Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

آئین کا نفاذ 14 اگست 1973 کو ہو گیا تھا، پھر تردد کیسا

نوٹ: یہ تحریر https://nayadaur.tv پر شائع نہیں ہو سکی۔

ابھی جب خصوصی عدالت نے جینرل مشرف کے خلاف ’’سنگین غداری‘‘ کے مقدمے میں فیصلہ سنایا، تو اس پر آئی ایس پی آر کی طرف سے فوج میں غم و غصے کے ردِ عمل کا اظہار نہ صرف غیرآئینی اور خلافِ آئین تھا، بلکہ یہ انتہائی غیرضروری اور غیراخلاقی بھی تھا۔

بات سیدھی سی ہے کہ موجودہ طور پر 1973 کا آئین نافذالعمل ہے۔ یہ یہی آئین ہے، جو پاکستان کی ریاست کو وجود میں لایا ہے۔ اسی آئین نے مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ کو وجود دیا ہے۔ اسی آئین نے دوسرے تمام آئینی اداروں کو وجود بخشا ہے۔ ’’فوج‘‘ کا وجود بھی اسی آئین کا مرہونِ منت ہے۔ آئین نہ ہو، نہ تو اس ریاست کا وجود قائم رہے گا، نہ ہی دوسرے اداروں کا، اور نہ ہی فوج کا۔

لہٰذا، آئین جس جرم کو ’’سنگین جرم‘‘ قرار دیتا ہے، اگر اس جرم کے ارتکاب کے ضمن میں ایک فوجی آمر کو سزا سنائی جاتی ہے، تو یہ آئین کی بالادستی کا معاملہ ہے۔ اس پر غم و غصے کا اظہار خود آئین کی توہین کے مترادف ہے۔

لیکن جمیعت العلمائے اسلام (ف) کے مولوی کفایت اللہ کے سوا، کسی سیاسی جماعت اور سیاسی شخصیت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ آئی ایس پی آر کے ’’ردِعمل‘‘ پر کسی ردِعمل کا اظہار کر سکے۔ جیسے کہ اس ملک میں آئین کا کوئی والی و وارث نہیں۔ یعنی کم از کم یہ بات صاف ہو گئی کہ سیاسی جماعتیں، آئین کی وارث نہیں! پہلے بھی نہیں تھیں!

اور آئی ایس پی آر کے ردِعمل پر عدالتِ عظمیٰ یا عدالتِ عالیہ نے بھی ازخود نوٹس لینا گوارا نہیں کیا۔ تو کیا عدلیہ بھی آئین کے تحفظ کا اپنا فریضہ بھول چکی ہے!

ہاں یہ صرف اور صرف سول سوسائیٹی ہے، جس نے اس ’’ردِ عمل‘‘ کا نوٹس لیا۔ مگر اس ضمن میں بھی جو چند ایک آراء سامنے آئیں، وہ پریشان کن تھیں۔ ان میں عزم و یقین کی کمی تھی۔ یہ آراء تردد کا شکار تھیں۔

’’ڈان‘‘ کے بزنیس ایڈیٹر، خرم حسین کا ردِعمل (ٹویٹ) سوال کی صورت میں تھا: ’کیا ہم اپنے ذہن میں اس بات کا تعین کر سکتے ہیں آیا ہم آئین، قانون کی حاکمیت، اور آزاد عدلیہ چاہتے ہیں، یا نہیں؟‘

اسی ضمن میں بابر ستار نے اپنے ایک مضمون میں خصوصی عدالت کے حکم کے پیرا 66 میں سنائی گئی سزا کو آئین اور قانون سے خارج قرار دیا، مگر باقی حکم کا دفاع کیا۔ لیکن آئی ایس پی آر کے ردِعمل پر ان کا ردِ عمل بھی اسی ڈھلمل یقین کا نمونہ ہے۔ ان کی ٹویٹ کا اردو مفہوم: ’ہم صاف سا اپنے آئین میں یہ کیوں نہیں لکھ دیتے کہ ہر دس برس بعد ایک آمر کا اعلیٰ تر قومی مفاد میں خود اپنے ہی ملک کو فتح کر لینا درست ہو گا؟ ایک ریاست میں جہاں قانون/ آئین کی حاکمیت ہوتی ہے، جو کوئی بھی اس سے بغاوت کرتا ہے، وہ غدار ہوتا ہے۔ یا تو قانون حاکم ہوتا ہے، یا طاقت۔ آئیں اپنے ذہن میں اس بات کا تعین کر لیں۔‘

سوال یہ ہے کہ کیا 14 اگست 1973 کو آئین نافذ نہیں ہوا تھا؟ اگر ہوا تھا، تو پھر اب تردد کیسا؟ اگر 14 اگست 1973 کو آئین نافذ ؛ہو گیا تھا، تو اب یہ کہنے کی ضرورت کیوں پڑ گئی کہ اپنا ذہن بنا لیں، اپنے ذہن میں اس بات کا تعین کر لیں کہ آئین کی حاکمیت کو ماننا ہے یا نہیں۔ بات سیدھی سی ہے، اگر آئین نافذالعمل ہے، تو پھر آئین کی حاکمیت ہے۔ جو نہیں مانتا، وہ آئین کا مجرم ہے۔ اس بات کو اسی طرح کہنے کی ضرورت ہے۔ صاف اور سیدھے طریقے سے۔

جینرل مشرف کے ضمن میں خصوصی عدالت کے فیصلے سے کئی اور امور بھی زیرِ بحث آئے۔ ان میں سے ایک معاملہ خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ جیسا کہ بار بار یہ کہا گیا کہ جینرل مشرف کو 3 نومبر 2007 کو ’’ہنگامی حالت‘‘ کے نفاذ کے جرم میں سزا دی گئی۔ انھوں نے 12 اکتوبر 1999 کو جو مارشل لا نافذ کیا تھا، اسے پارلیمان اور عدلیہ نے آئینی تحفظ دے دیا تھا۔ اسی طرح، جینرل ضیا کے مارشل لا کو بھی آئینی تحفظ دے دیا گیا تھا۔ لہٰذا، ان مارشل لاؤں کو ’’سنگین غداری‘‘ کے جرم کے تحت عدالت میں سنا نہیں جا سکتا۔

یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے، بلکہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے، جسے یکسر نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں میری رائے یہ ہے کہ 1973 کے آئین میں، اور اسی طرح، دنیا کے ہر ؛آئین میں، ترمیم و تبدیلی کے لیے ایک طریقِ کار وضع کیا جاتا ہے، جس کے تحت اس میں کوئی ترمیم متعارف کروائی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے آئین سمیت دنیا کے کسی آئین میں کوئی ایسا طریقِ کار موجود نہیں، جو آئین کو منسوخ کرنے، اسے معطل کرنے، وغیرہ، کے لیے کوئی طریقِ کار بتاتا ہو۔ یعنی آئین میں کوئی بھی ترمیم آئینی طریقِ کار کے تحت ہی متعارف کروائی جا سکتی ہے، غیرآئینی طریقے سے ہرگز نہیں۔ تو ایسے میں اگر کوئی فرد عام قانون کو منسوخ یا معطل کرتا ہے، اور اپنا ہنگامی قانون (مارشل لا) نافذ کرتا ہے، تو بعد میں آئین کی اس تنسیخ یا تعطیل کو آئین میں ترمیم کے آئینی طریقِ کار کے ذریعے آئینی تحفظ کیسے دیا جا سکتا ہے؟

مراد یہ کہ جیسے کہ 5 جولائی 1977 کو یا 12 اکتوبر 1999 کو مارشل لا نافذ کیا گیا، اور یوں آئین میں جو ترامیم غیرآئینی طریقے سے داخل کی گئیں، پارلیمان ان مارشل لاؤں کے تحت جو ترامیم آئین میں داخل کی گئیں، ان ترامیم کو ترامیم کے آئینی طریقِ کار کی مدد سے آئینی تحفظ کیسے دے سکتی ہے!

یہ چیز نہ صرف آئین کے الفاظ بلکہ اس کی روح کے بھی سراسر منافی ہے۔ آئین، آئین میں ترمیم و تبدیلی کے صرف اور صرف

اسی داخلی طریقِ کار کو قبول کرتا ہے، جو خود اس نے وضع کیا ہو۔ کوئی بھی آئین، کسی بھی ایسے غیرآئینی اقدام کو کبھی جذب و قبول نہیں کر سکتا، جو اپنی اصل میں خلافِ آئین ہو، مگر اسے آئینی طریقِ کار کی مدد سے آئین میں متعارف کروا دیا جائے۔

یہ ہے وہ نکتہ، جو تمام مارشل لاؤں کی جڑوں کو کاٹ دیتا ہے۔ اور کم از کم اس وقت سے جب سے 1973 کا آئین نافذ ہے، اس بات کو یقینی بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ آئین کی حاکمیت کا کیا مطلب ہے۔ تاہم، اس ضمن میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ جیسا کہ آئین کی دفعہ 6 یہ تفریق نہیں کرتی کہ سنگین غداری کا مرتکب فرد، فوجی ہے یا غیرفوجی، تو جب متذکرہ دونوں مارشل لاؤں سے متعلق مقدمات سنے جائیں گے، تو ملزمین کی فہرست نہایت طویل ہو گی۔ یعنی اس میں متعلقہ وزیرِاعظم سے لے کر اس کی کابینہ اور پارلیمان کے وہ تمام اراکین شامل ہوں گے، جنھوں نے مارشل لائی ترامیم کو آئینی تحفظ دینے کے لیے ’ہاں‘ میں رائے دی ہو گی۔

آخر میں تاکیداً یہ کہنا ضروری ہے کہ آئین 14 اگست 1973 سے نافذالعمل ہے، اصل کام اس کی حاکمیت کو یقینی بنانا ہے۔ اور اس معاملے میں کوئی شک و شبہ یا تردد نہیں ہونا یا نہیں رہنا چاہیے!

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments