میں نے یہ ڈرامہ نہیں دیکھا۔ ہاں، مگر اس کی مقبولیت کو ضرور دیکھا۔ یہ یہی مقبولیت ہے، جس نے مجھے اس کے بارے میں کچھ لکھنے پر مجبور کیا۔
ہمارے گھر میں بھی یہ ڈرامہ دیکھا جاتا تھا۔ اس پر گفتگو بھی ہوتی تھی۔ اسی گفتگو سے اور پھر سوشل میڈیا سے اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ پتا چلتا رہتا تھا۔
صاف بات ہے اس ڈرامے میں کچھ تو جادو تھا، اسی لیے تو لوگ خاص طور پر عورتیں اس میں غیرمعمولی دلچسپی رکھتی تھیں۔ اور پھر اختتام تک پہنچتے پہنچتے، اس نے سارے میڈیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
پھر اس کے ایک کردار، دانش، کا جو انجام دکھایا گیا، اس پر جو ہنگامہ برپا ہوا، وہ علاحدہ ایک قصہ ہے۔ اور ایک ایسا قصہ، جس کا سایہ سیاست پر بھی پڑا۔ جتنی جاندار ’’میمز‘‘ (Memes) ’’دانش‘‘ کے بارے میں تخلیق ہوئیں، اور جتنی تیز رفتاری سے تخلیق ہوئیں، اس سے ’’میرے پاس تم ہو‘‘ میں لوگوں کی مثبت، منفی، اور سرسری دلچسپی عیاں ہے۔
میں سمجھتا ہوں یہ بہت خوشی کی بات تھی کہ لوگ اس میں اس قدر ڈوب گئے۔ کسی چیز نے تو لوگوں کو یوں خود میں سمیٹا۔ کوئی کشش تھی، کوئی کشمکش تھی، جس نے لوگوں کو اندر سے پکڑ لیا۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ یہ زندگی کی نشانی ہے۔ جیتی جاگتی سماجی زندگی کا بین اظہار ہے۔
مجھے اس پر خوشی سے زیادہ حیرانی تھی۔ حیرانی اس بات کی کہ ایسا ہو گیا ہے! لوگ اتنا منہمک ہو گئے، اتنا بھیگ گئے اس ڈرامے کی کہانی اور کرداروں میں۔ بہت خوب!
مگر اس خوشی اور حیرانی کو سمجھنے کے لیے دل کشادہ ہونا ضروری ہے۔ تھڑدلا ہونے سے کام نہیں چلے گا۔
لوگوں کو خوش ہوتے دیکھ کر خوش ہونا سیکھنا ضروری ہے۔ کڑھنا نہیں۔
کتنی ہی آراء ایسی سامنے آئیں، جو اسی کڑھنے سے آلودہ تھیں۔ کتنے ہی ردِ عمل ایسے سننے اور پڑھنے کو ملے، جن میں جلن اور تاسف کی بو شامل تھی۔
یعنی یہ کہ: لوگ ایک ڈرمے کے لیے پاگل ہو رہے ہیں؟ کیا ہو گیا ہے اس معاشرے کو؟ کیا بنے گا اس معاشرے کا؟ (اب یہ بات کم ہی سننے کو ملتی ہے کہ لوگوں کا اخلاق بگڑ رہا ہے۔ لگتا ہے اخلاق جتنا بگڑنا تھا، بگڑ چکا۔ اب ایک جگہ ٹھہر گیا ہے۔)
بھئی خوش ہوں کہ زندہ ہیں لوگ۔ مردہ نہیں ہو گئے۔ زندگی کی امنگ باقی ہے ان میں۔
اور اس بات سے کون انکار کرے گا کہ زندگی کا ایک بڑا ستون مرد اور عورت کے رشتے پر استوار ہے۔ اسی رشتے کی باریکیاں اور کٹھنائیاں اور اضطراب زندگی کو حسین بھی بناتے ہیں، اور تکلیف دہ بھی۔ اس میں سکون بھی ہے، اور بے چینی و بے قراری بھی۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگ رشتوں کی ایک نئی تعیین چاہتے ہیں۔ عورت اور مرد کی ایک نئی تعیین چاہتے ہیں۔ خارجی مداخلت کے بغیر۔
باقی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ سارا کچھ ایک ڈرامے پر ہی کیوں موقوف ہو گیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ بالعموم زیادہ تر لوگ جو کچھ اور جتنا کچھ اور جیسا کچھ سامنے دستیاب ہوتا ہے، اسی پر اکتفا کرتے ہیں، اور اسی سے بہت کچھ اخذ و کیشد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بہت مثبت بات ہے، عمل پسندی کا رویہ ہے۔ اکثر لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔
مگر تھوڑے لوگ دوسری طرح کے لوگ ہوتے ہیں، جو اس سے زیادہ کچھ چاہنے کا جتن کرتے ہیں۔ اور پھر اس کے لیے تگ و دو بھی۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں، جو باقی اکثریت کی زندگی کو بھرپور اور خوب تر بنانے کا سبب بنتے ہیں۔
اور کبھی کبھی اکثر لوگ ان تھوڑے سے لوگوں کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔ جیسے پی ٹی ایم کی کہانی ہے۔
یہ 2003 کی بات ہے کہ مجھے ترکی جانے اور کوئی دو ہفتے وہاں رہنے کا موقع ملا۔
ایک دن دوپہر کے کھانے کے دوران ایک جوان ترک نے، جو خود خاموش طبع تھا، ایک ایسا سوال پوچھ لیا، جس سے مجھے چند لمحوں کے لیے چپ لگ گئی۔ مجھے سوچنا پڑا میں اس سوال کا کیا جواب دوں۔ کیونکہ یوں کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ اسی لیے کوئی تیار جواب ذہن میں موجود نہیں تھا۔
اس نے پوچھا: پاکستان میں لوگوں کی تفریح کیا ہے؟
جبکہ اس سوال کا جواب بہت آسان ہونا چاہیے تھا۔ مگر اس کا جواب آسان نہیں۔ آج بھی آسان نہیں۔
پہلے تو میں چکرا گیا۔ پھر میں نے خیال میں ایک جست واپس پاکستان کی طرف لگائی، اور دیکھنے کی کوشش کی کہ وہاں اپنے لوگ کیا کرتے ہیں۔
مجھے جو عام تصویر دکھائی دی، میں نے وہی جواب دے دیا: ’’ٹی وی دیکھتے ہیں۔‘‘
وہ کچھ جھینپ سا گیا۔ اس کے بعد اس نے اگلا سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کی۔
تو بیس برس بیت گئے، پاکستان میں لوگ ابھی بھی ٹی وی دیکھتے ہیں۔
وہاں انقرہ میں، میں نے کیا دیکھا۔ شام ہوتے ہی، لوگ گھروں سے باہر آ جاتے۔ لاتعداد ریسٹورینٹس تھے۔ سڑکوں کے دونوں جانب۔ دو دو، تین تین منزلہ عمارتیں، سب کے سب ریسٹورینٹس تھے۔ میز کرسیاں سجی ہیں، اور مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، براجمان ہیں۔ چائے ، قہوے، کافی کے دور چل رہے ہیں۔ گفتگو اور خوش گپیاں ہو رہی ہیں۔ کھانے کھائے جا رہے ہیں۔
اتنی ’’سوشل لائف‘‘ کہ آدمی حیران رہ جائے۔
ان گذشتہ بیس برسوں میں ’’کھانا‘‘ تو ہمارے یہاں بھی تفریح بن گیا۔ ریسٹورینٹس بھی بہت کھل گئے۔
پھولوں کی نمائشیں بھی سجتی ہیں۔ کم زیادہ لوگ بھی آتے ہیں ان میں۔
کتاب میلے بھی لگتے ہیں۔ ان میں بھی لوگ آتے ہیں۔ کتابیں بھی بکتی ہیں۔ میل جول بھی ہوتا ہے۔
مگر اس ’’سوشل لائف‘‘ میں وہ بات نہیں، جو لوگوں کو بے فکرا اور خوش دل بناتی ہے۔
جیسے کہ جو ایک چیز کسی معاشرے کے اندر سے خوشی بن کر پھوٹتی ہے۔ جسے اپنا لیا جاتا ہے۔ جس میں تفریح سے بڑھ کر بہت کچھ ہوتا ہے۔ اس قسم کی تفریحوں کو ریاست اور حکومت کی بے جا دخل اندازی نے قتل کر دیا ہے۔ جیسے کہ بسنت۔ جیسے کہ شادی بیاہ کے ضمن میں وقت کی پابندی نے شادی بیاہ کے ساتھ جو میل ملاپ کا کلچر تھا، اسے برباد کر کے رکھ دیا۔
اس سے بھی بڑھ کر آبادی کی بہتات اور شہری منصوبہ بندی کے فقدان نے جیسی تیسی جو شہری سہولتیں میسر تھیں، ان کا بھی بولو رام کر دیا۔
جو کچھ رہی سہی کسر تھی، وہ بے ہنگم ٹریفک، اور آرام دہ اور سستی پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی نے پوری کر دی۔
ان چیزوں نے سماجی زندگی میں کوالیٹی کو پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔
یہ تمام چیزیں ابھی بھی گھر سے باہر کی زندگی سے لطف اندوزی کی راہ میں، یعنی ’’سوشل لائف‘‘ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد ’’سماجی زندگی‘‘ سے لطف اندوز نہیں ہو پاتی۔
سنیما ہال مفقود ہو گئے ہیں۔ باغ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بچوں کے لیے پارکس نہیں۔ جو چند ایک ہیں، وہاں بھیڑ بھڑکا لطف کی کوالیٹی کو شدید متاثر کرتا ہے۔
تو پھر کیا تفریح باقی رہ گئی لوگوں کے پاس؟ یہی کہ ٹی وی دیکھیں۔
تو پھر انھوں نے ٹی وی دیکھا۔ اور ایک ڈرامے میں سے بہت کچھ کشید کر لیا۔ کچھ جادو ڈرامے میں ہو گا، کچھ جادو خود لوگوں نے اس میں ڈال لیا۔ انھوں نے اس سے خوب لطف اٹھایا۔ اسے دل بھر کر ’’انجائے‘‘ کیا۔
انھوں نے دکھایا کہ زندگی وہی کچھ نہیں، جو اور جتنی اور جیسی ہزار قدغنوں اور بندشوں کے باوجود موجود ہے، بلکہ زندگی وہ بھی ہے، جسے وہ خود تخلیق کر لیتے ہیں۔ خوشی صرف وہ نہیں، جو خارج سے ملتی ہے، یا بنی بنائی مل جاتی ہے، بلکہ خوشی وہ خوشی بھی ہے، جسے وہ خود چھوٹی چھوٹی باتوں میں سے کشید کر لیتے ہیں۔
یعنی اتنے ریاستی، حکومتی اور سیاسی و معاشی، گروہی اور جماعتی ’’کشٹ‘‘ کے باوجود لوگ خوشی منانا بھولے نہیں۔ انھیں خوشی منا کر زندگی کو بھرپور طریقے سے جینا بھی آتا ہے۔ دیکھیں انھوں نے ایک ڈرامے کو کیا سے کیا بنا دیا۔ اس میں سے کتنا کچھ نکال لیا۔ کتنی خوشی حاصل کر لی۔