Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

مایوسی کی نیند

اپنی مایوسی کو اگر کسی چیز سے تشبیہ دینا چاہوں، تو ایک ایسی ترکیب اور ایک ایسی عمارت کا ڈھانچہ ذہن میں آتا ہے، جسے گنبدِ بے در کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک ایسا گول کمرہ، جس میں کوئی دروازہ نہیں، کوئی کھڑکی نہیں، کوئی روشن دان نہیں۔ اور نہ ہی کوئی درز یا جھری کہ روشنی اندر دم مار سکے۔

آپ کہیں گے یہ تو گھٹن والا ماحول ہوا، مایوسی تو نہیں۔ ہاں، مگر بعض اوقات اور بعض صورتوں میں مایوسی بھی اسی شکل میں سامنے آ سکتی ہے اور آتی ہے۔

پاکستان میں سیاسی اعتبار سے جو مایوسی ہر سو چھائی ہوئی ہے، وہ اسی قسم کی مایوسی ہے۔

میں نے کہا، سیاسی اعتبار سے۔ یعنی سماجی اعتبار سے جیسی بھی مایوسی ہو، وہ اس قسم کی نہیں، جیسی کہ سیاسی مایوسی ہے۔

سماجی مایوسی کا تعلق خاصی حد تک اخلاقی بحران سے ہے۔

مگر سیاسی مایوسی گنبدِ بے در جیسی کیوں معلوم ہوتی ہے؟

کیونکہ سیاسی گول کمرے سے باہر نکلنے کا کوئی دروازہ نظر نہیں آتا۔ کوئی کھڑکی نظر نہیں آتی۔ کوئی روشن دان نظر نہیں آتا۔ کوئی درز، کوئی جھری نظر نہیں آتی، جہاں سے کچھ روشنی چھن کر آ رہی ہو۔ جیسے گھُپ اندیھرا ہے۔

پھر یہ کہ سیاسی گول کمرے سے باہر نکلنے کا اگر کوئی دروزاہ ہے، تو اس کی چابی اشرافیہ کے طبقات کے پاس ہو گی۔ اور غالباً یہ چابی اشرافیہ کے ہر طبقے کے پاس نہیں ہو گی۔ یعنی ہو سکتا ہے یہ چابی، فوجی اشرافیہ کے پاس ہو، یا سیاسی اشرافیہ کے پاس۔ یا مذہبی اشرافیہ کے پاس۔ یا اشرافیہ کے کسی اور طبقے کے پاس۔ یا کسی کے پاس بھی نہیں۔

لیکن اشرافیہ کے ان طبقات نے اجلافیہ کو یہ یقین دلایا ہوا ہے کہ سیاست کے اس گول کمرے سے باہر نکلنے کا کوئی دروزاہ نہیں۔ اور سیاسی مایوسی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان عام لوگوں نے اس پر یقین کر لیا ہوا ہے۔

مزید یہ کہ سیاسی، فوجی اور مذہبی اشرافیہ نے جو سیاسی کھیل رچایا ہوا ہے، عام لوگ اس سے لذت حاصل کرنے لگے ہیں۔ وہ مختلف عنوانات کے تحت سیاسی گنبدِ بے در کی اندرونی دیواروں سے سر پھوڑتے ہیں اور خوش ہیں۔ یعنی وہ لذت پسندی کا شکار ہیں۔

اگر کوئی فرد یا گروہ، جو اشرافیہ میں سے نہیں، انھیں اس سر پھوڑنے اور لذت حاصل کرنے سے باہر نکلنے کا راستہ سجھانے کا جتن کرتا ہے، تو وہ اس پر دھیان  نہیں دیتے۔ اسے نظرانداز کرتے ہیں۔ یہ الزام نہیں، بس ایک مظہر کا بیان ہے۔

یوں اس مایوسی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ، عام لوگوں کو یہ باور کروا چکی ہے کہ اگر اس گنبدِ بے در سے باہر نکلنا کبھی ممکن ہوا، تو وہ اشرافیہ کے ہاتھوں ہی ممکن ہو گا۔

مختصر یہ کہ گنبدِ بے در جیسی اس مایوسی کا اصل سبب عام لوگوں کا یہ ایمان ہے کہ خود اشرافیہ ہی انھیں اس گنبدِ بے در سے باہر نکالے گی، اگر اس نے کبھی انھیں باہر نکالنے کا سوچا۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگ غیراشرافیہ میں سے اُٹھنے والی کسی آواز پر توجہ نہیں دیتے۔

کسی نظام کی اس سے بڑی کامیابی کیا ہو گی کہ وہ نظام اپنے تحت زندہ رہنے والے لوگوں کو یہ یقین دلوانے میں کامیاب ہو جائے کہ یہ نظام ہی ان کا مقدر ہے، اور ان کا مقدر بدلنے والا کبھی کوئی فرد یا گروہ آئے گا، تو وہ اسی نظام کو چلانے والوں میں سے ہو گا۔

سو اس مایوسی سے بڑھ کر کوئی مایوسی ہو سکتی ہے کہ ’’مظلوم‘‘ یہ یقین کرنے لگیں  کہ خود ’’ظالم‘‘ انھیں اپنے ’’ظلم‘‘ سے نجات دلائے گا!

یا پھر یہ کہ نہ کوئی ظلم ہے، نہ ظالم، نہ مظلوم۔ بس یہی زندگی، جو سامنے ہے، مقدر ہے!

یہی وہ مایوسی ہے، جو مجھے بتاتی ہے کہ مایوسی کی نیند سونے میں بہت مزا ہے، اور میں گٹھڑی بن کر سوتا ہوں۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments