Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

ووٹ کو عزت دو – ایک نامکمل سیاسی بیانیہ

سیاسی بیانیے سیاست کا رخ متیعن کرتے ہیں۔

جیسا کہ چند سال قبل مسلم لیگ (ن) کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ سامنے آیا۔ یہ بیانیہ سویلین بالادستی کی عدم موجودگی پر دلالت کرتا تھا، اور کرتا ہے۔ یعنی سول حکومت کی بالادستی کے قیام پر اصرار اس کا خاصہ ہے۔

یہ بیانیہ پاکستان کی سیاسی حقیقت کو مخاطب کرتا ہے۔ اور اس کا حل بھی تجویز کرتا ہے۔ یعنی یہ کہ جس سیاسی جماعت کو ووٹ ملیں، اس سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کی عزت کی جائے۔

لیکن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ ایک نامکمل بیانیہ ہے۔

کیوں؟ اور، کیسے؟

یہ بیانیہ اس لیے نامکمل ہے کیونکہ:

۔ ووٹ کو عزت دلانے کے لیے لڑنے کا عزم کرنے کے بجائے، یہ محض ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا مطالبہ کرتا ہے۔

۔ اس سے یہ باور ہوتا ہے کہ یہ مطالبہ کسی مصلحت سے بوجھل ہے۔ یعنی یہ بیانیہ اس مطالبے کے ذریعے دباؤ ڈال کر کچھ لو اور کچھ دو کی سیاست کرنا چاہتا ہے۔

۔ ابتدا میں جس شد و مد سے اس بیانیے کو آگے بڑھایا گیا، اور بعدازاں، جس طرح پسپائی اختیار کی گئی، اس سے یہ بات عیاں ہوئی کہ یہ بیانیہ مصلحت سے لدا ہوا تھا، اور لدا ہوا ہے۔

۔ پھر یہ کہ جو جماعت (مسلم لیگ ن) اس بیانیے کو سامنے لائی، اس میں ابتدا ہی سے یکسوئی موجود نہیں تھی، اور اس جماعت میں اس بیانیے کے بارے میں دو یا دو سے زیادہ رائیں موجود تھیں۔

۔ سب سے بڑی حقیقت جو اس بیانیے کو نامکمل بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ ووٹر کے بجائے ووٹ کو عزت دو کی بات کرتا ہے۔ یعنی جس طرح گذشتہ سات دہائیوں سے ووٹر کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، اب بھی ووٹر کی عزت کم از کم اس بیانیے کو سامنے لانے والی جماعت کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

۔ پھر یہ کہ ووٹ کو عزت دلانے کا مطلب محض یہ ہے کہ جس سیاسی جماعت کو شفاف اور منصفانہ انتخابات میں مینڈیٹ ملتا ہے، اس جماعت کو عزت ملے گی۔ ووٹر کو عزت نہیں ملے گی۔

۔ ماضی میں بھی جب جب مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں بنیں، ان کے تحت بھی ووٹر یعنی شہری کو عزت نہیں ملی۔

۔ فوجی حکومتوں اور فوج کی سرپرستی میں بننے والی سیاسی حکومتوں میں بھی ووٹر کو عزت نہیں ملی۔ اور پھر یہ بھی کہ یہ دونوں طرح کی حکومتیں، آئین دشمن اور جمہوریت دشمن حکومتیں تھیں۔

۔ مختصر یہ کہ ووٹ کو عزت دو کا سیاسی بیانیہ صرف سیاسی یا سول حکومتوں کی بالادستی کی بات کرتا ہے، جو اس حد تک درست ہے کہ یوں آئین کی بالادستی قائم ہو سکتی ہے۔

۔ لیکن یہ نصف بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئین کی بالادستی کیوں۔ آئین کی بالادستی اس لیے کہ شہریوں کی جان و مال اور ان کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کو تحفظ ملے۔ ان کی عزت و آبرو کو تحفظ ملے۔

۔ مگر ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اس حقیقت کو ایک مرتبہ پھر پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ اور صرف یہ چاہتا ہے کہ سیاسی اور سول حکومتوں کو بالادستی ملے، اور وہ جو دل میں آئے وہ کریں۔

۔ سوال یہ ہے کہ جب کبھی سیاسی اور سول حکومتیں قائم رہیں، تو انھوں نے ووٹر کو کیا عزت دی یا دلوائی۔

۔ جبکہ ووٹر کو عزت دو کا مطلب یہ ہے کہ ووٹر جسے ووٹ دیتا ہے، اس کی حکومت اور بالادستی قائم ہو، اور پھر یوں وجود میں آنے والی حکومت، ووٹر یعنی شہریوں کی خادم بنے۔ تمام ریاستی مشینری شہریوں کی خادم بنے۔

۔ یہ نہ ہو، جیسا کہ گذشتہ 73 برسوں سے ہوتا آ رہا ہے، کہ ہر تھانے میں، اور ہر سرکاری دفتر میں، ہر عام شہری مجرم بنا کھڑا ہو، اور وہ لوگ جو اس کے دیے ٹیکس پر پلتے ہیں، وہ اس کے آقا بنے رہیں۔

۔ یہی سبب ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ ایک نامکمل بیانیہ ہے، اور شعوری یا غیرشعوری طور پر سیاسی جماعتوں کو بالادستی دلانے کی بات کرتا ہے، اور اس بات کو نظر انداز کرتا ہے کہ ووٹر کو عزت کون دلوائے گا۔

ـ یہی سبب ہے کہ کوئی ووٹر یہ پوچھ سکتا ہے کہ وہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کا ساتھ کیوں دے۔

۔ یوں یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ سیاست کے رخ کو متعین نہیں کر سکے گا۔ اگر ووٹ کو عزت مل بھی جاتی ہے، تو سیاست کا رخ تبدیل نہیں ہو گا۔

۔ لہٰذا، جو بیانیہ پاکستان کی سیاست کے رخ کو متیعن کر سکتا ہے اور اسے بدل سکتا ہے، وہ ’’ووٹر کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ ہے۔ یہ ایک مکمل بیانیہ ہے۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments