[نوٹ: یہ مضمون 9 دسمبر، 2019 کو لکھا گیا، اور 12 دسمبر 2019 کو نیا دور ڈاٹ ٹی وی میں شائع ہوا۔]
’’جاسوسی کے ذریعے کسی شہری کے وقار کو مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ انٹیلی جینس حکام کس قانونی اختیار کے تحت ٹیلی فون ٹیپ کرتے ہیں۔‘‘
’’یہ انسانی وقار کا معاملہ ہے، آرٹیکل 14 کے تحت کسی شہری کے وقار کو مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے۔‘‘
یہ سپریم کورٹ کے معزز ججوں کی آراء ہیں، جن کا اظہار انھوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے کی شنوائی کے دوران کیا۔ یہ آراء 4 دسمبر کے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئیں۔
انھیں پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ اس معاملے میں عدالت کچھ نہ کچھ مثبت قدم ضرور اٹھائے گی۔ دیکھیں اس مقدمے کے اختتام پر کیا نتیجہ یا فیصلہ سامنے آتا ہے۔
لیکن ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ بیشتر صورتوں میں اس نوع کی آراء سے کبھی کوئی مثبت چیز سامنے نہیں آئی۔
جب 1993 میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت کو بحال کیا تھا، تب بھی معزز ججوں کی آراء اخبارات میں اسی طرح چھپا کرتی تھیں۔ اس مقدمے کی شنوائی تین ہفتے جاری رہی تھی، اور اخبارات خوب پڑھے جاتے تھے۔ کیونکہ بالعموم ان آراء میں طاقت ور اور اہلِ اختیار کی ’’چھترول‘‘ ہوا کرتی تھی، عام بےمایہ بےاختیار لوگ انھی سے ’’مزا‘‘ کشید کر لیتے تھے۔
جس بینچ نے اس مقدمے کو سنا، وہ 11 ججوں پر مشتمل تھا۔ بینچ کے سربراہ، اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ تھے۔ اور حکومت کی بحالی کے فیصلے سے صرف ایک جج نے اختلاف کیا تھا۔ اور یہ ایک ایسا مقدمہ ثابت ہوا، جس میں مقدمے کا فیصلہ معزز ججوں کی آراء کے عین مطابق تھا۔
لیکن غالباً اس وقت سے یہ ایک چلن بن گیا کہ معزز جج حکومتی وکلا کی ٹیم سے چبھتے ہوئے سوال پوچھنے لگے۔ اور حکومت، حکومتی اداروں اور اہلِ اختیار پر تیز قسم کی رائے زنی کرنے لگے۔ مگر آگے چل کر ایسا بھی ہوا کہ کئی مقدمات میں جو فیصلہ آیا وہ دی گئی آراء کے الٹ ہوتا اور لوگوں کی امیدوں پر اوس پڑ جاتی۔
ابھی حال ہی میں چیف آف دا آرمی سٹاف کی توسیع کے معاملے پر سپریم کورٹ میں جو کچھ ہوا، وہ ایک سبق آموز ’’سانحہ‘‘ ہے۔ اور اصل میں یہی وہ ’’سانحہ‘‘ ہے، جو اس تحریر کا محرک ثابت ہوا۔
ہوا یہ کہ حکومت تو جو کچھ کر رہی تھی، وہ اپنی جگہ ایک تماشا تھا۔ مگر سپریم کورٹ بھی کچھ پیچھے نہیں رہا۔ ایک ’’عادی درخواست دہندہ‘‘ صاحب نے سپریم کورٹ میں اسی توسیع سے متعلق ایک درخواست دائر کر دی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس درخواست کو اگلے دن سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا۔
اور یوں سپریم کورٹ میں چیف آف دا آرمی سٹاف کی توسیع کے مقدمے کی کاروائی شروع ہو گئی۔ کوئی تین چار روز میڈیا پر خوب میلہ لگا رہا۔
معزز جج صاحبان جو رائے زنی کر رہے تھے، اور اٹارنی جینرل سے جس قسم کے سوالات پوچھ رہے تھے، ان سے بجا طور پر بےمایہ اور بےاختیار لوگوں کا حوصلہ بڑھ رہا تھا۔
بلکہ توسیع یا تقرری یا ازسرِنو تقرری کے نوٹیفیکیشن کو معطل کرنا اور پھر چیف آف دا آرمی سٹاف کو نوٹس جاری کرنا، مقدمے کے دو ایسے حقائق ہیں، جن کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ درخواست گزار کی عدم پیروی کے باوجود اس مقدمے کو آرٹیکل 183 کے تحت مفادِ عامہ کا مقدمہ سمجھ کر سنا جائے گا۔ بعدازاں یہ وضاحت کی گئی کہ کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا گیا۔ چونکہ درخواست گزار نے اپنی درخواست واپس لینے کے لیے قانونی طریقہ اختیار نہیں کیا، لہٰذا، اس کی اصل درخواست کو سنا جا رہا ہے۔
پھر یہ بھی کہ معزز جج صاحبان اور خود اٹارنی جینرل نے تسلیم کیا کہ توسیع یا ازسرِنو تقرری کے لیے کوئی قانون موجود نہیں۔ تو پھر توسیع یا ازسرِنو تقرری کیونکر ہو گئی۔ یہ بات بھی زیرِبحث آئی کہ کونسے ایسے ہنگامی حالات (’’علاقائی سیکوریٹی‘‘) ہیں کہ توسیع ناگزیر ہو گئی تھی۔ اگر ایسا ہے تو پورے ادارے کی توسیع ہونی چاہیے تھی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ اہم ترین مقدمہ ہے اور اس کے ہر نکتے کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔ وغیرہ۔
اعادے کے لیے چند آراء سامنے رکھنا ضروری ہے (ملاحظہ کیجیے روزنامہ جنگ):
’’ریٹائرڈ شخص کو کیسے آرمی چیف لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت توسیع دینے کی وجوہ، اپنی قانونی پوزیشن اور اپنایا گیا پروسیجر بتائے۔‘‘
’’رول 255 میں ترمیم آرمی چیف سے متعلق ہی نہیں۔ 3 سالہ مدت کا تعین کیسے کیا گیا۔ قانون میں ریٹائرمنٹ کی مدت نہیں۔ ماضی میں جرنیل توسیع لیتے رہے۔‘‘
’’کسی نے نہیں پوچھا، اب معاملہ طے کریں گے۔ شخصیات نہیں، قانون اہم ہے۔‘‘
’’آج حل نکال کر لائیں، ایسی غلطیاں ہوئیں تو ہمارے پاس تقرری کالعدم قرار دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا۔‘‘
’’جو سٹاف میں شامل نہیں، وہ چیف آف سٹاف کیسے بن سکتا ہے۔‘‘
’’حل نکال لیں بصورتِ دیگر ہم نے آئین کا حلف اٹھایا ہے، اور ہم آئینی ڈیوٹی پوری کریں گے۔‘‘
’’اگر آرمی چیف ریٹائر نہیں ہو رہا اور ان کی توسیع کا معاملہ سامنے نہیں تو ہم سب یہاں کیوں موجود ہیں۔ دوسری جانب جب آپ کو توسیع دینے کا آئینی اختیار حاصل ہے تو پھر روایات کی بات کیوں ہو، آپ واضح کر دیں دوبارہ تقرری کی جا رہی ہے۔‘‘
’’آپ (اٹارنی جینرل) کے مطابق قانون میں مدت کی وضاحت نہیں لیکن اب 29 نومبر سے تین سال کی توسیع کا آغاز ہو رہا ہے اور یہاں ریٹائرمنٹ اور توسیع دونوں ساتھ ملائی جا رہی ہیں، جو درست نہیں۔ اب بھی آپ کے پاس وقت ہے کہ اس معاملے میں درستگی کر لی جائے۔‘‘
’’آئینی دفاتر میں ایسا نہیں ہوتا، کل تک معاملہ درست کر لیا جائے، کیونکہ ہم کسی کو تنگ نہیں کرنا چاہتے، لیکن اگر کوئی چیز غلط اور غیرآئینی ہے، تو ہم اللہ کو جواب دہ ہیں، پراسیس صحیح ہونا چاہیے، ورنہ کل کے بعد وقت ختم ہو جائے گا اور پھر ہمین فیصلہ دینا پڑے گا۔‘‘
’’آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کا انتہائی اہم معاملہ ہے، ماضی میں 5 یا 6جنرلز خود کو توسیع دیتے رہے ہیں، یہ معاملہ اب واضح ہونا چاہیے۔‘‘
’’کیا ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف تعینات کیا جا سکتا ہے۔‘‘
’’پہلا سوال یہ ہے کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کیا ہو گی؟ آرمی چیف کی مدت تعیناتی پر آئین خاموش ہے۔ دوبارہ آرمی چیف کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہو گی۔ کیا ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائرڈ جنرل کو دوبارہ آرمی چیف بنایا جا سکتا ہے؟‘‘
ان سب آراء کو علاحدہ رکھتے ہوئے، اور آئین، قانون اور حلف کی پاسداری کے تمام دعووں کے باوجود، تیسرے دن یہ فیصلہ آ گیا کہ حکومت آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کے تعین، توسیع اور دوبارہ تقرر کے لیے قانون سازی کرے۔ اور خود سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کر دی۔
یہ وہی مثال ہوئی کہ دوسروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت۔ جب آئین اور قانون میں توسیع یا دوبارہ تقرر کی کوئی گنجائش نہیں، تو آئین کی پاسداری کا تقاضا یہ تھا کہ نئے چیف کی تقرری اور اس ضمن میں قانون سازی کے لیے کہا جاتا۔ جب نیا قانون بن جاتا، تو خواہ کسی کو تویسع دی جاتی، یا اسے دوبارہ تعینات کیا جاتا، تو یہ آئین اور قانون کے مطابق ہوتا۔ مگر سپریم کورٹ نے نئی قانون سازی سے پہلے ہی نئی قانون سازی کر دی۔ یہ ایک طرح سے پارلیمان کے اختیار پر توسیع تھی۔
یہ ایک طرح سے ایسا ابال تھا، جو پیغام تو کچھ اور دے رہا تھا، پر تیسرے ہی دن جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ یہ ایک طرح کی سنسنی خیزی تھی، جس کا انجام ڈھاک کے تین پات تھا۔
معزز جج صاحبان نے اپنی آراء اور سوالات سے جس طرح کا سنسنی خیز ماحول بنا دیا تھا، اس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ اب آئین کی بالادستی قائم ہو کر رہے گی۔ مگر تیسرے ہی دن آئین کی ’’حقیقت‘‘ کسی ’’مصلحت‘‘ کی صورت میں کھل کر سامنے آ گئی۔
سوال یہ نہیں کہ سپریم کورٹ نے اس ضمن میں کیا فیصلہ جاری کیا، سوال یہ ہے کہ بات کا اتنا بتنگڑ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ کسی بھی قسم کی رانے زنی سے بچتے ہوئے، مدبرانہ انداز سے یہ فیصلہ دیا جا سکتا تھا کہ بھئی جائیں اور قانون سازی کریں۔ مگر پاکستان کے مقدر میں استحکام نہیں لکھا۔ آئینی و قانونی استحکام بھی نہیں۔ اور یہی سبب ہے کہ سیاسی استحکام بھی مفقود ہے۔
ایسے میں امریکی جج جسٹس کلیرینس ٹامس کا ذکر ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ باقی جج خاصے سوال پوچھ لیتے ہیں، تو انھیں کیا ضرورت ہے سوال پوچھنے کی۔ دس برس خاموشی کے بعد، انھیں اس وقت سوال پوچھنے کی ضرورت پڑی، جب جسٹس سکیلیا کی وفات ہوئی، جو بہت سوال پوچھتے تھے۔ مگر یہ سوالات ہوتے تھے، رائے زنی اور نشترزنی نہیں۔
دریں حالات، ضروری ہے کہ سپریم کورٹ اپنے طریقِ سماعت کو زیادہ محتاط بنائے اور زبانی دلائل کے وقت خود کو صرف سوال اٹھانے تک محدود رکھے۔ مزید یہ کہ یا تو رائے زنی سے گریز کیا جائے، یا آراء کا اظہار کرتے وقت محتاط رہا جائے تاکہ معزز جج صاحبان کے ذہن کو پڑھا نہ جا سکے، اور سنسنی خیزی پیدا نہ ہو۔ یہ چیز یقیناً نامناسب ہے کہ معزز ججوں کی آراء جس سمت میں جا رہی ہوں، فیصلہ اس کے برعکس آ جائے۔ یوں خود سپریم کورٹ کی ساکھ پر حرف آتا ہے، اور عدل و انصاف کے اعلیٰ ترین ادارے پر لوگوں کے بھروسے کو بھی زک پہنچتا ہے۔ اور یہ دونوں باتیں ناقابلِ قبول ہونی چاہییں۔
سپریم کورٹ اور سنسنی خیزی
[نوٹ: یہ مضمون 9 دسمبر، 2019 کو لکھا گیا، اور 12 دسمبر 2019 کو نیا دور ڈاٹ ٹی وی میں شائع ہوا۔]
’’جاسوسی کے ذریعے کسی شہری کے وقار کو مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ انٹیلی جینس حکام کس قانونی اختیار کے تحت ٹیلی فون ٹیپ کرتے ہیں۔‘‘
’’یہ انسانی وقار کا معاملہ ہے، آرٹیکل 14 کے تحت کسی شہری کے وقار کو مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے۔‘‘
یہ سپریم کورٹ کے معزز ججوں کی آراء ہیں، جن کا اظہار انھوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے کی شنوائی کے دوران کیا۔ یہ آراء 4 دسمبر کے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئیں۔
انھیں پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ اس معاملے میں عدالت کچھ نہ کچھ مثبت قدم ضرور اٹھائے گی۔ دیکھیں اس مقدمے کے اختتام پر کیا نتیجہ یا فیصلہ سامنے آتا ہے۔
لیکن ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ بیشتر صورتوں میں اس نوع کی آراء سے کبھی کوئی مثبت چیز سامنے نہیں آئی۔
جب 1993 میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت کو بحال کیا تھا، تب بھی معزز ججوں کی آراء اخبارات میں اسی طرح چھپا کرتی تھیں۔ اس مقدمے کی شنوائی تین ہفتے جاری رہی تھی، اور اخبارات خوب پڑھے جاتے تھے۔ کیونکہ بالعموم ان آراء میں طاقت ور اور اہلِ اختیار کی ’’چھترول‘‘ ہوا کرتی تھی، عام بےمایہ بےاختیار لوگ انھی سے ’’مزا‘‘ کشید کر لیتے تھے۔
جس بینچ نے اس مقدمے کو سنا، وہ 11 ججوں پر مشتمل تھا۔ بینچ کے سربراہ، اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ تھے۔ اور حکومت کی بحالی کے فیصلے سے صرف ایک جج نے اختلاف کیا تھا۔ اور یہ ایک ایسا مقدمہ ثابت ہوا، جس میں مقدمے کا فیصلہ معزز ججوں کی آراء کے عین مطابق تھا۔
لیکن غالباً اس وقت سے یہ ایک چلن بن گیا کہ معزز جج حکومتی وکلا کی ٹیم سے چبھتے ہوئے سوال پوچھنے لگے۔ اور حکومت، حکومتی اداروں اور اہلِ اختیار پر تیز قسم کی رائے زنی کرنے لگے۔ مگر آگے چل کر ایسا بھی ہوا کہ کئی مقدمات میں جو فیصلہ آیا وہ دی گئی آراء کے الٹ ہوتا اور لوگوں کی امیدوں پر اوس پڑ جاتی۔
ابھی حال ہی میں چیف آف دا آرمی سٹاف کی توسیع کے معاملے پر سپریم کورٹ میں جو کچھ ہوا، وہ ایک سبق آموز ’’سانحہ‘‘ ہے۔ اور اصل میں یہی وہ ’’سانحہ‘‘ ہے، جو اس تحریر کا محرک ثابت ہوا۔
ہوا یہ کہ حکومت تو جو کچھ کر رہی تھی، وہ اپنی جگہ ایک تماشا تھا۔ مگر سپریم کورٹ بھی کچھ پیچھے نہیں رہا۔ ایک ’’عادی درخواست دہندہ‘‘ صاحب نے سپریم کورٹ میں اسی توسیع سے متعلق ایک درخواست دائر کر دی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس درخواست کو اگلے دن سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا۔
اور یوں سپریم کورٹ میں چیف آف دا آرمی سٹاف کی توسیع کے مقدمے کی کاروائی شروع ہو گئی۔ کوئی تین چار روز میڈیا پر خوب میلہ لگا رہا۔
معزز جج صاحبان جو رائے زنی کر رہے تھے، اور اٹارنی جینرل سے جس قسم کے سوالات پوچھ رہے تھے، ان سے بجا طور پر بےمایہ اور بےاختیار لوگوں کا حوصلہ بڑھ رہا تھا۔
بلکہ توسیع یا تقرری یا ازسرِنو تقرری کے نوٹیفیکیشن کو معطل کرنا اور پھر چیف آف دا آرمی سٹاف کو نوٹس جاری کرنا، مقدمے کے دو ایسے حقائق ہیں، جن کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ درخواست گزار کی عدم پیروی کے باوجود اس مقدمے کو آرٹیکل 183 کے تحت مفادِ عامہ کا مقدمہ سمجھ کر سنا جائے گا۔ بعدازاں یہ وضاحت کی گئی کہ کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا گیا۔ چونکہ درخواست گزار نے اپنی درخواست واپس لینے کے لیے قانونی طریقہ اختیار نہیں کیا، لہٰذا، اس کی اصل درخواست کو سنا جا رہا ہے۔
پھر یہ بھی کہ معزز جج صاحبان اور خود اٹارنی جینرل نے تسلیم کیا کہ توسیع یا ازسرِنو تقرری کے لیے کوئی قانون موجود نہیں۔ تو پھر توسیع یا ازسرِنو تقرری کیونکر ہو گئی۔ یہ بات بھی زیرِبحث آئی کہ کونسے ایسے ہنگامی حالات (’’علاقائی سیکوریٹی‘‘) ہیں کہ توسیع ناگزیر ہو گئی تھی۔ اگر ایسا ہے تو پورے ادارے کی توسیع ہونی چاہیے تھی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ اہم ترین مقدمہ ہے اور اس کے ہر نکتے کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔ وغیرہ۔
اعادے کے لیے چند آراء سامنے رکھنا ضروری ہے (ملاحظہ کیجیے روزنامہ جنگ):
’’ریٹائرڈ شخص کو کیسے آرمی چیف لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت توسیع دینے کی وجوہ، اپنی قانونی پوزیشن اور اپنایا گیا پروسیجر بتائے۔‘‘
’’رول 255 میں ترمیم آرمی چیف سے متعلق ہی نہیں۔ 3 سالہ مدت کا تعین کیسے کیا گیا۔ قانون میں ریٹائرمنٹ کی مدت نہیں۔ ماضی میں جرنیل توسیع لیتے رہے۔‘‘
’’کسی نے نہیں پوچھا، اب معاملہ طے کریں گے۔ شخصیات نہیں، قانون اہم ہے۔‘‘
’’آج حل نکال کر لائیں، ایسی غلطیاں ہوئیں تو ہمارے پاس تقرری کالعدم قرار دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا۔‘‘
’’جو سٹاف میں شامل نہیں، وہ چیف آف سٹاف کیسے بن سکتا ہے۔‘‘
’’حل نکال لیں بصورتِ دیگر ہم نے آئین کا حلف اٹھایا ہے، اور ہم آئینی ڈیوٹی پوری کریں گے۔‘‘
’’اگر آرمی چیف ریٹائر نہیں ہو رہا اور ان کی توسیع کا معاملہ سامنے نہیں تو ہم سب یہاں کیوں موجود ہیں۔ دوسری جانب جب آپ کو توسیع دینے کا آئینی اختیار حاصل ہے تو پھر روایات کی بات کیوں ہو، آپ واضح کر دیں دوبارہ تقرری کی جا رہی ہے۔‘‘
’’آپ (اٹارنی جینرل) کے مطابق قانون میں مدت کی وضاحت نہیں لیکن اب 29 نومبر سے تین سال کی توسیع کا آغاز ہو رہا ہے اور یہاں ریٹائرمنٹ اور توسیع دونوں ساتھ ملائی جا رہی ہیں، جو درست نہیں۔ اب بھی آپ کے پاس وقت ہے کہ اس معاملے میں درستگی کر لی جائے۔‘‘
’’آئینی دفاتر میں ایسا نہیں ہوتا، کل تک معاملہ درست کر لیا جائے، کیونکہ ہم کسی کو تنگ نہیں کرنا چاہتے، لیکن اگر کوئی چیز غلط اور غیرآئینی ہے، تو ہم اللہ کو جواب دہ ہیں، پراسیس صحیح ہونا چاہیے، ورنہ کل کے بعد وقت ختم ہو جائے گا اور پھر ہمین فیصلہ دینا پڑے گا۔‘‘
’’آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کا انتہائی اہم معاملہ ہے، ماضی میں 5 یا 6جنرلز خود کو توسیع دیتے رہے ہیں، یہ معاملہ اب واضح ہونا چاہیے۔‘‘
’’کیا ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف تعینات کیا جا سکتا ہے۔‘‘
’’پہلا سوال یہ ہے کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کیا ہو گی؟ آرمی چیف کی مدت تعیناتی پر آئین خاموش ہے۔ دوبارہ آرمی چیف کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہو گی۔ کیا ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائرڈ جنرل کو دوبارہ آرمی چیف بنایا جا سکتا ہے؟‘‘
ان سب آراء کو علاحدہ رکھتے ہوئے، اور آئین، قانون اور حلف کی پاسداری کے تمام دعووں کے باوجود، تیسرے دن یہ فیصلہ آ گیا کہ حکومت آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کے تعین، توسیع اور دوبارہ تقرر کے لیے قانون سازی کرے۔ اور خود سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کر دی۔
یہ وہی مثال ہوئی کہ دوسروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت۔ جب آئین اور قانون میں توسیع یا دوبارہ تقرر کی کوئی گنجائش نہیں، تو آئین کی پاسداری کا تقاضا یہ تھا کہ نئے چیف کی تقرری اور اس ضمن میں قانون سازی کے لیے کہا جاتا۔ جب نیا قانون بن جاتا، تو خواہ کسی کو تویسع دی جاتی، یا اسے دوبارہ تعینات کیا جاتا، تو یہ آئین اور قانون کے مطابق ہوتا۔ مگر سپریم کورٹ نے نئی قانون سازی سے پہلے ہی نئی قانون سازی کر دی۔ یہ ایک طرح سے پارلیمان کے اختیار پر توسیع تھی۔
یہ ایک طرح سے ایسا ابال تھا، جو پیغام تو کچھ اور دے رہا تھا، پر تیسرے ہی دن جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ یہ ایک طرح کی سنسنی خیزی تھی، جس کا انجام ڈھاک کے تین پات تھا۔
معزز جج صاحبان نے اپنی آراء اور سوالات سے جس طرح کا سنسنی خیز ماحول بنا دیا تھا، اس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ اب آئین کی بالادستی قائم ہو کر رہے گی۔ مگر تیسرے ہی دن آئین کی ’’حقیقت‘‘ کسی ’’مصلحت‘‘ کی صورت میں کھل کر سامنے آ گئی۔
سوال یہ نہیں کہ سپریم کورٹ نے اس ضمن میں کیا فیصلہ جاری کیا، سوال یہ ہے کہ بات کا اتنا بتنگڑ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ کسی بھی قسم کی رانے زنی سے بچتے ہوئے، مدبرانہ انداز سے یہ فیصلہ دیا جا سکتا تھا کہ بھئی جائیں اور قانون سازی کریں۔ مگر پاکستان کے مقدر میں استحکام نہیں لکھا۔ آئینی و قانونی استحکام بھی نہیں۔ اور یہی سبب ہے کہ سیاسی استحکام بھی مفقود ہے۔
ایسے میں امریکی جج جسٹس کلیرینس ٹامس کا ذکر ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ باقی جج خاصے سوال پوچھ لیتے ہیں، تو انھیں کیا ضرورت ہے سوال پوچھنے کی۔ دس برس خاموشی کے بعد، انھیں اس وقت سوال پوچھنے کی ضرورت پڑی، جب جسٹس سکیلیا کی وفات ہوئی، جو بہت سوال پوچھتے تھے۔ مگر یہ سوالات ہوتے تھے، رائے زنی اور نشترزنی نہیں۔
دریں حالات، ضروری ہے کہ سپریم کورٹ اپنے طریقِ سماعت کو زیادہ محتاط بنائے اور زبانی دلائل کے وقت خود کو صرف سوال اٹھانے تک محدود رکھے۔ مزید یہ کہ یا تو رائے زنی سے گریز کیا جائے، یا آراء کا اظہار کرتے وقت محتاط رہا جائے تاکہ معزز جج صاحبان کے ذہن کو پڑھا نہ جا سکے، اور سنسنی خیزی پیدا نہ ہو۔ یہ چیز یقیناً نامناسب ہے کہ معزز ججوں کی آراء جس سمت میں جا رہی ہوں، فیصلہ اس کے برعکس آ جائے۔ یوں خود سپریم کورٹ کی ساکھ پر حرف آتا ہے، اور عدل و انصاف کے اعلیٰ ترین ادارے پر لوگوں کے بھروسے کو بھی زک پہنچتا ہے۔ اور یہ دونوں باتیں ناقابلِ قبول ہونی چاہییں۔