عزیز دوست علی سلمان نے فیس پر نعیم بلوچ صاحب کی ایک پوسٹ کی طرف متوجہ (ٹیگ) کیا۔ یہ پوسٹ بیشتر عملی مذہب اور اخلاقیات کے تعلق سے بحث کرتی تھی۔ نعیم بلوچ صاحب، المورد گروہ سے منسلک ہیں، فیلو ہیں وہاں۔ دیکھیے ان کی 10 نومبر بوقت 10:52 PM کی پوسٹ، بعنوان: مادرِ علمی میں۔ مزید دیکھیے اس پر ڈاکٹر رضوان حیدر صاحب کا تبصرہ۔
میں نے علی سلمان سے پوچھا، میں نے پوسٹ دیکھ لی ہے، آیا مجھے تبصرہ کرنا چاہیے، کیا میرا تبصرہ اس گروہ میں قبولیت پائے گا۔ ان کا جواب تھا، بالکل قبول کیا جانا چاہیے۔
سو میں نے متذکرہ پوسٹ اور تبصرےکو سامنے رکھتے ہوئے، اپنی رائے پیش کی۔ یہ نیچے نقل کی جاتی ہے:
’’سلمان صاحب، تو جہ دلانے کا شکریہ۔
توجہ دلانے کا منشا یہی ہو گا کہ میں کچھ رائے زنی بھی کروں، کیونکہ یہ معاملہ خود میرے اندازِ نظر کا لازمی حصہ بھی ہے۔
یہاں ایک تو پوسٹ اور دوسرے ڈاکٹر رضوان صاحب کی وضاحت/تبصرہ میرے پیشِ نظر ہے۔
بلاشبہ بحران بنیادی طور اخلاقی ہے۔ لیکن یہ ایک خاص مفہوم میں اخلاقی ہے۔ اس سے باہر اخلاقی سے بہت بڑھ کر ہے۔
یعنی اس مفہوم میں اخلاقی ہے کہ اگر لوگ اخلاقیات پر عمل پیرا ہو جائیں، تو صرف اخلاقی بحران ہی نہیں، دوسرے بحران بھی، جیسے کہ سماجی، سیاسی، معاشی، وغیرہ، زائل ہونا شروع ہو جائیں گے۔
لیکن جیسا کہ یہ رائے دی گئی کہ لوگ اخلاقیات پر کیوں عمل پیرا ہوں، تو عیاں ہے کہ جتنا بھی کوشش کر لی جائے، لوگ بالعموم اور بالکثرت اخلاقیات پر عمل پیرا نہیں ہوں گے۔
اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ بحران محض اخلاقی نہیں۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس بحث میں ایک خلطِ مبحث در آیا ہے۔ خود میں بھی اس کا شکار رہا ہوں۔ مگر رفتہ رفتہ اس کا تصفیہ ہوتا گیا۔ میں خود غیرشعوری طور پر اخلاقیات کو دوسری چیزوں سے منسلک کرتا رہا تھا۔ جیسا کہ ایک زمانے میں جب وی سی آر آیا، تو یہ دہائی دی گئی کہ لوگوں کا یا بالخصوص نوجوان نسل کا اخلاق تباہ ہو گیا۔ جب انٹرنیٹ کو فروغ ملا، تو پھر یہی شور مچا۔
مراد یہ کہ اخلاقی اقدار کو سماجی اقدار سے متمیز کرنا ضروری ہے۔ سماجی اقدار بدلتی رہتی ہیں اور ان کی شکل بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
یعنی بحران، اخلاقی سے زیادہ سماجی ہے۔ یعنی روایات کی عدم پیروی کا بحران ہے۔ ماضی کے سماجی سانچوں اور ڈھانچوں کی شکستگی کا بحران ہے۔
یعنی دونوں بحران گڈ مڈ ہو گئے ہیں۔ بلکہ کر دیے گئے ہیں۔
اس ضمن میں ایک عامل اور اہم ہے۔ وہ ہے مختلف انداز ہائے فکر کا لگایا جانے والا حکم۔
یعنی جیسا کہ یہاں کہا گیا کہ مذہبی شعائر پر عمل کے باوجود لوگوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ یعنی وہ ان لوگوں سے مختلف نظر نہیں آتے، جو مذہبی شعائر پر عمل نہیں کرتے، یا کم کرتے ہیں۔
یا جیسا کہ بائیں بازو کے لوگ، لوگوں کو روشن خیال بنانا چاہتے ہیں۔ اور ایسا نہ ہونے پر لوگوں کو جہالت میں گرا بتاتے ہیں۔
ان چیزوں کو کسی نہ کسی طرح اخلاقی بحران کے ساتھ ملایا یا ملوث کیا جاتا ہے۔
یہاں جو اضافہ کرنا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ اخلاقی بحران موجود ضرور ہے، مگر یہ تنہا بحران نہیں۔ اور نہ ہی یہ باقی دوسرے بحرانوں کا سبب ہے۔
میں اس بات کو یوں کہنا چاہوں گا کہ بیشتر لوگ اخلاقی اقدار پر عمل پیرا ہیں، مجبوراً یہ بادل نخواستہ، یا جیسے بھی۔ ہم جہاں جہاں رہتے ہیں، ان بستیوں کی طرف، ان گلی محلوں کی طرف مڑ کر دیکھیں، تو ہمیں اخلاقی بحران کے بین شواہد کم ہی نظر آئیں گے۔
لوگ اپنی اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے کام بھی آ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال بھی رکھتے ہیں۔
اور ایسا کہیں کہیں اور ٹاواں ٹاواں ہی ہو گا کہ کوئی کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے پر تلا ہوا ہو۔
یعنی معاشرہ، جس نے نہایت قدیم سے اخلاقیات ایجاد کر لی تھی، اسی اخلاقیات کے بل پر زندہ و قائم ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہنا چاہیے کہ اخلاقیات کو زندہ بھی رکھے ہوئے ہے۔
اس سے یہ قطعاً نہ سمجھا جائے کہ اخلاقی بحران موجود نہیں۔ جہاں تک ’’پبلک لائف‘‘ کا تعلق ہے، وہ اخلاقی بحران سے بری طرح اور پوری طرح سے گہنائی ہوئی ہے۔
لیکن یہ محض اخلاقی بحران نہیں۔ یہ ریاست، حکومت اور سیاست کا بحران بھی ہے۔ بلکہ اس مفہوم میں صرف اور صرف ریاست اور سیاست کا بحران ہے کہ اخلاقی بحران کا بڑا سبب یہی چیزیں ہیں۔ ایک چوتھی چیز اس میں اہلِ مذہب کو بھی شامل کر لیجیے۔ جنھوں نے اخلاقیات کو سرے سے تج دیا ہے، اور مذہب کو سیاست کے تابع کر دیا ہے۔ یعنی جو ’’پولیٹیکل اسلام‘‘ کی بات کی جاتی ہے۔
تاکیداً یہ کہنا چاہوں گا کہ اخلاقیات ابتدا ہی سے موجود ہے، اور انسانی معاشرے کی بنیاد ہے۔ اس کے بغیر معاشرہ بکھر جائے گا۔ معاشرہ اسی پر قائم ہے۔ یہی سبب ہے کہ باقی تمام چیزوں کو اخلاقیات کی رہنمائی درکار ہے، خواہ یہ اہلِ ریاست ہوں، یا اہلِ سیاست، یا اہلِ مذہب۔ اس کے بغیر ان کا وہی حال ہو گا، جو پاکستان میں ہوا ہوا ہے۔
اخلاقی بحران کی مزید وضاحت کی خاطر ایک بات کا اور اضافہ کرنا چاہوں گا۔
یعنی یہ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ اخلاقی بحران خالصاً اخلاقی بحران نہیں۔
یہ اصلاً سماجی اور سیاسی بحران ہے۔
مراد یہ کہ ہم میں سے ہر ایک کو کہیں نہ کہیں اخلاقی قدروں سے انحراف کرنا پڑتا ہو گا۔ کئی بار کرنا پڑتا ہو گا۔ اور ہم میں سے اکثر ایسا مجبوراً کرتے ہوں گے۔ یعنی اگر ہمارے پاس خارج میں آزادانہ انتخاب کے مواقع موجود ہوں، تو ہم میں سے اکثر لوگ یہ انحراف نہیں کریں گے۔ کیونکہ جب ہمیں خارج میں موجود آزادانہ انتخاب سے محروم کر دیا جائے گا، تو ہم جس چیز کا بھی انتخاب کریں گے، وہ مجبوری کے تحت ہو گا۔
اگر معاشرے میں لوگ اخلاقی قدروں کی پاسداری نہیں کر رہے، اور اخلاقی بحران موجود ہے، تو جو چیز ذمے دار ہے، وہ حکمرانی کا نظام ہے۔ یعنی ریاست اور سیاست اور حکومت۔
میں نے بارہا یہ لکھا اور کہا ہے کہ قانون کی حاکمیت ہو گی، تو اخلاقی بحران دور ہونا شروع ہو جائے گا۔ یعنی پاکستان میں قانون کی حاکمیت کے قیام کے ذریعے ہی اخلاقیات کا احیا ممکن ہے۔
باقی معاشرے کو صحیح کرنے والے، جتنا مرضی، ’’اصلاحی‘‘ تحریکیں چلا لیں، لوگ اخلاقیات کی پاسداری نہیں کریں گے۔ یوں اخلاقی بحران میں کمی نہیں آئے گی، بلکہ یہ اور گہرا ہوتا جائے گا۔
یہاں اب دو باتوں کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہو گا۔
ایک تو یہ ہے کہ آئین کیا ہے، اور کیا نہیں ہے، اس سے قطع نظر، ریاست/حکومت، آئین میں دیے گئے نظامِ حکمرانی کا جس طرح نفاذ کرتی ہیں، شہری جس طرح اسے معاشرے میں تشکیل پاتا دیکھتے ہیں، لوگوں کی اکثریت اس سے سیکھتی ہے کہ انھیں معاشرے میں کیسے زندہ رہنا ہے۔ کیسے پنپنا اور کیسے پھلنا پھولنا ہے۔
یعنی وہ آئین کی حکمرانی قائم کرتی ہیں، یا آئین کو طاق میں سجا دیتی، اور بوقتِ ضرورت نکال لیتی ہیں۔ اسے توڑتی مروڑتی ہیں۔ اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی سے، (اور پھر اخلاقی قدروں کی پاسداری سے)، شہریوں کی زندگی میں یقین و اعتماد پیدا ہوتا ہے، اور وہ عدم یقین اور عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوتے۔
عیاں ہے کہ لوگ یقین و تحفظ کے احساس کے تحت کیسے زندہ رہیں گے، اور عدم یقین اور عدم تحفظ کے احساس کے تحت کیسے زندہ رہیں گے۔
کیسے زندہ رہتے ہیں، پاکستان کا نقشہ ہمارے سامنے ہے۔
اور جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا، دوسری بات یہ ہے کہ معاشرہ اپنے بل پر قائم رہتا ہے، اور اپنے زور پر چلتا ہے، اور چلتا رہتا ہے۔ یعنی اخلاقیات سمیت، یہ سماجی قدروں، روایات اور عصبیتوں، ہمدردی اور تعلقات، روابط اور سب سے بڑھ کر تعاون پر استوار ہوتا اور رواں دواں رہتا ہے۔
یہ ریاست/حکومت اور ان کے حصول کی خاطر جو سیاست کی جاتی ہے، یعنی اقتدار کی سیاست، وہ معاشرے کو خرابی کی طرف لاتی ہے۔ کم یا زیادہ۔ انتشار کا شکار کرتی ہے۔ اور شہریوں کی زندگی میں افراتفری پیدا کرتی ہے۔
یہی سبب ہے کہ ریاست اور سیاست دونوں اخلاقیات کی بدترین دشمن ثابت ہوئی ہیں، اور ہو رہی ہیں۔
ایسے میں لوگوں سے یہ توقع رکھنا اور یہ توقع کرنا کہ وہ اخلاقیات (اور مذہب) پر عمل پیرا ہوں گے، یا/اور عمل پیرا رہیں گے، خام خیالی ہے۔ لوگوں کی اکثریت عمل پسند/حقیقت پسند (پریگ میٹک) ہوتی ہے۔ وہ زندہ رہنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ اور ہر طرح کے حالات میں زندہ رہتے ہیں اور زندہ رہنا چاہتے ہیں۔
ریاست، حکومت اور سیاست تینوں مل کر جیسا نظام بنائیں گے، بیشتر لوگ اس کے مطابق ڈھل جائیں گے۔ نظام جتنا بگڑتا جائے گا، اخلاقی، سماجی، وغیرہ، اقدار میں اتنا بگاڑ آتا جائے گا۔
جہاں تک اصلاح اور درستگی کی بات ہے، صرف مذہب، صرف اخلاقیات، (یا صرف کچھ اور)، ان حالات میں کوئی بنیادی تبدیلی لانے سے قاصر رہیں گے۔ (اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ کوشش و سعی نہ کی جائے۔ یقیناً ہر لڑائی بہت سے محاذوں پر لڑی جاتی ہے۔)
جو چیز اہم اور بنیادی ہے، وہ وہ نظام اور ماحول ہے، جسے ریاست، حکومت اور سیاست نے تشکیل دیا ہے۔ جب وہ نظام تبدیل ہونا شروع ہو گا، لوگ بھی تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گے۔
مثال سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک ہے۔ جب ٹریفک قوانین کی پابندی کروائی جائے گی، تو بیشتر لوگ پابندی کرنا شروع کر دیں گے۔ کون ہے جو ٹریفک قوانین کی پیروی نہیں کرنا چاہے گا!
اوپر بھی ذکر ہوا، اخلاقیات کے احیا کا انحصار، آئین اور قانون کی حاکمیت پر ہے۔ کیونکہ ان کی عدم حاکمیت نے لوگوں کو اخلاقی اقدار کی پیروی سے روکا ہے۔ روکا ہوا ہے۔ جب یہ رکاوٹ دور ہو گی، تو لوگ اپنی فطری حالت یعنی اخلاقی حالت کی طرف واپس آنا شروع ہو جائیں گے۔ شکریہ‘‘ میری اس رائے پر نعیم بلوچ صاحب نے یہ تبصرہ کیا: ’’قانون کی قوت سے عمل اور اخلاقی احساس سے ٹریفک اصولوں کی پابندی کرنا دو علیحدہ باتیں ہیں ۔ کسی معاشرے کی اصلاح میں دونوں چیزوں کام آتی ہیں ۔ تیسری چیز معاشرتی روایات ہیں۔ لوگ ان کی وجہ سے بھی بہتر زندگی گزار سکتے ہیں لیکن اس کا انحصار روایت پر ہے اگر روایت میں فری سیکس، منشیات کے استعمال وغیرہ میں کوئی قباحت نہیں اور قانون بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا تو پھر اخلاق کو ڈیفائن کرنا ہو گا۔ ہم پاکستان میں اس ذہن اور فہم کے ساتھ بات کر رہے ہیں کہ ہمیں اسلام جو اخلاقیات سکھاتا ہے وہ ہماری روایت اور قانون کو متعین کرے گا۔
ہمارے ہاں مسائل منافقت ، تفہیم اخلاق ،تعبیر دین اور بے عملی ہے ۔ ہم اس آخری جملے میں بیان کردہ چیزوں میں بہتری کی بات کر رہے ہیں۔‘‘
ان کی اس رائے میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ میری رائے کو قبول نہیں کیا گیا۔ تاہم، میں نے مختصراً کچھ یہ جواب دینا ضروری سمجھا:
’’مختصراً۔
قانون، بالعموم اخلاقیات پر مبنی ہوتا ہے۔ لہٰذا، دونوں میں بہت گہرا تعلق ہے۔ مغرب میں اخلاقیات کی طرف واپسی کا بڑا سبب قانون کی حکومت ہے۔
میں نے اسی لیے اخلاقی قدروں اور سماجی قدروں میں فرق پر زور دیا ہے۔
اخلاقیات ہی وہ ماحول مہیا کرتی ہے، جس میں کوئی بھی چیز خواہ یہ مذہب ہو پنپتا ہے۔ وگرنہ جس منافقت، تفہیم اخلاق، وغیرہ، کی آپ بات کر رہے ہیں، وہ بے معنی رہتی ہے۔ اور یہ بات بہت عرصے سے کی جا رہی ہے۔ اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
میں نے ایک زیادہ بڑے دائرے کی بات کی ہے، جس میں یہ چیزیں تشکیل پاتی ہیں۔ اور اس دائرے سے علاحدہ غالباً انھیں تبدیل کرنا کارے دارد ہو گا۔‘‘
یوں یہ ’’دخل در معقولات‘‘ اپنے انجام کو پہنچا، کیونکہ ان الفاظ کے لکھے جانے تک اس پر کوئی جواب سامنے نہیں آیا تھا۔