Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

اورنگ زیب عالمگیر کے اخبار نویس

اورنگ زیب برخلاف اپنے تین بھائیوں کے ایسا متین شخص تھا کہ پابندی شرع کے لحاظ سے ملکی جوڑ توڑ کے سوا دوسرا خیال نہ رکھتا تھا۔ جابجا پرچہ نویس بٹھائے ہوئے تھے۔ ہر طرف کان لگائے رکھتا، بلکہ ہر بات کی پیش بندی برسوں پہلے کرتا۔
جب باپ، بھائیوں اور سب طرف سے خاطر جمع ہوئی، تو اورنگ زیب عالمگیر نے چاہا کہ اپنی عالمگیری کو ملک ِ دکن کے اضلاع میں پورا کرے۔ ان ریاستوں میں ابوالحسن تانا شاہ حیدرآباد گولکنڈے کا بڑا صاحبِ اقتدار اور عالی دماغ بادشاہ تھا۔ چونکہ بادشاہ مذکور عالمگیر کے ساتھ بھی عہدوپیمان پر صدق ِ دل سے قائم تھا، اس لیے سر دست کوئی بہانہ فوج کشی کا ہاتھ نہ آیا۔
آخر ایک جان نثار کو روانہ کیا اور پیغام بھیجا کہ ایک الماس نہایت نایاب تمہارے جواہر خانے میں ہے اسے بادشاہی جواہر خانے میں داخل کرو۔ تانا شاہ نے تمام جواہرات مع فرد کے سامنے رکھ دیے، جو اعلٰی سے اعلٰی رقم ہو لے لو۔ اس نے ایک قطعہ الماس لے لیا، مگر کوئی موقع بگاڑ کا ہاتھ نہ آیا۔
آخر باوجود سب باتوں کے شہنشاہ ہوس پناہ نے فوج کشی کے سامان کر دیے۔ پہلے شاہزادوں کو روانہ کیا۔ انھوں نے جا کر سرحد کے قلعوں سے چھیڑ چھاڑ کی اور بیجا پور اور حیدرآباد پر بھی فوجیں گئیں۔
دکنی جوان ایک ایک قلعے پر ایسے جان توڑ کر لڑے کہ بادشاہی سپاہ کے جی چھوٹ چھوٹ گئے۔ اورنگ زیبی تدبیریں اور جاسوسوں کی تحریریں کچھ کام نہ آ سکیں۔ آخر محاصرے سے تنگ آ کر حاکم بیجا پور نے اطاعت اختیار کی، اور حیدرآباد اور گولکنڈے کی نوبت آئی۔
عالمگیر اخبار نویسوں کے بھروسے پر یہ سمجھے ہوئے تھے کہ کوئی بات مجھ سے مخفی نہیں۔ چنانچہ کسی سردار پر بزدلی کا الزام، کسی امیر پر بے لیاقتی کا جرم قائم کیا۔ جن نمک حلالوں نے حد سے زیادہ جانثاریاں کی تھیں، انھیں پر سازش کی تہمتیں لگائیں۔ ولی عہد ِ سلطنت کو مع اس کی بی بی کے ادنٰی گنہگاروں کی طرح قید کیا، غسل اور حجامت تک بند کر دی۔ زیور اور ضروری اسباب سب چھین لیا۔
اس میں بھی شک نہیں کہ طرف ِ ثانی بھی آخر مسلمان تھے اور چونکہ یہ لڑائی بادشاہ نے فقط شوق ِ طبیعت اور وسعت ِ سلطنت کے اشتیاق میں شروع کی تھی، اس میں لاکھوں مسلمانوں کا خون ناحق بہتا کسی کو بھلا معلوم نہ ہوتا تھا۔
بادشاہی لشکر اور سلطنت کے سامان کے سامنے ایک صوبے کی کیا بساط ہے، برسوں کا طول کھچ گیا۔ اس عرصے میں بعض قلعے فتح ہوئے، بعض کے محاصرے سالہا سال قائم رہے۔
آخر شہنشاہ خود پہنچے اور تدبیروں کے جال پھیلانے شروع کیے۔ چونکہ لڑائی میں ایسے کام کرنے کچھ فریب نہیں، بلکہ سپاہیانہ پیچ ہیں، اس لیے سازش کے سلسلے دوڑا کر تانا شاہ کے  نوکروں کو توڑنا شروع کیا۔
ایک دفعہ بہت مشورے کے بعد یہ ٹھہری کہ خان فیروز جنگ جو ان دنوں میں بڑی چلتی تلوار نکلا تھا، رات کو شب خون کرے اور کمندیں ڈال کر قلعے پر چڑھ جائے۔ چنانچہ ایک شب وہ بڑے بڑے جانباز سپاہیوں کو لے کر رات بھر چھپا رہا۔ صبح ہوتے ہی کمندیں اور زینے لگا دیے۔ جب سپاہی ان پر چڑھنے لگے تو حاجی محراب جو مقرب خاص تھا اور اکثر معاملوں میں خفیہ نگہداشت اس کا کام تھا، اور ان کی کارگزاری دیکھنے کہیں چھپا ہوا تھا، اسی وقت دوڑا ہوا آیا، بادشاہ ابھی سجادے پر تھے کہ دور سے سلام مبارک کے کرنے لگا۔ یعنی فوج قلعے پر چڑھ گئی۔
بادشاہ خوشی کے مارے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اشارہ کیا کہ فتح کے شادیانے کیوں نہیں بجاتے۔ تمام آس پاس کے لوگ آتے تھے اور مبارک بادیں دیتے تھے۔ اتنے میں خبر آئی کہ منصوبہ الٹا پڑا۔
صورت یہ ہوئی کہ برجوں کے پہرے دار ان کی آہٹ سن کر ہوشیار ہو گئے۔ جونہی نیچے والوں نے فصل سے سر نکالا، انھوں نے پہلے ہی وار میں پگڑیاں اور خود اُڑا لیے، سر کھسوٹ اور منہ نوچ نوچ کر اس طرح دھکیلا کہ اوپر والوں نے اپنے نیچے والوں کو لیتے ہوئے زمین پر آ کر دم لیا۔ جو زندہ رہے، خراب خستہ لوٹتے پیٹتے ڈیروں میں آئے۔ مگر کسی کی صورت نہ پہچانی جاتی تھی۔
بادشاہ کے نمک حلال اخبار نویسوں اور معتبر جاسوسوں نے، جن پر کل کاروبارکا مدار تھا، اس حملے کے بگڑ جانے کی اصل دریافت کر کے حق نمک ادا کیا۔ انھوں نے لکھا کہ دلیروں کی دلیری میں تو کچھ شبہ نہیں، مگر حقیقت میں فصیل پر ایک کتا بیٹھا تھا، وہ ناپاک ان کی آہٹ سن کر بھونکنے لگا۔ یوں پہرے دار جاگ اٹھے۔ ورنہ تو آج قلعے کے فتح ہو جانے میں کچھ باقی نہ تھا۔
اخبار نویسوں نے مزید خبر دی کہ ابوالحسن اس کتے کی نمک حلالی سے بہت خوش ہوا ہے۔ سونے کی ہنسلی اور زنجیر گلے میں پنھا کر زربفت کی جھول کا خلعت دیا ہے اور وہ منصب و خطاب عطا کیا ہے کہ تمام منصب دار اس سے رشک کرنے لگے ہیں۔
چونکہ حضور میں ایسی ہی خبریں تدبیر سلطنت کے راز سمجھی جاتی تھیں، اس لیے شاہ با تدبیر نے بھی اخبار نویس کو خوشنودی مزاج کا پروانہ لکھا۔
لشکر کے دل شکستوں کے دل بڑھانے کے لیے ایک دن شہنشاہ نے خود وضو کر کے نماذ پڑھی اور سجادے پر بیٹھ کر پہلا تھیلا دست مبارک سے سیا۔ اپنے ہاتھ سے اس میں خاک بھری اور حکم دیا کہ پہلے اسے خندق میں ڈالیں اور ساتھ ہی سرنگیں لگانی شروع کیں۔
چند روز کے بعد سرنگیں تیار ہو گئیں، اور بارود فتیلے سب درست ہو گئے۔ اسی وقت حکم پہنچا کہ بہیر بازار کے لوگ رات کو قلعے کے پیچھے جا کر چھپ جائیں اور صبح ہوتے ہی خوب غُل مچائیں۔ یوں قلعے والے ادھر فصیل پر جھکیں اور یہاں سرنگوں کو آگ دکھا دی جائے۔
حکم کی تعمیل ہوئی۔ دوسری طرف تمام فوج ہتھیار سجا کر حملے کو تیار کھڑی ہو گئی۔ مگر جب فتیلوں کو آگ دی گئی تو سرنگ باہر کی طرف اُڑ کر رہ گئی۔ اور مصیبت یہ ہوئی کہ جو خاک پتھر اڑے وہ ادھر ہی آئے۔ چنانچہ صدہا بہادر اور نامی منصب دار ضائع ہو گئے۔
آخر بادشاہی جاسوسوں نے پھر حق نمک ادا کیا اور سراغ نکالا کہ قلعے والوں کو خبر ہو گئی تھی، وہ اندر سے سرنگیں توڑ کر بارود چرا کر لے گئے، اور نہر کاٹ کر پانی ادھر توڑ دیا، چنانچہ باہر کا حصہ خشک باقی تھا وہ اڑ گیا۔ یہی سبب تھا کہ ملبہ اس کا ادھر ہی زور کر کے آیا اور لشکر کے بہادروں کو تباہ کر گیا۔
ادھر بادشاہی مورچوں کے لوگ قلعے کی دیواروں کی طرف حیران دیکھ رہے تھے کہ کب یہ گرے اور ہم آگے بڑھیں۔ اندر سے قلعے کی فوج دفعتاً آن گری اور مار مار کر مورچوں میں قیامت برپا کر دی۔ آخر بہت سی جانیں گئیں اور ان سینہ زوروں سے پیچھا چھڑایا۔
ابھی ادھر مُردوں اور مجروحوں کو سنبھال رہے تھے کہ دوسرے سردار نے اپنی نقب کو آگ دے دی۔ وہاں بھی دغا باز اپنا کام کر گئے۔ وہ نقب جس قدر اڑی، اس سے بھی آفت برسی اور پہلے سے بھی دو چند بہادروں کا خون ہوا۔
یہ سن کر شہنشاہ خود ہوادار پر سوار مورچے پر آئے اور دھاوے کا حکم دیا۔ بے ادب گستاخوں نے بادشاہ کا بھی خیال نہ کیا، اور ایسی توپیں ماریں کہ کئی گولے چتر شاہی پر تصدق ہوئے اور کئی پاؤں میں گرے۔ مگر غضب یہ ہوا کہ باران بے محل نازل ہوا، اس نے سارا کام مٹی کر دیا کہ توپ بندوق سے لے کر کمان تک بے کار ہو گئی۔ وہ دمدمے جو لاکھوں روپے اور ہزاروں آدمی کی جانفشانی سے تیار ہوئے تھے، سب بیٹھ گئے اور جو تھیلا حضور نے بعد نماز کے باوضو سیا تھا، وہ بھی بہ گیا۔
ایسی ایسی باتوں سے جب بادشاہ تنگ ہوئے تو ابوالحسن تانا شاہ کی عمل داری کی خلاف شرع باتوں سے ناراض ہو کر حیدرآباد کا نام دارالجہاد رکھا۔ جنگ دین کی نیت سے لڑائی شروع کی۔
یہ سب باتیں تو تھیں، مگر بادشاہ نے جو خفیہ سازشوں کی سرنگیں لگائی تھیں، وہ سب سے زیادہ کارگر ہوئیں۔ اور فتح مقدر ہوئی۔
نوٹ:
(1) یہ اخبار نویس یا پرچہ نویس کیا ہوتے تھے، آئیے دیکھتے ہیںفرہنگ ِ آصفیہ:

(۱) خبریں لکھنے والا۔ پرچہ نویس۔ مہتمم۔ ایڈیٹر۔ (۲) نامہ نگار۔ سندیس پتر کا لکھنے والا۔ سندیسا لکھنے والا۔ کارسپانڈنٹ۔
(2) یہ تحریر قریب قریب مولانا محمد حسین آزاد  دہلوی کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ محض اختصار کی خاطر کہیں کہیں معمولی تبدیلی کی گئی ہے۔ دیکھیے ان کی کتاب، قصص ِ ہند، مجلس ِ ترقی ِ ادب، لاہور، اشاعت جون 2007۔
خود مولانا آزاد نے کے مطابق یہ حالات سیر المتاخرین اور خافی خاں کی تاریخ سے لیے گئے ہیں ۔ 
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments