Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

ریاستی اشرافیہ کا نظریہ: ایک اہم نکتہ

ابھی انھی دنوں امریکہ کے چوتھے صدر، جیمز اے میڈیسن (1751-1836) کا ایک قول/اقتباس دیکھنے کو ملا۔

میڈیسن امریکہ کے ان تین اہم بانیوں میں سے ہیں، جنھوں نے ’’وفاق پسند مباحث‘‘ (The Federalist Papers) میں حصہ لیا اور یوں امریکی آئین کی توثیق کو ممکن بنایا۔ دوسرے دو، الیگزینڈر ہیملٹن اور جان جے ہیں۔

پہلے اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے:

’’قانون سازی، انتظامی اور عدالتی، تمام اختیارات کے یکساں ہاتھوں میں ارتکاز کو، خواہ یہ کوئی ایک (فرد) ہو یا متعدد (افراد)، اور خواہ یہ وراثتی ہو، خودمقررہ، یا انتخابی، درست طور پر استبدادیت کی تعریف مانا جا سکتا ہے۔‘‘

میڈیسن کا یہ اقتباس وفاق پسند مباحث 47 اختیارات کی تقسیم سے بحث کرتا ہے۔

جس نکتے کو میں سامنے لانا چاہتا ہوں، وہ میڈیسن کی بات میں اس اضافے پر مبنی ہے کہ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ سے متعلق تمام اختیارات ضروری نہیں ایک یا چند افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہوں۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ اختیارات اس فرد یا ان افراد کو ورثت میں ملتے ہوں، یا وہ خود کو خود نامزد اور مقرر کرتے ہوں، یا وہ فرد یا یہ افراد انتخاب کے نتیجے میں یہ اختیارات حاصل کرتے ہوں۔

میڈیسن کا اصل نکتہ ان اختیارات کے ارتکاز سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی ان اختیارات کا یکساں ہاتھوں میں جمع ہو جانا، استبدادیت کی تشکیل کرتا ہے۔ یہ یکساں ہاتھ لمبے بھی ہو سکتے ہیں، اور توسیع بھی پا سکتے ہیں۔

یعنی یہ ایک فرد بھی ہو سکتا ہے، اور چند افراد بھی ہو سکتے ہیں، اور یوں مختلف قسم کے افراد کا ایک اجتماع یا اتحاد بھی ہو سکتا ہے، جن کے ہاتھوں میں یہ تمام اختیارات مجتمع ہو جائیں۔ یا مختلف طبقات کا اجتماع یا اتحاد بھی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنی کتاب، ’’پاکستان میں ریاستی اشرافیہ کا عروج‘‘ میں دکھایا۔

پاکستان میں جو پارلیمانی نظام رائج ہے، اس میں مققنہ، انتظامیہ اور عدلیہ سے متعلق اختیارات کی علاحدگی اور تقسیم آئین میں تو موجود ہے، لیکن عملاً یہ تقسیم نمائشی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہی چیز تھی اور ہے، جو میرے لیے بھی اور دوسرے بہت سے لوگوں کے لیے پریشانی اور پریشان خیالی کا سبب رہی ہے، اور ہے۔ لیکن میڈیسن کے اس اقتباس نے مجھے جو نکتہ سمجھنے میں مدد دی، وہ اس پریشانی اور پریشان خیال کا تصفیہ کر دیتا ہے۔

عیاں ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کے مختلف طبقات کے ڈھیلے ڈھالے اتحاد نے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ سے متعلق تمام اختیارات کو یکساں ہاتھوں میں مرکوز کر لیا ہے۔ یعنی یہ تمام اختیارات ریاستی اشرافیہ کے ہاتھوں میں مرتکز ہیں، اور یوں پاکستان میں ریاستی اشرافیہ نے استبدادیت قائم کی ہوئی ہے۔

یعنی آئین، پارلیمانی نظام، جمہوریت، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اختیارات کی علاحدگی اور تقسیم ایک دکھاوا ہیں۔ اصل میں تمام اختیارات ریاستی اشرافیہ کی دسترس میں ہیں، اور یوں عملاً پاکستان کا نظام استبدادیت کی تعریف پر سو فیصد پورا اترتا ہے۔

5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Imtiaz
Imtiaz
2 years ago

The British left behind a system which they don’t practice back home. They needed to purchase loyalty of local troops to use them against local people; they cultivated a laborious and corrupt judicial system and police so that the locals dissipate their energies. They had an administrative service which was there to keep locals in check and had no KPIs for economic well-being of the locals, while they themselves enjoyed powers and privileges. They landlords and rajas were also dependent on the British largesses for their opulent lifestyle. Now all these classes have a common interest to live off the common man’s toil.
This is what you call “ Ashraafia “ or the rentier class.