Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

غیرسرکاری سینسرشپ

کوئی دو ماہ قبل مجھے ’’نیا دور‘‘ (www.NayaDaur.tv) سے لکھنے کی دعوت موصول ہوئی۔ یہ خوشی کی بات تھی۔ میں نے انھیں کہا کہ میں فری لانس مصنف و محقق ہوں، کیا آپ ادائیگی کریں گے۔ انھوں نے کہا ابھی تو ابتدا ہے، آگے چل کر ضرور کریں گے۔

میں نے لکھنا شروع کر دیا، اس درخواست کے ساتھ کہ کچھ بھی تبدیل کرنا ہو یا نکالنا ہو تو مجھے بتائیے۔ پانچ چھ مضامین شائع ہوئے۔ انھی دنوں لاہور میں دل کے ہسپتال پر وکیلوں کا دھاوا ہو گیا۔ میں نے ایک مضمون بھیجا، جس کا عنوان ’’پی آئی سی دھاوا: مقدمات آئی جی اور وزیر اعلیٰ پر بھی درج ہونے چاہییں‘‘ تھا۔ جب شائع ہوا تو عنوان بدل گیا تھا: ’’پی آئی سی دھاوا: مقدمات آئی جی اور وزیر اعلیٰ پر درج ہونے چاہییں‘‘ میں نے عرض کی کہ یوں تو سارے کا سارا استدلال قتل ہو گیا۔ عنوان کو درست کر دیا گیا۔

پھر 27 دسمبر آ گئی، یعنی بینظیر بھٹو کے قتل کا دن۔ میں نے انتظار کیا اور 30 دسمبر کو ایک مضمون، ’’بینظیر بھٹو کا فسانہ‘‘ بھیجا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ پاکستان کے لبرل، ترقی پسند اور بائیں بازو کے مختلف طبقات میں ذوالفقار علی بھٹو، پیپلز پارٹی، اور بینظیر بھٹو کے لیے شدید جذباتی، رومانوی اور ’’نظریاتی‘‘ وابستگی موجود ہے۔ سو اسی کے پیشِ نظر میں نے یہ بھی لکھا کہ شاید یہ مضمون آپ کو گراں گزرے۔ جواب آیا گراں کیوں گزرے۔ میں نے کہا پڑھ تو لیں۔ پھر جواب آیا ہم اظہارِ آزادیِ رائے کے قائل ہیں۔

میں اس بات کے لیے بھی تیار تھا کہ یہ مضمون نہیں چھپے گا۔ مگر یہ مضمون شائع ہو گیا۔

اسی اثنا میں جینرل مشرف کا مقدمہ انجام کو پہنچ چکا تھا، اور اس پر آئی ایس پی آر سمیت سول سوسائیٹی کی کئی شخصیات کے ردِعمل سامنے آ چکے تھے۔ ان میں سے کچھ ردِ عمل ایسے تھے، جن پر مجھے حیرانی تھی اور میں سوچتا تھا کہ ایک نہایت باریک نکتہ ہے، جسے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ میں نے اسی معاملے پر ایک مختصر مضمون لکھا: ’’آئین کا نفاذ 14 اگست 1973 کو ہو گیا تھا، پھر تردد کیسا۔‘‘

اس مرتبہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس مضمون کو ’’ناپسند‘‘ کیا جائے گا۔

جمعے کا دن تھا، جب میں نے یہ مضمون بھیجا۔ جواب آیا، جس میں اس مضمون کے بارے میں کسی رائے کا اظہار نہیں کیا گیا تھا، بس یہ لکھا تھا کہ کل یعنی ہفتے کی شام تک ’’سنڈے سپیشل‘‘ کے لیے ایک اور مضمون لکھ دیں۔ میں نے گمان کیا کہ شاید یہ مضمون بعد میں شائع ہو۔ اور غالباً کوئی ’’سنڈے سپیشل‘‘ سلاٹ شروع کیا گیا ہو گا، اس کے لیے ایک نیا مضمون درکار ہو گا۔

میں نے ایک اور مضمون، ’’آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم قانون کی روح سے متصادم ہے‘‘ لکھا اور بھیج دیا۔ یہ اتوار کو شائع ہو گیا، ایک عام مضمون کے طور پر۔ واضح رہے ’’نیا دور‘‘ پر ’’سنڈے سپیشل‘‘ نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔

مجھے کچھ تذبذب تھا ور کچھ رنجش بھی کہ پہلے مضمون کے بارے میں تو کچھ بتائیے۔ کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

دو روز بعد میں نے پوچھا، یہ ’’سنڈے سپیشل‘‘ کیا تھا، کیا میں جان سکتا ہوں۔ کوئی جواب نہیں آیا۔ نہ ہی وہ مضمون شائع ہوا۔ میں نے بھی نہ کچھ لکھا، نہ بھیجا۔

آج تک کوئی جواب نہیں آیا۔ میں اپنی جگہ شاکی تھا۔ تو کیا مصنف بیچارے کا اتنا حق بھی نہیں کہ اسے بتایا جائے کہ اس کی تحریر شائع ہو رہی ہے، یا نہیں۔ اور اگر شائع نہیں ہو رہی، تو کیوں!

یوں کوئی دس روز کے لاحاصل انتظار کے بعد اس مضمون کو میں نے اپنی ذاتی ویب سائیٹ پر چھاپ دیا۔ پھر کچھ روز بعد مجھے خیال آیا کہ وہاں یہ بھی لکھنا چاہیے کہ یہ تحریر ’’نیا دور‘‘ پر شائع نہیں ہو سکی۔

واضح رہے کہ میں یہ قطعاً نہیں سمجھتا کہ مجھ سمیت کوئی بھی مصنف جو کچھ لکھے وہ بس اسی طرح چھپ جائے، جیسے لکھا گیا ہے۔ مگر یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ چھاپنے والا اپنی مرضی سے اس میں جو چاہے تبدیلی کرتا پھرے۔

لیکن، غالباً پاکستان میں یہ ایک تبدیلی آ چکی ہے کہ چھاپنے والا لکھنے والے پر غالب آ چکا ہے۔

درست ہے کہ جو چھاپنے والا ہے، وہ جو کچھ چھاپتا ہے، اس کے لیے وہ بھی ذمے دار ہے۔ مگر مصنف کی رائے بھی اتنی ہی اہم ہے، اور وہ جو کچھ لکھتا ہے، اس کا اصل ذمے دار وہ ہے۔

لہٰذا، مناسب یہ ہے کہ اگر چھاپنے والا کسی چیز سے اختلاف رکھتا ہے، یا بوجوہ اس میں تبدیلی چاہتا ہے، تو وہ اسے مصنف کے علم میں لائے، اور اسے ترمیم و تبدیلی کے لیے کہے۔  یہ نہیں کہ چپ کر کے بیٹھ جائے، اور مصنف کو مطلع بھی نہ کرے، یا اپنی پسند سے اس کی تحریر تبدیل کر کے اسے چھاپ ڈالے۔

بلکہ اگر تحریر میں کہیں ایسی اغلاط در آئی ہیں، جن کی درستگی ہونی چاہیے، تو یہ معاملات بھی مصنف کے علم میں لائے جانے چاہییں۔

جب میں نے ’’نیا دور‘‘ کو پہلا مضمون بھیجا، تو یہی درخواست کی تھی کہ اگر کوئی تبدیلی چاہتے ہیں، تو مجھے بتائیے۔

اس صورت میں میرے یا کسی بھی مصنف کے شاکی ہونے کی وجہ یہ ہے، یا یہ ہو سکتی ہے، کہ اسے یہ بتایا ہی نہ جائے کہ اس کی تحریر چھاپی نہیں جا رہی۔ اور اگر چھاپی نہیں جا رہی تو کیوں چھاپی نہیں جا رہی۔

یہاں میں اس تحریر کا تجزیہ کرنا چاہوں گا کہ ممکنہ طور پر کیا چیزیں ہیں، جو اس کی اشاعت کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوں گی۔ یہ تحریر دو نکات کی توضیح پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں اسی نکتے سے بحث کی گئی ہے کہ جب آئین کا نفاذ 14 اگست 1973 کو ہو گیا تھا، تو پھر اب تردد کیسا۔ ہوا یوں کہ جب جینرل مشرف کی سزا پر آئی ایس پی آر کی طرف سے ’’غم و غصے‘‘ کا ردِ عمل آیا، اور پھر اس پر سول سوسائیٹی کے ممتاز افراد نے جس رائے کا اظہار کیا، تو ان میں یہ تردد نمایاں تھا۔

مثال کے طور پر’’ڈان‘‘ کے بزنیس ایڈیٹر، خرم حسین کا ردِعمل (ٹویٹ) سوال کی صورت میں تھا (اردو مفہوم): ’کیا ہم اپنے ذہن میں اس بات کا تعین کر سکتے ہیں آیا ہم آئین، قانون کی حاکمیت، اور آزاد عدلیہ چاہتے ہیں، یا نہیں؟‘

بابر ستار، معروف قانون دان، مبصر اور تجزیہ کار نے بھی اسی قسم کے ردِ عمل کا اظہار کیا۔ ان کی ٹویٹ کا اردو مفہوم یہ ہے: ’ہم صاف سا اپنے آئین میں یہ کیوں نہیں لکھ دیتے کہ ہر دس برس بعد ایک آمر کا اعلیٰ تر قومی مفاد میں خود اپنے ہی ملک کو فتح کر لینا درست ہو گا؟ ایک ریاست میں جہاں قانون/ آئین کی حاکمیت ہوتی ہے، جو کوئی بھی اس سے بغاوت کرتا ہے، وہ غدار ہوتا ہے۔ یا تو قانون حاکم ہوتا ہے، یا طاقت۔ آئیں اپنے ذہن میں اس بات کا تعین کر لیں۔‘

سوال یہ ہے کہ کیا 14 اگست 1973 کو آئین نافذ نہیں ہوا تھا؟ اگر ہوا تھا، تو پھر اب تردد کیسا؟ اگر 14 اگست 1973 کو آئین نافذ ہو گیا تھا، تو اب یہ کہنے کی ضرورت کیوں پڑ گئی کہ اپنا ذہن بنا لیں، اپنے ذہن میں اس بات کا تعین کر لیں کہ آئین کی حاکمیت کو ماننا ہے یا نہیں۔ بات سیدھی سی ہے، اگر آئین نافذالعمل ہے، تو پھر آئین کی حاکمیت ہے۔ جو نہیں مانتا، وہ آئین کا مجرم ہے۔ اس بات کو اسی طرح کہنے کی ضرورت ہے۔ صاف اور سیدھے طریقے سے۔

دوسرا نکتہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے۔ بات یہ ہے کہ 1973 کے آئین میں، اور اسی طرح، دنیا کے ہر آئین میں، ترمیم و تبدیلی کے لیے ایک طریقِ کار وضع کیا جاتا ہے، جس کے تحت اس میں کوئی ترمیم متعارف کروائی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے آئین سمیت دنیا کے کسی بھی آئین میں کوئی ایسا طریقِ کار موجود نہیں، جو آئین کو منسوخ کرنے، اسے معطل کرنے، وغیرہ، کے لیے کوئی طریقِ کار بتاتا ہو۔ یعنی آئین میں کوئی بھی ترمیم آئینی طریقِ کار کے تحت ہی متعارف کروائی جا سکتی ہے، غیرآئینی طریقے سے ہرگز نہیں۔ تو ایسے میں اگر کوئی فرد عام قانون کو منسوخ یا معطل کرتا ہے، اور اپنا ہنگامی قانون (مارشل لا) نافذ کرتا ہے، تو بعد میں آئین کی اس تنسیخ یا تعطیل کو آئین میں ترمیم کے آئینی طریقِ کار کے ذریعے آئینی تحفظ کیسے دیا جا سکتا ہے؟

مضمون کا دوسرا حصہ اسی نکتے کی وضاحت و تفصیل پر مشتمل ہے۔

تو اس تحریر میں ایسا کیا لکھا گیا، جس نے اسے ناقابلِ اشاعت بنا دیا۔ تاحال تو یہ چیز راز ہی ہے۔ ہاں، مگر قیاس ہے کہ دوسرے حصے میں تو کچھ ایسا نہیں، جس پر معترض ہوا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے حصے میں جو کچھ مذکور ہوا، وہی قابلِ اعتراض ہو سکتا ہو گا۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments