Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

کلچر کی چکی

نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دُھن کی پوری ہے کام کی پکی
(اسماعیل میرٹھی)

کلچر کی چکی رکتی نہیں۔ چلتی رہتی ہے۔

جب تک روئے زمین پر ایک انسان بھی موجود ہے، کلچر کی چکی چلے جائے گی۔

مگر ایک انسان سے کلچر تشکیل نہیں پاتا۔

روبنسن کروسو کوئی کلچر نہیں بنا سکا۔ اس نے اکیلے زندگی تو گزار لی۔ مگر جس جزیرے پر وہ تن تنہا زندہ رہا، وہاں کوئی کلچر وجود میں نہیں آیا۔ جو جزیرہ تھا، وہ ویسے کا ویسے ہی رہا، جیسا تھا۔

یعنی جب تک روئے زمین پر دو انسان (غالباً مرد اور عورت، اور پھر آبادی) موجود ہیں، اس وقت تک کلچر کی چکی چلے گی، اور چلتی رہے گی۔

مراد یہ کہ کلچر ایک فرد کے زندہ رہنے سے نہیں بنتا۔ جب ایک سے زیادہ افراد مل کر زندہ رہتے ہیں، مل کر رہتے ہیں۔ یعنی بود و باش اختیار کرتے ہیں، تو کلچر خود بخود ان کے درمیان اپنی شکل بنانے لگتا ہے۔ خودرو پودوں کی طرح اُگنے لگتا ہے۔

وہ کھاتے پیتے کیا ہیں۔ سوتے جاگتے کیسے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ میل جول کیسے رکھتے ہیں۔ اپنے عقائد و نظریات پر عمل کیسے کرتے ہیں۔ وغیرہ، وغیرہ۔

مجموعی طور پر یہ کہ صبح کو شام کیسے کرتے ہیں۔ شام کو صبح کیسے کرتے ہیں۔

پیدا کیسے ہوتے ہیں۔ جیتے کیسے ہیں اور مرتے کیسے ہیں۔ محبت کیسے کرتے ہیں۔ اور نفرت کیسے کرتے ہیں۔ شادی بیاہ کیسے کرتے ہیں اور پھر طلاق اور علاحدگی کیسے ہوتی ہے۔ اکٹھے کیسے ہوتے ہیں۔ لڑتے بھڑتے کیسے ہیں۔ خوش کیسے ہوتے ہیں۔ اور غمی کیسے مناتے ہیں۔

یہ سب کچھ کلچر کو بناتا ہے اور کلچر سے بنتا بگڑتا اور سنورتا ہے۔

یہاں تک کہ معیشت اور سیاست کا انداز بھی کلچر سے متاثر ہوتا ہے۔ اور کسی حد تک کلچر کو متاثر بھی کرتا ہے۔ اور کچھ مخصوص حالات میں کہیں زیادہ متاثر کر سکتا ہے۔

کلچر ایک زیادہ بڑا دائرہ ہے۔ معیشت اور سیاست کے دائرے اس سے بڑے نہیں۔

مختصر یہ کہ انسان زندہ رہنے کے لیے پیدا ہوئے یا ہوتے ہیں، مرنے کے لیے نہیں، اور انھوں نے زندہ رہنا ہے، اور زندہ رہنے کی چکی رکتی نہیں۔ رک نہیں سکتی۔ اسے روکنے یا اس کی راہ میں روڑے اٹکانے یا اسے محدود کرنے کی ہر کوشش بھی اسی کلچر کا حصہ بن جاتی ہے۔

جیسے ربڑ کی گیند کو ایک طرف سے دبائیں، تو یہ دوسری طرف سے پھول جاتا ہے، کلچر بھی اسی طرح ہے۔ جب اسے دبانے، یا توڑنے مروڑنے، یا موڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ دوسری طرف کو سرک جاتا ہے، اور پانی کی طرح اپنا راستہ بناتا جاتا ہے۔

لوگوں کو خاص طرح اور خاص انداز سے زندہ رکھنے کی کوشش بھی آخرِکار کلچر ہی میں ڈھل جاتی ہے۔ اور کلچر ہر چیز سمیت اسے بھی اپنے ڈھب پر لے آتا ہے۔

یعنی جب کلچر کی چکی کو کسی اور چکی میں پیسنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو خود یہ چکی بھی کلچر کی چکی میں پِس جاتی ہے۔

کلچر کی چکی انسانوں کے زندہ رہنے سے عبارت ہے۔ انسانوں کی زندگی ہے۔

پھر یہ کہ کلچر ایک خودرو مظہر بھی ہے۔ اس میں انفرادی ارادے اور ان ارادوں پر مبنی سعی بھی شامل ہوتی ہیں، مگر یہ لاتعداد افراد کے مل جل کر زندہ رہنے کے انداز سے نت نئی شکلیں اختیار کرتا ہے، کرتا رہتا ہے۔ اور بدلتا رہتا ہے۔

کلچر کی چکی کو روکنے اور اپنی مرضی سے چلانے کی بہت کوشش کی جاتی ہے، مگر یہ سب کوششیں ایک دن، جلد یا بدیر، خود کلچر کے رنگ میں رنگ کر کلچر بن جاتی ہیں۔

ہاں، انسانوں کو فنا کر دیں، پھر اپنی مرضی کا کلچر بنا لیں یا بنوا لیں۔

مگر جب انسان ہی نہیں رہے، تو کلچر کیونکر وجود میں آئے گا۔

بیشتر ریاستوں، حکومتوں اور مختلف نوع کے گروہوں کو جنون ہوتا ہے کہ وہ کلچر پر دسترس قائم کریں اور اسے اپنی پسند کے مطابق ڈھالیں۔ اور اکثر یہ کوششیں اوپر سے یا دائیں یا بائیں سے مسلط کی جاتی ہیں، جو کچھ دیر کے لیے تو مسلط رہتی ہیں، مگر پھر رفتہ رفتہ جاری کلچر کے مطابق ڈھل جاتی ہیں۔ کلچر انھیں اپنے جیسا بنا لیتا ہے۔

یعنی کلچر ایک ایسا بڑا دھارا ہے، جس میں ہر طرح کی چھوٹی بڑی ندیاں اور نالے اور چشمے شامل ہو کر اس کے ساتھ بہنے لگتے ہیں۔ وہ اس دھارے کے رخ کو تبدیل نہیں کر سکتے، اس کے زور میں، وہ خود اس کی سمت میں لڑھکے چلے جاتے ہیں۔

کلچر کی چکی کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتی۔

مراد یہ کہ انسانوں کو اگر زندگی ملی ہے، تو انھوں نے زندہ تو رہنا ہے، اور پھر وہ اپنی مرضی سے زندہ رہتے ہیں، اپنی مرضی سے زندہ رہنا چاہتے ہیں، اسی طرح لوگوں کے میل جول اور مل جل کر زندہ رہنے اور اپنی مرضی سے زندہ رہنے کی کوششوں سے کلچر جنم لیتا ہے۔ کلچر کو اسی طرح جنم لینا چاہیے۔

اگر کلچر کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی، یعنی اگر لوگوں کے زندہ رہنے کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جائیں گی، تو وہ آج نہیں تو کل پامال ہو جائیں گی۔

کلچر تو اخلاقیات کو بھی نہیں بخشتا۔ اگر اخلاقیات کو لوگوں کے زندہ رہنے کے سامنے ایک دیوار کی طرح کھڑا کیا جائے گا، جو کہ اکثر کیا جاتا ہے، تو لوگ، اخلاقیات کو بھی پھلانگ جائیں گے۔ پھلانگ جاتے ہیں۔ پھلانگ گئے ہیں۔

جیسا کہ اوپر بھی، اشارتاً، ذکر ہوا، کلچر اصل میں نہ صرف انسانوں کی زندہ رہنے کی جبلت (جس کے ساتھ افزائشِ نسل کی جبلت بھی جڑی ہوئی ہے)، بلکہ دوسری بنیادی جبلتوں سے بھی تشکیل پاتا ہے۔ اس میں کچھ سماجی جبلتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔

یعنی کلچر انسانوں کے زندہ رہنے کی مختلف شکلوں کا نام ہے۔ انسان ہوتے اور رہتے ہیں، تو کلچر جنم لیتا ہے۔

عیاں ہے کہ اگر کلچر کو کسی اور طرح جنم لینے پر مجبور کیا جائے، تو یہ ہونے کا نہیں۔ کلچر جنم تو ضرور لے گا۔ جنم تو ضرور لیتا ہے۔ اپنی شکل بدل لے گا۔ اپنی شکل بدل لیتا ہے۔

بہتر ہے کہ ان شکلوں کو خودرو انداز میں سامنے آنے دیا جائے۔ اگر کلچر کو اپنے انداز میں پھلنے پھولنے دیا جائے، تو معاشرے، اخلاقیات کو نہیں تجتے۔ جھوٹ کو برا جانتے ہیں۔ نفاق اور منافقت کا شکار نہیں ہوتے۔

اور یوں وہ سچ کے ساتھ بندھے رہتے ہیں۔ امانت اور دیانت کی اقدار ان کا شیوہ بنی رہتی ہیں۔ اور ان کا کلچر سچائی اور شائستگی کا کلچر بنا رہتا ہے۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments