سعید اقبال واہلہ کے لیے دو نظمیں

سعید اقبال واہلہ میرے بہت عزیز دوست تھے۔ ہماری دوستی پنجاب یونیورسیٹی کے شعبۂ فلسفہ میں ہوئی، جہاں ایم اے فلسفہ کرتے ہوئے کچھ اور بہت گہری دوستیاں قائم ہوئیں۔ وہ سول سروس میں چلے گئے، اور میں پہلے پی ٹی وی اور پھر تعلیم سے وابستہ ہوا۔ ابھی بڑی عید سے قبل 25 اکتوبر کو ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ کافی عرصے بعد تبدیل ہو کر لاہور آ گئے تھے۔ 8 نومبر کو صبح ان کے سکریٹری کے کئی فون آئے، وہ 15 نومبر کے دن شام ساڑھے پانچ بجے تمام دوستوں کو ایک دعوت پر اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔ اسی شام کوئی سوا پانچ یا ساڑے پانچ بجے ٹی وی چینلز پر یہ خبر نشر ہوئی کہ دفتر سے گھر جاتے ہوئے سعید اقبال واہلہ، سیکریٹری ماحولیات کو دل کا دورہ پڑا، اور وہ حرکتِ قلب بند ہونے سے اس دنیا سے گزر گئے۔ ان کی

مملکتِ اشرافیہ پاکستان ۔ ایک اور مبارک باد

وہ کہانی یاد کیجیے جو ایک گذشتہ پوسٹ: ’’مملکتِ اشرافیہ پاکستان، مبارک ہو!‘‘ میں بیان ہوئی ہے۔ اس کہانی میں ’’اوگرا‘‘ کے جن سابق سربراہ کا ذکر آیا تھا، اور جن کی حفاظت وفاقی حکومت کر رہی تھی، اور غالباً دوسری صوبائی حکومتیں بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈال رہی ہوں گی، اور نیب اور پولیس جنھیں گرفتار کرنے لیے اپنی ’’آنیاں جانیاں‘‘ دکھا رہی تھیں، انھیں بالآخر دبئی روانہ کر دیا گیا ہے۔ 3 دسمبر کے اخبارات اس لکیر کو پیٹتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

تفصیل ملاحظہ کرنے کے لیے اردو اور انگریزی کے اخبارات پر نظر ڈالیے۔ یہاں اس ’’فرار‘‘ کا اجمالی تذکرہ رقم ہے:

انصار عباسی ’’دا نیوز‘‘ میں لکھتے ہیں: ہائی پروفائل مفرور اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھاریٹی (اوگرا) کے سابق چیئرمین، اور پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جینرل جہانگیر بدر کے بہنوئی توقیر صادق اکتوبر کے اوائل میں کلیدی سرکاری اہلکاروں

ثقافتی منافقت

یہ مقبول نیوز چینلز کے پرائم ٹائم نیوز بُلیٹِن ہیں۔ ان کا ایک سلاٹ، ’اینٹرٹینمینٹ نیوز‘ پر مشتمل ہوتا ہے۔ نہ بھی ہو تو ان نیوز بلیٹن میں بالی ووڈ کی خبریں بڑے طمطراق سے نشر کی جاتی ہیں۔ کونسی فلم ریلیز ہو ئی۔ کونسی ریلیز ہونے والی ہے۔ کونسی فلم کے گانے، یا ساؤنڈ ٹریک ریلیز ہو گیا۔ کس فلم نے کتنا بزنس کیا۔ کونسی فلم بلین روپوں کے کلب میں شامل ہو گئی۔ کونسا اداکار، کس اداکارہ سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ کس اداکار نے کسی دوسرے اداکار کے خلاف کیا کہہ دیا۔ کون کس سے ناراض ہے۔ دو اداکاروں کی شادی کا معاملہ ہو تو پھر تو نیوز بلیٹن میں شادیانے بجنے لگتے ہیں۔ بالی ووڈ کی کوئی خبر ان نیوز چینل سے بچ نہیں سکتی۔ اکثر اوقات نیوزبلیٹن میں پاپولر گانے بھی سننے کو مِل جاتے ہیں۔ گوکہ کبھی کبھی ٹالی ووڈ (تامل فلم انڈسٹری) اور

