہ کالم پڑھا۔ اس میں انھوں نے ’’جنگ‘‘ میں ہی چھپنے والے کالم نگار سلیم صافی کے ایک کالم کا جواب لکھا ہے، یا اس کا حوالہ دیا ہے اور جواب نہیں لکھا۔ ان کے اس کالم سے پتہ چلا کہ انھوں نے یکم اگست کو جو کالم لکھا تھا، اس میں سلیم صافی کی طرف اشارہ موجود تھا۔ جب میں نے یہ کالم پڑھا تھا تو میں نے یہی سمجھا تھا کہ انھوں نے عمومی طور پر کالم نگاروں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔

عرفان صدیقی کا آج کا کالم پڑھ کر میں نے سلیم صافی کا کالم نکالا اور پڑھا، جو 4 اگست کے ’’جنگ‘‘ میں چھپا۔ یہ کالم انھوں نے

کشمیر سے ایک ستم ظریفانہ خبر

صرف سیاست نہیں، ریاست اور حکمرانی کے معاملات بھی پیسے کا کھیل بن چکے ہیں۔ اس ضمن میں یہ دلچسپ اور ستم ظریفانہ خبر ملاحظہ کیجیے:

[روزنامہ جنگ لاہور، 2 اگست، 2013

مصر، مُرسی اور فوجی اشرافیہ

اکتوبر 1999 کا پاکستان یاد کیجیے۔ یہاں 12 اکتوبر کو وہی کچھ ہوا، جو مصر میں 4 جولائی کو ہوا۔ مصر کی فوجی اشرافیہ نے ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ پاکستان میں اس وقت جینرل مشرف کے فوجی انقلاب کو یہاں کے لبرل اور روشن خیال طبقات، ترقی پسندوں اور مختلف دھڑوں کے اشتراکیوں نے خوش آمدید کہا تھا۔ انھوں نے اس انقلاب کے داعی جینرل مشرف کے ظاہری لبرل اور اعتدال پسندانہ طرزِ فکراور طرزِ حیات میں اپنی امیدوں کو سمو دیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے کوئی لاعلاج مریض صحت یاب ہونے کے لیے ہر نسخہ آزمانے کو تیار رہتا ہے؛ خواہ یہ اسے موت سے قریب تر ہی کیوں نہ کر دے۔ مصر میں بھی ایک مفہوم میں اسی پاکستانی فوجی انقلاب کو دہرایا گیا ہے۔ جینرل عبدالفتح السیسی کے فوجی انقلاب کو اخوان المسلمون اور مُرسی کے مخالفین،اور مصر کے لبرل طبقات