دو باتیں بہت صاف ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ کورونا سے کسی ایک فرد کی جان کو نہیں، بلکہ ہر فرد کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔
دوسری بات یہ کہ انسان اور انسانی معاشرے کا مستقبل بعید عام حالات میں بھی غیریقینی ہوا کرتا ہے، کیونکہ ایک محفوظ معاشرہ تعمیر کرنے کے باوجود انسان جس دنیا میں زندہ ہے، اس میں کام کرنے والی لاتعداد قوتوں پر اس کا اختیار بےحد کمزور ہے۔ وہ ایک حد تک سیلاب، زلزلوں، اور دوسری آفات کا مقابلہ کر سکتا ہے، ابھی اس سے بڑھ کر نہیں۔ مگر جہاں تک ان دیکھی آفات کا تعلق ہے، جیسے کہ نظامِ شمسی سے کسی آفت کا ظہور، وغیرہ، تو اس کے بارے میں انسان کا علم قریب قریب نہ ہونے کے برابر ہے۔
وباؤں کا مقابلہ انسان پہلے بھی کرتا رہا ہے، اور آج تو زیادہ بہتر انداز میں کر سکتا ہے۔
یہ چیز بھی عیاں ہے کہ انسان کو خود اپنے بارے میں پتا ہے کہ وہ فانی ہے، گو کہ اس نے انسانی عمر کو بہت طویل کر لیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنی زندگی میں بہت کچھ کرتا ہے۔ حیرانی ہوتی ہے، چار پانچ یا چھ دہائیوں یا اس سے کچھ زیادہ عمر میں وہ کیا کچھ کر دکھاتا ہے۔ یہ پورا انسانی معاشرہ اس کا بین ثبوت ہے۔
مراد یہ کہ یہ مختصر سی زندگی انسان کو مایوس نہیں کرتی، یا اسے سست اور پریشانیوں میں گھرا ایک غیرپیداواری شخص نہیں بناتی۔ یعنی مستقبل بعید میں کیا ہو گا یہ خوف اس کا کچھ نہیں بگاڑتا۔ یا بگاڑ سکتا۔ یہ بات بھی ثابت ہے۔
لیکن کورونا وائرس کی وبا نے انسان کے مستقبل قریب کو غیریقینی بنا دیا ہے۔ اب ہمیں کل کا پتا نہیں، کیا ہو گا۔ ایک ہفتے کے بعد کیا ہو گا۔ ایک ماہ کے بعد کیا ہو گا۔ ہم صرف اندازے لگا سکتے ہیں، اور ان اندازوں کا دارومدار بھی مختلف عوامل پر ہے۔
یہ بات بہت اہم ہے۔ یعنی مستقبل قریب کے غیریقینی ہونے کا خوف انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اسے نچوڑ دیتا ہے۔ اور یہی کچھ ہو رہا ہے۔
آگے چلنے سے پہلے ایک اور اہم بات یہیں کہہ دینا ضروری ہے۔ کسی بھی بیماری کا اپنا عرصۂ حیات ہوتا ہے۔ مگر انسان اس پر قابو پا لیتا ہے۔ جیسا کہ بتایا جا رہا ہے، اور اگر ایسا ہی ہے، تو چین کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس نے خاصی حد تک اس بیماری کے پھیلاؤ اور اس کے علاج پر دسترس حاصل کر لی۔
مراد یہ کہ جیسے انسان رفتہ رفتہ اپنے مستقبل بعید کو بناتا اور تراشتا ہے، وہ اسی طرح ہنگامی طور پر اپنے مستقبل قریب کو بھی بنا اور تراش سکتا ہے۔ آج انسانی معاشرہ، علم، تہذیب اور ترقی کی جس منزل پر کھڑا ہے، وہاں تو اس کے امکانات لامحدود ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل قریب اتنا بھی غیریقینی نہیں۔ لیکن یہ بات پوری انسانیت کے بارے میں تو درست ہو سکتی ہے، اور ہے بھی، مگر فرد بشر کے بارے میں ایسا نہیں۔ اور یہی وہ چیز ہے، جو ہر فرد کو مایوسی میں دھکیل دیتی ہے، اور خوف کا شکار کرتی ہے۔
یہاں وہ فرق بھی نمایاں ہو کر سامنے آ جاتا ہے کہ ترقی یافتہ جمہوری معاشرے میں انسانی جان کو کس طرح ترجیح پر رکھا جاتا ہے۔ جبکہ غیرترقی یافتہ اشرافی معاشرے میں انسانی جان کو کس طرح نظرانداز کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ جمہوری معاشروں میں اخلاقی مساوات موجود ہوتی ہے، یعنی وہاں ہر فرد کی جان قیمتی ہے اور ریاست و حکومت اسے بچانے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہیں۔ اشرافی معاشروں میں کیونکہ انسانوں کو اشرافیہ اور اجلافیہ میں تقیسم کیا جاتا ہے، لہٰذا، وہاں ریاست و حکومت کے وسائل اشرافیہ پر خرچ کیے جاتے ہیں۔
پاکستان، جو ایک اشرافی ریاست ہے، وہاں اس وبا کی اثنا میں یہ چیز عیاں ہے کہ عام لوگوں یعنی اجلافیہ کے لیے کبھی وسائل مختص کیے ہی نہیں گئے۔ یہی وجہ ہے کہ حفظانِ صحت کا شعبہ بدترین حالت میں ہے۔ ایسے میں کیا یہ شعبہ لوگوں کو اس وبا سے بچانے کی خاطر کچھ کر پائے گا؟
اس وقت ہسپتالوں اور قرنطینہ میں اس وبا کے شکار مشبتہ اور مصدقہ مریضوں کے ساتھ کیسا غیرمناسب اور غیرانسانی سلوک ہو رہا ہے، ان کا علاج کیسے کیا جا رہا ہے، اس کے بارے میں خبریں آپ بھی دیکھ رہے ہوں گے، میں بھی دیکھ رہا ہوں۔
یہ ہے وہ اہم عامل، جو یہ بتاتا ہے کہ جمہوری معاشرے اور جمہوری ریاستیں کسی طرح اپنے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بناتی ہیں۔ مراد یہ کہ یہ سیاسی نظام ہی ہے، جس پر فرد کی جان و مال اور اس کی آزادیوں کے تحفظ کا انحصار ہوتا ہے۔
یہ وہ چیز بھی ہے، جو پاکستان کے شہریوں کے لیے ان کے مستقبل قریب کو مزید غیریقینی بناتی ہے۔ ان میں، میں خود بھی شامل ہوں، اور ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہم اپنی ریاست پر اعتبار نہیں کرتے۔ ہم جانتے ہیں کہ نہ تو یہاں انصاف ملتا ہے، نہ جان و مال کا تحفظ ۔ ہم بس خود اپنے یا اپنے عزیزوں اور دوستوں کے آسرے پر زندہ ہوتے ہیں، زندہ رہتے ہیں۔
لیکن اس سے بڑھ کر ایک اور چیز ہے، وہ ہے کسی بھی ریاست اور حکومت کا سیاسی ارادہ۔ یعنی اگر وہ ارادہ کر لے کے ایک بحران کے موقعے پر وہ اپنے ہر شہری کو بچانے کے لیے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گی، تو وہ ایسا کر سکتی ہے۔ یعنی وہ اپنے وسائل کو اشرافیہ اور اجلافیہ کی تقسیم کے بغیر ہر فرد کی خاطر استعمال میں لا سکتی ہے، ظاہرا طور پر جیسا کہ چین میں ہوا۔
یہ وہ سیاق و سباق ہے، جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔
حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہر طرح کے مستقبل قریب کو سامنے رکھا جائے۔
مثلاً برے سے برا منظر، جس میں بیماری کے زیادہ پھیل جانے سے لے کر ضروری اشیا کی کمیابی شامل ہیں۔
پھر ایک اعتدال پر مبنی منظر کہ بیماری بہت زیادہ نہیں پھیلتی اور کسی چیز کی کمیابی پیش آتی ہے مگر بہت کم۔
یا پھر یہ کہ بیماری زیادہ نہیں پھیلتی اور اس کے پھیلاؤ پر جلد قابو پا لیا جاتا ہے، اور یہ قابلِ علاج بھی ہو جاتی ہے۔
اب یہ تینوں منظر ہمارے سامنے ہیں۔ یہ مستقبل قریب سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر پھر وہی بات کہ چونکہ یہ وبا کسی ایک فرد یا افراد کے کسی ایک گروہ کو متاثر نہیں کر رہی۔ بلکہ پورے کے پورے معاشروں کو متاثر کر رہی ہے، لہٰذا، ہم پاکستانیوں کا مستقبل قریب کیسا ہو گا، اس کا کیا منظر بنے گا، اس چیز کا انحصار پاکستان کی ریاست اور حکومت پر ہے۔ جو ابھی تک تو شدید مایوسی پھیلا رہی ہے۔ اور ہنگامی بنیادوں پر کچھ نہیں کر رہی۔
سو اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست اور حکومت اپنے تمام وسائل پاکستان کے ہر شہری کی جان کو بچانے کے لیے استعمال میں لاتی ہے یا نہیں۔ یا پھر ایک اشرافیہ پسند ریاست بنی رہتی ہے، جیسے یہ عام حالات میں ہوتی ہے، جہاں صرف اشرافیہ اور خواص کی جان قیمتی ہے۔ اجلافیہ اور عام افراد کی جان کی کوئی حیثیت نہیں۔