Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

خورشید ندیم اور جمہوریت کا تاریک مستقبل – میرا جواب

اگر آپ سنجیدہ سیاسی تحریر پڑھنا چاہتے ہیں، تو خورشید ندیم کے کالم پڑھا کیجیے۔

بگڑتے ہوئے حالات کے بارے میں ان کی تشویش بھی اصلی ہے، نقلی نہیں۔

قطع نظر اس سے کہ ان کا سیاسی جھکاؤ ہے یا نہیں، یا کس طرف ہے، آج (10 جولائی، 2021) روزنامہ دنیا میں چھپنے والا ان کا کالم میرے سامنے ہے۔ اس کے عنوان سے مایوسی ٹپک رہی ہے: جمہوریت کا تاریک مستقبل۔

جمہوریت کا مستقبل کیوں تاریک ہے، ان کی نظر میں اس کے پانچ اسباب ہیں۔

پہلا، سیاسی جماعتوں کی اقتداری سیاست۔

دوسرا، سیاسی جماعتوں کو سیاسی جماعت کے طور پر منظم نہیں کیا جاتا۔ یہ اقتدار پسندوں پر مشتمل ایک گروہ ہوتی ہیں۔

تیسرا، وہ مذہبی طبقہ ہے، جو جمہوریت پر یقین نہیں رکھتا۔

چوتھا، دانشور طبقہ ہے، جو محدود جمہوریت کا قائل ہے۔

پانچواں، وہ طاقت ور طبقہ، جو اقتدار اور اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کو نہیں دینا چاہتا۔

چھٹا، نظامِ تعلیم ہے، جو جمہوری سوچ کو پنپنے نہیں دیتا۔

خورشید ندیم سمجھتے ہیں کہ ان اسباب کے خاتمے کے لیے ایک بڑی سماجی تحریک کی ضرورت ہے، جو عوامی سطح پر شعور اجاگر کرے، اس کا مفہوم و مدعا واضح کرے، مخالفین کی پھیلائی غلط فہمیوں کا ازالہ کرے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا، تو سیاست اقتدار کے لیے سودے بازی کا کھیل بنی رہے گی۔

یہ اسباب درست ہیں یا نہیں، مجھے اس سے سروکار نہیں۔ یہاں میں صرف ایک چیز پر توجہ دینا چاہوں گا۔ وہ یہ ہے کہ ان کا یہ تجزیہ، سیاسی نہیں، عمرانیاتی تجزیہ ہے۔ یعنی ایک سیاسی مظہر کو سمجھنے کے لیے ان کا اندازِ نظر سیاسی نہیں، بلکہ عمرانیاتی ہے۔

یہ تجزیہ اس مفہوم میں تو صحیح ہے کہ یہ سیاسی ناکامی کو ایک زیادہ بڑے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر اس مفہوم میں درست نہیں کہ یہ سیاسی تجزیہ نہیں۔ سیاست کی کامیابی یا ناکامی کو سیاسی تجزیے کی مدد ہی سے سمجھا جانا چاہیے۔ وگرنہ ہم بھٹکتے رہیں گے۔ جیسا کہ ان اسباب کے حل کے طور پر ایک بڑی سماجی تحریک کا ڈول ڈالنے کی بات کی گئی ہے۔

یہ سماجی تحریک تشکیل پاتی ہے، یا نہیں۔ اس کی ابتدا کون کرے گا، اور کیوں کرے گا۔ اگر یہ شروع ہو جاتی ہے، تو اس میں کتنا وقت لگے گا۔ اور پھریہ سوال اپنے جگہ موجود رہے گا کہ زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا۔

جہاں تک میری رائے کا تعلق ہے، یہ بہت صاف اور واضح ہے۔ اور میں گذشتہ دس پندرہ برس سے اس کا اظہار کرتا آ رہا ہوں۔ میرا سوچا سمجھا موقف یہ ہے کہ جمہوریت کی ناکامی کے اصل ذمے دار سیاست دان ہیں۔ اگر آپ عمرانیاتی تجزیہ کریں گے، تو یقیناً سیاست دان ایک سبب ہیں۔ لیکن اگر آپ سیاسی تجزیہ کریں گے، تو سیاست دان اصل سبب ہیں۔

عیاں ہے کہ عمرانیاتی تجزیے میں آپ جمہوریت کی ناکامی کے اسباب پورے معاشرے میں ڈھونڈیں گے۔ اور یوں اصل زمے دار کی نشان دہی نہیں ہو پائے گی۔ لیکن اگر آپ سیاسی تجزیہ کریں گے، تو اصل ذمے دار سامنے آ جائے گا۔

سیاسی تجزیے کے لیے آئین کی طرف دیکھنا پڑے گا، جو ایک اخلاقی اور سیاسی دستاویز ہے۔ آئین اقتدار و اختیار لوگوں کے منتخب نمائندوں کو عطا کرتا ہے۔ کیا سیاست دانوں نے ووٹ اور اس انتخاب کی حرمت کے لیے کچھ کیا۔ بلکہ وہ اس سارے کھیل کا فعال حصہ رہے اور ہیں۔ پھر یہ کہ سیاست دانوں نے اس اقتدار اور اختیار میں دوسروں کو شریک بنایا، اس کی ذمے داری بھی ان کے کاندھوں پر ہے۔

یہ ہے ایک سبب اور ایک ذمے دار فریق۔ اگر اس فریق پر معاشرے کی طرف سے دباؤ ڈالا جائے، دانشوروں کی طرف سے دباؤ ڈالا جائے، اور یہ دباؤ عیاں ہے، اور بڑھ رہا ہے، جیسا کہ خورشید ندیم خود اعتراف کرتے ہیں کہ کھیل لوگوں کے سامنے بے پردہ ہو رہا ہے۔ امید ہے کہ اس دباؤ میں وقت کے ساتھ شدت آئے گی، اور سیاست دانوں کو آئین کی حرمت اور پاسداری کے لیے سر اٹھا کر کھڑا ہونا پڑے گا۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments