Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

نسائیت کی تحریک ۔ ایک تجزیہ

۔ یہ تحریر پاکستان میں نسائیت کی تحریک کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ غلط، صحیح، سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

March

۔ نسائیت کی تحریک ملک میں گذشتہ 30۔ 35 برس سے موجود ہے۔

۔ یہ تحریک موجود ہے۔ ختم نہیں ہوئی۔ نہ بکھری۔ نہ منتشر ہوئی۔

۔ بلکہ مضبوط ہوئی ہے۔ مستحکم ہوئی ہے۔ پھیلی ہے۔

۔ اس کی ایک شکل بنی ہے۔ منظم شکل۔ یعنی یہ متعدد تنظیموں میں متشکل ہوئی ہے۔

۔ قبل ازیں یہ چند ایک تنظیموں کی صورت میں منظم تھی۔ جیسے کہ وومین ایکشن فورم۔

۔ جہاں تک مطالبات کا تعلق ہے، تو اس ضمن میں بھی یہ صاف اور واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ ملاحظہ کیجیے اس کے مطالبات کا چارٹر۔

۔ اس تحریک پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ غیرملکی فنڈز پر انحصار کرتی ہے۔ یہ کسی بھی تحریک کو جانچنے کا ایک گمراہ کن طریقہ ہے۔ مدارس سے لے کر بہت سے نجی ادارے غیرملکی فنڈز سے چلتے ہیں۔ خود پاکستان کی ریاست و حکومت قرضوں، امداد، گرانٹس، وغیرہ کے بوجھ تلے دبی ہیں۔ اور ان کے مختلف محکموں اور اداروں کا اپنے مختلف وظائف کی انجام دہی کے ضمن میں متعدد قسم کے قرضوں اور امدادی رقوم پر دارومدار ہوتا ہے۔

۔ جیسا کہ مذکور ہوا یہ تحریک کم وبیش 30۔ 35 برس سے موجود ہے، تو کوئی ایسی تحریک اتنا عرصہ باقی و زندہ نہیں رہتی، جس کی جڑیں خود اپنے معاشرے میں پیوست نہ ہوں۔ خود اس تحریک کا مستحکم ہونا اور پھیلنا اس کے مقامی ہونے کا ایک اور بڑا ثبوت ہے۔

عورت مارچ، لاہور
8 March, 2021

۔ یعنی کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ’’آگ‘‘ ضرور موجود ہے، جس کا ثبوت نسائیت کی تحریک کا یہ گہرا ہوتا ہوا دھواں ہے۔ یعنی ’’رنجشیں‘‘ موجود ہیں۔

۔ یعنی آپ کسی بھی طرح کے حیلوں بہانوں سے نسائیت کی تحریک کو ٹال نہیں سکتے۔ گو کہ اسے ٹالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مختلف طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے، جن میں اس کے خلاف پراپیگینڈے کے ساتھ ساتھ، پرتشدد گروہوں کا اس کے مقابل لانا ہے۔

۔ ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ تحریک اشرافی طبقے کی عورتوں کا چونچلہ ہے۔

۔ جہاں تک لاہور اور اسلام آباد میں 8 مارچ کو نکلنے والے جلوسوں اور منعقد ہونے والی سرگرمیوں کا تعلق ہے، ان میں خاصی تعداد ایسی عورتوں اور لڑکیوں کی ہوتی ہے، جن کا تعلق اشرافی طبقات سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، بڑی تعداد اَپر مڈل اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی عورتوں اور لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ ان میں مرد اور لڑکے بھی شامل ہوتے ہیں۔

۔ اس کے مقابل اگر کراچی اور حیدرآباد میں نکلنے والی ریلیوں پر نظر ڈالیں تو ان کی ترکیبی ہیئت بالکل مختلف ہے۔ ان میں بیشتر تعداد مڈل اور لوئر مڈل کلاس اور نچلے طبقے کی عورتوں اور لڑکیوں کی ہوتی ہے۔

۔ مطلب یہ کہ یہ کوئی دلیل یا شہادت نہیں، جس کی بنا پر اس تحریک کو مسترد کیا جائے، یا بے بنیاد، یا جعلی قرار دیا جائے، جیسا کہ اس تحریک کے معترض کرتے ہیں۔

۔ تاہم، یہ حقیقت عیاں ہے کہ مڈل اور لوئر کلاس اور نچلے طبقے کی عورتوں اور لڑکیوں کے پاس اتنی فرصت اور آزادی ہی کہاں ہے کہ وہ اس تحریک کے لیے وقت نکالیں۔ اور یہی وہ نکتہ ہے، جو اس تحریک کے مغز کو تشکیل دیتا ہے۔

۔ مڈل اور لوئر کلاس اور نچلے طبقے کی عورتوں اور لڑکیوں کے پاس اتنا پیسہ ہی کہاں ہے کہ وہ اس تحریک کے اخراجات اٹھائیں۔ ان کے پاس اتنا حوصلہ کہاں ہے کہ وہ اس تحریک کے قانونی اور دوسرے معاملات سے نبٹ سکیں، جیسے کہ حکومت سے اجازت، وغیرہ۔

۔ مراد یہ کہ یہ اشرافی طبقات ہی ہوتے ہیں، جو بالعموم ایسی تحریکوں کا ہراول دستہ بنتے ہیں۔ بلکہ وہی انھیں چلاتے اور آگے لے جاتے ہیں۔ دوسرے مجبور طبقات کو اس قابل کہاں چھوڑا جاتا ہے!

۔ مڈل اور لوئر مڈل کلاس اور نچلے طبقے کے کتنے گھرانے اپنی عورتوں کو ایسی تحریک چلانے یا اس میں شامل ہونے کی اجازت دیں گے؟ یا وہ ایسا کرنے کے قابل ہوں گیں؟ بہت کم۔ عورتوں کی مختلف ریلیوں میں اس حقیقت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی تحریک کو سمجھنے اور جانچنے کے لیے ایک طرف یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس میں کتنی جان ہے۔ یہ کتنے شہریوں کو اپنے جلوسوں اور جلسوں میں متحرک کرتی ہے۔ یہ کتنی دیر باقی رہتی ہے۔ تنقید و پراپیگینڈا کیسے برداشت کرتی ہے۔ اپنے مقاصد کو کتنا واضح کر کے سامنے لاتی ہے۔ اور معاشرے کے باقی لوگوں (عورتوں اور مردوں) کی حمایت کیسے حاصل کرتی ہے۔

۔ تو دوسری طرف یہ دیکھنا ضروری ہے کہ حکومت اس سے کتنا خوف زدہ ہے۔ کیونکہ پاکستان جیسے ملکوں کی حکومتیں اپنے ہی شہریوں اور ان کی تحریکوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ انھیں غیرملکی فنڈز سے یا غیرملکی ایما پر چلنے والی تحریکیں سمجھتی ہیں۔ جبکہ حکومتیں خود ایسے کاموں میں ملوث ہوتی ہیں۔

۔ کیونکہ پاکستان جیسے ملکوں کی حکومتیں اپنے اصل مفہوم میں شہریوں کی مرضی و رضا اور ان کی خوشی پر کھڑی نہیں ہوتیں، خواہ وہ انتخابات جیت کر ہی کیوں نہ آئی ہوں، لہٰذا، وہ ایسی تحریکوں کے خلاف پراپیگینڈا کرواتی ہیں۔ مختلف قسم کے پرتشدد گروہوں کو ان کے پیچھے لگاتی ہیں۔ انھیں غیرملکی بتاتی ہیں۔ وغیرہ۔

۔ گذشتہ برس (2020ء) اسلام آباد میں عورت مارچ پر ہونے والے دھاوے کو یاد کیجیے۔ اس برس لاہور میں بھی ایسا ہی ماحول بنا یا بنایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کس شہر میں عورت مارچ کے منتظمین کو قانونی اجازت دی گئی اور ان کے لیے مقام اور روٹ کا تعین کیا گیا، تو پھر وہاں کسی دوسرے گروہ کو کیوں پہنچنے دیا جاتا ہے۔

۔ جبکہ اگر کسی تنظیم کو ریلی کے لیے قانونی اجازت مل گئی، تو ریلی کے شرکا کا تحفظ حکومت کی ذمے داری بن جاتی ہے۔ تو حکومت اپنی اس ذمے داری سے کیوں بھاگتی ہے۔ یعنی وہ خوف زدہ ہوتی ہے، اور ریلی کے شرکا میں دہشت پھیلانا چاہتی ہے، اور یوں ایسی تحریکوں کو کمزور کرنے کا جتن کرتی ہے۔

۔ تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ یہ تحریک موجود ہے۔ یہیں ہے۔ کہیں نہیں جا رہی۔ یہ ایک حقیقی تحریک ہے۔

۔ اسے گمراہ کن، غیرملکی فنڈز سے چلنے والی، اشرافیہ کی تحریک قرار دینا، اس سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔

۔ اگر حکومت نسائیت کی تحریک کی بات سننے، ان کی رنجشوں اور مطالبات پر دھیان دینے اور ایک ہمدردانہ رویہ اپنانے کے بجائے، ان کے خلاف پراپیگینڈے اور پرتشدد ردِعمل میں ملوث ہوتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ان سے خوفزدہ ہے۔

۔ کچھ عرصہ قبل اپنی ایک فیس بک پوسٹ (9 جون، 2019ء) پر میں نے یہ لکھا تھا کہ مستقبل کا پاکستان کیسا ہو گا، اس کا تعین تین تحریکیں کریں گی۔ نسائیت کی تحریک ان میں سے ایک تحریک ہے۔ دوسری دو تحریکیں، وکلا تحریک (قانون کی حاکمیت کی تحریک)، اور پشتون تحفظ موومینٹ (پی ٹی ایم) ہیں۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments