”پیکار – میری شاعری“

میری طبیعت شروع ہی سے موزوں تھی، اس با ت کا مجھے تب پتہ چلا، جب میں نے گورنمینٹ کالج لاہورمیں داخلہ لیا۔ وہاں اقبال نواز سے دوستی ہوئی، وہ بھی شاعری کرتے تھے۔ انھیں سے میں نے اوزان اور بحور کے بارے میں سنا۔ میں نے انھیں اپنی شاعری دکھائی، اور پوچھا، یہ ٹھیک ہے تو وہ کہنے لگے، جی یہ توآپ پہلے ہی صحیح لکھ رہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا، نہیں آپ مجھے وزن اور بحر سکھائیں۔ انھوں نے خود بھی بتانا شروع کیا، اور مجھے اپنے استاد، استاد تکلم نواز تکلم کے پاس لے گئے۔ وہ سمن آباد میں رہتے تھے، اور پرانی وضع کے مرنجاں مرنج شاعر تھے۔ میں شاید ایک یا دو مرتبہ ان کے پاس گیا، اور کچھ چیزوں کی تصحیح ان سے کروائی۔ مجھے یاد ہے، ان دنوں میں نے کچھ ساقی نامہ جیسی چیز لکھی تھی، وہ استاد تکلم کو

ریاستی منافقت

بچوں کا مقدر والدین، اور شہریوں کا مقدر ریاست ہوتی ہے!

وضاحت اور تفصیل اس قضیے کی یہ ہے کہ بچے جس طرح کے والدین کے گھر پیدا ہوں گے، اسی طرح کا ان کا مقدر ہوگا۔ کسی بچے کے والدین، جس طرح کے تصورات، خیالات، اصول و اقدار، طور اطوار، رہن سہن، عادات وخصائل، اور زبان وبیان کے حامل ہوں گے، وہی کچھ وہ بچہ سیکھے گا۔ یا یہ کہ وہی کچھ وہ بچے کو سکھائیں گے۔ یہی اس کا مقدر بن جائے گا۔ گو کہ یہاں یہ بات خود مشکوک ہے کہ کتنے والدین شعوری طور پر بچے کی تربیت کرتے ہیں، کیونکہ اگر وہ خود شعوری تربیت کے دور سے نہیں گزرے ہیں، تو وہ اپنے بچوں کی شعوری تربیت کیونکر کر پائیں گے۔

بیشتر یہ ہوتا ہے کہ بچے پیدا ہو گئے ہیں تو کچھ نہ کچھ سیکھ لیں گے، یا گھریلو، یا گھر سے باہر

شخصی حکومت یا آئین اور قانون کی حکومت

جب سے پاکستان بنا ہے تب سے ہی ایک کشمکش مسلسل موجود ہے ۔ یہاں میں یہ کہنے سے گریز کروں گا کہ یہ کشمکش کن طبقات یا گروہوں کے درمیان ہے، گرچہ یہ بات بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی یہ کہ خود یہ کشمکش کیا ہے ۔ یہ کشمکش ایک انتہا ئی  بنیا دی سوال کے گرد گھوم رہی ہے: یعنی یہ کہ پاکستان کو کسی آئین اور قانون کے تحت چلایا جائے یا کسی بھی طبقے یا گروہ کی مرضی کے مطابق ۔

موجودہ ’بحران‘ (ہفتہ، 13 فروری 2010) جو ججوں کی تقرری سے متعلق ہے، اسی بڑے سوال کا حصہ ہے کہ یہ کام کسی آئینی و قانونی ضابطے کے مطابق ہونا چاہیے یا محض کسی فرد کی خوشی سے ۔
ان تمام باریکیوں میں جائے بغیر جو ججوں کی تقرری سے متعلق پیدا کی جا رہی ہیں، اس بات پر تمام ما ہرینِ آئین

سرکاری جونکیں

پاکستان کی ریاست ایک ایسا جوہڑ ہے، جس میں سڑتے پانی کو حکومتوں کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ کہنے کو یہ حکومتیں دوچار پانچ سال بعد تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لیکن درحقیقت کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ حکمرانوں کے چہرے بد لتے ہیں، شہریوں کے حالات نہیں بد لتے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کا جوہڑ، ہر باراسی سڑے پُر تعفن پانی سے بھر دیا جاتا ہے ۔ اس سڑے پانی میں پلنے والی جونکیں، حکمران سیاسی پارٹیوں کے عہدیدار اور حکومتی اہلکار ہوتے ہیں ۔ یہ جونکیں شہریوں کا خون چوس کر زندہ رہتی ہیں ۔ ان کی زندگی کا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا ۔ وہ جوہڑ میں آتے ہی اس لیے ہیں ۔

حکومتی جونکوں کے کردار کو سمجھنے کے لیے اصل جونکوں کے بارے میں کچھ اہم حقائق کو سامنے رکھنا ضرور ی ہے ۔ جونکوں کے بارے میں بتایا جاتا

دولت کون تخلیق کرتا ہے، حکومت یا شہری

نیو یارک ٹائمز میں 2 اگست کو ڈیوڈ بروکس کا مضمون ایک خط سے شروع ہوتا ہے: ’پچھلے پانچ برس کے عرصے میں، میں نے ایک کامیاب کاروبار کھڑا کیا ہے ۔ میں نے بہت محنت کی ہے، اور مجھے اپنی کامیابی پر فخر ہے ۔ مگر صدر اوباما مجھے بتا رہے ہیں کہ سماجی اور سیاسی قوتوں نے اس کاروبار کو کھڑا ہونے میں مدد دی ۔ مِٹ رومنی اسرائیل گئے اورفرمایا کہ یہ ثقافتی قوتیں ہیں، جو اقوام کی دولت میں کمی بیشی کی توجیہہ کرتی ہیں ۔ میرے پلے کچھ نہیں پڑرہا ۔ میری کامیابی، کس حد تک میری کامیابی ہے، اور میری کامیابی، کس حد تک خارجی قوقوں کی کامیابی ہے ۔‘

بروکس کے جواب کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے: جب آپ نوجوان ہوتے ہیں تو خود کو سپر مین تصور کرتے ہیں، جو سب کچھ کرسکتا ہے ۔ جب تیس چالیس برس کے ہوتے

درمیانی راستے کا قانون

بے شمار مقدمات عدالتوں میں لائے جاتے ہیں ۔ وقت لگتا ہے، تاخیر ہوتی ہے، آخرِ کار فیصلہ ہو ہی جاتا ہے ۔ لیکن پاکستان عجیب و غریب ملک ہے؛ یہاں کسی مقدمے کا فیصلہ ہو جائے تو ایک اور مقدمہ شروع ہو جاتا ہے ۔ میرا اشارہ این – آر – او کے مقدمے کی طرف بھی ہے، پر اس کی طرف میں بعد میں آؤں گا ۔ ابھی تو ذرا چھوٹے چھوٹے ادنیٰ حقیر ہم جیسے شہریوں کے بے ضرر کیسوں اور پھر چھوٹی موٹی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کی بات ہو رہی ہے ۔ اس میں ہائی کورٹ کو بھی شامل کر لیں ۔

ہم بے چارے عام شہری عدالت جاتے ڈرتے ہیں، بلکہ تھانے کچہری کی طرف منہ کرنے سے بھی خوف کھاتے ہیں ۔ بہت سی ناانصافیاں اور مظالم چپ کرکے سہہ جاتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ تھانے، کچہری، اورعدالت جانے کا

کراچی کے سوداگر

ایک پاگل دوسر ے پاگل سے کہتا ہے: ”میں سوچ رہا ہوں، لاہور خرید لوں ۔“ دوسرا پاگل جواب دیتا ہے: ”میں بیچوں گا تو تم خریدو گے ۔“

لاہور بِکا یا نہیں، یہ تو معلوم نہیں، لیکن کراچی بِک گیا ہے ۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ۔ کس نے بیچا، کس نے خریدا ۔ سب کو پتہ ہے ۔ سیاسی بازار میں کون کون سے خریدار کس کس مارکیٹ میں موجود ہیں، اور فروخت کرنے والے، یا فروخت کا اختیار رکھنے والے کہاں کہاں پائے جاتے ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔

رئیل ایسٹیٹ کی مارکیٹ میں ایسا ہوتا ہے کہ کسی جائیداد کی خرید وفروخت کے سلسلے میں ”حق شفعہ“ سے بچنے کے لیے دونوں فریق بڑی خاموشی سے سودا کر لیتے ہیں ۔ اس سودے کی خبر اردگرد تب پھیلتی ہے، جب ایک صبح اس جائیداد پر نئے مالک قابض ہو

حکومتیں آگ میں کب جلیں گی؟

اگست 2010 میں، میں نے انگریزی میں ایک مضمون لکھا تھا: ”پاکستان – ایک جرائم پیشہ ریاست ۔“ میرے دوستوں اور جاننے والوں نے اس عنوان پرا عتراض کیا، لیکن میں مصر رہا ۔ میری دلیل یہ تھی کہ اگر آپ کے گھر چوری ہو جائے، ڈاکہ پڑ جائے، سرِ راہ آپ کو لوٹ لیا جائے، آپ کے کسی عزیز کو قتل کردیا جائے، اور ریاست کہیں نظر نہ آئے، بلکہ پتہ یہ چلے کہ براہِ راست نہیں توبالراست ان تمام جرائم میں خود ریاست ملوث ہے تو کیا آپ ایسی ریاست کو جرائم پیشہ ریاست نہیں کہیں گے!

اس مضمون میں میرا زور صرف دو چیزوں پر تھا، جن کے سبب میں پاکستانی ریاست کو جرائم پیشہ قراردیتا ہوں، اور ہرآنے والے دن کے ساتھ میرا یہ یقین پختہ ہوتا جاتا ہے کہ نہ صرف پاکستانی ریاست بلکہ اس پر سوار ہونے والی ہر حکومت بھی جرائم پیشہ ہوتی

آرمی چیف کا فلسفیانہ اقدام

حکومتی عہدیداروں کی تقاریر اور بیانات پڑھنا کوئی اچھا تجربہ نہیں ہوتا ۔ بے معنی تکرار اور جھوٹے وعدوں اور دلاسوں کے ساتھ ساتھ ایک نپی تلی بنی بنائی گھڑی گھڑائی زبان کے علاوہ ان میں کوئی مغز کم ہی دستیاب ہوتا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے آرمی چیف جینرل اشفاق پرویز کیانی کی یومِ آزادی کی تقریر پر توجہ نہ دی ۔ تاہم، جب اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اس کا نوٹس لیا گیا تو مجھے بھی تجسس ہوا ۔ آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر نظرڈالی ۔ یہ تقریر وہاں اردو اور انگریزی دونوں میں موجود ہے ۔

اس میں آرمی چیف کہتے ہیں، (یہ ترجمہ خود میں نے انگریزی سے کیا ہے؛ آئی ایس پی آر پر موجود اردو ترجمہ غیر معیاری ہے): ”آج انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سنگین چیلنج درپیش ہے ۔ ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں

تخیّل کی موت

یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں انسانی تہذیب کی اعلیٰ و ارفع تحصیلات اور اقدار اپنی موت سے ہمکنار ہو چکی ہیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے نرم و نازک پھول پودے صحرا کی شدید گرم آب و ہوا میں جھلس کر مر جاتے ہیں ۔

انھیں میں سے ایک چیز تخیّل ہے ۔ اور اگر واقعی ایسا ہے، جیسا کہ محسوس ہوتا ہے کہ تخیّل کی موت ہو گئی ہے تو پھر آنکھیں کھول کر اٹھ بیٹھنے کی ضرورت ہے ۔ درجِ ذیل تحریر، تخیّل کی موت کا نوحہ تو نہیں، ہاں اس کی تصیل ضرور ہے کہ یہ موت کیسے اور کیوں واقع ہوئی:

تخیّل کی موت

میں دیو جانس کلبی تو نہیں ۔ یہ اسی کا ہیا ؤ تھا کہ دن دہاڑے، جلتا دیا ہاتھ میں لیے انسان کی تلاش کرتا تھا ۔ اسے انسان کا حسب نسب معلوم تھا ۔ وہ انسان کو اس کے

برج نارائن چکبست کا ایک شعر

برج نارائن چکبست (1926-1882) کا ایک شعر زبان زدِ عام رہا ہے:

زندگی کیا ہے عنا صر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا
اسے برِ صغیر میں ابھرنے والے ” ترقی پسند عہد“ کا نمائندہ شعر بھی کہا جاسکتا ہے ۔ اس شعر کے عقب میں جو تصورات اور اقدار کارفرما ہیں، ان کا اظہار شبلی نعمانی (1914-1857) نے یوں کیا ہے:

”مادئیین کا خیال ہے کہ روح کوئی جداگانہ چیز نہیں بلکہ جس طرح چند دواؤں کی ترکیب دینے سے ایک مزاج خاص پیدا ہو جاتا ہے یا تاروں کی خاص ترکیب سے خاص خاص راگ پیدا ہوتے ہیں، اسی طرح عناصر کی خاص طور پر ترکیب پانے سے ایک مزاجِ خاص پیدا ہوجاتا ہے جو ادراک اور تصور کا سبب ہوتا ہے اور اسی کا نام روح ہے ۔“ (ص: 108؛ الغزالی، مطبع شاہجہانی، دہلی، 1923)

یہ شعر ایک

پاکستانی سیاست کا کیچڑ

پاکستان کے ستر سے زیادہ ٹی وی چینلز اور لاتعداد اخبارات اور جرائد، جس فکر و دانش کے نمائندہ ہیں، وہ مجموعی طور پر بھیڑ چال پر مبنی ہے ۔ ہاں، کبھی کبھی یہاں وہاں کچھ معقولیت کا مظاہرہ دیکھنے کو مل جاتا ہے ۔

کچھ ہفتے قبل جب مسلم لیگ (ن) کے خواجہ محمد آصف نے ایک پریس کانفرینس میں تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خان پر کچھ الزامات عائد کیے تو تحریکِ انصاف کی طرف سے جوابی الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی ۔ کچھ دن یہ طرحی مشاعرہ خوب چلا ۔ میڈیا ئی علما کو موقع میسر آگیا، اور انھوں نے فتوے جاری کیے کہ لو، نوے کی دہائی کی سیاست پھر چل پڑی ۔ ہر طرف، یہ قضیہ تواتر سے دہرایا جانے لگا ۔ اور اسے خوب رگیدا بھی گیا ۔ بلکہ مختلف مواقع پر، جب بھی کوئی دو سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر کوئی الزامات لگاتی

مسلم لیگ (ن ) کا طرزِ حکمرانی

آئین وقانون اور ان کی پاسداری، افراد کے ذہنوں اور طرزِ عمل میں کیوں جاگزیں نہیں ہوتی، اس کی پاکستان سے بہتر مثال کہاں مل سکتی ہے ۔ بلکہ یہ ایک ایسا ملک ہے، جہاں عام فرد سے لے کر دانشور، میڈیا اوراشرافیہ تک، اور پھرحکمران طبقات تک، عملاً آئین اور قانون کا کوئی تصور موجود ہی نہیں ۔ کہنے کو یہاں آئین بھی ہے، جمہوریت بھی ہے، پارلیمان بھی ہے، اور دوسرے آئینی ادارے بھی موجود ہیں ۔ اور صوبائی اسیمبلیاں بھی وجود رکھتی ہیں ۔ تاہم، یہ سب مل کر بھی پورے ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا کوئی شائبہ پیدا کرنے میں ناکام ہیں ۔ محض ایک ادارہ ہے، یعنی موجودہ سپریم کورٹ، جو چیخ چیخ کر یہ یاد دلا رہا ہے کہ ملک میں آئین بھی موجود ہے، اور حکومتی معاملات اس کے مطابق چلنے چاہئیں ۔

اس بے آئینی اور لاقانونی احوال کے

زوال کے نشان

اگر کوئی مورخ زوال اور اس کی حرکیات کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو پاکستانی سوسائیٹی سے بہتر نفسِ مضمون اسے شاید ہی کہیں مل سکتا ہو ۔ یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے کہ جیسے نفسیاتی مطالعے کے لیے پاکستانیوں سے بہتر کیس کہاں پائے جا سکتے ہیں ۔ پاکستان، ہر نباض کے لیے ایک ایسا ماڈیل بن چکا ہے، جس کو زوال کے نشانوں کی تشخیص اور تعلیم کے لیے ایک مکمل نمونے کی حیثیت سے کام میں لایا جا سکتا ہے ۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ صرف موجود ہ پاکستان، بلکہ غالباً پاکستان اپنے پورے ساٹھ پینسٹھ سال یہی نمونہ بنا رہا ہے ۔ کیا کوئی ایسا دور یا عرصہ ہے، جسے نکال کر سامنے رکھا جا سکتا ہو کہ بھئی یہ ہے ایک ایسا پاکستان، جوزوال کی مثال نہیں ۔

میں خود اس سوسائیٹی کا ناقابلِ علیٰحدہ جزو ہوں؛ لیکن میں اس کا

تاریخ کی مہم

یہ تحریر ایک گذشتہ پوسٹ، ”ہنداور سندھ تہذیبیں، اور سیاست کے لیے مذہب کا استعمال“ سے جڑی ہوئی ہے ۔
جیسا کہ میرا خیال ہے، اور یقینا ہر کسی نے، جو تیز نظر رکھتا ہو گا، یہ مشاہدہ کیا ہو گا، اور جیسا کہ سیموئیل جانسن نے حُب الوطنی کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ایک غنڈے کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے، تو اسی طرح، تاریخ بھی ان دانشوروں، اہل ِ ادب، رہنماؤں، برادریوں، ٹکڑیوں، قوموں، اور ایسے ہی داخل کی طرف مرتکز افراد اور گروہوں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے، جو خود کو بالخصوص، ایسے معاشروں، قوموں، اورتہذیبوں کے ہاتھوں کسی نا انصافی کا شکار سمجھتے ہیں، جو ایک طرف، معیشت، سیاست، فلسفے، سائنس، سپورٹس، وغیرہ، میں، اور دوسری طرف، ترقی، سماجی تعیشات، ٹیکنالوجی، وغیرہ، میں ان سے پیش قدم ہوتے ہیں ۔
بلکہ اس سے بڑھ کر میرا خیال یہ ہے کہ اس متذکرہ بالا

سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست: پاکستانی سیاست کے پیچ و خم کا فلسفیانہ محاکمہ

اس 10 اگست کو آلٹرنیٹ سالوشنز انسٹیٹیوٹ نے میری دوسری اردو کتاب ریلیز کی ۔ زیل میں اردو میڈیا ریلیز نقل کی جا رہی ہے: 

میڈیا ریلیز:
نئی کتاب: ”سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست: پاکستانی سیاست کے پیچ وخم کا فلسفیانہ محاکمہ“ شائع ہو گئی
کتاب میں پہلی بار پاکستان کی سیاسی پارٹیوں، اور سیاسی مغالطوں کا فلسفیانہ تجزیہ کیا گیا ہے
مصنف سیاسی پارٹیوں کو شہریوں کا دشمن قرار دیتاہے، اوران کی تبدیلی پر زور دیتا ہے
لاہور، 10اگست 2012: اے، ایس، انسٹیٹیوٹ، لاہور، نے آج ڈاکٹر خلیل احمد کی دوسری اردو کتاب، ”سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست: پاکستانی سیاست کے پیچ وخم کا فلسفیانہ محاکمہ“ ریلیز کر دی ہے ۔ ڈاکٹر خلیل کی پہلی اردو کتاب، ”پاکستان میں ریاستی اشرا فیہ کا عروج“ اسی سال فروری میں ریلیز کی گئی تھی اور پاکستانی ریاست، سیاست، معیشت اور حکومت کی تفہیم کے حوالے سے اسے ایک اہم کتاب قرار

کیا تاریخ کو تبدیل کیا جا رہا ہے؟

حامد میر کے کالم معلومات سے بھرے ہوتے ہیں۔ مگر کل 5 ستمبر کا کالم مجھے بہت عجیب لگا۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا تاریخ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے!

پہلے وہ جملے دیکھ لیجیے، جن کے سبب تاریخ کو بدلنے کی کوشش کا گمان پیدا ہوتا ہے:

’’مارچ 2009 میں نواز شریف نے ججوں کی بحالی کے لیے لانگ مارچ شروع کیا تو آصف علی زرداری اس لانگ مارچ کو روکنے کے لیے فوج کو استعمال کر سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنی انا کے بت کو توڑ دیا اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کہا کہ وہ لانگ مارچ کرنے والوں کو بتا دیں کہ معزول جج بحال کیے جا رہے ہیں لہٰذا لانگ مارچ ختم کر دیا جائے۔‘‘

پاکستان کی تاریخ کی وہ یادگار رات (15 اور 16 مارچ کی رات) کون بھول سکتا ہے۔ خاصا

اردو زبان کی امتیازی خصوصیات

اردو، پنجابی اور انگریزی زبانیں میرے خون میں شامل ہیں۔

اردو اور پنجابی تو ایسے ہیں، جیسے یہ خون میں بولتی ہوں۔ جبکہ، انگریزی اس طرح خون کا حصہ نہیں، جیسے اردو اور پنجابی رگوں میں دوڑتی پھرتی ہیں، اور آنکھ سے خون کی طرح ٹپکتی بھی ہیں۔

انگریزی اس طرح ہے، جیسے کسی کو تقویت دینے کے لیے خون لگایا جاتا ہے۔ یہ خون تولگ گیا، مگر جب انگریزی پڑھی تو اس نے دل موہ لیا۔ کیا انداز ہے اس زبان کا۔ اور جو کچھ اس زبان میں لکھا گیا اور جو کچھ اس زبان میں پڑھنے کو دستیاب ہے، اس نے تو زندگی کو مفہوم و معنی سے آشنا کر دیا۔ بلکہ ایک نئی زندگی سے معمور کر دیا۔

رضا علی عابدی سیدھے سادھے انداز میں بات کہتے ہیں۔ آج (6 ستمبر، 2013) کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ان کا کالم کچھ اردو زبان کے گن گاتا

پاکستانی عدلیہ کب معافی مانگے گی!

غنیمت ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے بحالی (بحالیوں) کے بعد پاکستانی اعلیٰ عدلیہ نے اپنے دامن سے کچھ داغ دھو دیے ہیں۔ مگر پاکستان کے شہریوں سے ابھی تک اپنے ’’کردہ گناہوں‘‘ کی معافی نہیں مانگی ہے!

چلی کی عدلیہ نے معافی مانگ لی ہے۔ خبر دیکھیے:


[روزنامہ جنگ، 6 ستمبر، 2013]  

صارفوں کا خون چوسو اور اشتہار دو!

یہ اشتہار دیکھیے، جو لاہور ایلیکٹرک سپلائی کمپنی کی طرف سے دیا گیا ہے۔ کیا اس پر اٹھنے والا خرچ لیسکو نے اپنے عملے کی تنخواہوں میں سے ادا کیا ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ صارفین کا خون چوس اشتہار دینا، پرلے درجے کی بد عنوانی ہے!

اشتہار ملاحظہ کیجیے:

[روزنامہ جنگ، 6 ستمبر، 2013]