Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

کیا ہر روشن دماغ اور سوچنے سمجھنے والا شخص کسی نہ کسی کا ایجینٹ ہے؟

اکثر اوقات سوچ کے سانچے، افراد کی ذہنی ساخت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

قدیمی آبادیوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ خود کو نہ صرف طبیعی سرحدوں کے اندر بلکہ اپنی اساطیری اور روایاتی سرحدوں کے اندر بھی بند رکھیں۔ یہ بقا کی میکانکیت تھی۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا، تو باہر سے ہر قسم کے ’’دشمن‘‘ (حیوانات اور اجنبی گروہ) انھیں نقصان پہنچا سکتے تھے، یا ختم کر سکتے تھے۔

مگر قدیمی خانہ بدوش آبادیاں خود کو کسی طرح کی سرحدوں میں بند نہیں کرتی تھیں۔ ان کی بقا کی میکانکیت کسی نوع کی سرحدوں کی مرہونِ منت نہیں تھی۔ جب یہ لوگ کہیں آباد ہوتے، تو ان کی بقا کی میکانکیت بھی تبدیل جاتی۔

مراد یہ کہ طبیعی، اساطیری اور روایاتی سرحدوں نے قدیمی آبادیوں کے افراد کے فکری سانچوں کو ان کی ذہنی ساخت میں تبدیل کر دیا۔

قدیمی افراد کی یہ ذہنی ’’ساختیں‘‘ بالخصوص ان معاشروں میں آج بھی بروئے کار دیکھی جا سکتی ہیں، جنھیں ’’بند معاشرے‘‘  کہنا چاہیے۔ جیسے کہ پاکستان۔ یہ معاشرے ’’باہر‘‘ کی ہر چیز سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ اس میں لوگ بھی شامل ہیں، اور تصورات و خیالات بھی۔

اس کے مقابلے میں ’’کشاد (کھلے، غیرمقید) معاشروں‘‘ میں ایسا خوف موجود نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ ان کی سرحدیں ’’باہر‘‘ کے افراد کے ساتھ ساتھ باہر کے تصورات و خیالات کے لیے کھلی ہوتی ہیں۔ جیسے کہ متحدہ امریکہ، یورپی ممالک۔

عام مشاہدے کی بات ہے کہ بند معاشروں میں اجنبی، مختلف، اور غیرروایتی فرد اور چیز کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس میں فرد کے لباس سے لے کر اس کا رہن سہن تک شامل ہیں۔

میں جب کبھی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو نت نئے فیشن اور رنگ ڈھنگ کے ساتھ عام آبادی میں آتے جاتے دیکھتا تھا، تو کانپ جاتا تھا۔ کیونکہ لوگ انھیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے ہوتے تھے۔ مگر ان کا حوصلہ داد کے قابل تھا۔ اب تو پھر بھی اس معاملے میں کافی قبولیت پیدا ہو چکی ہے۔

لیکن بات یہاں تک رہے، تو کچھ ایسی فکر کی بات نہیں۔ مگر یہ معاملہ اس وقت تشویش کے قابل بن جاتا ہے، جب اس نوع کے فکری سانچے اور ذہنی ساختیں، ریاست اور حکومت خاص مقاصد کے تحت منظم انداز میں لوگوں پر مسلط کرنا اور ان کے ذہنوں میں گودنا شروع کردیتی ہیں۔

یوں اجنبی فرد اور اجنبی چیز، اجنبی نہیں رہتی۔ بلکہ صرف وہی فرد یا وہی چیز اجنبی بنتی ہے، جسے ریاست و حکومت ’’اجنبی‘‘ بنانا چاہتی ہیں۔ یعنی اب یہ عمل اشرافیہ اور ریاستی اشرافیہ کی بقا کی میکانکیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

جب تک یہ عمل فطری رہتا ہے، یعنی آبادیوں کی بقا کی میکانکیت کے تابع رہتا ہے، تب تک یہ خطرناک نہیں ہوتا، مگر جب ریاستی اشرافیہ اس عمل کو ایک حکمتِ عملی کے تحت  اختیار کرتی ہے، تو یہ نہ صرف خطرناک بن جاتا ہے، بلکہ انتہائی مہلک بھی ہو جاتا ہے۔

پاکستان گذشتہ پانچ دہائیوں میں بیشتر اسی قلبِ ماہیت سے گزرا ہے۔

اس قلبِ ماہیت نے پاکستان کے معاشرے کو ایک ’’بند معاشرہ‘‘ بنا دیا۔ ایک ایسا بند معاشرہ، جہاں دوسری چیزوں سمیت، ریاست اور حکومت کی طرف سے اجنبی قرار دی گئی ’’شناختوں‘‘ کو بھی باہر کی چیزیں قرار دے دیا گیا۔ یہ شناختیں، فرد کی بھی ہو سکتی ہیں، اور تصورات و خیالات کی بھی۔

مگر ریاست و حکومت کی مداخلت سے معاشرہ محض بند نہیں ہوا، داخلی محاصرے کا شکار بھی ہوا۔ یہ خود کو اندر سے نوچنے کھسوٹنے اور کھانے لگا۔ یہ ایک ایسا ’’بلیک ہول‘‘ یا بھنور بن گیا، جو ہر چیز کو اپنے اندر گھسیٹ کر نابود کر دیتا ہے۔

یوں یہ صرف بقائی میکانکیت کا قیدی نہیں رہا، بلکہ اس کے لیے ہر وہ فرد اور ہر وہ چیز اجنبی قرار پا گئی، جو ریاست اور حکومت کے بتائے ہوئے ’’نسخے‘‘ اور ’’سانچے‘‘ سے مختلف تھی۔ اس طرح ہر وہ فرد اجنبی بن گیا، جو روشن دماغ تھا، سوچنے سمجھنے والا تھا۔ سوال اٹھاتا تھا۔ مختلف طرزِ حیات کا حامل تھا۔ یا مجمعے کی طرح نہیں تھا۔

ریاستی اشرافیہ نے ایسے گروہوں کی سرپرستی کی، اور تاحال کر رہی ہے، جو ان شناختوں کے چوکھٹے اٹھائے پھرتے ہیں، اور جو ان پر پورا نہیں اترتا، اس کے درپےء آزار ہو جاتے ہیں۔ یونانی دیوتا پروکرسٹیز کی طرح، جو ہر فرد کو اپنے پلنگ کے مطابق ناپتا ہے، اگر وہ لمبائی چوڑائی میں پورا نہیں، تو کھینچ کھانچ کر یا کاٹ پیٹ کر پورا کر لیتا ہے۔

یہ دوسری طرح کی بقائی میکانکیت ہے۔ یہ آبادی یا معاشرے کی  پہلی طرح کی بقائی میکانکیت نہیں۔ بلکہ یہ ریاستی اشرافیہ کی بقائی میکانکیت ہے۔

بلکہ عمومی طور پر یہ کہنا چاہیے کہ ہر قسم کی بند آبادیاں، بند معاشرے، بند تنظیمیں، اور بند گروہ، وغیرہ، اپنی بقا کے لیے اسی نوع کی میکانکیت اختیار کرتے ہیں۔ یا اس کی یہ صورت بھی ہوتی ہے کہ یہ بقائی میکانکیت سے زیادہ اپنی بقا سے متعلق خوف کی میکانکیت بن جاتی ہے۔

اس کی بڑی مثال مجھے ماضی کی طرف لے جاتی ہے۔ بائیں بازو کے چھوٹے چھوٹے گروہ اور تنظیمیں خود اپنے ہی لوگوں اور ارکان سے خوف زدہ ہوتی تھیں۔ اصل میں یہ بقا سے متعلق خوف تھا۔ انھیں ہر کوئی ’’باہر والا‘‘ نظر آتا تھا۔ یہ ہر کسی کو کسی نہ کسی کا ایجینٹ معلوم ہوتا تھا۔ کوئی آئی ایس آئی کا ایجینٹ تھا۔ کوئی سرمایہ داروں کا، تو کوئی جاگیرداروں کا ایجینٹ تھا۔ کوئی روس کا، کوئی چین کا، کوئی امریکہ کا، اور کوئی سامراج کا ایجینٹ تھا۔

اور اگر کوئی اختلاف کر بیٹھے، کسی کی زندگی کچھ بہتر ہو جائے، وہ کچھ اور لوگوں سے ملنا جلنا شروع کر دے، کسی اور طرح کی کتابیں پڑھنے لگے، پھر تو وہ مصدقہ ایجینٹ بن جاتا تھا۔

بائیں بازو کے ادبی و سیاسی حلقوں میں آج بھی یہی صورتِ حال ہے۔ ہر کوئی ہر دوسرے کو آئی ایس آئی کا ایجینٹ سمجھتا ہے۔ اس کا سبب قطعاً یہ نہیں کہ وہ آئی ایس آئی کا ایجینٹ ہو گا۔ اس کا سبب کچھ بھی ہو سکتا ہے، جیسے کہ اس نے کوئی این جی او بنا لی، یا کسی این جی او میں شامل ہو گیا۔ کوئی دوچار غیرملکوں کا دورہ کر آیا۔ اچھے صاف ستھرے کپڑے پہننے لگا۔ اس کے پاس چھوٹی موٹی کار آ گئی۔ اس کی مادی زندگی کچھ بہتر ہو گئی۔ اسے کوئی اچھی نوکری مل گئی۔ وغیرہ، وغیرہ۔

بلکہ اس ضمن میں ایک حیران کن مثال کا زکر کرتے ہوئے ہنسی روکنا مشکل ہے۔ ایک صاحب کسی پر اس لیے شک کرنے لگے کہ اس نے انھیں ’’انڈین انڈیپینڈینس ایکٹ، 1947‘‘ کی پرنٹڈ نقل دکھائی تھی۔ وہ پوچھنے لگے: یہ آپ کے پاس کہاں سے آئی۔

یہ باتیں میرے ذہن میں موجود تھیں، مگر اس مضمون کا خیال ڈاکٹر مبارک علی کی آپ بیتی پڑھتے ہوئے آیا۔ ان معاملات سے خود میں بھی بہت اچھی طرح واقف ہوں۔ مگر ڈاکٹر مبارک نے ان کی تصدیق کی۔ کچھ سیدھے سیدھے اقتباسات دیکھیے:

’’میری اس تقریر سے ہمارے سندھی دوست بڑے ناراض ہوئے اور کہا کہ ’’ہے تو آخر مہاجر‘‘۔‘‘ (میری دنیا، ص: 70۔ تاریخ پبلی کیشنز، لاہور۔ 2016)

’’عام لوگوں کے علاوہ جہاں تک دانشوروں اور سیاست کے سربراہوں کا تعلق ہے تو دائیں اور بائیں بازو کے دونوں طبقے مجھے پسند نہیں کرتے ہیں۔ اس کا اظہار کبھی لفظوں میں ہوتا ہے اور کبھی عام تقریروں میں۔ چاہے وہ سندھ کے قوم پرست ہوں یا پنجاب کے۔ اگر ان کی پسند کی بات نہیں ہو گی تو میں ایکدم ان کے نزدیک قابل جرم ٹھہرایا جاؤں گا۔ سندھ میں مکڑ اور پنجاب میں بھیا ہو جاؤں گا۔ یہ میرا المیہ ہے کہ میں ہندوستان سے آیا ہوں، اپنی مرضی سے نہیں۔ اس لیے مولانا آزاد کی بات یاد آتی ہے کہ جب ہندوستان سے لوگ ہجرت کر کے آ رہے تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ اس وقت تو جا رہے ہو، مگر جب سندھ اور پنجاب میں قوم پرستی کے جذبات ابھریں گے تو تم اس ملک میں بن بلائے مہمان ہو جاؤ گے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنی سوچ اور فکر کے باوجود لبرل اور ترقی پسند حلقوں میں اجنبی ہی سمجھا جاتا ہوں، اور یہ لوگ میری ذات کو ایک تنگ گلی میں دھکیل کر لبرل شناخت کا تعین کرتے ہیں۔‘‘ (میری دنیا، ص ص: 128-127۔ تاریخ پبلی کیشنز، لاہور۔ 2016)

’’میرے بارے میں لوگوں کی مختلف رائیں ہیں، ایک زمانہ میں مجھے روسی ایجنٹ کہتے تھے، اب اس کی جگہ میں ہندوستان کا ایجنٹ ہو گیا ہوں۔‘‘ (میری دنیا، ص: 128۔ تاریخ پبلی کیشنز، لاہور۔ 2016)

’’ایک زمانے میں یہ مشہور تھا کہ میں روس کا ایجنٹ ہوں، روس کے ختم ہونے کے بعد اب مجھے ہندوستان کا ایجنٹ کہا جانے لگا ہے۔ حامد میر نے جنگ میں ایک کالم لکھتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ مجھے ’’را‘‘ سے پیسے ملتے ہیں۔ یہی بات ڈاکٹر صفدر محمود بار بار اپنے کالموں میں لکھتے رہے ہیں اور جب مجھے تختہ مشق بنایا گیا تھا تو مجیب الرحمٰن شامی سمیت تمام کالم نگاروں نے اس پر کالم لکھ کر اپنی حب الوطنیت کو ثابت کرنا چاہا۔‘‘ (شمع ہر رنگ میں جلتی ہے، ص: 38۔ تاریخ پبلی کیشنز، لاہور۔ 2019)

یہ رویے نفسیاتی امراض کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان کا نفسیاتی تجزیہ ضروری ہے، تب ہی ان کا تدارک ممکن ہو سکے گا۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments