کرپشن بھی کئی دوسری چیزوں کی طرح قدیم سے موجود چلی آ رہی ہے۔
آج کی دنیا میں یہ جس طرح پھیلی ہوئی ہے، اس سے یہ باور ہوتا ہے، جیسے کہ اسے قبول کر لیا گیا ہو۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اسے کبھی قبول نہیں کیا گیا۔
کہنے سے مراد یہ ہے کہ کرپشن نظام کا حصہ بن گئی، لازمی حصہ، اور اسے اس نظام کو چلانے والوں نے قبول بھی کر لیا۔
لیکن جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے، انھوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ وہ تو نظام اور کرپشن کو قبول کرنے والوں، یعنی کرپشن کے نظام کو چلانے والوں کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ اس نظام کے سامنے بے بس ہیں۔ جو اس نظام کو بدلنے کا نعرہ لگاتے ہیں اور اس نام سے سیاست کا ڈول ڈالتے ہیں، وہ بھی اسی کرپشن کے نظام کا حصہ ہیں۔ تو لوگ مجبور و بے بس ہیں۔
یہ بالکل وہی بات ہے، جیسا کہ ایک عام قول بن گیا ہے: یعنی: رشوت دینے والے کی کوئی مجبوری ہو سکتی ہے، لیکن رشوت لینے والے کی نہیں۔ (اگرچہ بات طنزاً اس کے برعکس بھی کہی جاتی ہے۔)
سو کرپشن کی قبولیت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کرپشن وہیں جنم لیتی اور قبولیت پاتی ہے، جہاں کوئی اختیار تشکیل پاتا ہے۔ اور ایسا تمام اختیار، ریاست اور حکومت سے تعلق رکھتا ہے۔ یوں یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ کرپشن کو ریاست اور حکومت میں قبولِ عام حاصل ہو چکا ہے۔ لوگوں میں نہیں۔
اس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ اگرکرپشن میں پہلے سے کہیں بڑھ کر اضافہ ہوا ہے، تو اس کے خلاف اتنا ہی شدید ردِ عمل بھی پیدا ہوا ہے۔ (ایک مفہوم میں موجودہ فسطائی حکومت اسی ردِ عمل کی سیاست کی پیداوار ہے۔)
یہ ردِ عمل کس کی طرف سے پیدا ہوا ہے؟ یقیناً عام لوگوں کی طرف سے۔ معاشرے کی طرف سے۔ ریاست اور حکومت کی طرف سے قطعاً نہیں۔
اس ضمن میں حیران کن امر یہ ہے کہ خود کرپٹ لوگوں نے کرپشن کے ساتھ ’’کرپشن خلافی‘‘ کو ایک صنعت کا درجہ دے دیا ہے۔ اور یہ بات تو پرانی ہو گئی کہ: لے کے رشوت پھنس گیا ہے/دے کے رشوت چھوٹ جا۔
یہ بھی عیاں ہے کہ کرپشن کے خلاف لاتعداد تحریکیں سامنے آئی ہیں۔ انھیں فروغ بھی بہت ملا ہے۔
بھارت میں ’’گھوٹالے‘‘ کے خلاف چلنے والی انّا ہزارے کی تحریک کی مثال لے لیجیے۔ یہ لوگوں کی تحریک تھی۔ ایک سماجی تحریک تھی، سیاسی نہیں۔ (جب اس نے اپنا مقصد حاصل کر لیا، یہ ختم ہو گئی۔ لیکن کرپشن ختم نہیں ہوئی۔)
کرپشن یقیناً خطرناک ہے۔ یہ انسانی سماجی تعلقات کو کھوکھلا کرتی ہے، اور ریاست و حکومت پر لوگوں کے اعتماد کو ختم کردیتی ہے۔
لیکن وقت کے ساتھ ہوا یہ کہ کرپشن سے زیادہ خطرناک کرپشن خلافی ہو گئی۔ یہ ایک پردہ بن گئی، کچھ بھی کہنے کا، کچھ بھی کرنے کا، اور کچھ بھی چُھپانے کا۔
اور یہ بھی ہوا کہ کرپشن کے غبارے میں اتنی ہوا بھری گئی کہ یہ ہر چیز سے بڑا معلوم ہونے لگے۔ اور یوں کرپشن کو سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ یہ بھی کرپشن خلافی کی صنعت کا کارنامہ ہے۔
کم از کم پاکستان کی حد تک میں کرپشن کو جینرلوں کا حیلہ کہتا ہوں۔ یہاں مارشل لا سے لے کر سیاسی حکومتوں اور معاملات میں ہر قسم کی عسکری مداخلت تک، قریب قریب ہر دخل اندازی کے پیچھے کرپشن کا ہوّا کھڑا کیا گیا، اور کھڑا ملے گا۔
یہ سوچ کر حیرانی ہوتی ہے کہ کرپشن پیچھے رہ گئی اور کرپشن خلافی آگے نکل گئی۔
جسے دیکھو وہ کرپشن پر لیکچر جھاڑ رہا ہے۔ کرپشن کی کہانیاں سنا رہا ہے۔ اور اگر کہانیاں ہی سننی ہیں، تو یہ کہانیاں ختم ہونے والی نہیں۔
بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب ثبوت کی ضرورت بھی نہیں رہ گئی۔ کسی کے بارے میں کوئی بھی کہانی سنا دیجیے، اس پر یقین کر لیا جائے گا۔ کیونکہ ہر کوئی کرپٹ ہے، سوائے اس کے جو کرپشن کی کہانی سنا رہا ہے۔ (گو کہ حقیقتاً ایساس نہیں ہے۔)
ہاں، کرپٹوں کی اس فہرست میں سے بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کو نکالنا پڑے گا۔ وہ صاف اور علی الاعلان بتاتے ہیں کہ ریاست اور حکومت کرپشن پر چلتی ہیں۔ اور وہ کیسے اپنے کام کروانے اور کام نکلوانے کے لیے فائلوں کو پہیے لگاتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انھوں نے تو پورے کے پورے ریاستی اداروں کو پہیے لگائے ہوئے ہیں، اور یہ ادارے اسی طرح چلتے ہیں، جیسے وہ چاہتے ہیں۔ اور اسی سمت میں چلتے ہیں، جس سمت میں وہ چاہتے ہیں کہ یہ ادارے چلیں۔
یعنی کرپشن سے زیادہ کرپشن خلافی ایک محیرالعقول مظہر بن گئی ہے۔
اس تحریر کا محرک ایک وڈیو بنی۔ جو وٹس ایپ پر موصول ہوئی۔ اسے دیکھتے ہوئے، میں ہر دوسرے منٹ اسے نامکمل چھوڑنا چاہتا تھا۔ مگر دیکھے گیا۔ یہ وڈیو بھارتی فلم سٹار عامر خان کے مقبولِ عام ٹی وی پروگرام ’’ستیہ میو جیاتے‘‘ کا ایک حصہ تھی، جس میں قوم کی دولت کی بات کی گئی تھی، اور ایک آدمی کی کہانی سنائی گئی تھی کہ اس کے نوکر کس طرح اسے دودھ میں پانی ملا کر پلاتے تھے۔ اس میں کرپشن کو موضوع بنایا گیا تھا۔ اور نوجوانوں سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اسے ختم کرنے کے لیے کچھ کریں۔ یہ وڈیو دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ جیسے عامر خان کی سمجھ بوجھ بھی عمران خان کی سمجھ بوجھ سے مختلف نہیں۔ یعنی کرپشن کے بارے میں ان کا سوچنا ایک جیسا ہے۔
اسی سے مجھے یہ خیال سوجھا کہ کرپشن کے خلاف کس کس طرح کے ردِ عمل سامنے آئے ہیں، اور یہ کہ ان میں سے کونسا ردِ عمل، کرپشن سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک ثابت ہو رہا ہے، اس پر کچھ لکھوں۔
ہر کوئی کرپشن کو برا سمجھتا ہے، مگر اس کرپٹوں کے ہاتھوں بے بس ہے۔ ایک وقت تھا کہ کرپشن کرنے والا پردے میں رہنا چاہتا تھا۔ کچھ شرمندگی کا شکار رہتا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ دلیر ہوتا چلا گیا۔ کیونکہ پوری کی پوری سرکار کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے اکٹھی ہو گئی اور اکٹھی ہے۔
یعنی ہوا یہ کہ پہلے نظام کم از کم کرپٹوں کو تحفظ نہیں دیتا تھا۔ پھر نظام نے کرپٹوں کو بچانا شروع کر دیا۔ اور اب وہ وقت ہے کہ نظام کرپٹوں پر انعام و اکرام کی بارش کیے جاتا ہے، تحفظ تو علاحدہ رہا۔ کسی سرکاری کرپٹے کے خلاف کوئی شکایت کر کے دیکھے، الٹا اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔
تو جب نظام کرپٹوں کو نوازنے اور عطا کرنے، اور دیانت داروں کو سزا دینے لگا، تو عام شہری پر ٹیکسوں کا بوجھ اور بڑھ گیا۔ اب نظام یعنی ریاست اور حکومت ٹیکس بھی لے رہی ہیں، اور ساتھ رشوت بھی۔
یہ وہ مجموعی ردِ عمل ہے، جس کا تعلق ریاست اور حکومت اور اس کی مشینری سے ہے۔
لوگوں کے ردِ عمل نے تو کبھی کوئی شکل اختیار ہی نہیں کی۔ ہاں، جستہ جستہ اِدھر اُدھر کوئی ردِ عمل پیدا ہوا اور مر گیا۔ یاد کیجیے لاہور اے جی آفس کی عمارت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے والے ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو۔ یاد کیجیے سرکاری دفتروں میں بھٹکتے پریشان حال شہریوں کو۔ یاد کیجیے سرکاری دفتروں میں بیٹھی لوگوں کا خون چوسنے والی جونکوں کو۔ یاد کیجیے تھانوں میں بیٹھے سرکاری بدمعاشوں کو جو عام شہری کی تذلیل اور اس پر تشدد کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھا ہوتا ہے۔
مراد یہ کہ شہریوں کے ردِ عمل کبھی سیاسی شکل اختیار نہیں کرتے۔ کیونکہ کوئی سیاسی جماعت ایسا کرنا نہیں چاہتی۔ انھوں نے بھی کرپشن کو قبول کیا ہوا ہے، اور لوگوں کو اپنا ’’غلام‘‘ بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔
ہاں، شہریوں کے ردِ عمل کو قدرے سول سوسائیٹی کی تنظیموں نے کچھ نہ کچھ شکل دینے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ کام نہ ہونے کے برابر ہے، اور قطعاً موثر نہیں۔
کبھی کبھی کرپشن کے خلاف کوئی سماجی تحریک کھڑی ہو جاتی ہے۔ مگر پاکستان میں تاحال ایسی کوئی تحریک جڑ نہیں پکڑ سکی۔ یہ بھارت میں ہی پیدا ہوئی اور بھرپور طریقے سے چلی، اور لوگوں نے اس کا ساتھ دیا۔ اور یہ کرپشن کے خلاف ایک قانون بنوانے میں کامیاب ہوئی۔ انّا ہزارے کی تحریک۔
لوگوں نے پاکستان میں بھی اس تحریک کی نقل کرنے کی کوشش کی، مگر ایسی تمام کوششیں ناکام رہیں۔
پاکستان میں کرپشن کے خلاف ایک ردِ عمل یہ ضرور آیا کہ یہاں کرپشن کے نام پر اور کرپشن کو ختم کرنے کے نام پر مارشل لا دھڑا دھڑ لگتے رہے۔ حکومتوں کو بھی برخواست کیا جاتا رہا۔
ہاں، ابھی تک کرپشن کے نام پر سیاست کرنے کا خیال کسی سیاسی جماعت کے استعمال میں نہیں آیا تھا۔
لیکن کرپشن کے خلاف جتنے بھی ردِ عمل سامنے آئے، ان میں سے جو ردِ عمل سب سے بڑھ کر خطرناک ثابت ہوا، وہ خودپارسائیت کا ردِ عمل ہے۔
گو کہ پاکستان میں خودپارسائیت کا ردِ عمل ابتدا سے موجود تھا۔ غالباً یہ اسے ورثے میں ملا تھا۔ لیکن اس کی شکل سماجی تھی۔ اور یہ ردِ عمل ابھی اتنا مروج بھی نہیں تھا۔
مگر وقت کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خلاف سماجی خودپارسائیت کا ردِ عمل فروغ پاتا گیا۔ جینرل ضیاالحق کے دور میں سماجی خودپارسائیت کی قلبِ ماہیت مذہبی خودپارسائیت میں ہو گئی۔ اور ان دونوں کو بہت فروغ ملا۔
لیکن یہ خودپارسائیت ابھی سماجی اور مذہبی ہی تھی۔ ابھی اس کا سیاسی جنم نہیں ہوا تھا۔
اگرچہ سیاسی خودپارسائیت کی کچھ شکل مارشل لاؤں کی تہہ میں کارفرما تھی، لیکن ابھی اس نے پَر پُرزے نہیں نکالے تھے۔ یعنی مارشل لا کرپٹ سیاست دانوں یا کرپٹ حکومتوں کو سبق سکھانے کے نام پر لگائے جاتے تھے، اور اس کا درپردہ مطلب یہی ہوتا تھا کہ مارشل لا لگانے والے یعنی جینرل دیانت دار لوگ ہیں، مگر یہ دعویٰ علی الاعلان کبھی نہیں کیا گیا (شاید جینرل خود کو ایسا نہیں سمجھتے تھے!)۔ حتیٰ کہ جینرل ضیاالحق کو بھی یہ خیال نہیں سوجھا، اور نہ ہی کسی نے سجھایا۔
غالباً یہ عمران خان اور ان کی تحریکِ انصاف کے مقدر میں لکھا تھا کہ وہ سیاسی خودپارسائیت کے علم بردار بنیں۔ اور وہ بن بیٹھے۔ نہ صرف وہ بلکہ ہر وہ پاکستانی، جو کسی بھی قسم کی سماجی اور مذہبی خودپارسائیت کے زعم میں مبتلا تھا، وہ تحریکِ انصاف کی زلف کا اسیر ہو گیا۔
یہ کرپشن کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرنے سے بھی زیادہ مختلف اور خطرناک بات تھی۔
(جملۂ معترضہ: تاحال میں یہ ایک چیز سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مذہبی لوگ (یعنی ایسے لوگ جو بزعمِ خود مذہبی کہلاتے ہیں) عمران خان کو کیونکر قبول کر لیتے ہیں۔ بلکہ قبول کیا ہوا ہے۔ مخمصہ یہ ہے کہ جیسی زندگی عمران خان نے گزاری، اسے یہ لوگ کیسے مذہبی اور اخلاقی اقدار کی کسوٹی پر کیسے پرکھتے ہیں۔ یا پھر پرکھتے ہی نہیں۔ یا پھر یہ وہ لوگ ہیں، جو سماجی اور مذہبی دونوں قسم کی خودپارسائیت کا شکار ہیں۔)
یوں پاکستان میں سیاسی خودپارسائیت کی تشکیل تحریکِ انصاف کی صورت میں ہوئی۔
مجھے پہلے دن سے ہی یہ چیز کھٹکنا شروع ہو گئی تھی۔ وہ تمام رجحانات میرے سامنے تھے، اور یہ رجحانات میرے تجربے میں آ رہے تھے، جو تحریکِ انصاف کے خودپارسا چشمے سے اُبل رہے تھے۔
ایک نہایت اہم رجحان یہ تھا کہ کیونکہ تحریک انصاف والے خودپارسا ہیں، لہٰذا ہر کسی کو ان کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی اس طرح نہ سوچے، جیسے تحریکِ انصاف سوچ رہی ہے۔ کوئی تحریکِ انصاف کے خلاف ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ اگر کوئی ہے، تو وہ غلط ہے۔
یہ سوچ اتنی پختہ تھی کہ تحریکِ انصاف والوں سے گفتگو ممکن نہیں تھی، اور آج بھی ممکن نہیں۔
ابھی 2018ء کے عام انتخابات سے چند ماہ پہلے ایک ریسٹورینٹ میں چند جاننے والوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں سے ایک صاحب گذشتہ دو انتخابات میں صوبائی اسیمبلی کے امیدوار بھی رہے تھے۔
وہ مجھے کہنے لگے: آپ اتنے سمجھ دار اور پڑھے لکھے ہیں، مگر آپ ہمارے ساتھ نہیں۔
میں بہت سٹپٹایا۔ اب یہ جواب دیے بغیر چارہ نہیں تھا: آپ بھی اتنے سمجھ دار اور پڑھے لکھے ہیں، آپ تحریکِ انصاف کے ساتھ کیوں ہیں؟
خیر پہلے جو خودپارسائیت موجود تھی، اس کا رنگ سماجی اور مذہبی تھا۔ مگر یہ بہت زیادہ متشدد نہیں تھی۔ صرف ایک مذہبی و سیاسی جماعت تھی، بلکہ اسے سیاسی جماعت ہی کہنا چاہیے، جو خودپارسائیت کا لبادہ اوڑھے تھی اور متشدد بھی تھی۔ اور اب بھی وہی لبادہ اوڑھے ہے، اور متشدد بھی ہے۔ گو کہ جینرل ضیاالحق کے وقت سے یہ فصل بہت تیزی سی پک کر تیار ہونا شروع ہو گئی۔
اب تحریکِ انصاف ایک ایسی جماعت کے طور پر سامنے آئی، جو سیاسی خودپارسائیت کا پرچم اٹھائے ہوئے تھی، اور تشدد پسند بھی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ تشدد کا عنصر، خودپارسائیت کی فطرت میں موجود ہوتا ہے۔
یہ تمام رجحانات عمران خان اور تحریکِ انصاف اور اس کے حامیوں اور ہمدردوں میں خوب پروان چڑھے۔ اس جماعت نے انھیں خوب پانی دیا۔ خوب سینچا۔ اور جب انھیں حکومت میں لے آیا گیا، تو عمران خان اور تحریکِ انصاف دونوں آپے سے باہر ہو گئے۔
یہ سیاسی خودپارسائیت ہی ہے، جو ہر کسی کو چور اور ڈاکو سمجھتی ہے، اور کسی کو سانس نہیں لینے دیتی۔ یہی سیاسی خودپارسائیت کی روح ’’نیب‘‘ (قومی احتساب بیورو) میں بھی سرایت کیے ہوئے ہے۔
یہی سیاسی خودپارسائیت ہے، جس نے عدلیہ سمیت ہر ادارے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
یہی سیاسی خودپارسائیت اب پارس بنی ہوئی ہے۔ یعنی جو اس کے ساتھ مَس ہوا، جو اس کے ساتھ چھو گیا۔ وہ پارسا بن گیا۔ جو اس کا مقابل و مخالف بنا، سیاسی ’’گنہ گار‘‘ ٹھہرا۔
حاصلِ کلام یہ کہ کرپشن کے خلاف پاکستان میں جتنے ردِ عمل سامنے آئے، ان میں سے سیاسی خودپارسائیت نہایت خطرناک اور مہلک ردِ عمل ہے۔ یہ ہر چیز کی تباہی پر تلا ہوا ہے۔ آئین، قانون، اخلاقیات، اور ان کے ساتھ ساتھ ہر آئینی ادارہ اس کے نشانے پر ہے۔
سیاسی خودپارسائیت، کرپشن خلافی کی انتہائی تباہ کن شکل ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ یہ خود کرپشن سے بھی خطرناک چیز ہے۔ کیونکہ تاریخ دشمن بھی ہے، اور تہذیب دشمن بھی۔
عیاں رہے کہ کرپشن ایک نظامی اور انتظامی مسئلہ ہے، اور یہ نظام کی اصلاح کے ساتھ حل ہو گا۔ کرپشن خلافی کی سیاست اس کا حل نہیں۔
جیسا کہ یہ ایک نظامی اور انتظامی مسئلہ ہے، لہٰذا نظام میں بہتری آنے کے ساتھ اس میں کمی آتی جائے گی۔ اس کے لیے کوئی خاص قسم کا حل درکار نہیں۔
بلکہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ خود، خودپارسائیت، کرپشن کی نہایت خطرناک قسم ہے۔ یہ کرپشن سے بڑی کرپشن ہے۔
کرپشن بلاشبہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ جبکہ خودپارسائیت ایک غیرانسانی چیز ہے۔ یہ انسان دشمن بھی ہے۔
لہٰذا، خودپارسائیت کو کسی بھی طرح کرپشن کا حل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جو اسے حل سمجھتے ہیں، ان میں خودپارسائیت کی روح سرایت کیے ہوئے ہے۔ وہ اس کا احساس بھی نہیں کر سکیں گے۔
کرپشن کا حل سامنے موجود ہے۔ اس پر عمل کی جرآت درکار ہے۔
یعنی آئین و قانون کی حاکمیت۔ اخلاقیات کی پیروی۔ اخلاقی لیڈرشپ۔
پھر یہ کہ کم از کم ٹیکس۔ اور یہ بھی کہ حکومت کے پاس کم سے کم اختیار۔ کیونکہ جتنا اختیار زیادہ ہو گا، کرپشن اتنی وافر ہو گی۔
اور یہ بھی کہ یہ چیزیں اس وقت موثر ہوں گی، جب پہلے ادارے ان پر عمل پیرا ہوں گے۔ اور ریاست سب سے بڑا ادارہ ہے۔
جیسے کرپشن اوپر سے نیچے کی طرف بہتی ہے، اسی طرح، کرپشن کا حل بھی اوپر سے شروع ہو کر نیچے کی طرف آئے گا۔