نواز شریف آج جن طاقتوں کے خلاف کھڑے ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں، وہ ماضی میں ان کے ساتھ ساز باز کرتے رہے ہیں۔ اور ان کے ساتھ ملوث بھی رہے ہیں۔
لیکن اس چیز سے درگزر کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ دنیا بھر میں سمجھا جاتا ہے، یہی طاقتیں پاکستان میں نہ صرف بیشتر حکومتیں بنانے اور ہٹانے کے پیچھے کارفرما ہوتی ہیں، بلکہ اِس یا اُس سیاسی جماعت کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے بھی برسرِ پیکار رہتی ہیں، تو ایسے میں کوئی سیاسی جماعت اگر اپنی بقا کے لیے پیچھے ہٹتی ہے، اور ان طاقتوں کے ساتھ مصالحت کرتی ہے، تو اس کے لیے اتنی گنجائش نکالنا مناسب ہو گا۔ لیکن اس سے زیادہ قطعاً نہیں۔
مثلاً غالباً ذوالفقارعلی بھٹو کو موقع نہیں ملا، ورنہ وہ بھی جلاوطن ہو سکتے تھے، اور اپنی جان بچا سکتے تھے۔
مثلاً نواز شریف جینرل مشرف کے چنگل سے نکل کر جلاوطن ہو گئے اور بچ گئے۔
ایک مرتبہ نہیں دوسری مرتبہ بھی وہ ملک سے باہر چلے گئے۔ گو کہ پھر واپس آ گئے، اور پھر غالباً کسی مصالحت کے نتیجے میں پھر جان بچا کر واپس ہو لیے۔
بے نظیر بھٹو کسی غلط فہمی میں واپس آ گئیں، اور ماری گئیں، ورنہ وہ بھی جان بچا کر جلاوطن ہو چکی تھی۔
چونکہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں، شخصیات اور خاندانوں پر استوار ہیں، لہٰذا، وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی جماعتوں کی بقا خود ان کی بقا میں مضمر ہے۔
جیسا کہ عیاں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو دوبارہ مجتمع ہونے میں بہت وقت لگا، گو کہ وہ بے نظیر بھٹو کو اپنی جانشین کے طور پر سامنے لا چکے تھے۔ مگر پیپلز پارٹی کا وہ پہلا سے دم خم بحال نہیں ہو سکا۔ سو یہ بھی عیاں ہے کہ خدانخواستہ اگر نواز شریف کو کچھ ہو جاتا ہے، گو کہ وہ بھی مریم نواز شریف کو اپنی جانشین کے طور پر سامنے لا چکے ہیں، تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لیے برسوں درکار ہو سکتے ہیں۔
سو جہاں تک کسی سیاسی جماعت کی بقا کا تعلق ہے، تو اسے اتنی گنجائش دینے میں ہرج نہیں۔ لیکن اس سے زیادہ گنجائش قطعاً نہیں دی جانی چاہیے۔ ویسے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انھیں کوئی گنجائش دی جائے یا نہیں، انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی یہ گنجائش محض سیاسی تجزیے کا تقاضا ہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ یہ سیاسی شخصیات نہ صرف ان طاقتوں سے مصالحت کرتی ہیں، ان کے ساتھ ملوث رہتی ہیں، بلکہ شہریوں (اور اپنی جماعتوں اور اس کے کارکنوں اور ہمدردوں) سے ’’بدعہدی‘‘ کی مرتکب بھی ہوتی ہیں۔ یہ ان کا سب سے بڑا ’’جرم‘‘ ہے۔
یعنی یہ شخصیات انتخابات کے نتیجے میں ملنے والے لوگوں کے مینڈیٹ کو کُھل کھیلنے کا اجازت نامہ سمجھتی ہیں، اور دوبارہ ان کی طرف، ان کے مسائل کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتیں۔ یعنی ان جماعتوں اور شخصیات نے اپنی سیاست اور جمہوریت کو محض حکومتوں کی تبدیلی کا ایک کھیل بنا کر رکھ دیا ہے۔ وہ ظالم، بے حس، خون آشام ریاستی مشینری کو لگام ڈالنے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کرتیں۔ کیا یہ طاقتیں انھیں ایسا کرنے سے روکتی ہیں؟ قطعاً نہیں۔
نواز شریف بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔ اور یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ وہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگا کر جلوس لیے چل پڑے تھے، کیونکہ انھیں کسی سازش جیسے حالات کے نتیجے میں حکومت سے نکال دیا گیا تھا۔ یوں انھیں ووٹ تو یاد آ گیا، لیکن ووٹر یعنی شہری یاد نہیں آئے۔ اگر وہ حکومت میں رہتے، تو انھیں یہ ’’ووٹ‘‘ بھی یاد نہیں آنا تھا۔ یہی ان کی ’’بدعہدی‘‘ ہے، اور دوسرے سیاست دانوں کی بھی۔
وہ کئی مرتبہ یہ تاثر دے چکے ہیں کہ وہ ان طاقتوں (وہ انھیں ’’خلائی مخلوق‘‘ کا نام بھی دے چکے ہیں) کے خلاف برسرِ پیکار ہیں، اور ’’سویلین بالادستی‘‘ کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن ہر مرتبہ وہ دھوکہ دے جاتے ہیں۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگا کر وہ لنڈن چلے گئے۔ پھر واپس آ گئے۔ پھر چلے گئے۔ وہ یہ کھیل پہلے بھی کھیل چکے ہیں۔
یہی وہ پس منظر ہے، جو لوگوں کو ان پر یقین کرنے سے روک رہا ہے، اور انھیں سیاسی نقصان پہنچا رہا ہے۔ خاصی تعداد میں لوگ تذبذب میں ہیں، ان پر اعتبار کریں یا نہ کریں۔ یعنی یہ کہ نواز شریف کہیں پھر ’’بدعہدی‘‘ کے مرتکب تو نہیں ہوں گے۔
لہٰذا، ضروری ہے کہ نواز شریف اس بے اعتباری کو زائل کرنے کے لیے لوگوں سے سنجیدگی کے ساتھ معافی مانگیں اور عہد کریں کہ وہ اب ’’بدعہدی‘‘ نہیں کریں گے۔ اور یہ کہ وہ نہ صرف ’’سویلین بالادستی‘‘ کے حصول کو اپنی ترجیح بنائیں گے، بلکہ ظالم ریاستی مشینری کو بھی لگام ڈالیں گے۔ یعنی یہ کہ اب جس جمہوریت کی بحالی کا وہ نعرہ لگا رہے ہیں، اس جمہوریت کا پھل عام شہریوں تک بھی پہنچے گا، صرف ان کی جھولی میں نہیں گرے گا۔
تاہم، اگر انھوں نے اس مرتبہ بھی اسی ’’بدعہدی‘‘ کا ارتکاب کرنا ہے، تو انھیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔ وہ جب چاہیں، یہ ’’بدعہدی‘‘ کر لیں۔
مراد یہ کہ اگر وہ لوگوں سے معافی مانگتے ہیں، تو یہ معافی سچے دل سے مانگی جانی چاہیے۔