Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

لوگوں کو الزام دینا، ذمے دار ٹھہرانا بالکل غلط ہے

کیا اس ملک کے لوگوں کے کوئی اصول ہیں، کوئی اقدار ہیں، جن پر وہ یقین رکھتے ہوں؟

How to fix responsibility

مگر یہ سوال ہی غلط ہے؟

لوگ تو غیرمنظم ہوتے ہیں۔ ان کی طاقت بکھری ہوتی ہے، منتشر ہوتی ہے، وہ تو ایک کلرک کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔

جب وہ منظم ہو جاتے ہیں، جیسے کہ شہری تنظیموں کی صورت میں، سیاسی جماعتوں کی صورت میں، تو ان کی طاقت بھی منظم ہو جاتی ہے۔ اور وہ طاقت ور بن جاتے ہیں۔

پھر یہ کہ لوگ بیشتر عملیت پسند یا عمل پسند ہوتے ہیں۔ یعنی وہ، جیسے بھی حالات ہوں، بڑی تیزی سے ان میں زندہ رہنا سیکھ لیتے ہیں۔ جو نہیں سیکھتے یا نہیں سیکھ پاتے، یا نہیں سیکھ سکتے، یا سیکھنا نہیں چاہتے، وہ ایک مفہوم میں ناکام زندگی گزارتے ہیں۔ یا خود کشی کر لیتے ہیں۔

ہاں، مگر کچھ لوگ ان حالات کو تبدیل کرنے کا بیٹرا اٹھاتے ہیں۔ یہی چند لوگ ہوتے ہیں، جو معاشروں کو تبدیل کرنے کا ہراول دستہ بنتے ہیں۔ مگر ان کے لیے بھی تنظیموں یا جماعتوں کی صورت میں منظم ہونا ضروری ہے۔ اکیلے وہ بھی ایک عام فرد کی طرح کچھ زیادہ نہیں کر سکتے۔ ہاں جبکہ وہ لوگوں میں اثرورسوخ رکھتے ہوں۔

تو سوال یہ ہے کہ اگر لوگ نہیں، تو پھر کوتاہیوں، خرابیوں کے لیے کسے الزام دیا جائے۔ بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ کسے ذمے دار ٹھہرایا جائے۔

ذمے داری کو دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

ایک تو متعین ذمے داری۔ اور دوسری، غیرمتعین ذمے داری۔

متعین ذمے داری وہ ہے، جس میں کسی مخصوص فرد یا گروہ کو ذمے دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ ایک شخص یا کچھ مخصوص لوگوں کے ذمے ایک کام لگایا جاتا ہے، اور اس کام کو کرنے کے لیے انھیں اختیار دیا جاتا ہے۔ اگر وہ اس کام کی انجام دہی میں کوتاہی کرتے ہیں، تو جیسا بھی معاملہ ہو، اس کے مطابق اس شخص یا ان لوگوں کو ذمے دار ٹھہرایا جائے گا۔

غیرمتعین ذمے داری وہ ہے، جس میں ذمے داری کا تعین ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ ذمے داری بہت سے افراد یا لاتعداد افراد پر تقسیم ہوئی ہوتی ہے۔

متعین اور غیرمتعین دونوں قسم کی ذمے داریوں کی بہت سی شکلیں ہو سکتی ہیں۔

متعین ذمے داری کی موجودہ شکلوں میں آئینی ذمے داری، قانونی ذمے داری، یا آئین یا/ قانون کے تحت تفویض ہونے والی ذمے داریاں شامل ہیں۔ جیسے کہ آئین یا/قانون کے تحت کوئی تحقیقاتی کمیشن یا کمیٹی، وغیرہ، تشکیل دی جاتی ہے، اور یوں اس کے سربراہ اور ارکان کو کسی مخصوص کام کو انجا دینےکی ذمے داری سونپی جاتی ہے۔

غیرمتعین ذمے داری کی مروج شکلیں، گروہی ذمے داری، سماجی ذمے داری، وغیرہ ہیں۔

اس میں اخلاقی ذمے داری بھی شامل ہے۔

یہاں ذمے داری کا تعین ناممکن ہے۔ کیونکہ مختلف کوتاہیوں کے لیے ہر فرد ذمے دار قرار پاتا ہے۔

ہاں، اگر کوئی گروہ قابلِ گنتی افراد پر مشتمل ہے، تو ذمے داری کا تعین ممکن ہو جائے گا۔ مگر یہاں گروہ سے ایسے گروہ مراد نہیں۔ کیونکہ ایسے گروہ ممکنہ طور پر منظم گروہ ہوتے ہیں۔ جیسے کہ کوئی تنظیم۔ اور ان گروہوں میں ذمے داری مختلف عہدوں میں منقسم ہوتی ہے۔ یوں ذمے داری کا تعین ممکن ہو جاتا ہے۔

لیکن جہاں تک غیرمنظم گروہوں کا تعلق ہے، ان کے ضمن میں ذمے داری کا تعین ناممکن ہے۔

معاشرے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جب کسی کوتاہی یا خرابی کے لیے معاشرے کو، یا ’’لوگ‘‘ کہہ کر سماج کو ذمے دار قرار دیا جاتا ہے، تو اس کا منطقی مطلب یہ بنتا ہے کہ کوئی ذمے دار نہیں۔

جیسا کہ اوپر لوگوں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اصول و اقدار پر یقین نہیں رکھتے۔

یہ بات خاصی حد تک درست ہے کہ لوگ اصول و اقدار پر یقین نہیں رکھتے، نہ ہی ان کی پیروی کرتے ہیں۔ لیکن اس کوتاہی کے لیے بالعوم انھیں ذمے دار قرار دینا درست نہیں۔

میں یہاں ان معاملات کی بات نہیں کر رہا، جو قانون کے دائرے اور گرفت میں آتے ہیں۔ گوکہ ان معاملات کے ضمن میں بھی، آخری تجزیے کی رو سے، ذمے داری، بیشتر صورتوں میں شہریوں پر عائد نہیں ہوتی۔ مثلاً کسی کام کے لیے رشوت دینے پر اصل ذمے دار سرکاری ملازم ٹھہرتا ہے، کیونکہ وہ آئینی/قانونی اختیار کا حامل ہے۔ اسی طرح، اگر انصاف نہ مل رہا ہو اور خریدنا پڑے، تو منصف اور عدالتی اہل کار ذمے دار ٹھہرتے ہیں (اور اگر اس ذمے داری کو آگے بڑھایا جائے، تو یہ صوبے یا ریاست کے متنظمِ اعلیٰ تک پہنچتی ہے۔)۔ کیونکہ یہ عیاں ہے کہ شہری تو مجبورِ محض ہیں۔

ذمے داری کے تعین سے منسلک ایک مغالطہ یہ بھی ہے کہ اگر ہر فرد اپنی جگہ ٹھیک ہو جائے، تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ریاست و حکومت کی تشکیل و تنظیم میں خرابی ہے، اور جبکہ ریاست و حکومت لامحدود اختیار کی حامل بھی ہیں، تو فرد ٹھیک ہونا بھی چاہے، تو کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔

یوں ایک ایسے معاشرے میں، جہاں آئین وجود رکھتا ہو، ذمےداری کے تعین کے لیے جو درجہ بندی سامنے آتی ہے، وہ آئینی اختیار اور قانونی اختیار کی رو سے پہلے ہی متعین ہوتی ہے۔ مراد یہ کہ صرف ریاست و حکومت ہی نہیں، بلکہ معاشرے سے متعلق مختلف معاملات کے ضمن میں بھی، ذمے داری کا تعین آئینی اور قانونی طور پر ہوتا ہے، اور ہونا چاہیے، اور اسی انداز پر کیا جانا اور سجھا جانا چاہیے۔

کسی کوتاہی، یا ناکامی، یا خرابی کے لیے، لوگوں کو، معاشرے کو، سماج کو الزام دینا، ذمے دار ٹھہرانا صرف اور صرف پریشان خیالی ہے۔

اور جب تک یہ پریشان خیالی ختم نہیں ہوتی، تب تک کسی بھی قسم کی بہتری کی طرف کوئی قدم اٹھنا ناممکن ہے۔

اس کی بڑی مثال الیکشن کمیشن ہے۔ شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات منعقد کروانا کمیشن کی آئینی ذمے داری ہے، مگر  شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات منعقد نہ کروانے پر اسے کبھی ذمے دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ اس کے علاوہ ہر کسی کو ذمے دار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔

سو، ذمے داری کا تعین کیسے کیا جائے، اسی سوال کے جواب میں آگے کیسے بڑھا جائے کا حل موجود ہے۔

لوگوں کو الزام دینے، انھیں ذمے دار ٹھہرانے کا کوئی مطلب نہیں۔ یہ پریشان خیالی پر صاد کے مترادف ہے۔ اس کی تازہ مثال موجودہ غیرآئینی حکومت کے وزیر ریلوے اعظم سواتی کا ریلوے ملازمین سے خطاب ہے، جس میں وہ انھیں ریلوے کی خرابی و تباہی کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔ یہ بھی وہی لوگوں کو الزام دینے والا معاملہ ہے۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments