نوٹ: اس تحریر میں وضع کیا گیا نظریہ دو چیزوں سے مشروط ہے۔ اول، صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات، اور، دوم، سیاست میں کسی خارجی عامل یا قوت کی عدم مداخلت۔
(یاد رہے کہ مداخلت بلاواسطہ یا بالواسطہ دونوں صورتوں میں ہو سکتی ہے، جیسا کہ پاکستان میں پراکسی (یعنی نائبی) سیاست بھی ہوتی ہے یا کی جاتی ہے۔)
انتخابات کے تنائج اعداد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ کسی نے اتنے ووٹ حاصل کیے، اور اس کے حریفوں کو اتنے اور اتنے ووٹ ملے۔ اور یوں وہ اپنے حلقے میں اتنے ووٹوں کی برتری سے انتخاب جیت گیا۔ اور دوسرے اتنے ووٹوں سے انتخاب ہار گئے۔
یا شاذ ہی ایسا ہوتا ہے کہ دو یا تین فریقوں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد یکساں ہو جائے۔ جیسا کہ ابھی 19 دسمبر (2021ء) کو خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں ایک حلقے میں دو امیدواروں کو یکساں تعداد میں ووٹ ملے۔
واضح رہے کہ جو نظریہ میں یہاں وضع کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ انتخابات کے نتائج کی تعبیر ممکن نہیں۔ اور یہ کہ نتائج کی کسی بھی نوع کی تعبیر ان کی اہمیت کو گہنا دیتی ہے۔ یعنی یہ نتائج عددی زبان میں جو کچھ کہتے ہیں، تعبیر کی کوئی بھی کوشش نہ صرف انھیں جھٹلاتی ہے، بلکہ ان نتائج کو نت نئے غیرمتعلق اور غیرضروری مفاہیم میں ملبوس اور ملفوف بھی کرتی ہے۔ اور یہ کہ یہ ایک گمراہ کن عمل ہے۔
تعبیر کی سادہ ترین کوشش یوں کی جاتی ہے کہ فلاں پارٹی کو ووٹروں نے ’’مسترد‘‘ کر دیا۔
کیا حقیقتاً ایسا ہی ہوتا ہے؟ بالکل نہیں۔ جس نوعیت کے انتخابات پاکستان میں رائج ہیں، ان میں ووٹ متعدد امیدواروں میں تقسیم ہوتے ہیں، اور جو ایک امیدوار باقی امیدواروں کی نسبت زیادہ تعداد میں ووٹ حاصل کرتا ہے، وہ جیت کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ دوسرے امیدواروں کو صرف اور صرف اس صورت میں ’’مسترد‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے، جب متعلقہ حلقے میں جتنے ووٹروں کا اندراج ہے، وہ تمام کسی ایک امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ اسی طرح، کسی پارٹی کے بارے میں ’’مسترد‘‘ کی تعبیر کو اس وقت استعمال کیا جا سکتا ہے، جب پورے ملک میں جہاں جہاں اس پارٹی کے امیدوار انتخاب لڑ رہے ہیں، وہاں وہاں انھیں ایک ووٹ بھی نہ ڈالا گیا ہو۔
(اس عمل کو پھیلایا بھی جا سکتا ہے، جیسا کہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ کل آبادی کا صرف اتنے فیصد شہری ووٹر ہیں، تو باقی شہریوں کی رائے کہاں گئی۔ یا جیسا کہ کتنے فیصد ووٹر ووٹ ڈالتے ہیں۔ 2020ء کی شماریات کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 11 کروڑ 57 لاکھ 48 ہزار سات سو تریپن ہے۔ جبکہ آبادی دوگنا سے بھی بڑھ کر ہے۔)
یہ دونوں صورتیں عملاً محال معلوم ہوتی ہیں۔ جبکہ نظری طور پر محال نہیں۔ یہی نظری امکان تعبیر کو ناممکن بناتا ہے۔ یعنی اگر عملاً ایک حلقے میں درج تمام ووٹ ایک امیدوار کو ملتے ہیں، تو باقی امیدوار مسترد قرار پائیں گے۔ اسی طرح، پارٹی کا معاملہ ہے۔ یعنی کوئی پارٹی نظری طور پر مسترد ہو سکتی ہے، مگر عملاً اس کا مسترد ہونا محال ہے۔
ہاں، ایک صورت یہ ہو سکتی ہے، اور عملاً ایسا ہوتا رہا ہے اور ہوتا ہے، کہ کسی حلقے میں کوئی ایک امیدوار کھڑا ہوتا ہے، اور یوں جیت اسے عطا ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ معاملہ قواعد، اور ساتھ ہی ساتھ سیاست کے پیچ و خم سے تعلق رکھتا ہے۔
اس صورت کے ساتھ کچھ اور معاملات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک حلقے میں باقی امیدواروں کو ڈرا دھمکا کر یا مالی و دوسری ترغیبات کے ذریعے کسی ایک امیدوار کے حق میں بٹھا دیا جائے۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ انتخابی کمیشن بالارادہ کسی سازش کے تحت باقی امیدواروں کو نااہل قرار دے دے، اور یوں کسی ایک امیدوار کو بلامقابلہ جیتنے کا موقع فراہم کر دے۔
یا کوئی انتخابی ٹریبیونل یا کوئی عدالت بھی ایسا کر سکتی ہے۔
تاہم، ایسا ہونا عملاً محال ہے۔
یا اس ضمن میں قریب ترین صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کسی حلقے میں ایک امیدوار کے علاوہ کوئی دوسرا امیدوار کھڑا ہی نہ ہو۔ یا اس حلقے میں ایک امیدوار کے علاوہ باقی تمام امیدوار نااہل قرار پا جائیں۔ یا ایسی صورت بنے کہ محض ایک امیدوار اہل قرار پائے، یا صرف ایک امیدوار کو ووٹ ڈالے جائیں، وغیرہ۔
اب دوسری کچھ تعبیرات پر بات کرتے ہیں، گو کہ اوپر ایک ابتدائی معیار وضع کر دیا گیا ہے کہ انتخابی نتائج کی تعبیر کیونکر گمراہ کن ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔
ایک اور تعبیر یہ ہوتی ہے، اور یہ تعبیر اس وقت سامنے لائی جاتی ہے، جب انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں میں سے کسی ایک پارٹی کو جیتی گئی نشستوں کے اعتبار سے عددی برتری حاصل نہیں ہوتی۔ یعنی وہ تنہا قومی یا صوبائی اسیمبلی میں حکومت بنانے کی حالت میں نہ ہو۔ تو اس وقت کہا جاتا ہے کہ ووٹروں نے ’’کولیشن (مخلوط) حکومت‘‘ کا مینڈیٹ دیا ہے۔ یا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ووٹروں نے ’’سپلٹ (منقسم یا متفرق) مینڈیٹ‘‘ دیا ہے۔ یہ دونوں تعبیرات خود تعبیر کے معاملے کو مشکوک بناتی ہیں۔ یعنی عددی جیت یا عددی شکست کو ایسے انداز میں پیش کرنے کا جتن کرتی ہیں، جس کے لیے کوئی شواہد دستیاب نہیں ہوتے۔
جبکہ حقیقت میں ایسا ہوتا ہے اور ایسا ہو سکتا ہے کہ مختلف جماعتیں مخلوط حکومت پر رضامند نہ ہو سکیں۔ جوڑ توڑ چلتا رہے، اور کسی نتیجے تک نہ پہنچے۔ اور یوں دوبارہ انتخابات ناگزیر ہو جائیں۔
جیسا کہ یہ معلوم اور عیاں ہے کہ سیاست امکانات کا کھیل ہے، لہٰذا، کسی بھی انتخاب کے نتائج متعدد امکانات سے معمور ہو سکتے ہیں، اور ہوتے ہیں۔ بلکہ نظری طور پر لاتعداد امکانات کے حامل ہو سکتے ہیں۔ جبکہ تعبیرات ان ’’حقیقی‘‘ امکانات کو محدود و متعین کرتی ہیں، اور یوں گمراہ کن ٹھہرتی ہیں۔
یہاں امکانات کو ’’حقیقی‘‘ اس مفہوم میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی نوع کے انتخابات کے نتائج سے سامنے آنے والی صورتِ حال کسی بھی قسم کے امکان کو، خواہ یہ معلوم ہو یا نامعلوم، حقیقت میں ڈھال سکتی ہے۔ ان میں وہ امکانات بھی شامل ہوتے ہیں، جنھیں تعبیر گرفت کرنے کی کوشش کرتی ہے (جیسا کہ ماضی کی مدد سے!)، یا جنھیں گرفت کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اور وہ امکانات بھی، جنھیں جیتنے اور ہارنے والے امیدوار اور پارٹیاں حقیقت کا روپ دیتی ہیں یا دے سکتی ہیں۔ جیسا کہ مخلوط حکومت کن پارٹیوں پر مشتمل ہو گی۔ منقسم مینڈیٹ کی صورت میں سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے، وغیرہم۔
مراد یہ کہ عملی سیاست ایک کھلا میدان ہوتی ہے، اور یہاں امکانات کا ظہور ایک معمول ہوتا ہے۔
مراد یہ کہ اگر سیاست کو اس انداز میں دیکھا اور سمجھا جائے، جبکہ بیان تو اسی انداز میں کیا جاتا ہے، تو تعبیر کی بےبسی عیاں ہو جاتی ہے۔
پھر یہ بھی کہ تعبیر ووٹروں کے مدعا و منشا کو بیان کرنے کی سعی کرتی ہے۔ جبکہ یہ ایک ناکام سعی ہے۔
تو جو بڑا سوال ابھرتا ہے، وہ یہ ہے کہ آیا ووٹر کے مدعا کو جانا اور بیان کیا جا سکتا ہے؟
میرا جواب نفی میں ہے۔
ایک ووٹر اس امیدوار اور اس کی پارٹی (اگر وہ آزاد امیدوار نہیں) کے بارے میں کیا سوچتا ہے، جسے یا جنھیں وہ ووٹ دیتا ہے۔ (واضح رہے کہ متعدد صورتوں میں ووٹر صوبائی اور قومی اسیمبلیوں کے انتخابات میں مختلف پارٹیوں کے امیدواروں کو ووٹ ڈالتے ہیں۔) اور اسی طرح، اس امیدوار اور اس کی پارٹی (اگر وہ آزاد امیدوار نہیں) کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے، جسے یا جنھیں وہ ووٹ نہیں دیتا۔ یہ معاملات ہمیشہ پردۂ اخفا میں رہتے ہیں۔ انھیں کبھی بالیقین جانا نہیں جا سکتا، محض قیاس کیا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ اس ضمن میں خود کسی ووٹر پر بھی یقین نہیں کیا جانا چاہیے، اور کیا بھی نہیں جا سکتا، تاآنکہ وہ (قانونی (جیسا کہ جب خفیہ بیلٹ نہ ہو) یا غیرقانونی انداز میں) مہر لگا ووٹ ظاہر نہ کر دے۔
اس عدم یقین کا سبب یہ ہے کہ ہماری رائیں بہت گہرائی میں جا کر تشکیل پاتی ہیں، اور انھیں عقلی اور خارجی معیارات پر جانچا نہیں جاتا۔ یعنی ہم خود انھیں ان معیارت پر نہیں جانچتے۔ یہی سبب ہے کہ ہم اپنی ان رائیوں کا بین اظہار نہیں کرتے۔ ووٹ کے معاملے کو بھی ایک ایسی ہی رائے ماننا چاہیے۔
فرض کیجیے ایسا نہیں، اور ہم یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہر ووٹر سچائی بیان کر رہا ہے کہ اس نے کس امیدوار یا پارٹی کو ووٹ ڈالا ہے۔ تو دریں صورت یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ پھر خفیہ ووٹ کیوں۔
مراد یہ کہ خفیہ ووٹ کی پشت پر اوپر بیان کیے گئے عامل کے علاوہ، ایک اہم سبب ووٹر کے راز کو اخفا میں رکھنے کا عہد اور پھر اس کے شخص و مال کا جامع تحفظ بھی ہے۔
اب اگر ووٹر کے مدعا و منشا کو جانا نہیں جا سکتا، تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ایک یا دوسری یا تیسری پارٹی کو مسترد کر دیا ہے۔ یا انھیں حزبِ اختلاف میں بھیجا ہے۔ یا کسی ایک پارٹی یا مختلف پارٹیوں (جیسا کہ قومی اور صوبائی اسیمبلیوں میں مختلف پارٹیوں کو ووٹ ڈالنا) کو حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے۔ یا ووٹروں نے مخلوط حکومت کا مینڈیٹ دیا ہے۔ یا ووٹروں نے منقسم یا متفرق مینڈیٹ دیا ہے۔ وغیرہم۔
کیا اس بات کو قائم کیا جا سکتا ہے کہ ہر ووٹر نے، جیسا کہ مثال کے طور پر، مخلوط حکومت کا، یا کسی پارٹی کو حکومت میں جانے کا، یا کسی پارٹی کو حزبِ اختلاف میں جانے کا مینڈیٹ دیا ہے۔ یہ وہ سیاسی امکانات ہیں، جنھیں مختلف سیاسی پارٹیاں جانچیں گی اور عمل میں لانے کی کوشش کریں گی۔
امکانی اور مفروضہ طور پر ہر ووٹر جس امیدوار یا پارٹی کو ووٹ دیتا ہے، وہ انھیں اس امید پر ووٹ دیتا ہے کہ وہ جیتیں اور حکومت میں آئیں۔ آیا کوئی ووٹر کسی پارٹی کو ہارنے کے لیے ووٹ دیتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت تو اس وقت سامنے آتا ہے، جب صوبائی اور قومی اسیمبلیوں کے انتخابات مختلف اوقات میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ اول الذکر انتخابات کے نتائج، بالعموم ثانی الذکر انتخابات کے نتائج پر کم یا زیادہ یا کسی نہ کسی قدر اثرانداز ضرور ہوتے ہیں۔ یعنی جو پارٹی زیادہ یا کم نشستیں حاصل کر رہی ہوتی ہے، بالترتیب اس کی جیت یا ہار زیادہ یقینی ہو جاتی ہے۔ (لیکن یہ عیاں رہے کہ اثراندازی کا یہ تخمینہ انتخابات سے متعلق ان تخمینوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، جو قبل از انتخاب تیار کیے جاتے ہیں، یا جنھیں ایگزٹ پول (خروجی آراء) کہا جاتا ہے، یا دونوں کی بنیاد پر۔)
ہاں، اس صورت کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ بعض صورتوں میں ووٹر کسی پارٹی کے ساتھ اپنی وفاداری کے سبب یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے ہارنے کا امکان دیوار پر لکھا نظر آ رہا ہے، ووٹ ضرور دیتا ہے۔
اس نوع کے ووٹروں کو ان شجیع ووٹروں میں شمار کیا جا سکتا ہے، جو علیٰ الاعلان اعتراف کرتے پھرتے ہیں کہ انھوں نے کس امیدوار یا پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔ مگر ان پر پھر بھی یقین نہیں کیا جانا چاہیے۔ یعنی اصولاً کسی بھی ووٹر پر یقین نہیں کیا جانا چاہیے۔
یہ اور اس جیسی دوسری ممکنہ صورتیں اس بات پر صاد کرتی ہیں کہ ووٹر کے مدعا و منشا کو جاننا بےسود ہے۔ اور یہ کہ اسے جاننے کی ضرورت بھی نہیں۔ ووٹر کا ووٹ اس کی رائے ہے۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہ ووٹر اپنا مدعا اور منشا ووٹ کے ذریعے ظاہر کر دیتے ہیں، اس میں مزید جاننے کے لیے کیا رہ جاتا ہے۔
پھر اسے بھی ایک حقیقت کے طور پر قبول کیا جانا چاہیے کہ ووٹر انفرادی طور پر عمل کرتا ہے۔ فرض کیجیے وہ دوسرے ووٹروں کی آراء سے اثر قبول کرتا ہے، مگر پھر بھی اس کا فیصلہ انفرادی ہوتا ہے، اور اسے انفرادی ماننا چاہیے۔ یعنی ہر ووٹر اپنے مدعا و منشا کا اظہار ووٹ کے ذریعے انفرادی طور پر کرتا ہے۔
مختصر یہ کہ انتخابات کے نتائج کی تعبیر اصل میں ووٹر کے مدعا اور منشا کی تحریف اور تغلیط پر منتج ہوتی ہے۔
یعنی جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، اگر ووٹر کے مدعا اور منشا کو بالیقین جان بھی لیا جائے، تو کیا حاصل ہو جائے گا۔ سیاست کے میدان میں موجود سیاسی پارٹیاں انتخابات کے نتائج منظرِ عام پر آنے کے بعد ان تمام امکانات کی جستجو ضرور کرتی ہیں، جو ان کے لیے ممکن و مفید ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کر پاتیں، تو اس کا نقصان اٹھاتی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ انتخابات کے نتائج کی تعبیر ایک لاحاصل اور گمراہ کن مشق ہے۔ اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا کہ سیاسی دانشور اپنی دانش کا سکہ بٹھانا اور دوسروں کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں۔
تو پھر انتخابات کے نتائج کو کس انداز میں سمجھا جانا چاہیے؟
صرف نظری طور پر نہیں، حقیقتاً اور اصولاً ہونا تو یہ چاہیے کہ ووٹروں کی رائے کو امیدوار کی پارٹی کے انتخابی منشور پر صاد سمجھا جائے۔ مگر شاید اس کا ممکن ہونا محال نہیں تو پاکستان جیسے ملک کی سیاست میں ابھی تک نہایت شاذ ضرور ہے۔
لیکن نظری طور پر ایسا ہی سمجھنا چاہیے۔
اس دلیل کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ برسوں کی سیاست کے ذریعے یا اپنے تیزتر ظہور کے ذریعے، جیسا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا معاملہ بنا تھا، یعنی اپنے سیاسی پروگرام اور سیاست کے ذریعے، سیاسی پارٹیاں اپنا ایک تصور اور تشخص بناتی ہیں، اور بیشتر لوگ اس تصور اور تشخص کو ووٹ دیتے ہیں۔ اور انتخابی منشور پر متوجہ نہیں ہوتے۔
اس سے یہ بات بھی اخذ کی جا سکتی ہے کہ کسی سیاسی جماعت کا جوتصور اور تشخص بن جاتا ہے، اس کا انتخابی منشور اور پھر انتخابی سیاست، یہ دونوں اس کے برعکس نہیں ہو سکتے۔ یا یہ دونوں چیزیں بیشتر اور اہم صورتوں میں اس کے مخالف نہیں ہو سکتیں، اور ہوتیں بھی نہیں۔
یہاں میں اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ دوسرے بہت سے عوامل، خصوصیات اور رجحانات کے علاوہ، ہر سیاسی پارٹی اپنا جو تصور اور تشخص بناتی ہے، اس کے بغیر پاکستان کی سیاست اور بالعموم سیاست کو سمجھنا اگر ناممکن نہیں، تو نہایت مشکل ضرور ہو گا۔
یہ رہنما اصول پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے ضمن میں نہایت موثر سمجھا جانا چاہیے، جہاں کے لوگوں کو یہ الزام دیا جاتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر نابالغ اور ناخواندہ ہیں، اور جن کی سیاسی وابستگی، سیاسی کم اور غیرسیاسی زیادہ ہے۔
اوپر انتخابی نتائج کی تعبیرات سے متعلق جو نظریہ وضع کیا گیا، یہ اصول اسے بھی مستحکم کرتا ہے۔ مراد یہ کہ لوگوں کے ووٹ کو ان کی سیاسی نابالغیت اور ناخواندگی سے منسوب کیا جاتا ہے، اور یہ کہا جاتا ہے کہ جیسا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ لوگ ایک فرقے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یعنی ان کی سیاسی وابستگی کو سیاسی اصطلاحات میں سمجھا جا سکتا ہے، نہ بیان کیا جا سکتا ہے۔
بلکہ مجموعی طور پر عام لوگوں کی سیاسی وابستگی کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ان کی سیاسی خودمختاری اور ان کے اختیار کو گھٹانے اور مشروط کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ اور اسی درخت سے وہ شاخ بھی پھوٹتی ہے، جو بعدازاں، انتخابی نتائج کی تعبیرات سے بارآور ہوتی ہے۔ یعنی کیونکہ لوگوں کو معلوم نہیں تھا، انھیں علم نہیں تھا، یا انھیں درست آگاہی حاصل نہیں تھی کہ کسے ووٹ دیں اور کسے ووٹ نہ دیں، لہٰذا، اب جبکہ انھوں نے ووٹ دے دیا ہے، تو ان کی رائے کو ایک مفہوم دینا ضروری ہے۔
ایک مرتبہ پھر اس مثال کی طرف آتے ہیں، جیسا کہ لوگوں کا مخلوط حکومت کے لیے مینڈیٹ دینا۔
یہاں یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ بھئی کس ووٹر نے یہ سوچا تھا، یا کیا تمام یا بیشتر ووٹروں کا کوئی اجلاس ہوا تھا، جہاں یہ طے کیا گیا کہ مخلوط حکومت کے لیے ووٹ دینا ہے۔ اور پھر انھوں نے اس منصوبے کے تحت کسی سیاسی جماعت کو زیادہ نشستیں جیتنے نہیں دیں، اور اپنے ووٹ کو بکھیر دیا۔
یوں یہ چیز بھی سامنے آتی ہے کہ انتخابی نتائج کی تعبیرات کے ڈانڈے سازشی نظریے سے بھی جا ملتے ہیں۔ یعنی جیسا کہ ووٹروں نے کوئی سازش کی اور پھر اس کے تحت ووٹ ڈالے گئے۔
تعبیر کے نظریے کے ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ انتخابی نتائج آنے کے بعد، یعنی ایک واقعہ ہونے کے بعد ان کی تعبیر کی جاتی ہے، یا یہ بتایا جاتا ہے کہ ان نتائج کا معنی و مفہوم کیا ہے۔ کیونکہ ان نتائج کو بدلا نہیں جا سکتا، اور انھیں درست تسلیم کیا جاتا ہے، لہٰذا، جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہ بس درست کے طور پر ان کی کوئی تعبیر ہے۔ جیسا کہ تشریح کا معاملہ ہے، جہاں متن کو درست مان کر اس کی تعبیر کا کام کیا جاتا ہے۔
ابھی غالباً مزید اور گوشے ہوں گے، جہاں تعبیرات کا نظریہ تہہ در تہہ ملفوف ہو گا۔ ان پر پھر کبھی بات ہو گی۔
یہاں آخر میں اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ انتخابی نتائج کی تعبیرات کا نظریہ ایک خطرناک نظریہ ہے۔ یہ اصل میں ووٹر کی رائے کو بےتوقیر کرنے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی بالادستی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ بلکہ ووٹر کی خودمختاری اور اس کے اختیار کی جڑیں بھی کاٹنا چاہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کا رد ضروری تھا۔