Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

خوشحالی کی لہر یا شکستہ خواب: خودکلامی

میرے اکثر خواب بھی آزمائش کی طرح ہیں۔

سوچتا ہوں ارشد صاحب کو بتاؤں، جو دوست ہیں، اور سائییکالوجسٹ اور ہپناتھیراپسٹ بھی، اور پوچھوں کیا مطلب ہے ان کا۔ مگر پھر خیال آتا ہے، آزمائش پر تو پورا اتر جاتا ہوں، پوچھنے کی کیا ضرورت۔

یہ عجیب و غریب خواب ہیں۔ ان دیکھے رستے، پہاڑ، گلیاں، کثیرمنزلہ مکانوں، زینوں اور سیڑھیوں کا سلسلہ۔ گڑھوں سے بھری سڑکیں۔ اور ناسازگار حالات۔

ہر جگہ مشکل درپیش ہوتی ہے، اور میں ہمت ہار جاتا ہوں، مگر پھر کوشش کرتا ہوں، اور منزل پا لیتا ہوں۔

بلکہ میں نے جو کہانیاں لکھیں، ان میں سے کئی ایک خوابوں نے تراش کر دیں مجھے۔

ایک کہانی، کسی سینما ہال کے باہر کچھ مکالموں سے تشکیل پاتی ہے۔ اور ایک اور، کئی منزلہ مکانوں اور گلیوں کی بھول بھلیوں میں پوری ہوتی ہے۔

یہ خواب پتا نہیں کہاں کہاں سے کیا کیا چیز ڈھونڈ لاتے ہیں، اور پوری ایک کہانی بُن دیتے ہیں۔

گذشتہ رات بھی ایسا ہی ہوا۔ جیسے ایک سائیکل سٹینڈ ہو، اور مجھے یوں لگتا ہے یہ ایم اے او کالج میں ہوتا تھا، جو خالی پڑا ہے، اور اس کے باہر ایک لڑکا بیٹھا ہے۔ عمر سترہ اٹھارہ برس کے قریب ہو گی۔ جانا پہچانا چہرہ۔

میں سوچتا ہوں یہ اس وقت یہاں کیوں بیٹھا ہے۔ ہاں، اب شام کی کلاسیں بھی ہونے لگی ہیں۔ کچھ نہ کچھ کام مل جاتا ہو گا۔

اس کا باپ بھی یہی کام کرتا تھا۔ جوتیاں گانٹھنے اور مرمت کرنے کا۔ وہ تو کالج کے گیٹ کے باہر بیٹھا ہوتا تھا۔ کالج کے سب لوگوں سے واقفیت تھی اس کی۔

اب یا تب اس کا بیٹا بھی اس کے ساتھ آ بیٹھتا تھا، اور کام میں ہاتھ بٹاتا تھا۔

خواب میں یہ اور ایسی چھوٹی موٹی تفصیلات جیسے فرض کر لی گئی تھیں۔ مگر اس کہانی کو پورا کرنے کے لیے ان کا بیان ضروری ہے۔

اور سیدھی سی بات ہے، ہر کوئی چاہتا تھا اس کا بیٹا پڑھے اور اپنے خاندان کی زندگی کو بہتر بنائے۔

بے مایہ لوگوں کے پاس اور کیا طریقہ ہے اس کا۔ یا پھر کوئی چھوٹا سا کام شروع کرے۔ اور لوگ کرتے ہیں۔

اوپر سائیکل سٹینڈ کا ذکر ہوا۔ جی ہاں، یہ ابھی افراتفری کا زمانہ نہیں تھا۔ لوگ ایک کام یا ایک نوکری کرتے تھے، اور مطمئن زندگی گزارتے تھے۔

خوشحالی کو ہاتھ سے نہ جانے کی دوڑ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ لوگ اپنی زندگی سے بہت زیادہ تقاضا نہیں کرتے تھے۔ اور خود میں مگن رہتے تھے۔

خواب میں ایسا ہوا، میں اس لڑکے کے پاس رک گیا اور جھکا، اس سے ہاتھ ملانے کے لیے۔ مگر اس نے میری طرف دیکھنے کے باوجود ہاتھ نہیں ملایا۔ جیسے میں نے اسے کوئی دھوکہ دیا ہو اور وہ ناراض ہو مجھ سے۔

میں گھٹنے زمین پر ٹیک کر بیٹھ گیا۔ اس کے بالکل قریب۔ ہاتھ آگے بڑھایا، اب اس نے ہاتھ ملا لیا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ناکامی اور شکست سے مرجھائی مسکراہٹ۔

مجھے جیسے سب کچھ پہلے سے معلوم تھا۔ میرا کلیجہ اندر سے کٹ گیا۔ میں نے بیٹھے بیٹھے اسے گلے سے لگا لیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی، میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ میں خود پر حیران تھا۔

اس نے ایک نظر میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ پوچھنے کا وقت نہیں تھا، اور نہ ہی بتانے اور سننے کا۔ یہ صرف سوگ کا وقت تھا۔

اب میری آنکھ کھل گئی۔ لیکن یہ کیفیت رخصت ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

مجھے اپنا پہلا سکول، سٹینڈرڈ اسلامیہ ہائی سکول یاد آیا۔ اور باجو بھی، جو میرا دوست بنا تھا۔ نام غالباً جاوید تھا اس کا۔ بہت ہی دھیما۔ اور نرم خو۔ اس کے والد باغبانپورہ بازار میں منیاری کی دکان کرتے تھے۔ ایک مرتبہ میں اپنی والدہ کے ساتھ بازار گیا۔ وہ بھی دکان پر تھا، اس نے مجھے دیکھ لیا اور آواز دی۔ میں نے والدہ کو بتایا، میرا سکول کا دوست ہے۔

زندگی جیسے دھیرے دھیرے بہتی تھی تب۔ اور جو جہاں تھا، وہاں خوش تھا، مطمئن تھا۔

یا پھر یہ ہم جیسوں کی ایک علاحدہ دنیا تھی۔

خواب تو ختم ہو چکا تھا اور میں تصور کی آنکھ سے دیکھ رہا اور ذہن کی آنکھ سے سوچ رہا تھا۔

شاید یہ باجو کا چہرہ تھا۔ یا شاید کسی اور کا۔

مجھے پیجا بھی یاد آیا۔ پرویز۔ نہ پڑھنے والوں میں سے تھا، جنھیں نالائق سمجھا جاتا تھا۔ وہ دلیر بہت تھا۔ مار کھانے سے بالکل نہیں ڈرا کبھی۔ میرا دوست تھا۔

ایک مرتبہ بسنت تھی۔ میں آدھی چھٹی کے وقت گھر آنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا، میں تمہارا اور اپنا بستہ دیوار سے اٹھا کر باہر پھینکوں گا، تم سنبھالنا۔ دونوں بھاگ جائیں گے۔ میرے پاس ڈور کی کچھ گٹھیں تھیں، میں نے اسے تحفہ دیں۔

پیجا پتا نہیں کہاں ہو گا۔

ہاں، وہ انجم صادق ملا تھا اچانک۔ وہ بھی سکول کا دوست تھا۔ مگر وہ تو واپڈا میں تھا۔ غالباً لائین مین۔ اب اس بات کو بھی دس پندرہ برس ہو چکے ہیں۔ مجھے اس کا حلیہ آج بھی یاد ہے۔ دھاری دار لمبا کرتا، جو پنڈلیوں تک آتا تھا۔ اور شلوار۔

مگر یہ لڑکا کون تھا، جس نے مجھے پھوٹ پھوٹ کر رونے پر مجبور کر دیا۔ مجھے خود پر اختیار ہی نہیں رہا۔

اس کے والد کا چہرہ بھی ذہن میں ابھرتا ہے۔ مگر یہ تو جہاں ہم رہتے ہیں، وہاں جو آدمی ’’موچی‘‘ کا کام کرتا ہے، وہ ہے۔ یا پھر وہ جو ہماری گلی میں آتا ہے۔ آواز لگاتا ہے: جُتیاں گنڈھا لئو۔

یہ کیسا خواب تھا؟ میں حیران تھا۔ حیران ہوں۔

یہ کونسی آزمائش ہے میری۔ کیا کروں میں۔

پہلے تو جیسے کہ میں سائیکل پر سوار ہوں، اور اوبڑ کھابڑ راستوں پر کہیں اوپر چڑھ رہا ہوں، اور ڈر رہا ہوں۔ بعض اوقات بہت زیادہ ڈر جاتا ہوں۔ مگر پھر یہ ہوتا ہے کہ جہاں پہنچنا ہے، وہاں پہنچ جاتا ہوں۔

حقیقت میں اتنا خوف معلوم نہیں ہوتا، جتنا آدمی خواب میں خوفزدہ ہو جاتا ہے۔

ایک مرتبہ سرکاری کام کے ضمن میں، مجھے سردیوں میں لہتراڑ کے پہاڑی جنگل میں جانا پڑا۔ ضمیر، ایک مقامی نوجوان، میرے ساتھ تھا۔

ہم سرکاری کام کر کے واپس روانہ ہوئے۔ گوکہ ہمیں بہت روکا گیا، اور کہا گیا کہ بارش اور برفباری کا موسم ہے، شام ہو رہی ہے، کل چلے جائیں۔ اس دعوت میں مہمانداری اور احتیاط دونوں پیشِ نظر تھے۔

یہاں راستہ کوئی نہیں تھا۔ پہاڑ تھے اور زمیں تنکوں سے ڈھکی ہوئی۔ جن پر پیر پھسل پھسل جاتے تھے۔ میں بہت ڈرا ہوا تھا۔ ضمیر نے مجھے کہا، اس طرح پاؤں رکھیں، پنجہ دبا کر۔ ہم آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔

پھر ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی۔ اب تو گیلی زمین اور گیلے تنکوں پر پاؤں رکھنا محال تھا۔ کئی مرتبہ میرا پاؤں رپٹا۔

ضمیر نے کہا، آپ میرے پیچھے پیچھے چلیں۔ شام کا اندھیرا بھی چھا رہا تھا۔ اور ’’سونے پر سہاگہ‘‘ برف گرنی شروع ہو گئی۔

میں دل میں خوش بھی تھا کہ چلو اس بہانے برفباری دیکھ لی، اور وہ بھی پہاڑوں میں۔

اب میری رفتار مزید سست ہو گئی۔ تھوڑا سا چلتا اور رک جاتا۔

میں اندر سے بہت خوف زدہ تھا۔ مگر ضمیر میرا حوصلہ تھا۔ وہ تو ان راستوں اور موسموں کا عادی تھا۔ میں ناپ تول کر اس کے پیچھے چلتا رہا۔

یہ تو حقیقت تھی، پر اس طرح کے خواب بار بار دیکھے ہیں۔ کوئی پہاڑی راستہ ہے۔ نوکیلی چٹانیں اور کھائیاں ہیں۔ بس اب گرا۔ مگر پھر یہ چڑھائی بھی سر ہو جاتی ہے۔

کبھی زینہ در زینہ اوپڑ چڑھنا ہے۔ یا اترنا ہے۔ جیسے اندرونِ شہر گھر اور گھروں کے سلسلے ہیں۔ نہایت خستہ حال گھر۔ اور سیڑھیاں ایسی جیسے ابھی خود چل پڑیں گی۔

اوپر دیکھو تو جیسے چھت بس ابھی گری کہ گری۔ نیچے دیکھو تو اینٹیں جیسے بس ابھی ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ دیں گی۔

مگر اترنے یا چڑھنے کی یہ آزمائش بھی پوری ہو جاتی ہے۔

پھر مجھے خیال آیا، ہاں یہ آزمائش خواب میں پوری ہوتی ہے۔ زندگی میں نہیں۔

لیکن میری زندگی اس مفہوم میں آزمائش بالکل نہیں تھی، نہ ہے، کہ میں نے جو چاہا حاصل کر لیا۔ یعنی کوئی چیز حاصل کرنے کی آزمائش۔

میں نے کبھی کچھ چاہا ہی نہیں۔ ہاں، جو آدرش بنائے، ان پر عمل کرنے کی کوشش کی، اور ہمیشہ نقصان اٹھایا۔

مادی چیزوں سے دل کبھی لگا ہی نہیں۔ پیسے کے لیے کام کرنے کو جی کبھی راضی نہیں ہوا۔ نہ ہوتا ہے۔ ایسے کام سے دل بدکتا ہے۔ ہاں، کام کچھ نہ کچھ اپنی پسند کا ہونا چاہیے۔

اور ایسا شاذ ہی ہوا کہ صرف اور صرف پیسے کے لیے کچھ کرنا پڑا ہو۔ یعنی ایسا کام، جس میں دل بسا نہ ہو، رچا نہ ہو۔

میں سوچتا ہوں، اس سے بہتر زندگی کیا ہو سکتی ہے۔

ہاں، ایک چیز چاہی تھی۔ وہ بھی مجبوری ہو گئی تھی۔ کیونکہ زمین کے ایک ٹکڑے پر بہت سے انسان نہیں بس سکتے۔ کچھ گنجائش اور خالی جگہ درکار ہوتی ہے۔ بسنے کے لیے، زندہ رہنے کے لیے۔ تو ایک گھر چاہا۔ چھوٹا سا ہی مل سکتا تھا۔ مل گیا۔ کیونکہ گرہ میں بڑے کے لیے مال نہیں تھا۔ نہ کبھی مال کا سوچا تھا، نہ گھر کا، بڑا یا چھوٹا جیسا بھی۔ والدین نے چار مرلے کمائے، وہی کافی رہے۔

پھر میں رویا کیوں، خواب ہی میں سہی۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے  کہ اس خواب نے دو زمانوں کو ملا کر ایک منظر تخلیق کر دیا۔ یعنی ایک وہ وقت کہ جب لوگ باگ اپنی زندگی سے مطمئن ہوتے تھے۔ اور اب جبکہ اطمینان عنقا ہو چکا ہے، اور سرپٹ دوڑ لگی ہوئی ہے، اور اس دوڑ میں کتنے ہی لوگ پیچھے رہے جار ہے ہیں۔ سبب کچھ بھی ہو۔ وہ پیچھے ہیں، اور انھیں ایسا ہی، یعنی پیچھے رہ جانے والا سمجھا جا رہا ہے۔

یا پھر یہ وہ دکھ ہے، جو جیتنے والے کے دل میں ہارنے والے کے لیے پیدا ہوتا ہے۔ تو میں کونسا بڑا جیتا ہوا ہوں۔ ہاں، مگر میں مطمئن ہوں۔ جو کچھ میرے پاس ہے اس سے اور اس میں خوش ہوں۔ حال مست ہوں۔

میرے نزدیک زندگی محض مادی خوشحالی سے عبارت نہیں۔ مگر یہ میری تعریف ہے، اور میرے لیے ہے۔ لوگوں کو اپنی زندگی کی اپنی تعریف کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہر کسی کی زندگی، اس کی اپنی زندگی ہے۔ وہ جو بھی تعریف کرے۔ یا پہلے سے ہوئی ہوئی کسی تعریف کو قبول کرے۔ خواہ یہ گمراہ کن ہی کیوں نہ ہو۔ گمراہ کن میرے نزدیک ہو گی، اس کے نزدیک تو نہیں۔

مگر یہ زندگی تو نہیں۔ زندگی لاتعداد چیزوں سے عبارت ہے۔ ایک چیز ملے گی، تو دوسری کی خواہش پیدا ہو گی۔ خوشحال ہوں گے، تو زندگی کی دوسری چیزوں سے لطف اٹھائیں گے۔ گھر میں اچھا کھائیں گے، تو پھر باہر بھی اچھا کھانے کے بارے میں سوچیں گے۔ اچھی چیزوں کے بارے میں سوچیں گے۔ ملک میں اور ملک سے باہر سفر کرنے کے بارے میں سوچیں گے۔

مگر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے، جو خوشحالی کی آنے والی لہر پر سوار نہیں ہو سکے، اور پیچھے رہ گئے۔ تیزی سے چل نہیں سکے۔

اور یہ وہی لوگ ہیں، جو ایک نئی مڈل کلاس کا حصہ نہ بن سکے۔ بڑی تعداد ہے ان کی بھی۔

مگر پیچھے کیوں رہ گئے؟

مجھے اپنی گلی میں آنے والا ’’لڈو پیٹھیاں والا‘‘ یاد آیا۔ کئی برس ہو گئے، اسے دیکھے۔ صبح دس سوا دس بجے آ جاتا۔ ایک زمانے میں، میں سوچتا تھا کہ یہ ترقی کرنے، آگے بڑھنے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتا۔ پتا نہیں سوچتا تھا کہ نہیں۔ یا یہ بھی اپنے حال میں مست تھا۔ یا پھر یہ وہ لوگ تھے، جو میری طرح اس نسل سے تعلق رکھتے تھے، جو اطمینان کی حامل تھی، اور اشیا کے حصول کی دوڑ کا حصہ نہیں تھی۔

مجھے اپنے سکول کا ایک اور ہم جماعت یاد آیا۔ اسے ’’وڈا‘‘ (یعنی بڑا) کہتے تھے، کیونکہ وہ قد اور جسم میں پوری جماعت بلکہ پورے سکول میں سب سے بڑا تھا۔ سارے استاد اسے ’’کند ذہن‘‘ سمجھتے تھے، اور وہ ایک جماعت میں دو تین سال لگاتا۔ مجھے اس کی جو خاص بات یاد ہے، وہ بہت تھام تھام کر قدم اٹھاتا تھا۔ جیسے تیز تیز چل ہی نہ سکتا ہو۔

یہ ایک بڑا نازک معاملہ ہے۔ لوگ، دوسرے لوگوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اور خود اپنے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ کیا دوسرے لوگوں کو ان کے بارے میں اس طرح سوچنے کا حق ہے۔ یا اس طرح سوچنے کا اختیار ہے۔ یا نہیں۔ اور پھر یہ کہ وہ خود اپنے بارے میں کیا سوچتے ہیں، آیا اسے جانا بھی جا سکتا ہے، یا نہیں۔ یعنی اگر یہ جاننے کی کوشش کی جائے، تو کیا وہ وہی کچھ بتائیں گے، جو کچھ وہ سوچتے ہیں، یا وہ وہ کچھ بتائیں گے، جو ان کے بارے میں کہا اور بتایا جاتا ہے۔

مراد یہ کہ یہ لوگ پیچھے رہ گئے، یا ہم اور دوسرے انھیں پیچھے رہ جانے والے سمجھتے رہے اور سمجھتے ہیں۔ کیا ان میں کبھی آگے بڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی یا نہیں۔ یا یہ خواہش، ہمت اور عمل میں ڈھل نہیں سکی۔ کیا خبر کیا معاملہ ہے۔

مگر اس خواب سے کوئی دو ہفتے قبل جب میں پشاور سے واپس لاہور نیازی اڈے پر پہنچا، تو ایک حقیقی منظر نے بھی میرے دل کو اسی طرح مسوسا۔ اپنے لیپ ٹاپ کا بیگ کندھے پر ڈالے اور اٹیچی کیس کو گھسیٹتے ہوئے میں رکشہ لینے کے لیے آگے بڑھا، تو ایک چوبیس پچیس برس کا نوجوان میرے راستے میں آ گیا۔ موٹر سائیکل چاہیے آپ کو۔ اس کے ہاتھوں میں ہیلمیٹ تھا۔ پورے منظر میں اس کا وجود مجھ پر بجلی بن کر گرا۔ میں نے انکار میں سر ہلایا۔ وہ بھی سمجھ گیا تھا کہ اس کے پاس سامان زیادہ ہے، اور میرے راستے سے ہٹ گیا۔

بائیکیا بھی چل رہی ہے۔ اُبر بائیک بھی ہے۔ مگر یہ کیا معاملہ ہے۔ حالات ہمیں، لوگوں کو، نوجوانوں کو کس نہج پر لے آئے ہیں۔ یہ بے بسی ہے، یا کیا ہے۔ مگر یہ تو بعد میں آنے والے خیال ہیں۔ اس لمحے نے تو مجھے کٹار چلا کر ’’خون و خون‘‘ کر دیا تھا۔

پھر مجھے خیال آیا یہ سب باتیں اپنی جگہ کہ کون مطمئن ہے اپنی زندگی سے اور کون نہیں۔ کون اپنی زندگی کو بہتر بنانا چاہتا ہے، کون نہیں۔ مگر پچھتر (75) برسوں میں اتنا تو ہونا چاہیے تھا کہ جو سعی کی جائے، اور جو سعی کرے، اسے اس کا صلہ زندگی کی بہتری اور خوشحالی کی صورت میں ضرور ملے۔ کتنی دنیا میں ایسا ہی ہوا۔ ہو رہا ہے۔ اور اسی لیے تو یہاں سے لوگ بادلِ نخواستہ مجبوری کے مارے اس دنیا کی طرف بھاگے جا رہے ہیں، جو سعی کا پورا یا مناسب صلہ دیتی ہے۔

بلکہ یہاں سے تو وہ لوگ بھی، یعنی اشرافیہ اور ریاستی اشرافیہ کے مختلف طبقات، اسی دنیا کی رہائش محفوظ کروا رہے ہیں، جو یہاں لوگوں کا صلہ انھیں ملنے سے پہلے چرا لیتے ہیں۔ ان کی سعی کے صلے کا بڑا حصہ پہلے ہی اپنے لیے کاٹ کر رکھ لیتے ہیں۔

سعی کے صلے کی بات علاحدہ رہی، یہاں تو سات سے زیادہ دہائیوں میں ریاست لوگوں کو بروقت اور کم قیمت انصاف دینے کا اہتمام نہیں کر سکی۔ ان کی جان و مال کو تحفظ نہیں دے سکی۔ ان کے بنیادی حقوق کو محفوظ نہیں بنا سکی۔

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ریاست عام لوگوں کو جان و مال اور بنیادی حقوق کا تحفظ کیا دیتی، انصاف کیا فراہم کرتی، اور اس بات کو کیا یقینی بناتی کہ انھیں ان کی سعی کا پورا صلہ ملے، ریاست خود ایک ڈاکو بن گئی۔ یہ لوگوں کی نگہبان ریاست نہیں بنی۔

یعنی ریاستی اشرافیہ نے ریاست کو اپنی دسترس میں کرلیا، اور لوگوں کی زندگی خود جینے لگی۔ ان کی کمائی خود کھانے لگی۔ یہاں تک کہ لوگ بے کس اور بے بس ہو کر رہ گئے۔ کیونکہ اسی ریاستی اشرافیہ نے سیاسی پارٹیوں کا ڈھونگ بھی رچایا، اور لوگوں کو انتخابات اور جمہوریت کے پیچھے لگائے رکھا۔ تھوڑے سے لوگ آگے نکل سکے، اس لہر پر چڑھ کر اپنی زندگی کو بہتر اور قدرے خوشحال کر سکے۔ مڈل کلاس بن گئے۔ مگر یقیناً وہ بھی کہیں زیادہ خوشحال ہوتے، اگر انھیں ان کی سعی کا پورا یا کچھ مناسب صلہ ملتا۔

سو میرے خوابوں میں آنے والوں اور ان خوابوں کو تراشنے والوں کو ان کی سعی کا پورا یا مناسب صلہ نہیں ملا، مجھے یہ بات اسی طرح سمجھ آتی ہے۔ بلکہ پورا صلہ کیا ملتا، انھیں غالباً اپنی سعی کے صلے کا عشرِ عشیر بھی نہیں ملا۔

یہ یہی کٹار ہے، جو بار بار مجھے کاٹتی ہے۔ ٹکڑے ٹکڑے کرتی ہے۔

مگر المیہ یہ ہے کہ جس ملک میں پون صدی میں لوگوں کو انصاف ملنے کی کوئی امید نہ بندھی، وہاں سعی کے پورے صلے کی ناانصافی کا رونا، رونا کس شمار میں آئے گا۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments