۔ بایاں بازو، دایاں بازو، لبرل، اور جو بھی ایسے ہی دوسرے انداز ہائے نظر موجود ہیں، یہ سب کے سب اب تک انگریزوں کو رد و مسترد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
۔ یعنی انگریزوں کو گئے، ستر برس سے زیادہ ہو گئے، مگر یہ اب تک ان کو رگیدے جا رہے ہیں۔
۔ (اور یہ چیز قابلِ غور ہے کہ اگر اتنے برس بعد بھی ان کو رگیدا جا رہا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہیں بہت گہرائی میں جا کر کچھ نہ کچھ ایسا ہے جسے اس کی جگہ سے ہلا گئے ہیں۔)
۔ اور اب تک بتایا جا رہا ہے، وہ نہ آتے، تو ہم کہاں ہوتے، اور کیسے ہوتے۔ اور انھوں نے آ کر ہماری ترقی یافتہ تہذیب، ثقافت، صنعت، وغیرہ، کو کیسے برباد کر دیا۔ اور اب تک ہر بری اور غلط چیز کا رشتہ کولونیل دور سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
۔ اب آ جائیں آج کے پاکستان کی طرف۔
۔ ریاست، سیاست، معیشت، عدلیہ، احتساب، اوردوسرے سب کے سب سرکاری ادارے، تباہ ہو چکے ہیں۔ اگر وہاں کام ہو رہا ہے، تو نام کو اور مجبوری میں، اور کم از کم کی سطح پر آ کر۔
۔ اور جو طاقت ور ہے، وہ ہر اصول اور ہر قدر کو روند رہا ہے۔
۔ اور شہریوں نے آئین کی وساطت سے جنھیں حکمرانی کا اختیار دیا ہے، وہ طاقت ور کے تلوے چاٹ رہے ہیں۔
۔ پوری ریاست اور حکومت، منتخب اور نامزد عہدے داروں سمیت، صدر، وزیرِ اعظم، وزرا، مشیران، اور ان کے سرکاری و غیرسرکاری حواری، جج و عدالتی اہل کار، پولیس سربراہ سے لے کر پولیس کانسٹیبل تک، ہر طرح کے سرکاری ملازم، ہر کوئی بادشاہ اور شہزاہ بنا ہوا ہے۔ اس کا طرزِ عمل مغل اشرافیہ کی نقالی سے عبارت ہے۔
۔ ابھی کچھ دن پہلے چند ایک وڈیو سامنے آئیں، جن سے پتا چلا کہ بحریہ کے سربراہ اور پھر فضائیہ کے سربراہ اپنے آبائی گاؤں آئے ہیں، تو ’’ریڈ کارپٹ‘‘ کے مزے لے رہے ہیں۔
۔ یہ وڈیو اور یہ طرزِ عمل حیران کن اس لیے تھا کہ باقی تو ہر جگہ پہلے ہی یہی کچھ ہو رہا ہے، انھیں ذرا ’’شریف‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ اب وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔
۔ مجھے یوں لگا، جیسے انگریز یہاں آئے ہی نہیں۔ جیسے ان کا آنا محض ایک خواب تھا۔ جو دیکھا اور گزر گیا۔ اور بھول گیا۔
۔ جو کچھ یاد رہا، وہ مغلیہ دور کی اشرافیہ ہے۔ آج کے پاکستان کا سلسلہ وہیں جا کر جڑتا ہے۔ یا وہیں سے شروع ہوتا ہے۔
۔ مگر انگریز آئے، اور کتنی مادی چیزیں بنا کر دے گئے۔ علم و فلسفہ، سائنس اور ٹیکنالوجی کو علاحدہ رہنے دیں۔ مادی چیزیں تو ابھی تک اکثر شہروں میں اچھی بری حالت میں باقی دیکھی جا سکتی ہیں۔ تو انگریز خواب کیسے ہو گئے۔
۔ یہی تو میں بھی سوچتا ہوں، وہ خواب کیسے ہو گئے۔
۔ اگر ہم نے ان سے کچھ نہیں سیکھا، تو وہ خواب ہی ہوئے نا۔
۔ چلیں ایک سو سال کمپنی کی حکومت رہی۔ پھر برٹش راج آ گیا۔ پر یہ تو سوال ہی نہیں۔ مسئلہ دو سو سال کا ہے۔
۔ اتنا طویل خواب، کیسے بھول گیا۔ کچھ بھی یاد نہیں۔ کچھ بھی نہیں سیکھا۔
۔ چھلانگ لگائی اور مغل اشرافیہ سے کود کر سیدھے پاکستان آ پہنچے۔
۔ بیچ میں آئے انگریزوں کو سراسر نفی کر دیا۔
۔ بلکہ جو کچھ انگریزوں نے دیا، جو کچھ ان سے لیا، اس پر بھی اشرافی غلاف چڑھا دیا۔
۔ علم و اشیا سمیت ہر شے کو اشرافیہ کے ’’ریڈ کارپٹ‘‘ میں لپیٹ دیا۔
۔ مجھے وہ اصطلاح بھی یاد آئی، اور کتنی بے معنی اور غیرمتعلق معلوم ہوئی۔ ۔ یعنی چونکہ کچھ لوگ انگریزوں کی نقل کرتے تھے، اس لیے ’’کالا انگریز‘‘ کی اصطلاح وضع ہوئی۔
۔ یعنی اصل انگریز چلے گئے، انھیں پیچھے چھوڑ گئے۔ یہ انگریز کے نقال یہیں رہ گئے۔ (اب تو یہ بھی وہیں انگریزوں کے ملکوں میں واپس جا رہے ہیں!)
۔ درست ہے کہ یہ اصطلاح خاص طور پر بیوروکریسی کے لیے استعمال کی جاتی رہی۔ انھیں ہی کالا انگریز کہا جاتا تھا، اور یہاں وہاں اب بھی کہہ دیا جاتا ہے۔
۔ غالباً یہ اصطلاح اینٹی کولونیل (نوآبادیات یا استعماریت کے مخالف) دانشوروں نے گھڑی ہو گی۔ کیونکہ وہ انگریزوں کے مخالف تھے اور ہیں، تو وہ اس بیوروکریسی کو بھی رگیدتے تھے، جس کی تربیت انگریزی راج اور انگریزی بیوروکریسی کے تحت ہوئی تھی۔ اور اسے ’’کالا انگریز‘‘ کہتے تھے۔
۔ مگر دو باتیں سامنے رہنی چاہییں۔
۔ ایک تو یہ کہ ایک عرصے تک بیوروکریسی کی وضع قطع انگریزوں جیسی رہی۔ یعنی یہ ظاہری طور پر انگریز بننے کی کوشش میں رہی، یا اپنی پرانی انگریزی چال ڈھال پر قانع رہی۔ اور یوں کالا انگریز ٹھہری۔ لیکن جلد ہی اس پاکستانی بیوروکریسی کا رویہ اور طرزِ عمل شاہانہ اور اشرافی ہو گیا۔ یہ ’’کالا انگریز‘‘ نہیں رہی۔ ’’کالی اشرافیہ‘‘ یا پھر ’’دیسی اشرافیہ‘‘ بن گئی۔
۔ دوسری بات یہ کہ انگریزوں کی تربیت یافتہ بیوروکریسی نہایت لائق، اہل، دیانت دار اور محنتی تھی۔ تو اس مفہوم میں یہ کالا انگریز تھی، تو اچھا تھا۔ مگر یہ بات اینٹی کولونیل دانشوروں کو ہضم نہیں ہو گی۔ نہ ہو۔ انھیں تو ستر سالوں میں انگریز ہضم نہیں ہوئے۔
۔ تو پاکستان کی باقی چیزوں کی طرح، یہ بیوروکریسی بھی اشرافیہ بن بیٹھی۔
۔ اور دو سو سال طویل خواب ایک ایسا خواب بن گیا، جسے کبھی دیکھا ہی نہیں گیا تھا۔
۔ تو جس ملک کے اربابِ اختیار یعنی آئینی اور قانونی اختیار رکھنے والے لوگ اپنی تاریخ کے دو سو سال کو یوں بھلا دیں، جیسے کہ یہ کبھی تاریخ کا حصہ ہی نہیں تھے، ان کے بارے میں یہ سمجھ لینا کے اشرافی وجود میں ان کی کایا کلپ یعنی قلبِ ماہیت مکمل ہو چکی ہے، بالکل درست ہو گا۔
۔ یہاں جملۂ معترضہ کے طور پر بحریہ ٹاؤن کے معاملات اور ان میں ملوث حکومتوں اور عدلیہ کو بھی یاد کر لیجیے۔ یہ مظہر اس کایا کلپ کا لازمی حصہ ہے۔
۔ عیاں رہے کہ اس اشرافی کایا کلپ کی قیمت اس ملک کے شہری ادا کر رہے ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر، اپنی خوشیاں تج کر، اپنی خوش حالی بھول کر، اپنے مستقبل سے ناامید ہو کر۔ اپنے حقوق اور اپنی آزادیوں سے محروم ہو کر۔
۔ سو سمجھ لیں کہ اس ملک میں اگر آئین موجود ہے، تو نام کو موجود ہے۔ قانون موجود ہے، تو نام کو موجود ہے۔ جمہوریت موجود ہے، تو نام کو موجود ہے۔ سینٹ، قومی اسیمبلی، صوبائی اسییمبلیاں، عدالتِ عظمیٰ سے لے کر سیشن کورٹ اور ضلع کچہری تک، ہر چیز نام کو موجود ہے۔
۔ اصلاً اور عملاً یہاں حکمرانی، ریاستی اشرافیہ کی ہے۔
۔ اور اجلافیہ اس کی رعایا ہیں۔
پس نوشت: ایک اہم چیز رہ گئی۔ انگریز جمہوریت بھی دے گئے تھے۔ بلکہ اس ملک کا قیام اس جمہوریت ہی کا مرہونِ منت ہے۔ لیکن مغل اشرافیہ کے جانشینوں اور وارثوں نے اسے بھی اشرافی جمہوریت میں ڈھال دیا۔ اس نظام کی روح کو قتل کر دیا۔ جسم باقی ہے، جسے نوچ نوچ کر کھایا جا رہا ہے۔ یوں اس خواب کے ایک بڑے حصے کو ایک بھیانک تعبیر میں بدل دیا گیا۔