جیسے فوجی مداخلت ایک حقیقت ہے، اسی طرح، سیاست دانوں کی حیلہ جوئی بھی ایک حقیقت ہے۔
پاکستان کے شہریوں کے اصل ’’مجرم‘‘ سیاست دان ہیں۔ یہ میرا گذشتہ پندرہ بیس برسوں سے بہت سوچا سمجھا نقطۂ نظر ہے۔ گوکہ بہت کم لوگ ہیں، جو اسے ماننے پر تیار ہیں۔
عیاں رہے کہ میں ایک آئین پسند ہوں، اور آئین کی بالادستی، آئینی کی حکمرانی اور ایک آئینی حکومت کے حق میں ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ بہت سے معاملات میں یہ صرف سیاست دانوں کی حیلہ جوئی ہے کہ وہ فوجی مداخلت کو بہانہ بنا کر شہریوں کے لیے کچھ نہیں کرتے، اور اپنا گھر بھرتے رہتے ہیں۔
اسلام آباد (2017) میں ایک تقریب میں پاکستان مسلم لیگ ن کے احسن اقبال بھی مقرر کے طور پر شریک تھے۔ میں نے ان کے سامنے یہ بات کہی کہ کیا یہ فوج ہے، جو آپ کو ٹیکس ریفارمز سے روکتی ہے۔
ایک طویل فہرست ہے، ایسے کاموں کی جو سیاسی جماعتوں کی حکومتیں کر سکتی تھیں، لیکن سات دہائیاں گزرنے کے باوجود انھوں نے کچھ نہیں کیا، اور فوجی مداخلت کا رونا روتی رہیں۔ اب بھی رو رہی ہیں، بلکہ ماتام کر رہی ہیں۔ لڑنے کی سکت بھی نہیں ان میں۔ التجا کرنا، گڑگڑانا انھوں نے اپنے سیاسی مقدرکا حصہ بنا لیا ہے۔ تاکہ بھیک میں اقتدار کے کچھ ٹکڑے مل جائیں۔
خواہ یہ ن لیگ ہو، یا پیپلز پارٹی، انھوں نے جنتی بار حکومت کی، لوگوں کے مسائل میں اضافہ ہی کیا۔ انھوں نے لوگوں پر ریاست اور حکومت کے بوجھ کو کم نہیں کیا۔
تو سابق امریکی صدر، رونالڈ ریگن نے غالباً ایسی ہی سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کے بارے میں کہا تھا کہ حکومت مسئلہ ہے، مسئلے کا حل نہیں۔
جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے، یہ نہ سیاسی جماعت ہے، نہ اس کی حکومت ہے۔ یہ ایک ملغوبے کا معمولی سا حصہ ہے، اور اسی میں خوش ہے۔ لیکن آئین کی رو سے جو بھی تباہی یہ لا رہی ہے اور وسیع سطح پر جو تباہی ہو رہی ہے، اس کے ذمے داری اس کے کاندھوں پر ہے۔
ذیل میں چند کاموں کی فہرست درج کی جا رہی ہے، جو سیاسی اور سویلین حکومتیں کر سکتی تھیں، لیکن انھوں نے نہیں کیا۔ وہ کریں گی بھی نہیں۔
(آپ ان کاموں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی مکمل فہرست نہیں۔)
اور یہ بات بھی عیاں ہے کہ فوج نے انھیں یہ کام کرنے سے نہیں روکا۔ اگر روکا ہے، تو انھیں چاہیے کہ بتائیں اور اصل حقائق کو شہریوں کے سامنے لائیں۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو ’’تھانہ کلچر‘‘ کو تبدیل کرنے سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے نہیں روکا۔
۔ فوج نے سیاسی حکومتوں کو لوگوں کو معیاری سماجی خدمات کی فراہمی سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو سڑکوں پر ٹریفک، ٹریفک قوانین کے مطابق چلانے سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو بجلی، گیس، پیٹرول، وغیرہ، سستا کرنے سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو سٹرکوں پر ہونے والے حادثوں میں کمی لانے سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو ٹیکسوں کی شرح کم کرنے سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو ٹیکس کی انتظامیہ میں اصلاحات لانے سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو ٹیکس اصلاحات سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو سرکاری دفتروں میں عام لوگوں کے استحصال سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو سرکاری دفتروں میں رشوت ستانی کم کرنے یا ختم کرنے سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو ٹیکسٹائل لابی کو اربوں روپے کی سبسڈی دینے کے لیے نہیں کہا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو شوگر لابی کو اربوں روپے کی سبسڈی دینے کے لیے نہیں کہا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو سٹاک ایکسچینج کے بروکروں کو اربوں روپے کی سبسڈی دینے کے لیے نہیں کہا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو دنیا بھر کے دورے کرنے کے لیے تو نہیں کہا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو ایوانِ صدر اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے اخراجات کم کرنے سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو اپنے کل اخراجات کم کرنے سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو ٹیکسوں کی شرح اور ٹیکسوں کی تعداد بڑھانے کے لیے تو نہیں کہا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو سفید ہاتھی بنے ریاستی کاروباروں کی نجکاری سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو بجلی اور گیس کے بلوں میں مختلف طرح کے ٹیکسوں کو ختم کرنے سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو پیٹرول، وغیرہ، پر مختلف طرح کے ٹیکس، وغیرہ، لگانے کے لیے نہیں کہا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو درجنوں قسم کے ودہولڈنگ لگانے کے لیے نہیں کہا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو لوگوں کو سبز باغ دکھانے اور جھوٹے وعدے کرنے کے لیے نہیں کہا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو ریاستی مشینری کو شہری دوست بنانے سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو نظامِ انصاف میں اصلاحات لانے سے نہیں روکا۔
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو ریاستی اداروں میں اصلاحات لانے سے نہیں روکا۔
مجموعی طور پر یہ کہ
ـ فوج نے سیاسی حکومتوں کو ’’اچھی حکمرانی‘‘ قائم کرنے سے نہیں روکا۔
اور اگر روکا ہے، تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی حقائق کو شہریوں کے سامنے لائیں۔