ایک اور ذخمی سانپ

بعض اوقات یہ بات بالکل حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے کچھ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ وہ ملوث ہیں ان طبقات کے ساتھ، یہ نظام جن کے فائدے میں ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ وہ خود ان طبقات کی سیاسی پارٹیاں ہیں، اور بظاہر عام شہریوں کی نمائندہ بنی ہوئی ہیں۔ اس سے بڑی حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ سیاسی پارٹیاں شکاری پارٹیاں بن گئی ہیں اور ہر وقت شکارکی تلاش میں رہتی ہیں۔ کچھ پارٹیوں نے تو باقاعدہ شکار گاہیں قائم کر لی ہیں، اور وہاں کوئی دوسرا شکاری پر نہیں مار سکتا۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہی سیاسی پارٹیاں بسا اوقات ایسے کام کر دیتی ہیں، جنھیں حیران کن کہنا چاہیے۔ حیران کن اس لیے کہ یہ ان کی فطرت اور عادت کے بالکل خلاف ہوتے ہیں۔
ایسا ہی ایک کام برس 1999 میں

پاکستان کی غیرآئینی تاریخ: ایک مختصر خاکہ

”میں آپ کو یقین دلاتا ہوں مجھے اداکاری نہیں آتی۔ اگر مجھے سیاسی اقتدارکی خواہش ہو تو روکنے والا کون ہے۔ فوج میرے ساتھ ہے اور میرے پاس طاقت ہے، جو جی میں آئے کروں۔ آئین کیا ہوتا ہے؟ دس بارہ صفحات کا ایک کتابچہ۔ میں کل ہی اسے پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں اور ایک نئے نظام کے تحت حکومت شروع کر سکتا ہوں۔ کون ہے جو مجھے روکے۔“ (جینرل محمد ضیاءالحق)   

مورخین نے پاکستان کی متعدد آئینی تاریخیں لکھی ہیں، اور مستقبل میں بھی ایسی تاریخیں لکھی جائیں گی۔ لیکن تاحال پاکستان کی غیرآئینی تاریخ لکھے جانے کا کو ئی منصوبہ سامنے نہیں آیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غیرآئینی تاریخ کو سامنے رکھے بغیر آئینی تو کیا پاکستان کی کوئی بھی تاریخ لکھنا ممکن نہیں ہو گا۔ پاکستان کی عمر کا تقریباً نصف حصہ غیرآئینی ادوار پر مشتمل ہے اور بقیہ نصف حصہ آئینی اور نیم

کم سِن سیاست کی کہانی: 1857 سے 2012 تک

نوٹ: یہ کالم 24 نومبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔ تاہم، جیسا کہ اخبارات کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، اس کے آخری دو پیرے تبدیل کر دیے گئے۔ یہ تو کچھ مجھے شک بھی تھا کہ اس کالم کی آخری سطور مِن و عَن شائع ہوں گی یا نہیں، اسی لیے میں نے ذرا نظر ڈالی تو معلوم ہوا، یہ پیرے غائب ہیں۔ اب پہلہے کالموں کے ساتھ کیا ہوا، میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر یہاں اس بلاگ پر روزنامہ مشرق پشاور میں چھپنے والے جو بھی کالم پوسٹ کیے گئے ہیں، وہ سب اصل ورشن ہیں۔

موجودہ کالم، جو اخبار میں چھپا ہے، اس میں آخری دوپیروں میں سے آخری تو سرے سے کافور ہو گیا ہے، اور آخری سے پہلے پیرے میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ یہ تبدیل شدہ پیرا دیکھیے:

’’ یہ انیسویں صدی کی سیاسی کہانی ہے۔ آج ہم

قانون کی حکومت یا قانون ساز کی حکومت

انسانی دنیا کے فیصلے تصورات کی دنیا میں ہوتے ہیں۔ طاقت اور کمینگی سے کام لے کر کچھ بھی کرلیا جائے، اگر وہ تصورات کی دنیا میں غلط ہے تو وہ نہ صرف غلط رہے گا، بلکہ ایک دن عملاً غلط قرار پائے گا۔ جیت، سچائی اور درست تصورات کی ہمدم ہے، طاقت اور کمینگی کی نہیں۔ مراد یہ کہ جتنے بھی مارشل لا لگ جائیں، اور اسلحے کی طاقت سے اپنی جو بھی باتیں منوا لی جائیں اور آئین کا حصہ بنا دی جائیں، او ر اس کے ساتھ ساتھ منتخب نمائندے اپنی وفاداریوں اور مفادات کی ساز باز کے ذریعے عام شہریوں کی نفسیاتی، مذہبی، سماجی اور معاشی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان شہریوں کا جتنا بھی استحصال کر لیں، کیونکہ یہ اخلاقی اور قانونی طور پر غلط ہے، لہٰذا، یہ غلط ہی رہے گا، اور یقینا اسے ایک دن صحیح ہونا ہے اور صحیح ہو کر

پسماندگی کی کتاب

پاکستان کے ذہنی وفکری منظر کو پسماندگی کی کھلی کتاب کا نام دیا جا سکتا ہے!

اس کالم کی تقریب اسی اخبار میں 10 اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک خبر ہے۔ باچا خان یونیورسیٹی، چارسدہ، میں پاک ایشیا بک کارپوریشن کے تعاون سے تین روزہ کتاب میلہ منعقد کیا گیا۔ خبر کے مطابق میلے میں 50 سے زیادہ مضامین پر پانچ لاکھ سے بھی زیادہ کتابیں نمائش کی گئیں، اور طلبہ اور اساتذہ کا ذوق وشوق، قابلِ دید تھا۔ میلے کا افتتاح کرتے ہوئے یونیورسیٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فضل رحیم مروت نے جو الفاظ ادا کیے، ایسے موقعوں پر بالعموم جن رسمی الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہے، وہ اس خانے میں قطعاً فٹ نہیں بیٹھتے۔

ان کے الفاظ معنی خیز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نبض شناس کی تشخیص کا پتہ بھی دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا: کتاب انسان کی بہترین ساتھی

جدید ریاست اور آئین کی بالادستی کا اصول

گذشتہ کالم، ”قدیم ریاست اور آئین کی بالادستی کا اصول“ میں یہ بحث کی گئی تھی کہ جدید ریاست کوئی خلا سے نازل نہیں ہوگئی، بلکہ اس کے بنیادی خطوط اسی قدیم ریاست کے دوران تشکیل پانا شروع ہوگئے تھے۔ کاروبارِ مملکت کو موثرانداز میں چلانے کے لیے مطلق العنان حکمرانوں کو بھی قانو ن اور قواعد وضوابط وضع کرنے پڑتے تھے، اور جب یہ قاعدے قانون ایک مرتبہ وضع ہو جاتے تو انھیں ختم کرنا یا تبدیل کرنا، محض بادشاہ کی خواہش اور مرضی پر منحصر نہیں رہتا تھا۔ یہی چیز تھی، جس نے قانون کی بالادستی کی بنیاد رکھی۔ رفتہ رفتہ قانون کی بالادستی، ریاست کا خاصہ بن گئی ۔

اس کی بڑی مثال انگلستان کی ریاست ہے، جہاں اول اول قانون کی بالادستی کے اصول کا اثبات ہوا۔ یہ تیرہویں صدی کے اوائل (1915) کی بات ہے کہ فیوڈل لارڈز نے کِنگ جان اور اس کے بھائی

قدیم ریاست اورآئین کی بالادستی کا اصول

آئین کی بالادستی کا اصول، جدید ریاست کی اساس ہے۔ تاہم، ابھی جب آئینی ریاستیں وجود میں نہیں آئی تھیں، تب بھی (یعنی قدیم ریاستوں میں بھی) یہ اصول کسی نہ کسی صورت میں کارفرما اور موجود ضرور تھا۔ مراد یہ ہے کہ جب بادشاہ خود قانون تھا، یا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ کی زبان سے جو لفظ ادا ہو جاتا تھا، وہ قانون بن جاتا تھا، تو ایسے میں یہ قانون ہی تھا جو بالادست قرار پاتا تھا۔ یعنی جب بادشاہ کوئی قانون بنا دیتا تھا تو بالعموم وہ اس کی پاسداری کرتا تھا۔ گو کہ چونکہ وہ بادشاہ بھی تھا اورخود قانون بھی تھا، لہٰذا، یہ اختیار وہ خود اپنے پاس رکھتا تھا کہ اپنے بنائے ہوئے قانون پر عمل درآمد کا پابند رہے، یا نہ رہے۔ یا جب چاہے، اس کی پاسداری کرے، یا نہ کرے، یا جب چاہے اس قانون کو کلی یا

اورنگ زیب عالمگیر کے اخبار نویس

اورنگ زیب برخلاف اپنے تین بھائیوں کے ایسا متین شخص تھا کہ پابندی شرع کے لحاظ سے ملکی جوڑ توڑ کے سوا دوسرا خیال نہ رکھتا تھا۔ جابجا پرچہ نویس بٹھائے ہوئے تھے۔ ہر طرف کان لگائے رکھتا، بلکہ ہر بات کی پیش بندی برسوں پہلے کرتا۔
جب باپ، بھائیوں اور سب طرف سے خاطر جمع ہوئی، تو اورنگ زیب عالمگیر نے چاہا کہ اپنی عالمگیری کو ملک ِ دکن کے اضلاع میں پورا کرے۔ ان ریاستوں میں ابوالحسن تانا شاہ حیدرآباد گولکنڈے کا بڑا صاحبِ اقتدار اور عالی دماغ بادشاہ تھا۔ چونکہ بادشاہ مذکور عالمگیر کے ساتھ بھی عہدوپیمان پر صدق ِ دل سے قائم تھا، اس لیے سر دست کوئی بہانہ فوج کشی کا ہاتھ نہ آیا۔
آخر ایک جان نثار کو روانہ کیا اور پیغام بھیجا کہ ایک الماس نہایت نایاب تمہارے جواہر خانے میں ہے اسے بادشاہی جواہر خانے میں داخل کرو۔ تانا شاہ نے تمام

سیاست کے شہزادے اور شہزادیاں

فاربس کی مرتبہ فہرست کے مطابق بِل گیٹس، امریکہ کے امیر ترین اور دنیا کے دوسرے امیر ترین فرد ہیں۔ وہ 1995 سے لے کر 2009 تک دنیا کے امیرترین فردشمار ہوتے تھے۔ مارچ 2012 تک کے اعداد وشمار کی رو سے وہ 61 بلین ڈالر کے مالک ہیں۔ ارب پتی بننے کے بعد سے اب تک وہ 28 بلین ڈالر چیریٹی میں دے چکے ہیں۔ وہ اپنی کمپنی ”مائیکروسافٹ“ کے قیام کے وقت (1975) سے، اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر تھے، پر 2008 میں انھوں نے اس عہدے کو چھوڑ دیا تاکہ جو چیریٹی فاؤنڈیشن ان کی اہلیہ اور انھوں نے ”بِل اینڈ میلِنڈا گیٹس فاؤنڈیشن“ کے نام سے قائم کی ہے، اس کے ذریعے بھلائی کے کاموں پر توجہ دے سکیں۔ انھوں نے 1999 میں اس فاؤنڈیشن کو چیریٹی کے طور پر مائیکروسافٹ کے سٹاک کی شکل میں 16 بلین ڈالر دیے۔ یہ فاؤنڈیشن ایڈز، ٹی بی،پولیو کے

ملالہ اور پاکستانی ریاست کا مائنڈ سیٹ

غیرا خلاقی، غیر قانونی اور غیر آئینی خوراک پر پلنے والی ریاستیں، شکاری ریاستیں ہوتی ہیں۔ یہ ہمیشہ تاک میں ہوتی ہیں کہ کوئی ایسا ایشو، کوئی ایسا معاملہ، کوئی ایسا مسئلہ، کوئی ایسا حادثہ، کوئی ایسا سانحہ وقوع میں آئے، اور جب ایسا کچھ ہوجاتا ہے، یہ اسے فوراً شکار کر نا چاہتی ہیں۔ خواہ یہ کوئی قدرتی آفت ہو، جیسے کہ سیلاب یا زلزلہ، یا کوئی ایسا حادثہ یا سانحہ یا واقعات کا کوئی ایسا سلسلہ، جس میں بالخصوص عام شہریوں کو جان ومال کا نقصان اٹھانا پڑے، اور خواہ یہ حادثات یا سانحات، خود اس کی اپنی غلط اور بدعنوان پالیسیوں کا نتیجہ ہوں، ریاست کو اس چیز سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کیا ہوا، کیسے ہوا، کیوں ہوا، اس کی دلچسپی کا محور صرف یہ بات ہوتی ہے کہ اسے اپنے کسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے کام میں کیسے لایا جائے۔

جبکہ معقولیت

قدریں ـ اور ’’جٹ دا ویَر‘‘

گذشتہ سال عید کا دن (یکم ستمبر) تھا، اور ان دنوں کراچی میں امن و امان کے حالات بہت خراب تھے۔ دلبرداشتہ، سابقہ ’’اردو بلاگ ـ سب کا پاکستان‘‘ کے لیے میں نے ’’کراچی کا مقدر‘‘ لکھا۔ اور اس کے بعد ایک ٹی ـ وی چینل پر پنجابی فلم ’’جٹ دا ویَر‘‘ دیکھنے کا موقع ملا۔ درج ذیل پوسٹ اس فلم کا ریویو سمجھ لیجیے۔
قدریں ـ اور ’’جٹ دا ویَر‘‘
کسی فلم اور وہ بھی پنجابی فلم پر ریویو لکھنے کی اگر کبھی خواہش پیدا ہوئی تو وہ ’’مولا جٹ‘‘ تھی۔ اور اس پر ریویو ابھی تک التوا کا شکار ہے۔ اصل میں، سلطان راہی خاص طور پر (اور مصطفٰے قریشی بھی) ایسے اداکار ہیں جنھیں خراج ِتحسین پیش کرنا ضروری ہے۔ یہ پھر کبھی۔
آج ایک اور پنجابی فلم کا ذکر کرنا پڑ گیا ہے۔ یہ ہے: جٹ دا ویر۔ اس جیسی اور بھی

تاریخ اور نظریۂ سازش

یہ بس اتفاق ہے کہ آج میں اپنی ایک پرانی تحریر تلاش کر رہا تھا، اور درج ذیل تبصرہ سامنے آ گیا۔ یہ میری یادداشت سے بالکل محو ہو گیا تھا۔ سابقہ انگریزی پوسٹ، جو ”پاکستان میں سازشی نظریا ت کی آفاقیت“ سے تعلق رکھتی ہے، اس میں بھی مختصراً اسی نظریے پر بات کی گئی ہے۔ اس پوسٹ میں زاہد چوہدری اور حسن جعفر زیدی کی کتاب، ”پاکستان کیسے بنا“ سے متعلق ایک تقریب اور اس میں ہونے والی گفتگو کا ذکر اور پھر مجموعی طور پر اس اندازِ فکر کے بارے میں میری رائے بھی موجود ہے۔ جیسا کہ مذکورہ پوسٹ میں بھی ذکر آیا کہ یہ کتاب کل بارہ جلدوں پر پھیلی ہوئی ہے، تو اس وقت دسمبر 2000 میں گیارہویں جلد شائع ہوئی تھی، اور یہ تبصرہ 10 دسمبر (2000) کو لاہور میں اسی جلد سے متعلق منعقد ہونے والی تقریب کے لیے لکھا گیا تھا،

سیاسی پارٹیاں اور لوٹ مار کا ایجینڈا

گذشتہ دوکالموں میں جو ہوش ربا کہانیاں بیان ہوئیں، ان سے آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ دل دہلا دینے والی حیرانی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے۔ یا یہ محض افسانے ہیں۔ لیکن ایسا ہوا ہے۔ ایسا ہو رہا ہے۔ یہ خبریں اخبارات کے صفحات اور ٹی- وی چینلز کی سکرینوں پر ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔ اور یقینا ایسی بہت سی خبریں ہوں گی، جو بوجوہ قلمبند نہیں ہو پاتی ہوں گی۔ یہ دو خبریں، یا سٹوریاں تو میں نے خود پڑھی اور سنی ہیں۔ میں یہ اعتراف بھی کرلوں کہ میں ایک معمولی سا شہری ہوں۔ میرے معلومات کے ذرائع بھی وہی ہیں، جو عام شہریوں کو دستیاب ہیں۔ جیسے کہ ٹی- وی چینلز، اخبارات، رسالے، اور جو کچھ ویب سائیٹس پر شائع ہوتا ہے۔

پہلے کالم، ”مملکتِ اشرافیہ پاکستان، مبارک ہو!“ میں جو ناقابلِ یقین حالات و واقعات مذکور ہوئے، وہ ٹی-

اشرافیہ کے طُرے

بے چارے عام لوگ بال کاٹیں تو حقارت سے نائی، حجام کہلائیں۔ خواص بال کاٹیں تو فخر سے ڈیزائینر ہیئر ڈریسر کہلائیں۔ بہت سے کا م ہیں، جیسے کہ درزی کا، نانبائی کا، جو عام لوگوں کو تحقیر کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ کوئی کچھ کہتا رہے، زندہ بھی تو رہنا ہے۔ خواص یا اشرافیہ کا مسئلہ زندہ رہنا نہیں، بلکہ سٹائل سے زندگی گزارنا ہے۔ وہ جو بھی کرتے ہیں، سٹائل بن جاتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ نائی سے بال کٹوانے میں مزا نہیں آتا، کوئی سٹائلِش ہیئر ڈریسر ہونا چاہیے۔ عام سی بیکری سے کیک لیا تو کیا تیر مارا، کوئی مختلف سی بیک شاپ ہونی چاہیے۔

یوں کوئی بھی کام ہو، اسے سٹائل کے ساتھ کرنے میں اشرافیہ کا امتیاز قائم رہتا ہے۔ خواہ یہ غریبوں کی مدد کرنا ہو، این- جی- او چلانا ہو، یا چھوٹا موٹا سیاسی کام ہو۔ یا بالخصوص کوئی احتجاج ہو

ریاستی اشرافیہ کا پاکستان ـ 1

وسیم سجاد کے صاحبزادے بیرسٹر حسن سجاد وزیرِ داخلہ رحمان ملک کے ایڈوائزر مقرر

اسلام آباد (این این آئی) سابق صدرِ مملکت وچیئر مین سینیٹ وسیم سجاد کے صاحبزادے بیرسٹر حسن سجاد کو وزیرِ داخلہ رحمان کا ایڈوزئزر مقرر کر دیا گیا۔ اس ضمن میں نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ بیرسٹر حسن سجاد نوجوان قانون دان ہیں اور سیاسی معاملات پر نظر رکھتے ہیں۔

[روزنامہ مشرق پشاور،15 اکتوبر، 2012]

حلوائی کی دکان یا پاکستان

یہ کالم مثالوں کے ساتھ ایک ضرب المثل کی تشریح سمجھ لیجیے۔ مثل ہے: حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ۔ فرہنگِ آصفیہ میں اس کا مفہوم یوں بیان کیا گیا ہے: (کہاوت) پرائے مال کو اپنا سمجھ کر صرف میں لانے یا غیر کا مال بے دریغ صرف کرنے کے موقع پر بولتے ہیں۔ نوراللغات اس کہاوت کے مفہوم میں یہ اضافہ کرتی ہے: گِرہ کا کچھ خرچ نہیں ہوتا۔

اب کچھ مثالیں دیکھیے۔ 5 اکتوبر کو ٹاک شو، ”آج کامران خان کے ساتھ“ میں بتایا گیا: ’ایک بڑا دلچسپ معاملہ ہے، انتظامی معاملہ ہے، سیاسی نہیں، 82 کروڑ روپے، بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ اسلم رئیسانی نے اپنے خاندان کو ادائیگی کی ہے، دس سال پرانا قبائلی تنازعہ ہے اس کی بنیاد پر، ایک ہائی کورٹ کا آرڈر ہے، یہ فیصلہ کیا گیا ہے، 82 کروڑ روپے پہنچے ہیں انھیں کے خاندان کو، انھیں کی حکومت میں۔ ایک

مملکتِ اشرافیہ پاکستان، مبارک ہو!

چینی کے برتن کتنے خوبصورت اور نازک ہوتے ہیں۔ یہ جب ٹوٹتے ہیں، کتنا عجیب چھناکا اور کتنا دکھ ہوتا ہے۔ اگر کسی چائنہ شاپ میں بیل جیسا جانور آ گھسے توکتنے چھناکے اور کتنے دکھ کرِچی کرِچی ہوجاتے ہیں۔ یہی سوچ ”چائنہ شاپ میں بیل“ کے انگریزی محاورے میں رچی بسی ہے۔

پاکستان بھی ایک چائنہ شاپ ہے، اور اس کے حکمران طبقات، بلکہ حکمرانی کرنے والی اشرافیہ ایک بیل ہے، ایک بدمست بیل، جو اس شاپ میں سجے چینی کے خوبصورت اور نازک برتنوں کی توڑ پھوڑ کررہا ہے۔ محاورے کا بیل تو شاید کچھ مہذب ہو، کیونکہ اس کا تعلق انگریزی سے ہے، جبکہ پاکستانی بیل سے ایسی کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ دلدار پرویز بھٹی ایک مرتبہ ریڈیو پر بچوں کو کہانی سنا رہے تھے: بچو! ایک کتا تھا، وہ بہت کتا تھا۔ اس پاکستانی بیل کو بھی ایسا ہی بیل سمجھنا چاہیے۔ یہ بیل صرف