ـ نواز شریف (پاکستان مسلم لیگ ن) کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا مقدمہ، قضیہ یا نعرہ گمراہ کن تھا۔
ـ ویسے اب تو یہ نعرہ سیاسی افادیت بھی کھوتا نظر آ رہا ہے۔
ـ اگر اس نعرے کی معنوی ساخت پر غور کریں، تو معاملہ عیاں ہو جاتا ہے۔
ـ ووٹ کو عزت دو، یوں ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے کسی سے کوئی چیز، یعنی عزت مانگی جا رہی ہے۔
ـ کس سے؟
ـ اقتدار کی سیاست کے سیاق و سباق کو سامنے رکھیں، تو پتا چلتا ہے کہ ووٹ کے لیے یہ عزت، قائمیہ (Establishment) سے مانگی جا رہی تھی۔
ـ اور اب یوں باور ہو رہا ہے کہ ووٹ کو تو عزت نہیں ملی، مگر جیسے ووٹ کے لیے عزت مانگنے والوں کو کچھ عزت بخش دی گئی ہے۔
ـ اس اقتداری سیاست سے قطع نظر، اگر آئین کے سیاق و سباق کو سامنے رکھیں، تو جو کچھ سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے:
ـ جب ووٹر انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کو حکمرانی کا اختیار دیتے ہیں، تو یہ اختیار اس کے پاس ایک امانت ہوتا ہے۔
ـ اگر وہ سیاسی جماعت اس اختیار میں کسی ریاستی یا غیرریاستی عامل کو شریک کرتی ہے، تو وہ نہ صرف لوگوں کے ووٹ کی بے حرمتی، بلکہ آئین سے انحراف کی مجرم بھی ٹھہرتی ہے۔
ـ یہاں یہ سوال بے معنی ہے کہ وہ سیاسی جماعت، حکمرانی کا جو اختیار شہریوں نے اسے عطا کیا ہے، اس میں کسی کو اپنی رضا سے شریک بناتی ہے، یا مجبوراً یا کسی دھمکی کے تحت یا کسی لالچ کی خاطر۔
ـ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس سیاسی جماعت نے شہریوں کی طرف سے ملنے والے اختیار کی امانت میں خیانت کی، اور شہریوں سے ’’غداری‘‘ بھی کی۔
ـ لہٰذا، حاصلِ بحث یہ ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ گمراہ کن بھی تھا، اور آئین سے انحراف بھی۔
ـ یعنی یہ نعرہ، اقتداری سیاست کا شوشہ تھا، اور یہی بات اب سامنے آ رہی ہے۔
ـ سوال یہ ہے کہ ووٹ کو عزت دلوانے کا مقدمہ، قضیہ یا نعرہ کیوں سامنے نہیں لایا گیا۔
ـ صاف بات یہ ہے کہ ووٹ کو عزت دلوائی جاتی ہے، مانگی نہیں جاتی۔
ـ یعنی سیاست دان ووٹ کی حرمت کی حفاظت کرنے اور اسے عزت دلوانے سے قاصر ہیں۔