Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

انگریز ہندوستان کیا کرنے آئے تھے

اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انگریز ہندوستان آئے تھے تو انھیں ہمیں کچھ دینے کے لیے آنا چاہیے تھا۔

یہ وہ بنیادی قضیہ ہے، جس کی بنیاد پر تمام قسم کی انگریز دشمنی استوار ہوئی ہے۔

ان لوگوں میں بایاں بازو، نوآبادیات دشمن (اینٹی کولونیل) دانشور اور اہل الرائے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

دائیں بازو کا دعویٰ بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ وہ اس بات پر ذرا زیادہ زور دے دیتے ہیں کہ انگریز یہاں مسلمانوں سے حکومت چھیننے اور مسیحیت کی تبلیغ کرنے آئے تھے۔

نفسیات دانوں کو اس بنیادی قضیے کے پیچھے کارفرما نفسیاتی محرکات کو سامنے لانا چاہیے۔

جہاں تک اس قضیے کی پشت پر موجود سماجی، سیاسی اور معاشی فکر کا تعلق ہے، تو اسے مختصر انداز میں نیچے بیان کیا جاتا ہے۔

ـ سماجی: وہ یہاں ہماری تہذیب، مذہب، اور روایات کو خراب کرنے آئے تھے۔ وغیرہ۔

ـ سیاسی: وہ یہاں اپنی حکومت اور بالادستی قائم کرنے آئے تھے۔ وغیرہ۔

ـ معاشی: وہ یہاں ہندوستان کی دولت لوٹنے آئے تھے۔ وغیرہ۔

بات ذرا کڑوی ہے، مگر اسے کہنا ضروری ہے۔ ہندوستان انگریزوں کی پھوپھی کا گھر نہیں تھا کہ وہ یہاں کچھ لے کر دینے آتے۔

اس وقت کی دنیا میں، لوگوں، علاقوں، تہذیبوں، قوموں، گروہوں، مذہبوں، فلسفوں، علوم ومہارت، وغیرہ، کے میل جول اور تعامل کے جو انداز رائج تھے، وہ آج سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھے، ہاں مگر اتنے فرق کے ساتھ کہ اس وقت جنگ ایک عموم تھی، اور آج یہ ایک عموم نہیں۔

تعامل کے یہ انداز تھے: سفر، تجارت، ترکِ وطن، ہجرت، قبضہ گیری، جنگیں، فتوحات، وغیرہ۔ یہاں ان کے محرکات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اسی لیے ان چیزوں کو ایک لاتعلق نقطۂ نظر سے بیان کیا جا رہا ہے۔ یعنی دیکھنا یہ ہے کہ اس دنیا میں ہو کیا رہا تھا، یا یہ کہ ماضی کی دنیا میں کیا ہوتا رہا ہے۔

کسی کو برا لگے، یا اچھا، یا جیسا بھی لگے، یہ یہی انداز یا طریقہ یا عمل تھا، جس سے یہ تاریخ بنی ہے۔ اس وقت معیشت اور حکومت زیادہ تر اسی طرح چلتی تھی یا چلائی جاتی تھی۔ اسے یوں ہی دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ یہ یہی کچھ ہے، جس سے آج کی انسانی تہذیب عبارت ہے۔

[میرا غیرمطبوعہ کتابچہ تاریخ کے اسی نظریے کی تشکیل کو بیان کرتا ہے: ’’تاریخ کی دلدل، یا ایک نئے نظریۂ تاریخ کی تشکیل‘‘)۔

انگریز ہندوستان کیا کرنے آئے تھے، اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لکھا جا رہا ہے، اور لکھا جاتا رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان یا بھارت اور پاکستان، آج جو کچھ ہیں، (بیشتر اور مثبت اعتبار سے) وہ وہ نہ ہوتے، اگر انگریز ہندوستان نہ آتے۔ بلکہ میں کہوں گا بہت کچھ وہ نہ ہوتا۔ اس قضیے میں بھی نہ انگریزوں کی حمایت ہے، نہ مخالفت۔ نہ کسی اور کی حمایت یا مخالفت۔ یہ ایک لاتعلق بیان ہے، یا حقیقت کا بیان۔

میں پہلے بھی اس معاملے پر خامہ فرسائی کرتا رہا ہوں۔ یہ تازہ ترین تحریک ایک کتاب بنی، جو میں نے چند ماہ پیشتر پرانی کتابوں کے ایک سٹال سے خریدی۔ گو اب کتابوں کی خریداری کا فیصلہ بہت احتیاط سے کرتا ہوں (سبب، کتابیں سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔)، مگر تجسس نے یہ کتاب خریدنے پر مجبور کر دیا۔

کتاب کا عنوان ہے، ’’سقراط پھر دیہات میں‘‘، ایف ـ ایل ـ برین۔

اندرونی سرورق سے پتا چلتا ہے کہ ایف ایل برین کون ہے، اور یہ کہ اس نے اس قسم کی مزید کتابیں بھی لکھی ہوئی ہیں۔

ایف ایل برین، ایم سی آئی سی ایس۔ کمشنر اصلاحِ دیہات پنجاب، لاہور۔

ان کی دوسری کتابوں میں شامل ہیں: دیہاتی سقراط، دیہاتی اصلاح، وغیرہ وغیرہ۔

یہ کتاب 1934ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، لاہور سے شائع ہوئی۔

اس کا انتساب پنجابی کسان کے نام ہے:

انتساب، پنجابی کسان، جو بہت جفاکش، مہمان نواز اور محبوب سیرت کا مالک ہے۔ لیکن جو ان چند سیدھی سادھی اور سہل باتوں پر جن کے متعلق اس کو اچھی طرح علم ہے کہ وہ اس کے گھر اور گاؤں کی صحت، دولت اور فارغ البالی میں زمین و آسمان کا فرق پیدا کر سکتی ہیں عمل پیرا ہونے سے اس طرح گریز کرتا ہے کہ اس کے بہی خواہوں کا دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے یہ کتاب اسی کے نام سے منسوب ہے۔

اس کتاب کی ’فہرستِ مضامین‘ پر نظر ڈالیے اور سوچیے یہ ایف ایل برین کون شخص ہے۔ اسے کیا پڑی تھی کہ اپنی جان کھپائے، نوکری کرنے آیا تھا، نوکری کرتا، چلا جاتا۔ تین کتابیں تو اس نے لکھیں، جن کا تعلق اصلاحِ دیہات سے ہے، جو اس کا سرکاری کام بھی تھا۔ مگر کتابیں لکھنا تو اس کا کام نہیں ہو گا۔

وکی پیڈیا سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایف ایل برین نے یہ اور دوسری کتابیں انگریزی میں لکھی تھیں، اور ان کا اردو ترجمہ کسی اور کے ہاتھوں انجام پایا۔

وکی پیڈیا میں درج ہے: جنگ کے بعد، برین پنجاب واپس آیا۔ وہ دہلی سے 40 میل دور، گڑگاؤں کا ضلع افسر بنا۔ اس وقت یہاں کی آبادی سات لکھ کے لگ بھگ تھی، اور انفلوینزا کی وبا زوروں پر تھی۔ برسات ناپید تھی اور جنگ سے فوجیوں کی واپسی ہو رہی تھی۔ ان آفتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے، برین نے جو اقدامات کیے، انھیں گڑگاؤں سکیم کا نام دیا گیا۔ وہ کسانوں کی زندگی کو ہر اعتبار سے بہتر بنانے کا خواہش مند تھا۔ اور چاہتا تھا کہ وہ ’’خود مدد‘‘ (سیلف ہیلپ) کو اپنائیں۔ اپنے اس تصور کے بارے میں اس نے کئی کتابیں لکھیں۔ (یہاں پانچ کتابیں گنوائی گئی ہیں۔) تاہم اس کی یہ سکیم کامیاب نہ ہو سکی۔

وکی پیڈیا ہی بتاتا ہے کہ کلائیو ڈیوی نے اپنی کتاب، ’’اینگلوانڈین ایٹیٹوڈز: دی مائنڈ آف دا انڈین سول سروینٹ‘‘ میں یہ استدلال کیا ہے کہ برین کا دیہات سدھار کا طریقہ ناکام ہی ہونا تھا۔ کیونکہ ہندوستانی کسان ان اناجیلی اقدار پر یقین نہیں رکھتے تھے، برین جن کا حامل تھا۔ وہ برین کے اس اعتقاد پر بھی یقین نہیں رکھتے تھے کہ ریاست کی کسی مدد کے بغیر، غربت اور قحط کے شکار علاقوں کے کاشتکار، زیادہ محنت اور کفایت شعاری سے اپنے معیارِ زندگی کو بدل سکتے تھے۔ کلائیو ڈیوی نے برسوں انڈین آرکائیوز کھنگالے اور برین کے معاصرین کے مفصل انٹریو کیے۔ اس کی تحقیق کے نتائج سے اس انڈین سول سروس کے متعدد ارکان نے اتفاق کیا ہے اور مورخین بھی ان کی توثیق کی ہے۔

حالیہ طور پر عطیاب سلطان کی رائے میں برین کی مداخلت پسندی ایک مشنری جذبے سے معمور تھی اور اس کے طریقے، میلکم لائل ڈارلنگ کے مقابلے میں، زیادہ ہدایتی یا نصیحت پسندانہ تھے۔ میلکم ڈارلنگ پنجاب کا ایک اور قدرے جنونی منتظم تھا۔

دیکھیے وکی پیڈیا میں فرینک لگرڈ برین کے تحت مضمون۔

[See article in Wikipedia under Frank Lugard Brayne]

برین کی تحریر سے یہ چیز عیاں ہے کہ وہ چاہتا تھا کہ کسان اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔ کسی کے محتاج نہ بنیں۔ جیسا کہ انھیں صدیوں سے محتاج بنا کر رکھا گیا تھا۔ دوسرے انڈین سول سروینٹس نے اس کے اس حل سے اتفاق کیا یا نہیں۔ یا انھوں نے دوسرے اور کیا حل تجویز کیے اور ان پر عمل درآمد کیا، ان باتوں سے قطع نظر، دیکھنے والی چیز یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں چاہتے تھے۔ کیا برین، جسے انڈین سول سروینٹس کی علامت سمجھا جائے، یہاں کے کسانوں کو غلام بنانا چاہتا تھا، اور ان پر حکومت کرنا چاہتا تھا۔ ان پر اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا تھا۔ کیا وہ ان کا استحصال کرنا چاہتا تھا۔ کیا وہ انھیں لوٹنا چاہتا تھا۔ کیا وہ انھیں غلط باتیں سکھا کر ان کی تہذیب، مذہب اور روایات کا خراب کرنا چاہتا تھا۔

ایسا تو بالکل نہیں۔ وہ تو انھیں خود پر انحصار کرنا سکھانا چاہتا تھا۔ وہ انھیں آزادی پسند بنانا چاہتا تھا۔ وہ ان کے اندر رچی بسی محتاجی کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ وہ انھیں اپنی مدد آپ کا اصول سکھانا چاہتا تھا۔

چلیں فرض کر لیتے ہیں، انگریز ہندوستان کو لوٹنے آئے تھے، وہ یہاں کے باشندوں کی تہذیب، مذہب اور معاشرت کو خراب کرنے آئے تھے، اور اپنی حکومت اور بالادستی قائم کرنے آئے تھے۔ تو بھئی اس زمانے میں دوسری قومیں یا ملک جب کسی اور علاقے یا ملک پر چڑھائی کرتے تھے، تو کیا وہ انھیں تحفے دینے آتے تھے۔

اور یہ کہ اس زمانے میں، جیسا کہ بیشتر ریاستوں کی معیشت اور حکومت بیشتر انھی چیزوں سے اپنی بقا کا سامان پیدا کرتی تھی، تو جب کوئی فوج دوسرے علاقے یا ملک پر دھاوا بولتی تھی، تو یہی کچھ ہوتا تھا۔ اس ضمن میں ایک مثال نہایت اہم ہے، سلطنتِ عثمانیہ جو یورپ سمیت دنیا کے بہت بڑے علاقے پر قائم تھی، کیا وہ وہاں کے لوگوں کی بھلائی کے لیے گئے تھے۔ ان کی معیشت اور حکومت بھی اسی طرح جنگوں اور فتوحات کی مرہونِ منت تھی۔

دیکھنا یہ ہے اور دیکھنا یہ چاہیے کہ جیسا کہ دریا سیلاب لے آتا ہے، تو تباہی کے ساتھ ساتھ، واپس جاتے جاتے، وہ زمین کو زرخیز بھی بنا جاتا ہے۔ انگریز کیا کرنے آئے تھے، یہ سوال تاریخ کا حصہ ہے۔ اسے تاریخ کا حصہ ہونا چاہیے، سیاست کا نہیں، معیشت کا نہیں، معاشرت کا نہیں۔ اس معاملے میں عام لوگوں کا رویہ نہایت مناسب ہوتا ہے، وہ اس بحث میں، اس قضیے میں نہیں پڑتے کہ انگریز یہاں کیا کرنے آئے تھے، انھوں آنا چاہیے تھا یا نہیں۔ انھوں نے انگریزوں کی آمد  میں اپنی بھلائی کے اور اپنے مسائل کے حل تلاش کیے۔ اور انھیں قبول بھی کیا۔

جبکہ یہ اہلِ دانش اور اہلِ فکر اور اہلِ سیاست ہیں، جو اس قسم کے مسائل کھڑے کرتے ہیں۔ لوگ آگے کی طرف دیکھتے ہیں، اور دانشور اور سیاست دان پیچھے کی طرف۔ یہ لوگوں کو آگے کی طرف بڑھتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ نہیں دیکھ سکتے۔ اور دکھی رہتے ہیں کہ لوگ آگے بڑھنے سے پہلے ان سے پوچھتے کیوں نہیں۔ ان سے اجازت کیوں نہیں مانگتے۔ یہی سبب ہے کہ انگریزوں کے جانے کے ستر برس بعد بھی ششی تھروریے پیدا ہو جاتے ہیں، اور پیدا ہوتے رہیں گے۔

 

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments