اس سے پہلے کہ جو بات کہنی ہے، وہ کہی جائے، چند باتیں، جو اس تحریر پر اعتراض کی صورت میں وارد ہو سکتی ہیں، ان کی توضیح ضروری ہے۔
ـ جنگ بہر صورت ایک غیرانسانی فعل ہے۔
ـ جنگ ایک غیراخلاقی فعل ہے۔
ـ لیکن چونکہ اس سے مفر نہیں، لہٰذا، صرف اس جنگ کو جواز دیا جا سکتا ہے، جو اپنے دفاع اور اپنے تحفظ کے لیے لڑی جائے۔
ـ لیکن میں اس گنجائش کو بھی مشروط کرنا چاہتا ہوں۔
ـ یعنی یہ گنجائش صرف ملکی سطح پر قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔
ـ یعنی دو یا زیادہ سیاسی جغرافیائی اکائیوں کے درمیان۔ واحد سیاسی جغرافیائی اکائی کے اندر بالکل نہیں۔ قطعاً نہیں۔ جیسے کہ پاکستان کے اندر۔
ـ ملکوں کے اندر مسائل و تنازعات کے پرامن حل بہرصورت موجود ہوتے ہیں۔ ان کے اندر کسی بھی قسم کے تشدد کو روا نہیں رکھا جا سکتا۔ اِلا کہ کسی نوع کی خانہ جنگی کو قبول کیا جائے۔ وگرنہ ریاست کے قیام کا بنیادی جواز ختم ہو جاتا ہے۔
ـ یہی وہ پس منظر ہے، جو جنگ کو غیرانسانی اور غیراخلاقی بناتا ہے۔
ـ مزید یہ کہ جنگ کوئی بہادی اور بزدلی کا مظاہرہ نہیں۔
ـ بہادری اور بزدلی کے تصورات سماجی تصورات ہیں، اور ’’طاقت کی حکومت‘‘ کے دور سے یادگار ہیں۔
ـ کیا (کم از کم) اپنی جان اور مال کی حفاظت کے لیے کمزور سے کمزور بھی طاقت ور سے لڑ نہیں جاتا؟ کیا اسے بہادری نہیں کہا جائے گا؟
ـ لہٰذا، میں سمجھتا ہوں کہ ترانوے ہزار فوجیوں (انسانوں) کو محض اس وجہ سے موت کی جنگ میں جھونک دینا کوئی بہادی نہیں ہوتی۔ جس جرنیل یا جرنیلوں نے اس نقطے پر پہنچ کر ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا، وہ درست تھا۔
ـ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جنگ، بہادری یا بزدلی کا مقابلہ نہیں۔
ـ آخر میں یہ اظہار ضروری ہے کہ 1970ء کے انتخابات کے مطابق پاکستان میں عوامی لیگ کی حکومت بننی چاہیے تھی۔ یہ سیاسی معاملہ تھا اور یہی اس کا پرامن سیاسی حل تھا۔
ـ مشرقی پاکستان کے لوگوں پر جنگ غلط طور پر مسلط کی گئی۔ یہ ایک غلط جنگ تھی، غیرانسانی اور غیراخلاقی۔