پاکستان میں اہلِ دانش، عقلِ سلیم (کامن سینس) کو خیرباد کہتے جا رہے ہیں۔ یا خیرباد کہہ چکے ہیں۔ اسی لیے ان میں سے بیشتر کا کام دور کی کوڑی لانا رہ گیا ہے۔ بلکہ دانشوری اسی چیز کا نام بن گئی ہے۔
(دور کی کوڑی شاعر کو لانے دیجیے!)
اور غالباً یہی سبب ہے کہ اگر یہاں سو افراد سرگرم ہیں، تو ان میں سے (غالباً) ننانوے افراد معاشرے کو صحیح کرنا چاہتے ہیں۔
اختلافِ رائے اپنی جگہ، مگر یہ چیز، یعنی معاشرے کو درست کرنے کا معاملہ، خود اپنے منہہ سے بہت کچھ کہہ رہا ہے۔
یعنی یہ کہ پاکستان میں جو بھی اور جیسا بھی مکالمہ جاری ہے، اس پر کس قدر پریشان خیالی چھائی ہوئی ہے۔ بلکہ اس قدر حاوی ہے کہ لوگ سامنے کی چیز بھی دیکھ نہیں پاتے۔
عقلِ سلیم سے دوری اس پریشان خیالی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ وگرنہ سامنے کی بات کسے نظر نہیں آتی۔ کسے نظر نہیں آئے گی۔
شاید اسی وجہ سے بیشتر اہلِ دانش، عمران خان کے جھانسے میں آ گئے۔
میں یہاں جو جملہ لکھنا چاہ رہا تھا، وہ یہ تھا کہ عمران خان کی لچھے دار باتوں میں آ گئے۔ مگر ایسا نہیں۔ بالکل نہیں۔ حاشا و کلا ایسا نہیں۔
مجھے ایک عبرت ناک بات یاد آ رہی ہے۔ پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ایک اجلاس میں فخرزمان نے اپنے سفرنامے کا کچھ حصہ پڑھا۔ اتفاق سے ان دنوں ایک ’’انگریز‘‘ خاتون (اب یاد نہیں کس ملک سے تھیں وہ۔) لنڈا وینٹنک کچھ ادبی تحقیق وغیرہ کے سلسلے میں پاکستان آئی ہوئی تھیں، اور اس اجلاس میں موجود تھیں۔ فخر زمان نے جو واقعہ سنایا، وہ نہایت عجیب و غریب تھا۔ اتنا عجیب و غریب کہ میں اسے آج بھی یہاں لکھنا نہیں چاہتا۔ یقیناً جنسیات سے متعلق تھا۔ لیکن ان خاتون نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’آپ وہاں جو کچھ دیکھنے جاتے ہیں، وہی کچھ آپ کو نظر آتا ہے۔‘
پتا نہیں ان اہلِ دانش نے عمران خان میں کیا دیکھا اور انھیں کیا نظر آیا۔ اور کن آنکھوں سے دیکھا۔ یا وہی کچھ دیکھا، جو یہ دیکھنا چاہتے تھے۔
یا پھر یہ سب اہلِ دانش، ایک دوڑ میں شریک تھے کہ کون دور کی کوڑی پہلے لاتا ہے۔ کون ’’رئیسِ جوہریاں‘‘ مقرر ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ کوئی بھی جوہری نہیں۔ کوئی کوڑی ہاتھ نہیں لگی۔ بلکہ جو کوڑی پاس تھی، اسے بھی گنوا بیٹھے۔
اس ہمہ جہت پریشان خیالی کا ایک اور بڑا سبب علمیاتی برتری کا احساس بھی ہے۔
(یہ احساس کیسے پیدا ہوتا ہے؟ کچھ باتیں تو بالکل عیاں ہیں۔ بظاہر جب کوئی کسی اخبار میں کالم/مضمون، وغیرہ، لکھنے لگے، چھپنے لگے، کسی ٹی وی چینل پر آ کر گفتگو کرنے لگے، کوئی کتاب لکھ ڈالے، وغیرہ، تو وہ علمی برتری کا مجسمہ بن بیٹھتا ہے۔)
فرض کریں اگر ایک عقلی مباحثہ ہو رہا ہے، تو کیا اس مباحثے میں شریک افراد میں سے کوئی خود کو علمی طور پر برتر قرار دے سکتا ہے۔
اگر یہ مباحثہ عقلی ہے، تو ایسا قطعاً نہیں ہو گا۔ کیونکہ عقلی مباحثہ، استدلال اور شہادت پر استوار ہوتا ہے۔ اور بحث کا فیصلہ اسی پر ہوتا ہے۔ اور یہ فیصلہ حتمی نہیں ہوتا۔ مزید دلیل اور مزید شہادت ’’فیصلہ کن‘‘ بات کو الٹا سکتی ہے۔
اور اگر جیت ہوتی ہے، تو وہ اصل میں دلیل اور شہادت کی جیت ہوتی ہے۔
بات یہاں رکتی نہیں۔ علمی برتری کے احساس سے بڑھ کر علمی تکبر تک پہنچ جاتی ہے۔ یعنی، مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ (میرؔ) اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مباحثہ ممکن ہی نہیں رہتا۔
اسی لیے پاکستان میں مباحثہ و مکالمہ موجود نہیں۔ جتنا اور جو کچھ موجود ہے، وہ غیرموثر ہے۔ یا مکالمہ اور مباحثہ نہیں، کچھ اور ہے۔
یہیں سے ایک اور سبب جنم لیتا ہے۔ کیونکہ ظاہری اور مصنوعی علمیاتی برتری کا انحصار رابطے، پہنچ، اور رسائی پر ہوتا ہے، جو جتنا زیادہ رابطوں، پہنچ، اور رسائی کا حامل ہوتا ہے، اس کی علمی برتری اتنی ہی برتر قرار پاتی ہے۔ (یہ بات پرانی ہو گئی کہ جو جتنا اونچا بولتا ہے، وہ علمی اعتبار سے اتنا برتر قرار پاتا ہے!) لہٰذا، یہی چیزیں اہم ہو جاتی ہیں۔ علم، استدلال اور شہادت غیراہم ہی نہیں، غیرضروری بن جاتے ہیں۔
جیسا کہ پاکستان میں کبھی (میں سوچ رہا ہوں، یہاں ’’کبھی‘‘ کتنا درست ہے۔۔۔) اہلیت، لیاقت، اور قابلیت کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ لہٰذا، ان چیزوں کو پنپنے کا موقع نہیں ملا۔ پنپیں بھی نہیں، یہ چیزیں۔
کیونکہ یہ چیزیں پنپیں نہیں، لہٰذا، جو چیز پنپی، وہ حسد اور رقابت ہے۔ بلکہ پنپی کیا، خوب پھلی پھولی۔
یعنی ہوا یہ کہ اہلیت، لیاقت اور قابلیت کے راستے میں ایک اور پہاڑ کھڑا ہو گیا، حسد اور رقابت کا۔
اور یوں مباحثہ اور مکالمہ علمی برتری کی لن ترانیوں کی تنگ نائے میں قید ہو گیا۔
اخباروں کے کالموں اور مضامین میں اور ٹی وی چینلوں پر ہونے والی گفتگو ایسے ہی دعاوی اور دشنام طرازی کا نمونہ مہیا کرنے لگی۔
معذرت کہ تمہید کچھ زیادہ طویل ہو گئی۔ مگر یہ اس حیرانی کا اظہار ہے، جو اہلِ دانش کو سامنے کی چیز اور سامنے کی بات نظر نہ آنے پر ہوتی ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ یہ تمہید اس بحث کا لازمی حصہ بھی ہے، جس پر یہ تحریر متوجہ ہے۔
اوپر قضیہ بیان ہو گیا کہ اکثر سے زیادہ دانشور، معاشرے کو درست یا صحیح کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی دانست میں اسے زوال پذیر سمجھتے ہیں۔
ویسے یہ ایک پرانا رونا دھونا ہے۔ یہ خود ایک سبب بھی ہے کہ بغیر سوچے سمجھے اس قضیے کی تکرار ہوتی رہتی ہے۔ یعنی: غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے۔ (حکیم ناصرؔ)
ایک پنجابی بولی میں بھی یہی دکھڑا سنایا گیا ہے: دنیا لمکدی جاندی/میلہ کوئی ڈنگ دا۔
اس میں ایک لذت پسندی بھی ہے۔ دانشورانہ لذت پسندی۔
ہمیشہ معاشرے کے زوال کا نوحہ لکھا اور پڑھا جاتا رہتا ہے۔
لیکن یہ معاشرہ بھی بڑی ڈھیٹ ہڈی ہے کہ آج بھی ویسے کا ویسے قائم ہے اور چلتا جا رہا ہے۔ آج جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں، اس وقت تک زوال پذیر نہیں ہوا تھا۔
مجھے یہ چیز سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے کہ کیا چیز ہے، جو دانشوروں کو معاشرے میں زوال کا شکار نظر آتی ہے۔ وہ کس چیز کو درست کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہے، جسے وہ صحیح کرنا چاہتے ہیں۔
(کہیں یہ وہی ماضی کا ناسٹیلجیا تو نہیں! جو محض ایک خیالی طلسم ہے!)
[ہاں، مثال کے طور پر، جہاں تک بائیں بازو کے دانشوروں اور پھر کارکنان کا تعلق ہے، وہ لوگوں کو روشن خیال بنانا چاہتے ہیں۔ اور چونکہ لوگوں کی روشن خیالی یا عدم روشن خیالی، بائیں بازو کے معیارات پر پوری نہیں اترتی، لہٰذا، وہ انھیں زوال پذیر قرار دے دیتے ہیں۔]
یہاں زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا اشارہ کرنا چاہوں گا کہ جیسا کہ قدروں کی بات کی جاتی ہے۔ یعنی یہ کہ اخلاقی قدروں کی پاسداری ختم ہو گئی ہے۔ یا سماجی قدریں زوال پذیر ہو گئی ہیں۔
میں اس کا جواب یہ دینا چاہوں گا کہ اخلاقی قدروں کی پاسداری میں کمی ضرور آئی ہے۔ لیکن ایسا نہیں کہ یہ پاسداری بالکل ختم ہو گئی ہے۔
ہاں، اس بات کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں اخلاقی بحران ضرور موجود ہے، اور یہ معاشرے کو نقصان بھی پہنچا رہا ہے، مگر یہ اخلاقیات ہی ہے، جو معاشرے کو قائم رکھے اور جوڑے ہوئے ہے۔ ورنہ معاشرہ کب کا خانہ جنگی کا شکار ہو گیا ہوتا۔ سیاست اور دانشوروں نے تو اسے خانہ جنگی میں جھونکنے کا پورا جتن کر لیا۔ اور سیاست دان اور دانشور اسے خانہ جنگی میں جھونکنے کے لیے اب بھی نت نئے حربے استعمال کر رہے ہیں۔
اور جہاں تک سماجی قدروں کا تعلق ہے، وہ بھی زندہ اور قائم ہیں، گو کہ ان میں تبدیلی آ گئی ہے اور آ رہی ہے۔ کیونکہ افراد اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جو مادی اور ٹیکنالوجی کے ذرائع استعمال میں لاتے ہیں، وہ بدل رہے ہیں اور بہتر ہو رہے ہیں۔ لہٰذا، سماجی قدروں کی ظاہری شکل اور ان کا ڈھانچہ تغیرپذیر ہے۔
یہیں سے اگلے قضیے کا سرا مل جاتا ہے۔ یعنی اگر معاشرے میں اخلاقی قدروں کی پاسداری میں کمی آئی ہے، تو اس کا ذمے دار کون ہے۔
کیا خود معاشرہ ذمے دار ہے؟ کیا وہ لوگ ذمے دار ہیں، جو اخلاقی قدروں کی پاسداری نہیں کرتے؟
میری رائے میں معاشرہ تو قطعاً ذمے دار نہیں۔ بلکہ معاشرہ تو لوگوں کو اخلاقی قدروں کی پاسداری پر اکساتا رہتا ہے۔ مائل کرتا رہتا ہے۔ انھیں ترغیب دیتا رہتا ہے۔ کیونکہ اس کی بقا اور استقرار اس میں پوشیدہ ہے۔
ہاں، وہ لوگ جو اخلاقی قدروں کی پاسداری نہیں کرتے، وہ ضرور ذمے دار ہیں۔ مگر وہ انفرادی طور پر ذمے دار ہیں۔ اگر پورے معاشرے اور حکمرانی کے نظام کو سامنے رکھا جائے، تو انھیں ذمے دار ٹھہرانا مناسب نہیں ہو گا۔
ہم میں سے ہر ایک کو کہیں نہ کہیں اخلاقی قدروں سے انحراف کرنا پڑتا ہو گا۔ کئی بار کرنا پڑتا ہو گا۔ اور ہم میں سے اکثر ایسا مجبوراً کرتے ہوں گے۔ یعنی اگر ہمارے پاس خارج میں آزادانہ انتخاب کے مواقع موجود ہوں، تو ہم میں سے اکثر یہ انحراف نہیں کریں گے۔ اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ انفرادی طور پر ذمے دار ہوتے ہوئے بھی، افراد ذمے دار نہیں۔ کیونکہ جب ہمیں خارج میں موجود آزادانہ انتخاب سے محروم کر دیا جائے گا، تو ہم جس چیز کا بھی انتخاب کریں گے، وہ جبری اور مجبوری کے تحت ہو گا۔
اگر معاشرے میں لوگ اخلاقی قدروں کی پاسداری نہیں کر رہے، اور اخلاقی بحران موجود ہے، تو جو چیز ذمے دار ہے، وہ حکمرانی کا نظام ہے۔ یعنی ریاست اور حکومت اور سیاست۔
انھیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی ریاست کو، حکومت کو، اور سیاست کو صحیح کرنا ہے۔ نہ کہ معاشرے کو۔ یعنی ریاست اور حکومت اور سیاست زوال کی علامت بنی ہوئی ہیں۔
میں نے بارہا یہ لکھا اور کہا ہے کہ قانون کی حاکمیت ہو گی، تو اخلاقی بحران دور ہونا شروع ہو جائے گا۔ یعنی پاکستان میں قانون کی حاکمیت کے قیام کے ذریعے ہی اخلاقیات کا احیا ممکن ہے۔
باقی معاشرے کو صحیح کرنے والے، جتنا مرضی، ’’اصلاحی‘‘ تحریکیں چلا لیں، لوگ اخلاقیات کی پاسداری نہیں کریں گے۔ یوں اخلاقی بحران میں کمی نہیں آئے گی، بلکہ یہ اور گہرا ہوتا جائے گا۔
یہاں اب دو باتیں کھول کر بیان کر دینا مناسب ہے۔
ایک تو یہ ہے کہ آئین کیا ہے، کیا نہیں ہے، اس سے قطع نظر، ریاست/حکومت، آئین میں دیے گئے نظامِ حکمرانی کا جس طرح نفاذ کرتی ہیں، شہری جس طرح اسے معاشرے میں تشکیل پاتا دیکھتے ہیں، لوگوں کی اکثریت اس سے سیکھتی ہے کہ انھیں معاشرے میں کیسے زندہ رہنا ہے۔ کیسے پنپنا اور کیسے پھلنا پھولنا ہے۔
یعنی وہ آئین کی حکمرانی قائم کرتی ہیں، یا آئین کو طاق میں سجا دیتی، اور بوقتِ ضرورت نکال لیتی ہیں۔ اسے توڑتی مروڑتی ہیں۔ اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی سے، (اور پھر اخلاقی قدروں کی پاسداری سے)، شہریوں کی زندگی میں یقین و اعتماد پیدا ہوتا ہے، اور وہ عدم یقین اور عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوتے۔
عیاں ہے کہ لوگ یقین و تحفظ کے احساس کے تحت کیسے زندہ رہیں گے، اور عدم یقین اور عدم تحفظ کے احساس کے تحت کیسے زندہ رہیں گے۔
کیسے زندہ رہتے ہیں، پاکستان کا نقشہ ہمارے سامنے ہے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ معاشرہ اپنے بل پر قائم رہتا ہے، اور اپنے زور پر چلتا ہے، اور چلتا رہتا ہے۔ یعنی اخلاقیات سمیت، یہ سماجی قدروں، روایات اور عصبیتوں، ہمدردی اور تعلقات، روابط اور سب سے بڑھ کر تعاون پر استوار ہوتا اور رواں دواں رہتا ہے۔
یہ ریاست/حکومت اور ان کے حصول کی خاطر جو سیاست کی جاتی ہے، یعنی اقتدار کی سیاست، وہ معاشرے کو خرابی کی طرف لاتی ہے۔ کم یا زیادہ۔ انتشار کا شکار کرتی ہے۔ اور شہریوں کی زندگی میں افراتفری پیدا کرتی ہے۔
کوئی ریاست/حکومت اور سیاست معاشرے کو کم خراب کرتی ہے، اور کوئی زیادہ، کوئی بہت زیادہ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی معاشرے کی بنیادوں کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ اور اب عمران خان نے اس معاشرے کے تاروپود کو تباہ کرنے کا کام سنبھالا ہوا ہے۔
عملاً عمران خان کی موجودہ حکومت کا ہدف ہے ہی معاشرہ۔ ابھی جب اسے حکومت میں نہیں لایا گیا تھا، تب ہی سے اس نے معاشرے کو نفرت و انتقام کے بھٹی میں جھونکنا شروع کر دیا تھا۔ اور حکومت میں آ کر تو یہ کام زیادہ دلجمعی سے کیا جا رہا ہے۔
یعنی جس چیز کو درست اور صحیح کرنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے، وہ ریاست/حکومت ہے۔ جو نہ صرف اخلاقیات کی بدترین دشمن ثابت ہو رہی ہے، بلکہ معاشرے کے تاروپود کو منتشر کرنے کے بھی درپے ہے۔ لہٰذا، اسے اس کے مقام اور اوقات تک محدود کرنا ناگزیر ہے۔
لیکن یہ کام تب ہی ممکن ہے، جب متذکرۂ بالا پریشان خیالی صاف ہو گی کہ کسے صحیح کرنا ہے، معاشرے کو یا ریاست/حکومت کو۔
یہاں میں اس ضمن میں ایک شہادت بھی سامنے لانا چاہتا ہوں کہ اہلِ دانش کیونکر معاشرے کوصحیح کرنے پر متوجہ ہیں۔
مہربان دوست ظفراللہ خان، سیاسی و سماجی طور پر اسلام آباد میں ایک نہایت سرگرم دانشور اور شخصیت ہیں۔ میں فیس بُک پر ان کی باتوں سے اختلاف کرتا رہتا ہوں، گو وہ اس کا جواب نہیں دیتے۔ اسی برس (2021) 7 جولائی کی ایک پوسٹ ملاحظہ کیجیے۔ انھوں نے لکھا (اردو ترجمہ): ’خدا کے واسطے، معاشرے کو اس کی نچلی تہوں تک خراب نہ ہونے دیں۔‘
میں نے رائے دی (اردو ترجمہ): ’ریاست کو سنبھالیں، معاشرہ خراب نہیں ہونے لگا۔‘
ان کی اس پوسٹ کو، 27 اکتوبر تک، 55 لائیک ملے، اور 22 تبصرے۔
میری رائے کو نہ انھوں نے قابلِ اعتنا سمجھا، نہ کسی اور نے۔ یہ صدا بصحرا ثابت ہوئی۔
اسی طرح، 17 اکتوبر کی پوسٹ دیکھیے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ہم سہما ہوا سماج کیوں بن گئے ہیں؟‘‘
اس پر میں نے تبصرہ کیا: ’’بالکل نہیں۔‘‘
ان کی اس پوسٹ کو، 27 اکتوبر تک، 80 لائیک ملے، اور 47 تبصرے۔
حسبِ معمول میری رائے کو ان سمیت کسی نے گھاس نہیں ڈالی۔ کسے نے پوچھنا گوارا نہیں کیا، بالکل نہیں، مگر کیسے۔
میری رائے صدا بصحرا ثابت ہوئی اور اسے انھوں نے، اور دوسرے تبصرہ نگاروں نے بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا، یہ شکوہ نہیں۔ ایک حقیقت کا بیان ہے۔ ایک تجربی حقیقت۔
اور اس تجربی حقیقت کو یہاں پیش کرنے کا منشا محض یہ واضح کرنا ہے کہ کس نوع کی رائے کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ اور یہ کہ لوگوں کی سوچ کا انداز اور رخ کیا ہے۔
عیاں رہے کہ ظفراللہ خان کے بیشتر فیس بک دوست دانشور لوگ تو ہیں ہی، اور اگر خود نہیں تو دانشوروں کے حلقۂ احباب میں ضرور شامل ہیں۔
اوپر درج کی گئی مثالیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ بیشتر کیا دانشوروں کا سارے کا سارا قبیلہ معاشرے کو درست کرنا چاہتا ہے۔ یعنی معاشرے کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ وہ معاشرے میں خامیاں تلاش کر رہے ہیں۔ انھیں معاشرہ، بگاڑ اور خرابی کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ اور وہ اسے درست اور صحیح کرنا چاہتے ہیں۔
آخر میں، میں یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا کہ چلیں مان لیا معاشرے میں کچھ خرابیاں در آئی ہیں۔ کچھ کجی پیدا ہو گئی ہے۔ کچھ چیزیں اصلاح چاہتی ہیں۔
جیسے کہ روایات کی پامالی۔ رسم و رواج کی خرابی۔ وغیرہم۔
مگر اس پامالی اور خرابی کو مختلف کا نام بھی تو دیا جا سکتا ہے۔
معاشرہ ایک متحرک ہستی ہے۔ اس کی ہر چیز بہاؤ اور تبدیلی کے عمل میں ہے۔
نئی سامنے آنے ولی چیزوں میں سے کچھ کو منفی کہہ دیا جاتا ہے، کچھ کو مثبت۔
یہ دورہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ روایت، جدیدیت میں اور جدیدیت، روایت میں شامل اور متشکل ہوتی رہتی ہے۔
یہاں یہ باتیں کہتے ہوئے، میں جس معیار پر انحصار کر رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہر معاشرے کے ہر دور کے لوگ کم از کم اتنی فہم ضرور رکھتے ہیں کہ ان کی حیاتیاتی، سماجی، انفرادی، اجتماعی، روحانی، فکری، جمالیاتی، وغیرہ، بقا کے لیے کیا چیز یا چیزیں ضروری اور ناگزیر ہیں، اور وہ ان کی بقا کے لیے برسرِ پیکار رہتے ہیں۔
ہاں، مگر وہ معاشرے، جہاں ریاست/حکومت، یا ریاست/حکومت پر قابض طبقات، جیسے کہ پاکستان میں ریاستی اشرافیہ، اپنی بقا اور مفاد کی خاطر معاشرے کی تباہی کا بیٹرا اٹھا لیں، وہاں یہ کام مشکل، بلکہ ازحد مشکل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان کی مثال سے عیاں ہے۔
اور یہ مشکل اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے، جب یہ پریشان خیالی چھٹنے کے کوئی آثار بھی نظر نہ آتے ہوں کہ اپنی کوششوں کو کس چیز کی درستی اور تصحیح اور تبدیلی پر مرکوز کرنا ہے، معاشرے پر یا ریاست/حکومت پر۔
ماضی پر نظر ڈالیں تو جو معاشرے بکھر گئے، یا دوسرے معاشروں میں ضم ہو گئے، یا اپنی بقا کا سامان نہ کر سکے، تو یہی دیکھنے کو ملے گا کہ یہ ریاست/حکومت ہی تھی، یا اشرافی طبقات، جنھوں نے ان معاشروں کو تباہی و بربادی سے آشنا کیا۔ اور ان معاشروں کے لوگوں کو ایک ایسے بھنور میں پھنسا دیا، جس سے نکلنا ان کے بس میں نہیں رہا، اور یوں وہ غرقاب ہو گئے۔ یا کسی اور معاشرے میں ضم ہو گئے۔
سو عیاں ہے کہ پاکستان میں بھی ریاست/حکومت نے معاشرے کو اسی کشمکش سے دوچار کر دیا ہے۔ یعنی یہ کہ اس کے شہری اور لوگ اور خاص طور پر وہ لوگ جو عملاً کچھ کرنے کا مادہ رکھتے ہیں، ریاست/حکومت نے انھیں ابتدا ہی میں یا اگلے کسی مرحلے پر کچل دینے کا ایسا سامان پیدا کیا ہے کہ کوئی چوں بھی کرنے کے قابل نہ رہے۔
ایسے میں یہ پریشان خیالی (کہ کسے درست اور صحیح اور تبدیل کرنا ہے، ریاست/حکومت کو یا معاشرے کو) ریاست/حکومت کو درست اور صحیح اور تبدیل کرنے کی مشکل کو دوچند کر دیتی ہے۔ یعنی جب تک یہ پتا ہی نہ کہ کس چیز پر متوجہ ہونا ہے، یعنی یہ کہ ریاست/حکومت پر متوجہ ہونا ہے، یا معاشرے پر، اس وقت تک توجہ اور سعی کس کام کی۔ یعنی جب تک اہلِ دانش اور اہلِ مہارت کی معتد بہ اکثریت اس بات پر یکسو نہیں ہوتی کہ یہ ریاست/حکومت ہے، جسے درست اور صحیح اور تبدیل کرنا ہے، اس وقت تک ریاست/حکومت کو تبدیل کرنا تو علاحدہ رہا، معاشرے کی بقا کا سامان پیدا کرنا بھی مشکل ہو گا۔