Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے: ایک برتر قبیلے کے برتر اخلاقی شعور کی تحلیل

’آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے۔‘

’آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘

’آپ کو ایسا نہیں لکھنا چاہیے۔‘

’آپ کو ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔‘

یا جیسے کہ سوشل میڈیا پر: ’آپ کو ایسی پوسٹ نہیں کرنی چاہیے۔‘

یہ ہیں وہ کلمات جو بعض اوقات یا اکثر اوقات ہر کسی کو کہیں نہ کہیں کبھی نہ کھی مختلف لوگوں سے سننے کو ضرور ملے ہوں گے۔ اور یقیناً اس ضمن میں لوگوں کا تجربہ مختلف رہا ہو گا۔ کسی کو ایسی باتیں کم اور کسی کو زیادہ سننے کو ملی ہوں گی۔ لیکن غالباً ایسا نہیں ہو گا کہ کسی کو ایسی کوئی بات کبھی سننے کو نہ ملی ہو۔

مجھے بھی مختلف مواقع پر ایسی باتیں سننے کو ملیں۔ زیادہ نہیں، بس چند بار۔ مگر یہ بہت تکلیف دہ تھیں۔ کیونکہ ایسی باتیں اکثر ان افراد کی طرف سے کہی گئیں، جو میرے بارے میں اچھی یا بہت اچھی رائے رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔

واضح رہے یہاں اختلاف کا معاملہ زیرِ بحث نہیں۔ یہ تو لوگ کرتے رہتے ہیں، اور نہایت معقول انداز سے بھی۔ یعنی بدتمیزی اور احساسِ برتری کے ساتھ نہیں۔ اور جو لوگ بالخصوص سوشل میڈیا پر بداطواری اور بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں، انھیں نظرانداز کرنا ہی بہترین عمل ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ توجہ کے بھوکے ہیں یا نہیں۔

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ رویہ کیسے تشکیل پاتا ہے، اور کیوں تشکیل پاتا ہے۔ جہاں تک میری رائے کا تعلق ہے، یہ رویہ یا ایسا ذہن، چیزوں اور افراد کو ایک آدرش پسندانہ دائرے میں بند کر کے دیکھتا ہے۔ یہ رویہ سمجھتا ہے کہ وہ افراد کو جس طرح دیکھنا اور عمل کرتا دیکھنا چاہتا ہے، انھیں اس پیمانے سے ذرہ بھر اِدھر اُدھر سرکنا نہیں چاہیے۔ یہ آدرش پسندانہ پیمانہ خود ان افراد کا تراشا ہوا پیمانہ ہوتا ہے۔

جیسے کہ یونانی رہزن، پروقرسطیس کا معاملہ ہے، جو دیوتا، پوسائیڈن کا فرزند تھا۔ اس کے پاس لوہے کا ایک پلنگ تھا، جسے پروقرسطی پلنگ کے نام سے شہرت ملی۔ جو شخص بھی اس کے ہاتھ لگ جاتا، وہ اسے اس پلنگ پر لٹاتا۔ اگر اس کا قد پلنگ سے چھوٹا ہوتا، تو وہ اسے کھینچ کھانچ کر پلنگ کے برابر کر دیتا۔ اگر پلنگ سے بڑا ہوتا، تو اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیتا۔ دونوں صورتوں میں وہ آدمی مر جاتا۔ ایک نوجوان، طیسیوس کے ہاتھوں، خود پروقرطیس کا انجام وہی ہوا، جو کچھ وہ دوسروں کے ساتھ کیا کرتا تھا۔

اس بات میں دو باتیں مضمر ہیں۔

ایک تو یہ کہ کسی بھی فرد بشر کو اپنے ذاتی آدرش پسندانہ پیمانے پر جانچنا نہیں چاہیے۔ یعنی جہاں تک خود اس فرد کے اپنے ذاتی آدرش پسندانہ پیمانے کی تشکیل کا تعلق ہے، اس کی آزادی کا احترام کرنا چاہیے۔

دوسرے یہ کہ جو آدرش پسندانہ پیمانہ کسی فرد نے تشکیل دیا ہوا ہے، یہ اس کے اپنے لیے ہونا چاہیے، دوسرے افراد کے لیے نہیں۔ یعنی ایک فرد کو اپنے آدرش پسندانہ پیمانے پر صرف خود کو جانچنا چاہیے، دوسروں کو نہیں۔

اس قضیے کا مطلب یہ قعطاً نہیں کہ کسی کے شخص، شخصیت اور اس کے افکار اور اعمال کو جانچنا نہیں چاہیے۔ ان چیزوں پر رائے بنائی جا سکتی ہے، اس کا اظہار کیا جا سکتا ہے، اور ان چیزوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ مگر خود اپنے ذاتی آدرش پسندانہ پیمانے کو استعمال کرتے ہوئے نہیں۔

کیونکہ جب یہ رویہ یا طرزِ عمل اپنایا جاتا ہے، تو وہی کچھ سامنے آتا ہے، جو اس تحریر کا موضوع اور مسئلہ ہے۔

تو جو لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔

ایک تو وہی بات کہ وہ اپنے ذاتی آدرش پسندانہ پیمانے کا اطلاق دوسروں پر کرتے ہیں، جبکہ یہ خود ان کے اپنے شخص، شخصیت، افکار اور اعمال کے لیے مختص ہونا چاہیے۔ یہ تو ہو گئی ایک توجیہہ اس عمل کی جو زیرِ بحث ہے۔

دوسری توجیہہ اس عمل کی یہ کی جا سکتی ہے کہ ایسے لوگ خود کو تمام دوسرے لوگوں سے برتر گردانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاوہ، دوسرے تمام لوگ ایک آزاد اور خودمختار ہستی نہیں۔ یعنی اس کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگوں کا اخلاقی وجود ان کے، یعنی جانچنے والے افراد کے اخلاقی نصب العین کی توسیع ہے۔ مراد یہ کہ یہ جانچنے والے لوگ اخلاقی طور پر ایک برتر شعور کے حامل ہیں، اور جن کو جانچا جا رہا ہے، وہ اخلاقی اعتبار سے کم تر شعور کے حامل ہیں۔

سو یوں یہ لوگ ایک ایسے قبیلے سے منسلک ہو جاتے ہیں، جو اس زعم میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کا اخلاقی شعور، اس مرتبے پر فائز ہے، جہاں سے وہ دوسرے کم تر اخلاقی شعور کے حامل ہماشما کو جانچ سکتا ہے، اور ان پر حکم لگا سکتا ہے۔ اور انھیں ٹوک سکتا ہے۔ اور ان کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ اور انھیں راہ دکھا سکتا ہے۔ یعنی یہ کہ ’آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے۔‘ ’آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘ ’آپ کو ایسا نہیں لکھنا چاہیے۔‘ ’آپ کو ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔‘ یا جیسے کہ سوشل میڈیا پر: ’آپ کو ایسی پوسٹ نہیں کرنی چاہیے۔‘ یہ تمام ایسی روک ٹوک کر سکتا ہے۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قبیلے کے افراد کو یہ حق کہاں سے مل گیا۔ یا کیسے حاصل ہو گیا۔ یا انھوں نے اس حق پر اپنا حق کیسے جتا لیا۔

عیاں ہے کہ انھیں یہ حق کہیں سے نہیں ملا۔ نہ کسی نے دیا۔ نہ کہیں سے عطا ہوا۔ یہ ان کے اندر خود اپنے بارے میں تشکیل پائے برتر اخلاقی شعور کی پیداوار ہے۔ مگر یہ حق ان کے برتر اخلاقی شعور کا حصہ کیسے بن گیا۔

گو کہ اب یہ معاملہ نفیسات کی سرحدوں میں داخل ہو گیا ہے، مگر کچھ سماجی و نفسیاتی پہلوؤں پر تو میں بھی رائے زنی کر سکتا ہوں۔

پہلی بات یہ کہ ایسے افراد کی تربیت اس نہج پر نہیں ہوئی ہوتی، جہاں وہ ہر دوسرے فرد کو اپنی طرح ایک آزاد اور خودمختار فرد کے طور پر دیکھنے کے قابل ہو سکیں۔

دوسری بات یہ کہ ان کا سابقہ اور سامنا اور تعامل ایسے افراد سے زیادہ رہا ہوتا ہے، جہاں انھیں کم تر کی حیثیت دی جاتی ہو گی۔ سو وہ یہی سیکھتے ہیں کہ دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھو اور ان کے ساتھ ایسے ہی پیش آؤ۔

تیسری بات یہ کہ، جیسا کہ فرائیڈ کی بصیرت بتاتی ہے، ان افراد کا احساسِ کم تری، ایک احساسِ برتری کی صورت میں سامنے آتا ہو گا، اور یہ ہر کسی کو کسی نہ کسی اعتبار سے ایک ایسا فرد سمجھنا شروع کر دیتے ہوں گے، جسے وہ رد یا مسترد یا منسوخ کر سکتے ہیں۔

چوتھی بات یہ کہ، جیسا کہ اوپر تینوں باتوں میں ابتدائی تربیت یا تربیت کی طرف اشارہ کیا گیا، تو اس تربیت نے انھیں یہ سکھایا ہی نہیں، یا انھوں نے یہ یہ سیکھا ہی نہیں، کہ افراد سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان کی بات کو دلائل اور شواہد کی مدد سے رد، یا مسترد کیا جا سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ان افراد کو ’’غلط‘‘ قرار دیا جائے۔ انھی رد و مسترد کیا جائے۔ یا ان افراد کو منسوخ کیا جائے۔

لہٰذا، یہ لوگ، ممکنہ طور پر، ہر فرد کی بات کو اسی کی طرف لوٹا دیتے ہیں، جو کوئی بات کہتا ہے، یا مقتبس کرتا ہے، یا نقل کرتا ہے، یا پوسٹ کرتا ہے۔

اب یہ ایک منطقی مغالطہ بھی ہے۔ یعنی دلیل کا جواب دینے کے بجائے، اس شخص کو ہدف بنا لیا جائے، جو دلیل پیش کر رہا ہے۔

تو بھئی ایسے لوگوں کو یہ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہر فرد آپ کی طرح دوسروں کو رد کرنے لگے، یا مسترد کرنے لگے، یا انھیں منسوخ کرنے لگے، تو کیا دھما چوکڑی مچے گی، اور اس آپا دھاپی کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اخبارات کے کالموں، ٹی وی پر منعقد ہونے والے مکالموں، اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر بہت کم استثنیٰ کے ساتھ یہی دھما چوکڑی پہلے ہی مچی ہوئی ہے۔

کیا بات ایسے آگے بڑھے گی۔ کیا بات ایسے آگے بڑھ سکتی ہے۔ کیا بات کبھی ایسے آگے بڑھی۔

کبھی نہیں۔

افراد کے درمیان سب سے بڑی دیوار آداب و اطوار کی دیوار ہے، جسے اخلاقی اصولوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ دیوار ہی انسانی تہذیب کی جان ہے۔ گفتگو، بحث و مباحثہ، مکالمہ، مذاکرہ، استدلال، کچھ بھی ہو، یہ دیوار موجود رہنی چاہیے۔

اور اس کے ساتھ ساتھ اگر بات کو آگے بڑھانا ہے، تو اختلاف کیے بغیر بات آگے نہیں بڑھے گی۔ اور اختلاف کے معاملے میں، دلیل کا جواب دلیل ہی ہے، دلیل کو فرد کی طرف لوٹٓانا نہیں۔ یعنی اختلاف کسی فرد سے نہیں ہوتا، اس فرد کی کسی بات سے ہوتا ہے، اور اختلاف کو اسی دائرے کے اندر رکھنا چاہیے۔

اور اگر کوئی فرد سمجھتا ہے کہ وہ برتر شعور اور برتر اخلاقی شعور کا حامل ہے، اور دوسرے افراد کم تر انسان ہیں، تو مودبانہ درخواست ہے کہ اسے بحث و مباحثے اور رائے زنی سے گریز کرنا چاہیے۔

لیکن مجھے خوف ہے کہ اس کے جواب میں یہ برتر اخلاقی شعور کے حامل لوگ کہیں گے، ’آپ کو ایسا نہیں لکھنا چاہیے۔‘

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments