یہ 2018ء کے عام انتخابات سے دو تین ماہ پہلے کی بات ہے۔
مجھے یاد ہے یہ میرے لیے انتہائی مایوسی اور بے بسی کا دور تھا۔ بے بسی کا دور اس لیے تھا کہ جیسے یونانی دیوی کیساندرا کا معاملہ ہے کہ وہ جو پیشین گوئیاں کرتی ہے، وہ سچ ہوتی ہیں، مگر کوئی ان پر یقین نہیں کرتا۔
بلکہ میری مایوسی اول روز سے موجود تھی۔
جب 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور میں تحریکِ انصاف کا جلسہ ہوا، اس وقت سے مجھے احساس ہو گیا تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ یہ کوئی الہام جیسی چیز نہیں تھی۔ عمران خان کی شخصیت میں اور یوں تحریکِ انصاف میں جو رجحانات ابتدا سے موجود تھے، وہ بتا رہے تھے کہ پاکستان فسطائیت کی تاریکی میں ڈوبنے جا رہا ہے۔
اس معاملے پر میں نے نومبر 2011ء میں ایک مضمون بعنوان، ’’دوسرا عظیم دھوکہ‘‘ لکھنا شروع کیا (پاکستان کے شہریوں کے ساتھ پہلا عظیم دھوکہ پاکستان پیپلز پارٹی (ذوالفقار علی بھٹو) تھی۔)۔ یہ مضمون طویل ہوتا گیا، اور ایک کتاب کی صورت اختیار کر گیا: ’’سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست: پاکستانی سیاست کے پیچ و خم کا فلسفیانہ محاکمہ‘‘۔
ایک دوست، حسان خالد اور میں لاہور کی معروف دکان، ’’ریڈنگز‘‘ کے باہر ٹہل رہے تھے۔ باتوں باتوں میں، میں نے بُجھے ہوئے لہجے میں کہا: اگر کسی طرح تحریکِ انصاف کی حکومت بن جاتی ہے، تو یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دور ہو گا۔
حسان خالد، روزنامہ ایکسپریس میں کام کرتے ہیں۔ انھوں نے اخبار کے لیے میرا انٹرویو کیا تھا، تب سے ان سے دوستی ہو گئی۔ وہ بہت دھیمے شخص ہیں۔ مگر میری بات انھیں بری لگی۔ وہ تحریکِ انصاف کے حق میں تھے۔ ان کا لہجہ معمولی سا تلخ بھی ہوا: وہ کیسے؟ تاریک کیسے ہو گا؟
میں نے اس وقت جو بھی وضاحت کرنی تھی، وہ کی۔ مجھے معلوم نہیں کہ حسان خالد مطمئن ہوئے یا نہیں۔
مگر بعد میں جو کچھ ہوا، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ تین برس ہونے کو آ رہے ہیں۔ اور تاریکی بڑھتی جا رہی ہے۔
حزبِ اختلاف نے خود کو باندھ کر قائمیہ کے پاؤں میں ڈالا ہوا ہے۔ فسطائیت اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔
تاریک ترین دور کب ختم ہو گا، کیسے ختم ہو گا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر ختم ہو بھی گیا، تو اس کے اثرات کب تک باقی رہیں گے۔
کنوئیں میں گرنے سے پہلے تو سوچا سمجھا جا سکتا ہے کہ کنوئیں میں گرنے کے نتائج کیا ہوں گے۔ مگر جب کنوئیں میں گر جائیں، تو پھر نتائج پر کم از کم انسانوں کا اختیار نہیں رہتا۔