اگر آپ اپنی بات پر قائم ہیں، میں اپنی بات پر قائم ہوں، تو بات آگے کیسے بڑھے گی؟
کچھ عرصے سے یہ معاملہ مجھے ان مباحث میں معلق نظر آ رہا تھا، خود میں بھی جن مباحث کا حصہ تھا۔
ہر کوئی اپنی ایک رائے رکھتا ہے۔ اکثر بحث اس بات سے فیصل ہو جاتی ہے کہ ہر کسی کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔
تو کیا یہ کوئی رائے سازی کا مقابلہ ہے۔ یعنی ہر کوئی اپنی ایک رائے رکھتا ہے، یا نہیں۔ یا ہر کوئی ہر دوسرے کو اپنی رائے سنا بتا دے، اور بات ختم۔
ایک حل جو فوری طور پر میرے ذہن میں ابھرتا ہے، وہ کچھ یوں ہے۔
دوست علی سلمان کا بحث کا انداز نہایت شائستہ اور تسلیمی ہے۔ مثلاً کوئی بات کی جاتی ہے، وہ اس پر کوئی صفائی مانگتے ہیں یا اعتراض کرتے ہیں۔ آپ صفائی پیش کرتے ہیں، یا اعتراض کا جواب دیتے ہیں، اور وہ کہتے ہیں، ’’فیئر اینف‘‘ (مناسب طور پر معقول)۔
مراد یہ کہ ہونا تو یہی چاہیے۔ یا بحث کچھ اور آگے چل کر اسی بات پر ختم ہونی چاہیے۔ یعنی ایک مرحلے پر بحث کا نتیجہ مناسب طور پر معقول کی صورت میں تسلیم ہونا چاہیے۔
ضروری نہیں کہ ہر بحث کا نتیجہ یوں ہی نکلنا چاہیے۔ لیکن یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ کسی بحث کا نتیجہ یوں نہ نکلے۔
مگر عملاً ایسا ہوتا نہیں۔ بات بڑھتی اور بگڑتی جاتی ہے، اور اختلاف کم ہونے کے بجائے گہرا ہو جاتا ہے۔ اس کی ان گنت وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یہاں ان کے بیان کا موقع نہیں۔
اس ضمن میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بحث میں شامل فریقین کا مقصد کیا ہے۔ گو کہ اس مقصد کو کبھی جانا نہیں جا سکتا۔ اس کے بارے میں اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ یعنی یہ کہ فریقین بحث سے دوسرے فریقوں کو قائل کرنا چاہتے ہیں، یا بس اپنی بات سنانا چاہتے ہیں۔ یا کچھ اور۔
ایک معقول بحث میں اس نوع کے مقاصد چھپے ہو سکتے ہیں۔ مگر بحث کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے جو چیز ضروری ہے، وہ اکتساب و تسلیم ہے۔ یعنی کسی نکتے کو سمجھنا اور قبول کرنا۔
کہنے کو یہ بہت معمولی بات ہے، مگر نتائج کے اعتبار سے نہایت غیرمعمولی ہے۔ اور اس تحریر کا منشا اسی بات کو سامنے لانا اور پیش کرنا مقصود تھا۔
مختصر یہ کہ اگر ہم اپنی اپنی رائے پر اڑے رہیں گے، اور بحث کو ’’اکتساب‘‘ (یعنی کسی نئی بات کو سیکھنا اور اسے قبول کرنا) کا ایک ذریعہ نہیں سمجھیں گے، تو یہ کبھی نتیجہ خیز نہیں ہو گی۔ اور یہی وہ سبب ہے کہ ہم کبھی عمل کی طرف رجوع بھی نہیں کر سکیں گے۔ اور کر بھی نہیں رہے۔
یوں بات کبھی آگے نہیں بڑھے گی، اور بڑھ بھی نہیں رہی۔