بنگلہ دیش کا بلوچستان

کئی سال پہلے لاہور ہائی کورٹ میں ایک سیاسی رہنما کے خلاف یہ مقدمہ پیش ہوا تھا کہ انھوں نے مشرقی پاکستان کی علاحد گی کا ذمے دار فوج کو ٹھہرایا ہے، اور یوں آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ بس جو بے چارہ چھری کے نیچے آ جائے۔ انھوں نے اپنے الفاظ واپس لیے، معافی مانگی، تب جا کر جان بخشی ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں کثیر تعداد میں لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ سیاست دان تو بالخصوص یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ میں ایسا نہیں سمجھتا، اور اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ میں کسی کی (یعنی فوج) کی صفائی دینا چاہتا ہوں یا کسی (یعنی سیاست دانوں) کو ملوث کرنا چاہتا ہوں۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہمیں حالات کو درست طور پر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور حقائق سے نظر نہیں چرانی چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم

ترکی اورحکومتی جبر کا عفریت

ریاست اور حکومت کا عفریت اس وقت سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے، جب اس کے فرمان، ارادے، مفاد، وجود اور بقا پر زد پڑتی ہے! آج کل یہ عفریت ترکی میں جھلّایا، بھِنّایا، اپنے ہی شہریوں پر ستم ڈھا رہا ہے۔ ابھی کل تک ترکی کا کتنا چرچا تھا، دنیا بھر میں۔ پاکستان میں بھی ترکی کی موجودہ حکومت کی تعریفوں کے پل باندھے جا رہے تھے۔ خاص طور پر اس حوالے سے کہ ترکی کے موجودہ وزیرِ اعظم، رجب طیب اردگان نے ترکی میں سول اور سیاسی معاملات میں فوج کے عمل دخل پر روک لگائی۔ بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر جہاں جہاں اور جب جب فوجی افسران کی طرف سے مداخلت یا کسی قسم کی دخل اندازی ہوئی تھی، حکومت اور عدالتیں اس کا نوٹس لے رہی ہیں۔ مقدمات پر مقدمات قائم ہو رہے ہیں، اور سزائیں دی جا رہی ہیں۔ علاوہ ازیں، قومی اور بین

پاکستانی اشرافیہ کا اندازِ فکر

نوٹ: اس سلسلے کے پہلے تین کالم ملاحظہ کیجیے: پاکستانی  اشرافیہ کی ذہنیت، پاکستانی اشرافیہ کا مائنڈسیٹ، پاکستانی اشرافیہ کا طرزِ فکر 
اگلا معاملہ، ”افسوس، بچو ہم نے اسے غلط سمجھا“ کی مصنفہ، نفیسہ رضوی جس پر توجہ دیتی ہیں، بہت ناز ک ہے، اور یہ وہی مقام ہے، جہاں اشرافیہ کا اندازِ فکر ایک مرتبہ پھر بے نقاب ہو تا ہے۔ یہ معاملہ خود راستی کا ایشو ہے۔ یعنی خود، اور صرف خود کو سچا، راست باز، اورنیک سمجھنا۔ میں خود اس معاملے پر پہلے بھی لکھتا رہا ہوں۔ بلکہ گذشتہ کئی برسوں سے میرا یہ موقف رہا ہے کہ تحریکِ انصاف میں ایک تکبر جاگزیں ہے۔ یہ تکبر پاکستانی سیاست کے لیے خوش آئند نہیں۔ اس کا ثبوت انتخابات کے بعد سامنے بھی آ گیا۔ موجودہ انتخابات کے بعد بالخصوص یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ تکبر اشرافیہ کے تکبر سے لگا کھاتا ہے۔

پاکستانی اشرافیہ کا طرزِ فکر

اس سلسلے کے پہلے دو کالم ملاحظہ کیجیے: پاکستانی  اشرافیہ کی ذہنیت، پاکستانی اشرافیہ کا مائنڈ سیٹ

سابقہ کالم میں یہ بات ہو رہی تھی کہ جو لوگ کسی مصیبت کی آگ میں زیادہ جلتے ہیں، ان کا سیاسی شعور زیادہ پختہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کے لوگ، جس آگ میں جل رہے ہیں، اور بالخصوص کراچی کے لوگوں کو جس آگ میں جلایا جا رہا ہے، کیا مصنفہ اس سے واقف نہیں! اور یہ بھی کہ کیا پاکستان کے لوگ صرف دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ کیا پاکستان میں صرف دہشت گردی کی آگ سلگائی گئی! کیا پاکستان کے لوگ مذہبی تشدد، فرقہ وارانہ منافرت، امن و امان، اور بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کی آگ میں نہیں جل رہے! سب سے بڑا سوال، جو مصنفہ سے پوچھا جانا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کیا

پاکستانی اشرافیہ کا مائنڈ سیٹ

نوٹ: اس سلسلے کا پہلا کالم ملاحظہ کیجیے: پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت

گذشتہ کالم ”پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت“ میں پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت سے متعلق کامران شفیع کے نکات پر بات ہو رہی تھی۔ وہ مزید لکھتے ہیں:مصنفہ کہتی ہیں: ’اگر پوری قوم اسی مصیبت سے گزری ہوتی، جس سے خیبر پختون خوا کے عوام گزرے ہیں تو نتائج کی سمت کچھ اور ہی ہوتی۔ پارلیمان کے اندر نئے تازہ چہروں کی ایک منڈلی قطاروں میں بیٹھی ہوتی، اور پرانے، فرسودہ، ہمیشہ موجود رہنے والے چہرے حزبِ اختلاف میں چھُپے بیٹھے ہوتے۔‘ یہ کیسی خواہش ہے، باقی کے اس بے چارے ملک کے بارے میں یہ خواہش؛ جیسے کہ انھیں دہشت گردی میں سے اپنا مناسب حصہ نہیں ملا؟ جہاں تک ”نئے تازہ چہروں کی منڈلی“ کی بات ہے، مصنفہ کو ان منتخب لوگوں میں کتنے ”نئے چہرے“ نظر آتے ہیں، جو تحریکِ انصاف کے ٹکٹوں پر منتخب ہوئے ہیں؟

پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت

نوٹ: انتخابات کے بعد 23 مئی کو ’’دا ایکسپریس ٹریبیون‘‘ میں نفیسہ رضوی کا ایک مضمون، ’’افسوس بچو، ہم نے اسے غلط سمجھا‘‘ چھپا۔ یہ بہت اکسانے والا مضمون تھا۔ میں نے سوچا اس کا جواب لکھنا چاہیے۔ پر میرا جواب کسی بھی اخبار میں چھپے گا کیسے۔ میرا تو کوئی کنیکشن نہیں، کون چھاپے گا میرے جواب کو۔ سو میں ڈھیلا پڑ گیا۔ پر کوئی ہفتے بعد ہی 31 مئی کو اسی اخبار میں کامران شفیع کا جواب شائع ہوا۔ خاصا مناسب جواب تھا۔ یہ دونوں مضمون ضرور ملاحظہ کیجیے:



چونکہ نفیسہ رضوی کا مضمون مجھے بہت چبھا تھا، لہٰذا، میں نے سوچا اسے اردو میں بیان کیا جائے اور اس کا جواب بھی لکھا جائے اور اردو کے قارئین کو بتایا جائے کہ اشرافیہ کی سوچ، ذہنیت، اور مائنڈ

اگر ”بجلی“ ایک نجی کاروبار ہوتی

مراد یہ کہ اگر بجلی کی پیدائش، ترسیل (ٹرانسمِشن) اور تقسیم ایک نجی کاروبار ہوتی تو یہ کاروبار کب کا ٹھپ ہو چکا ہوتا۔ چونکہ بجلی کی پیدائش، ترسیل اور تقسیم پر بڑی حد تک، یا فیصلہ کن حد تک پاکستان کی ریاست کی اجارہ داری ہے، لہٰذا، یہ کاروبار دیوالیہ ہونے کا نام نہیں لیتا۔ گو کہ پاکستان کے عام شہری جل کر راکھ ہو جائیں، پاکستان کے باقی تمام کاروبار تباہ و برباد ہو جائیں، کیونکہ یہ ریاست کا کاروبار ہے، یہ ہمیشہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
ہر کاروبار کی بنیاد منافعے پر ہوتی ہے۔ یعنی ہر انسان اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کاروبار (یا ملازمت) کرتا ہے۔ وہ دوسروں کی کچھ ضرورتیں پوری کرتا ہے، اور یوں اسے جو آمدنی ہوتی ہے، اس میں سے منافع وضع کر کے اپنی ضرورتیں پورا کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ کاروبار کا مطلب ہے

مسلم لیگ (ن): قد سے بڑا مینڈیٹ

کچھ باتیں اس وقت تک قابلِ فہم نہیں ہوتیں، جب تک انھیں ان کے درست سیاق و سباق میں نہ رکھا جائے؛ وگرنہ ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیے، وہ سمجھ کر نہیں دیتیں۔ دو بڑی مثالوں میں سے ایک کا تعلق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی دو مرتبہ معزولی اور دونوں مرتبہ بحالی سے ہے۔ پہلی مرتبہ انھیں تنہا معزول کیا گیا، اور دوسری مرتبہ ان کے ہمراہ اعلیٰ عدالتوں کے ان تمام ججوں کو بھی، جنھوں نے نیا جرنیلی حلف لینے سے انکار کیا۔ دونوں معزولیوں کے بعد ایسی مایوس کن صورتِ حال تھی کہ امید کو امید کا ہاتھ نظر نہیں آتا تھا۔ آج بھی یہ بات حیران کن معلوم ہوتی ہے کہ دونوں معزولیوں کے بعد دونوں بحالیاں کیونکر ممکن ہوئیں۔ پاکستان کی قائمیہ، یعنی فوج، امریکی حکومت، پاکستان کی متعدد سیاسی پارٹیاں، پاکستان کی ریاستی اشرافیہ، اور اشرافیہ پسند، دونوں مرتبہ کوئی بھی بحالی کے حق

تحریکِ انصاف – تکبر و تشدد کے رجحانات

انتخابات کی مہم زور و شور سے جاری تھی۔ باقی پارٹیوں کی طرح، تحریکِ انصاف کے وڈیو اشتہارات بھی ٹی- وی چینلز کو رونق بخش رہے تھے۔ ان میں سے ایک وڈیو اشتہار میں دکھایا گیا تھا کہ ایک نوجوان بلّا پکڑے مرسیڈیز جیسی قیمتی کاروں کے ایک قافلے کو زبردستی روک رہا ہے، اور پس منظر میں ”ہم دیکھیں گے“ نظم گائی جا رہی ہے۔ اس وڈیو اشتہار کو دیکھ کر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل کے انچارج، زبیر عمر نے، جنھوں نے پارٹی کے مینی فیسٹو کے معاشی پہلو کی تعیین میں بھی حصہ لیا، پاکستان تحریکِ انصاف کے سینیئر وائس پریزیڈینٹ، اسد عمر کو فون کیا، جو ان کے بڑے بھائی ہیں۔ انھوں نے اسد عمر کو بتایا: ’نہ صرف آپ اور میں، بلکہ پاکستان تحریکِ انصاف کے بیشتر لیڈر مہنگی کاروں میں سفر کرتے ہیں، جو ان کے استعمال میں ہیں۔ تو آپ نوجوانوں

1973 کا آئین اور نااہلیت کی دفعات

1973 کے اصل آئین کا کورا متن پڑھیے! آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ اس میں اور بہت سی چیزیں ہوں گی، جن سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ جو سلوک جینرل ضیا الحق (اور ان کے ساتھ ملوث سیاست دانوں) نے کیا، وہ سلوک کبھی کسی مصنف کی کسی عام سی کتاب کے ساتھ بھی نہ ہو۔ انھوں نے اپنی پارسا ئی کے لبادے اور واعظانہ دکھاوے کے زعم میں وہ کام کیا، جس نے 1973 کے آئین کا حلیہ ہی بدل ڈالا، بلکہ بگاڑ ڈالا۔ اس حلیے کے اندر آئین نام کی جو مخلوق مستور تھی، اس کی جنس اور شکل دونوں کی سرجری بھی کر ڈالی۔ حلیے کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ انھوں نے جو اِسمی اور دفعاتی تبدیلیاں کیں، انھوں نے پاکستان میں منافقت کے ساتھ ساتھ مذہبی نمائش پسندی، مذہبی نام و نمود، مذہبی تصنع، اور

میرے ووٹ کی بربادیوں کے مشورے

میرا ووٹ پاکستان میں آئین پسندی کے استحکام کے لیے ہے۔ یہ پاکستان کے آئینی اور سیاسی ارتقا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ایک شہری دوست ریاست، شہری دوست حکومت اور شہری دوست سیاست کی ترویج کے لیے ہے۔ یہ ملک میں آئین کی حکمرانی اورقانون کی بالادستی کے قیام کے لیے ہے۔ یہ ایک آزاد، اور سرگرم عدلیہ کی تقویت کے لیے ہے۔ یہ پاکستان کے ہر شہری کو بنیادی حقوق کی بلا امتیاز دستیابی کے لیے ہے۔ یہ ایک ایسے پاکستان کے لیے ہے، جہاں ہر شہری، ریاست اور قانون کی نظر میں برابر حیثیت کا حامل ہو۔ یہ موجودہ خونخوار ریاستی مشینری کے بجائے ایک ایسی ریاستی اور حکومتی مشینری کے لیے ہے، شہریوں کوسہولت بہم پہنچانا، جس کا بنیادی مشن ہو۔ یہ ایک ایسی جمہوریت کے لیے ہے، جو اپنا اختیار و اقتدار، آئین اور قانون سے اخذ کرتی ہو؛ اور احتساب کے آئینی اداروں کے

میرا ووٹ اتنا سستا نہیں!

انتخابات کے نتیجے میں کیا ہو سکتا ہے، اور کیا نہیں ہو سکتا، یہ سوال، انتخابات سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم ایک اور سوال ہے۔ پاکستان میں ہونے والے انتخابات اسقدر بانجھ کیوں ہوتے ہیں۔ یہ انتخابات نتیجہ خیز کیوں نہیں ہوتے۔ جیسا کہ انگریزی میں کہا جاتا ہے، چیزیں جتنا تبدیل ہوتی ہیں، اتنا ہی پہلے جیسی ہوتی جاتی ہیں۔ اسی طرح، پاکستان میں انتخابات کے نتیجے میں جتنی تبدیلی آتی ہے، حالات اتنا ہی پہلے جیسے ہوتے جاتے ہیں۔ یعنی حقیقتاً کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ چیزیں پہلے جیسی ہی رہتی ہیں۔ بلکہ پہلے سے بھی بدتر ہوتی جاتی ہیں۔ تو ہر ووٹر کو جس سوال کا سامنا کرنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کیا اس کا ووٹ اتنا سستا ہے کہ وہ کوئی بڑی اوراہم تبدیلی نہ لاسکے!

درست ہے کہ ہر ووٹر اپنی سوچ سمجھ ، پسند کے مطابق کسی بھی پارٹی

انتخابات یا ریاست پر قبضے کی جنگ

گذشتہ کالم، ”انتخابات یا سیاسی ہانکا“ جیسے نامکمل رہ گیا تھا۔ خود مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جو کچھ میں کہنا چاہتا تھا، وہ اس کالم میں پوری طرح کہا نہیں جا سکا۔ جو مفہوم میرے ذہن میں تڑپ رہا ہے، وہ اپنی پوری شدت کے ساتھ اس کالم میں ادا نہیں ہو سکا۔ انتخابات کو سیاسی ہانکا قرار دینے پر بھی ایک تشنگی اور بے چینی، دل کے ساتھ لگی رہی۔ اصل میں کچھ سمجھ بھی نہیں آ رہا کہ کیا کہنا چاہتا ہوں۔ بالکل ایسی کیفیت ہے، جیسے بعض اوقات جسم پر کہیں خارش محسوس ہوتی ہے، مگر یہ پتہ نہیں چل پاتا، یہ خارش کہاں ہو رہی ہے۔ اسی طرح، مجھے یہ ادراک نہیں ہو پا رہا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ ابھی آج صبح یہ احساس ایک دم وارد ہوا۔ گھر سے باہر نکلا تو ایک عزیز مل گئے۔ کہیں جا رہے تھے۔

انتخابات یا سیاسی ہانکا

سیاست دانوں سمیت ایلیکشن کمیشن کے سربراہ سب کے سب یہ کہتے تھک نہیں رہے کہ انتخابات نہ ہوئے تو پاکستان کی بقا اور مستقبل کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ معلوم نہیں وہ کیا کہنا چاہتے ہیں، اور حقیقتاً کس کی بقا اور کس کے مستقبل کی بات کر رہے ہیں۔ فرض کریں اگر 2008 میں انتخابات نہ ہوتے تو کیا پاکستان کی بقا کو خطرہ لاحق ہو جاتا۔ میں یہ بالکل نہیں کہنا چاہ رہا کہ انتخابات نہ ہوں، یا ملتوی کر دیے جائیں۔ تمام دہشت گردی اورایک دو جماعتوں کی التوا کی کوشش کے باوجود انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں۔ بلکہ صرف انتخابات نہیں، ریاست کے معاملات سے متعلق ہر کام آئین اور قانون کے مطابق وقت پر ہونا چاہیے، تاکہ شہریوں میں یہ اعتماد جڑ پکڑے کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہو گا، اورکسی انہونی کے ہونے کا اب کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ ملک

1962 کا آئین اور نااہلیت کی دفعات

جب اکتوبر 1958 میں میجر جینرل سکندا مرزا نے مارشل لا نافذ کیا تو 1956 کا آئین منسوخ کر دیا۔ جیسے کو تیسا: جینرل ایوب نے میجر جینرل سکندرمرزا کو معزول کر کے دیس نکالا دے دیا۔ جینرل ایوب نے مرکزی اورصوبائی کابینہ برطرف اور قومی اور صوبائی مقننہ تحلیل کر دیں۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی۔ یہ مارشل لا، جون 1962 تک نافذ رہا۔ صدر ایوب کا زور اس بات پر تھا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے۔ لہٰذا، صدارتی طرز کا آئین تیار کیا گیا (ذوالفقار علی بھٹو بھی صدارتی طرز کا آئین چاہتے تھے، مگر وائے قسمت!)۔ صدر کا انتخاب، ایلیکٹورل کالج کے ذریعے کیا جانا تھا۔ صدر کے عہدے کی اہلیت کے ضمن میں تین شرائط رکھی گئیں۔ اول تو یہ کہ وہ مسلم ہو؛ دوسرے، پینتیس برس کی عمر کو پہنچ چکا ہو؛ اور، تیسرے، قومی اسیمبلی کا رکن

1956 کا آئین اور نااہلیت کی دفعات

جیسا کہ گذشتہ کالم، ”1935 کا ایکٹ اور نااہلیت کی دفعات“ میں ذکر ہوا کہ آئین اور قانون، اخلاق اور جُرم سے تعلق رکھتے ہیں۔ علم اور جہالت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ علم مذہبی ہو یا غیر مذہبی (اسی بنیاد پر ٹیکنوکریٹس کی حکومت کو مستر د کیا جاتا ہے!)۔ یہی وجہ ہے کہ قانون میں یہ نہیں ہوتا کہ عالم اور پڑھے لکھے کو کم سزا دی جائے، اور ان پڑھ کو زیادہ۔ یا اس کے برعکس۔ یا ایسے ہی تقاضوں کی بِنا پر امتیاز برتا جائے۔ اب جبکہ نااہلیت کی دفعات کے ضمن میں ان شقوں کا عملی اطلاق کیا گیا تو اس اندازِ نظر کی خامیاں سامنے آ گئی ہیں۔ ان میں نمایاں چیز یہ ہے کہ اخلاقی اصولوں سے انحراف بھی اس وقت قابلِ گرفت ہوتا ہے، جب اس کا تعین قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کیا جا سکتا ہو۔ مثلاً

1935 کا ایکٹ اور نااہلیت کی دفعات

انگریزی کے عظیم شاعر چاؤسر کی ایک سطر ہے: حکم نہ لگاؤ، کہیں تم پر حکم نہ لگ جائے۔ مراد یہ کہ جب کوئی شخص کسی معاملے پر رائے دیتا ہے تو وہ خود اپنے بارے میں بھی رائے دے رہا ہوتا ہے۔ آئین کی دفعات 62 اور 63 کے موجودہ اطلاق پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ اگر ایک طرف ایک حلقے سے جینرل مشرف (ر) کے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہو جاتے ہیں تو دوسرے حلقے سے مسترد۔ دوسری طرف، اداکارہ مسرت شاہین اور میرا کے کاغذات کی منظوری ان دفعات اور ان کے اطلاق سے متعلق کئی دلچسپ سوالات کو جنم دیتی ہے۔ کیا ان دفعات کا منشا صرف یہ ہے کہ کوئی بھی شخص متعلقہ معلومات ازبر کر لے۔ اداکاروں کو تو ویسے ہی مکالمے یاد کرنے اور یاد رکھنے میں ملکہ حاصل ہوتا ہے، سو یہ دونوں کامیاب ٹھہریں۔ ہوا یہ کہ جب ریٹرننگ افسروں

سیاست دان اور دل کی بات

فی الحال ماضی کو چھوڑے دیتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جینرل مشرف، چیف آف آرمی سٹاف تھے، اور پاکستان کے صدر بھی۔ آدمی بادشاہ بھی ہو اور سپہ سالارِ اعظم بھی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ پھر جب سیاسی خانوادے، یعنی سیاسی پارٹیاں آپ کے آگے پیچھے پھر رہی ہوں؛ اور کسی میں اتنی جرأ ت نہ ہو کہ آپ کے سامنے حرفِ اختلاف لبوں پر لا سکے۔ جمہوریت کے دعوے دار رہنما آپ کی ہر آواز پر لبیک کہنے کو تیار بیٹھے ہوں۔ کتنے ہی آپ کے ساتھ شیر و شکر ہو چکے ہوں۔ اور جو نام نہاد جلا وطنی میں باہر بیٹھ کر جمہوریت کی خدمت کا بار اٹھانے کا احسان جتا رہے ہوں، وہ بھی موقع ملتے ہی آپ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر چڑھ بیٹھیں، اور پھر ایک ایسے معاہدے پر راضی ہو جائیں، جس کی نوعیت انتہائی مجرمانہ، غیر

فلسفۂ تاریخ، نوآبادیات اور جمہوریت: ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی کا بیان

ابھی 8 اپریل (2013) کو پنجاب پبلک لائیبریری کے پرانے ہال میں، جو قبل ازیں، لائیبریری کا ریڈنگ روم ہوا کرتا تھا، ایک تقریب کا انعقاد ہوا۔ چونکہ میں خود اس ”کعبے“ کا ایک بت ہوں، جو واں کا تو نہیں، پر واں سے دور کی نسبت ضرور رکھتا ہے۔ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں خود وہاں سے نکلا ہوا ہوں، نکالا نہیں گیا۔ اس خود جلاوطنی کی تفصیل پھر کبھی بیان ہو گی۔ فی الحال، اس تقریب کا حال سنانا مقصود ہے۔

سال 2011 میں سانجھ پبلیکیشنز، لاہور، نے ایک کتاب شائع کی: ’’فلسفۂ تاریخ، نوآبادیات اور جمہوریت (چند نامکمل مباحث)‘‘۔ اس کے مصنف ہیں، اشفاق سلیم مرزا۔ یہ کتاب جب میرے سامنے آئی تو میں اسے خریدے بغیر نہ رہ سکا۔ اور پھر جلد ہی اسے پڑھ بھی ڈالا۔ کتاب پر پھر کبھی بات ہو گی۔ یہ تقریب اس کتاب کی رونمائی کا اہتمام تھی۔ چار

انتخابات اورشہری تنظیموں کے کرنے کا کام

پاکستان میں بالخصوص 2007 کے بعد، سول سوسائیٹی کا وجود ثابت ہے۔ اب میڈیا کے ساتھ ساتھ سول سوسائیٹی بھی، ریاست، ریاستی اداروں اور حکومت دونوں پر نظر رکھنے میں آگے آگے ہے۔ سول سوسائیٹی کو سمجھنے کے لیے ایک سادہ سا نقشہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ ایک طرف ریاست ہے، جو ایک منظم ادارہ ہے۔ اس ریاست پر مختلف اشرافی طبقات نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ ایک طرف سیاسی پارٹیاں ہیں، جو اصلاً ان اشرافی طبقات کی نمائندہ ہیں۔ کہنے کو یہ عام شہریوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں۔ فرض کریں ایسی صورت نہ بھی ہو، پھر بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سیاسی پارٹیاں، ریاست پر قبضے کی جنگ سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ اقتدار کی طرف مائل ہوتی ہیں، اور ان کی سیاست، خواہ یہ اقتدار کے حصول لیے ہو یا اقتدار میں رہتے ہوئے اس سے مستفید ہونے کے لیے،