اس معاملے کو جذباتی وابستگی کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ معاملہ جذبات ہی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
یعنی ایسی سیاسی وابستگی جو جذبات پر مبنی ہو۔ جذباتی سیاسی وابستگی۔
صاف بات ہے کہ اس قسم کی وابستگی، عقل و استدلال اور معقولیت و شہادت کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتی۔ کیونکہ جذبات، دلیل اور شہادت کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اٹھا بھی نہیں سکتے۔
یہی سبب ہے کہ کسی بھی قسم کی سیاسی گفتگو میں جذباتی سیاسی وابستگی رکھنے والوں کے جذبات فوراً انگیخت ہو جاتے ہیں۔ وہ مشتعل ہو جاتے ہیں، بھڑک جاتے ہیں، تلخ ہو جاتے ہیں۔ اور اگر دوسرا فریق بھی اسی نوع سے تعلق رکھتا ہو، تو پھر بات گالم گلوچ، یا ہاتھا پائی تک پہنچ سکتی ہے، یا پہنچ جاتی ہے۔ جیسا کہ ٹی وی ٹاک شوز میں اب یا تب ہوتا بھی رہتا ہے۔
اور اگر دوسرا فریق اس نوع سے تعلق نہ رکھتا ہو، تو وہ کمزور جانور کی طرح، جو طاقتور سے مقابلہ نہیں کر سکتا، راہِ فرار اختیار کر لیتا ہے۔ جبکہ سمجھ دار آدمی اس تنازعے میں پڑتا ہی نہیں، اور اس قسم کی جذباتی سیاسی وابستگی رکھنے والی نوع سے بچ کر رہتا ہے۔
لیکن ابھی کچھ ماہ قبل مجھے جذباتی سیاسی وابستگی کی ایک اور نفیس قسم کا سامنا اور تجربہ ہوا۔ اسے جذباتی سیاسی وابستگی کی لکھنوی قسم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ وہ قسم ہے، جو ہر پل عاشق کے دل کی طرح ٹوٹنے کو تیار رہتی ہے۔
ہوا یوں کہ کچھ ماہ پہلے میرے ایک صحافی دوست اور میں ساتھ تھے۔ ان کے جاننے والے ایک تجربہ کار صحافی سے ملاقات ہوئی۔ میرے دوست صحافی نے پہلے ان کا تعارف کروایا۔ یہ ’’ایکسپریس‘‘ میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ سینیئر صحافی ہیں۔
پھر میرا تعارف کروایا۔ میری لکھی چھپی کتابوں کا ذکر کیا۔ میں نے سوچا بجائے زبانی تعارف کے عملی تعارف ہو جائے۔
میری ایک کتاب، ’’سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست: پاکستانی سیاست کے پیچ و خم کا محاکمہ‘‘ ہے، جو اگست 2012 میں شائع ہوئی تھی، ایک عدد میرے جھولے میں موجود تھی، میں نے ان تجربہ کار صحافی کو پیش کی۔ اور بتانے لگا کہ میں نے اس میں لکھا تھا کہ تحریکِ انصاف ’’ڈیلیور‘‘ نہیں کر سکے گی، اور یہ کہ ۔۔۔‘‘ ابھی میں جملہ مکمل نہیں کر پایا تھا کہ انھوں نے لجاجت سے مجھے روک دیا۔ ’’میں تو تحریکِ انصاف کا حامی ہوں۔‘‘
ان کی مراد یہ تھی کہ میرے سامنے تحریکِ انصاف کو کچھ نہ کہو، میں اس کا حامی ہوں۔
میں دل میں تھوڑا سا مسکرایا اور چپ ہو گیا۔ ایسی وابستگی بھی ہوتی ہے۔ یہ تو بالکل وہی بات ہوئی، جیسے لتا منگیشکر کے گائے اس گانے میں بتائی گئی ہے: دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں/یاد اتنا بھی کوئی نہ آئے۔
یہ کیسی وابستگی ہے: نہ نہ میرے سامنے اس کے خلاف کوئی بات نہ کرنا، کہیں میری وابستگی کی نازک رگیں ٹوٹ نہ جائیں۔
یہ تو سیاسی وابستگی کا بہت پہنچا ہوا درجہ ہے۔ جذباتی وابستگی سے بھی بہت آگے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر سیاسی وابستگی اس قسم کی وابستگی تک جا پہنچی ہے، اور وہ بھی صحافیوں میں، تو پھر آگے چل کر کیا ہو گا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پاکستان میں اس قسم کی سیاست کا مستقبل ازحد روشن ہے۔ اور یہاں کے شہریوں کا مستقبل اتنا ہی غیریقینی۔