Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

سچائی، سقراط اور موت: کیا جان بچانا ایک موثر فیصلہ نہیں ہوتا؟

سقراط کو سچائی کے ساتھ اور سچائی کو موت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔

کیسے؟ اور کیوں؟

غالباً اس پر غور نہیں ہوا۔ یا ہوا ہے تو میری نظر سے نہیں گزرا۔

فلسفہ، تاریخ، ادب، شاعری، جو کچھ بھی پڑھا، وہاں سقراط کا ذکر ضرور تھا۔ اور پھر سچائی کے لیے اس کی موت کا بھی۔ اور اردو شاعری نے تو سقراط اور زہر کے پیالے دونوں کو امر کر دیا۔

سیاست، مزاحمت، انقلاب، یہاں بھی سقراط، اور سچائی کے لیے اس کی موت کے بغیر کام نہیں چلا۔ ہر انقلابی، سقراط کا اوتار بننے کا شائق نکلا۔

جب پہلی مرتبہ یہ بات پڑھی کہ سقراط نے سچائی کے لیے موت کو قبول کیا، میں نے تب اسے قبول تو کر لیا تھا، مگر یہ بات ہضم نہیں ہوئی۔ اور اب تک ہضم نہیں ہوئی۔

میں سوچتا رہا، سوچتا رہا۔ اور ابھی کچھ برس قبل یہ طے ہوا کہ سقراط نے غلط کیا تھا۔

سقراط پر کچھ اس نوع کے الزامات عائد ہوئے: وہ روایتی یونانی مذہب سے برگشتہ ہے اور یونان کی ریاست جن دیوتاؤں کو مانتی ہے، ان کا انکار کرتا ہے۔ لوگوں کی رضا سے انحراف کرتا ہے۔ انتخابات کے جمہوری تصور کو جھٹلاتا ہے۔ اور جوانوں کو گمراہ کرتا اور اپنے عقائد پر قائل کرتا ہے۔ پہلے اور آخری الزام کو ناقابلِ معافی گردانا گیا۔

اس پر مقدمہ چلا اور موت کی سزا دی گئی۔

سقراط نے اپنا آخری وقت، اپنے دوستوں، پیروؤں اور شاگردوں کے ساتھ گزارا۔

انھوں نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایتھنز سے فرار ہو جائے، وہ اسے قید سے نکالنے کا بندوبست کر لیں گے۔

شہریوں کو بھی یہی توقع تھی کہ وہ جان بچانے کے لیے یہاں سے نکل جائے گا۔

مگر سقراط نے انکار کر دیا۔

اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اصول کے خلاف قانون کا تمسخر نہیں اڑا سکتا۔ وہ جن قوانین کی اطاعت کی تعلیم دیتا رہا ہے، خود ان سے کیسے منحرف ہو جائے۔

اور سقراط نے سزا کی رو سے زہر کا پیالہ پی لیا۔

تب سے ہی میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ (1) زہر کا پیالہ پی کر سقراط نے کیا حاصل کیا۔ اور (2) یہ کہ سقراط نے سچائی کی خاطر موت کو گلے لگا لیا، یہ مقولہ کیسے تشکیل پا گیا۔

کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ (اور شاعری!) میں اس کا نام زندہ ہے، اور اس کا نام سچائی کی علامت بن چکا ہے۔

لیکن کیا ان دونوں باتوں میں کوئی مغز ہے۔ میرے رائے میں، نہیں۔

بات تو تب تھی کہ جس سچائی کی خاطر اس نے اپنی جان کی بازی لگا دی، وہ سچائی ثابت اور باقی ہوتی۔ میری رائے میں، ایسا بھی نہیں۔

مگر یہ معاملہ خود تحقیق و تعبیر کا محتاج ہے کہ وہ کیا سچائی تھی جس کی حرمت کے تحفظ کے لیے اس نے اپنی جان بچانے کو قابلِ ترجیح نہیں سمجھا۔

جس بات کو تاریخی اور فلسفیانہ ادب میں متفقہ طور پر مانا اور بیان کیا جاتا ہے، وہ وہی ہے، اوپر جس کا ذکر ہوا۔ یعنی سقراط کا یہ کہنا تھا کہ جن قوانین نے اسے تحفظ دیا، اور جن کی اطاعت کا اس نے عہد کیا، وہ ان قوانین سے منہ نہیں پھیر سکتا۔ اگر وہ ان قوانین کو ٹھکرا دے، محض اپنی جان بچانے کے لیے، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے قوانین پر اپنی جان کو مقدم سمجھا۔

کیا حقیقتِ حال یہی تھی، اور اس حقیقتِ حال کی سقراطی تفہیم یا سقراط کی تفہیم درست تھی۔ میری رائے میں، نہیں۔

ہاں، یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ خود سقراط کا انتہائی ذاتی اور وجودی فیصلہ تھا کہ وہ فرار اختیار نہیں کرے گا۔ یقیناً یہ اس کا اپنا فیصلہ ہی تھا، تبھی اس نے موت کو گلے لگایا۔ اگر اس نے اپنے دوستوں، پیروؤں اور شاگردوں کا فیصلہ مانا ہوتا، تو یہ سوال ہی پیدا نہ ہوتا کہ اس کا فیصلہ درست تھا یا نہیں۔

یہاں ایک یہ نقطہ بھی پیدا کیا جا سکتا ہے کہ سقراط دو اور دو چار کی طرح سوچتا تھا، اور اسے اپنی ساکھ اور شہرت کا بہت لحاظ اور خیال تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی ساکھ اور شہرت داغ دار ہو۔ لہٰذا، اس نے زہر کا پیالہ پیا۔

فرض کیجیے اگر سقراط ایتھنز سے فرار ہو جاتا، اور اس کی جان بچ جاتی، اور وہ کسی ایسی شہری ریاست میں پہنچ جاتا، جہاں اس کی پذیرائی ہوتی، اور پھر جہاں وہ اپنے تصورات اور نظریات کی ترویج اور تعلیم کر سکتا، تو کیا سقراط کی اصل فلسفیانہ خدمات کہیں زیادہ نہیں ہوتیں۔

اور فرض کیجیے اس شہری ریاست میں اس کی پذیرائی نہ بھی ہوتی، تو وہ اپنے تصورات و نظریات پر مزید سوچ بچار اور کام کر سکتا تھا، اور ان کی تعلیم بھی کر سکتا تھا۔

کیا یہ بتہر نہ ہوتا؟

آیا سقراط کے شاگرد، ارسطو نے یہی کچھ نہیں کیا؟ وہ اس ڈر سے کہ کہیں اس کا انجام بھی سقراط جیسا نہ ہو، ایتھنز کو خیرباد کہہ گیا۔

ایک اور بات، تو کیا سقراط شجاعت و بہادری کی قدیمی روایت کا قیدی تھا۔ کیونکہ بیشتر قدیم تہذیبوں میں انسانی جان کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ اور جان لینا اور جان دینا، ان تہذیبوں میں ایک معمول تھا۔ یعنی ایک مفہوم میں اپنی ’’بات‘‘ اور اس کی حرمت کے لیے جان دینا قابلِ ستائش سمجھا جاتا تھا۔

سوچا جا سکتا ہے کہ سقراط کا ذہن ان تمام تصورات سے بھی متشکل ہوا ہو گا، اگر ہوا ہو گا۔

اوپر جو ہضم ہونے والی بات کا ذکر آیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے یہ سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے کہ سقراط نے ایتھنز کے قوانین کی حرمت اور اطاعت کے لیے جان دے کر کیا پیغام دینا چاہا۔

آیا یہ کہ جیسے بھی قوانین ہوں، ان کی پیروی کی جائے۔ کسی بھی صورت میں ان سے انحراف نہ کیا جائے۔ انھیں کبھی پامال نہ کیا جائے۔ ان سے ہرگز منہ نہ پھیرا جائے۔ ہر حال میں ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا جائے۔

اور اگر حقیقتاً سقراط کا یہی پیغام ہے، تو کم از کم میری نظر میں سقراط کی ساکھ اور شہرت کو بٹہ ضرور لگ جاتا ہے۔ مراد یہ کہ فلسفے میں سقراط کا جو مقام ہے، اور اس کی جو فلسفیانہ خدمات ہیں، ان کو سامنے رکھتے ہوئے، یہ کہنا بجا ہو گا کہ ایسے نابغے کے ساتھ ایسا پیغام میل نہیں کھاتا۔

مگر کیوں؟

دو باتیں بہت صاف ہیں۔

ایک تو یہ کہ قوانین غلط اور غیراخلاقی بھی ہوتے ہیں اور ہو سکتے ہیں، اور مخصوص مقاصد کے حصول کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں، اور بنتے ہیں۔

دوسری یہ کہ قطع نظر اس سے کہ قوانین غلط ہیں، غیراخلاقی ہیں، اور انھیں مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے بنایا گیا ہے، ان کا غلط اور سازبازانہ نفاذ اور سازبازانہ استعمال بھی ہو سکتا ہے، اور ہوتا ہے۔

یہاں ایک بات اور کا اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ بالعموم قانون صرف اس شخص کی جان لینے کی بات کرتا ہے، جس نے عمداً کسی شخص کی جان لی ہو۔

اس کے علاوہ، سزائے موت کی تمام قانونی صورتیں، سماجی، عارضی یا انسدادی ہوتی ہیں۔ حتیٰ کے بغاوت اور غداری کے ضمن میں موت کی سزا، سزائے موت کی ایک ریاستی صورت ہے، اور اسے ختم ہونا چاہیے۔ پھر یہ بھی کہ بغاوت اور غداری کے لیے سزائے موت، اصلاً ایک سماجی، عارضی اور انسدادی مظہر ہے۔

پھر یہ بھی ہے کہ یہ انسانی جان کی قدر و قیمت ہی ہے، جس کی وجہ سے، اگر کسی صورت میں کسی کی جان کو کسی دوسرے کے ہاتھوں خطرہ لاحق ہو، تو اسے اپنی جان بچانے کے لیے، ایک آخری حل کے طور پر، اس دوسرے کی جان لینے کی اجازت دی گئی۔ یعنی اس کے اس عمل کو ضروری، قانونی اور اخلاقی مانا گیا۔

پھر یہ بھی مذاہب کے ساتھ ساتھ، قانون میں بھی خودکشی کو نامقبول قرار دیا گیا۔

حاصل یہ کہ، جیسا کہ کہا جاتا ہے،  جان ہے تو جہان ہے۔

مراد یہ کہ سقراط کے ذہن میں یہ تمام باتیں ضرور رہی ہوں گی، اور اگر نہیں، تو اس نے پھر بھی موت کو کیوں قبول کیا۔

ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ سقراط اپنے تصورات اور نظریات کو غلط سمجھتا تھا، جن کے سبب اسے موت کی سزا سنائی گئی۔ اور باایں سبب اس نے موت کو قبول کر لیا۔

یہ تعبیر اس تعبیر کے سراسر برعکس ہے، جو سقراط کو سچائی کے لیے موت کو گلے لگانے والا بتاتی ہے۔

یقیناً ایسا نہیں تھا۔ کیونکہ اگر ایسی صورت ہوتی کہ سقراط اپنے تصورات اور نظریات کو غلط سمجھتا ہوتا، تو وہ ان کی تعلیم و ترویج کیوں کرتا۔ اور مان لیتا کہ وہ غلط ہے، اور یوں اس کی جان بچ جاتی۔ مگر اس کا اور اس سے زیادہ اس کے ماننے والوں کا موقف یہ ہے کہ کیونکہ وہ اپنے تصورات اور نظریات کو درست سمجھتا تھا، اسی لیے اس نے نہ تو اپنے تصورات و نظریات سے رجوع کیا، نہ انحراف، بلکہ انھی کی خاطر موت کو قبول کر لیا۔

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا میں بہت پہلے سے اس معاملے کو سوچتا رہا ہوں۔ اس کا ایک زاویہ حالیہ دہائیوں میں ہونے والے خودکش دھماکے بھی تھے۔ ایسا کیونکر ممکن ہو جاتا ہے کہ ایک آدمی خود اپنے ارادے سے (یا کسی ’’ترغیب و ترہیب کے تحت‘‘) اپنی جان سے جاتا ہے، مگر دوسروں کو بھی ساتھ لے مرتا ہے۔

کیا زندگی اتنی ہی ارزاں ہو گئی ہے۔

پھر یہ کہ قدیم تاریخ بھی یہ بتاتی ہے کہ زندگی بہت غیراہم تھی۔

لیکن کیا انسانی تہذیب کی ترقی و ارتقا کے ساتھ، اپنی تہذیب کے ساتھ، انسان نے زندگی سے محبت کرنا نہیں سیکھا۔

یہی سوچ تھی، جو ستمبر 2013 میں ایک تحریر بنی: زندگی سے محبت کی تاریخ

’’خیال کریں کہ قدیم انسان زندگی کو کیسے سمجھتا، اور اس کے بارے میں کیا تصور رکھتا ہو گا۔ زندگی کی قدر و قیمت کا احساس پیدا ہونے میں کچھ وقت تو لگا ہو گا۔ پہلے پہل تو اسے اپنے وجود کو زندگی سے علاحدہ کر کے سمجھنے میں مشکل پیش آئی ہو گی۔ جیسے حیوان زندہ تو ہوتے ہیں، مگر زندگی کا ادراک نہیں رکھتے۔ کچھ اسی طرح کی صورت ابتدائی انسانوں کے ساتھ رہی ہو گی۔ پھر جوں جوں عقل و شعور کو ترقی ملی، انسان خود کو ایک زندہ ہستی کے طور پر جاننے اور پہچاننے لگا ہو گا۔ اب وہ خود ایک زندہ وجود بھی ہو گا، اور ایک شعوری وجود بھی، جو اس زندہ وجود کو دیکھ سکتا ہو گا، سن سکتا ہو گا، محسوس کر سکتا ہو گا، اور اس زندہ وجود پر حیران بھی ہوتا ہو گا۔ اب وہ خود اپنے وجود کو تصور کر سکتا ہو گا۔

یہ سوچنا اتنا محال نہیں کہ انسا ن کو موت کا احساس کب اور کیسے ہوا ہو گا۔ ابھی جب تک وہ اپنے وجود کو علاحدہ محسوس کرنے کے قابل نہیں تھا، تب تک موت آتی ہو گی، اور گزر جاتی ہو گی۔ پر اس مرحلے پر بھی یہ کچھ نہ کچھ اثرات تو چھوڑ جاتی ہو گی۔ جیسے جانوروں میں موت کے تاثرات سے متعلق تحقیقات کی گئی ہیں۔ ان میں سے ہاتھیوں کے بارے میں خاصی معلومات موجود ہیں کہ وہ کس طرح ایک دوسرے کی موت کو محسوس کرتے اور کس طرح اور کب تک اس کا دکھ مناتے ہیں۔

کچھ ایسا ہی واقعہ ابتدائی انسانوں کے ساتھ پیش آیا ہو گا۔ کسی کے مرنے پر، یا کسی ایسے ساتھی کے مرنے پر جو بہت قریب اور پاس رہا ہو، عجیب سی حالت ہو جاتی ہو گی، اور ایک بے چینی اور ناآسودگی تنگ کرتی ہو گی۔ جہاں تک مرنے والے کا تعلق ہے، تو اسے جانکنی کے ساتھ ایک عجیب حیرانی گھیر لیتی ہو گی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

سو ہوا یہ ہو گا کہ جب کوئی مرتا ہو گا تو پہلے تو یہ چیز سمجھ ہی نہیں آتی ہو گی۔ لیکن یہ بات اتنی قرینِ قیاس نہیں۔ ابتدائی انسانوں نے حیوانوں کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھ لیا ہو گا۔ وہ یہ جانتے ہوں گے کہ جس طرح ایک عرصہ زندہ رہ کر، یا کسی حادثے کا شکار ہو کر حیوان مر جاتے ہیں، اسی طرح موت، انسا ن کے ساتھ بھی لگی ہوئی ہے۔ اپنی زندگی گزار کر انسان بھی مر جاتا ہے، زندہ نہیں رہتا۔ پوری عمر گزار کر قدرتی موت مرنے والے انسانوں سے بھی، اس نے بہت کچھ سیکھا ہو گا۔ اور پھر جیسا کہ ابتدائی انسان کی زندگی محفوظ و مامون نہ تھی، بلکہ ہر لمحہ خطرے کا شکار رہتی تھی، تو ابتدائی انسان نے اس حادثاتی، ناگہانی موت کو دیکھ کر بھی موت کے بارے میں خاصا کچھ جان لیا ہو گا۔ یعنی یہ کہ انسان کی زندگی یوں بھی ختم ہو سکتی ہے۔

تاہم، موت کے مظہر نے ابتدائی انسان کو جو کچھ سکھایا، اس میں سے نہایت اہم چیز، خود زندگی ہے۔ یعنی موت، زندگی کو ختم کر دیتی ہے۔ مراد یہ کہ زندگی ایسی چیز ہے، جو ختم ہوجاتی ہے، اور جو چیز اسے ختم کرتی ہے، وہ موت ہے۔ مطلب یہ کہ موت نے زندگی کے احساس کو دوچند کیا ہو گا۔ یوں ابتدائی انسان نے یہ جاننے کی کوشش بھی کی ہوگی کہ کیا کیا ہے، جو موت کا پیش خیمہ اور سبب بن سکتا ہے، اور اس سے کیسے بچا جائے۔ یہ زندگی سے محبت کا پہلا سبق تھا۔ کن جانوروں اور قدرتی مظہرات سے بچنا چاہیے۔ کیا چیزیں خوراک بن سکتی ہیں، اور کیا چیزیں نہیں۔ کیا چیزیں زہریلی اور زندگی کو ختم کرنے والی ہیں۔ بیماریاں کیا ہیں، اور کیسے پیدا ہوتی ہیں۔ کیا چیز، کس بیماری کا علاج ہے۔ کس بیماری میں، کس چیز سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اور ایسے ہی لاتعداد سبق، جو (بقا کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ) زندگی سے محبت کا نتیجہ تھے۔ مراد یہ کہ یوں انسان نے زندگی کو زیادہ محفوظ بنانے کی سعی کی۔

اس ضمن میں یہ نکتہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ زندگی سے محبت، انسان کی فطرت میں ہے۔ بالکل اسی طرح، جیسے یہ محبت، حیوانوں میں بھی موجود ہے۔ زندگی سے اس نوع کی محبت کو جبلت کہا جاتا ہے۔ اس مفہوم میں یہ محبت نہیں۔ محبت، وہ ربط و جذبہ ہے، جو عقل و شعور کے حامل انسان کا خاصہ ہے۔ یہ محبت، حیوانوں میں مفقود ہے۔ حیوان تو جبلتاً زندہ رہتے ہیں، اور یہ جبلت ہی ہے، جو انھیں ہرحال میں زندہ رہنے کی جد و جہد میں منہمک رکھتی ہے۔ عقل و شعور کے ارتقا کے بعد انسان، اس دور سے بہت آگے نکل آ یا ہے۔ گو کہ اس میں زندہ رہنے کی جبلت موجود ہے، تاہم، اس نے زندگی کو ایک علاحدہ اور ایک آزاد قدر کے طور پر سوچا، سمجھا اورجانا ہے۔ اس کی قدر و قیمت پہچانی ہے، اور اس سے محبت کرنا سیکھا ہے۔ اسے قابلِ قدر سمجھا اور سمجھنا سیکھا ہے۔ وہ عقلی اور شعوری طور پر زندہ رہتا ہے، یا اس اندازمیں زندہ رہنے کی تگ و تاز سے معمور رہتا ہے۔

زندگی سے انسان کی یہی محبت ہے، جس نے اسے اتنا کچھ کرنا سکھایا۔ اس نے یہ دنیا بنائی، جو آج فطری دنیا سے بالکل جدا اورمختلف ہے، گو کہ وسیع تر فطری دنیا کا حصہ ہے۔ اسے سماج اور معاشرے کا نام بھی دیا جاتا ہے، مگریہ کلی طور پر ایک انسانی دنیا کہلانے کی مستحق ہے۔

پھر یہی نہیں، وہ تمام چیزیں، جن کی مدد سے یہ انسانی دنیا تخلیق ہوئی ہے، وہ سب کی سب، دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ، زندگی سے انسان کی محبت کا ثبوت بھی ہیں۔ ان میں علوم، سائینس اور ٹیکنالوجی سرِفہرست ہیں۔ ان چیزوں نے انسان کے لیے ایک نہایت محفوظ دنیا تعمیر کی۔ ذرا سوچیے کہ قرونِ وسطیٰ میں (یورپی) انسان کی اوسط زندگی 34 برس کے قریب تھی، جبکہ آج کی دنیا میں یہ ساٹھ برس (سے زیادہ)، اور ترقی یافتہ دنیا میں کہیں زیادہ ہے۔ یوں انسان کی بنائی ہوئی دنیا نے اس کی زندگی کوطوالت، سکون اور آسودگی سے ہمکنار کیا۔ اس انسانی دنیا کو محض جبلت کا کمال قرار نہیں دیا جا سکتا؛ وگرنہ جبلت پر زندہ رہنے والے حیوانوں نے بھی اپنی کوئی دنیا تخلیق کر لی ہوتی۔ جبکہ انسانوں نے نہ صرف ایک اپنی سی دنیا تراشی، بلکہ اپنی زندگی سے حظ اور تلطف اٹھانے کے لیے لاتعداد سامان بھی ایجاد کیے۔ جیسے کہ ادب، فنون، وغیرہ۔

اس تگ و تاز کے بیچ، انسان کو ایک اور تذبذب نے آتش پا بنائے رکھا۔ وہ اس دنیا کو سمجھنا بھی چاہتا تھا۔ اور اس زندگی کو بھی، جو اس دنیا میں اسے ملی تھی۔ دیکھا جائے تو خود انسان کی یہی زندگی اس کے لیے آگ بھی تھی، جو اسے انگاروں پر لٹائے رکھتی تھی، اور پانی بھی، جو اس آگ کو ٹھنڈا کرتا رہتا تھا۔ یعنی یہ راحت بھی تھی اور اضطراب بھی۔ یوں اس نے اپنی زندگی اور دنیا کو جاننے سمجھنے اور ان کی توجیہہ کرنے کے لیے نت نئے نظریات اور فلسفے وضع کیے۔ پھر ان نظریات اور فلسفوں پر اپنی زندگی کو داؤ پر لگانے لگا۔ ان کی ”سچائی“ پر اپنی زندگی دینے اوردوسروں کی زندگی لینے لگا۔ یوں جو چیز زندگی کی محبت سے برآمد اور اخذ ہوئی تھی، وہ خود زندگی سے زیادہ قابلِ قدر بن گئی۔ پھر ایسے ایسے نظریات اور فلسفے گھڑے گئے جو زندگی کو رد کرنے لگے۔ یہ نظریات اور فلسفے، زندگی کو مسترد کرنے، اورموت کو قبولیت بخشنے لگے۔ زندگی کے مقابلے میں موت اعلیٰ تر قدر ٹھہری۔ یعنی یہ کہ ”موت کی محبت“، ”زندگی کی محبت“ پر غا لب آ گئی۔

آخر میں، زندگی سے محبت کی اس تاریخ کے حوالے سے ایک بات کا اظہار ضروری ہے۔ انسان نے بہت مشکل اور صبر آزما مرحلوں سے گزر کر زندگی کی قدرو قیمت کو جانا، اس کی نایابی کو پہچانا، اور اس کی دستیابی کو ایک رحمت گردانا۔ اس کی مثال وہ زریں قول ہیں، جو زندگی کے بارے میں وضع کیے گئے۔ جیسے کہ زندگی ایک بار ملتی ہے۔ یا یہ کہ اگر آپ نے اچھی زندگی گزاری تو آپ نے دو زندگیاں گزاریں۔ مگر انسان، بالخصوص، پسماندہ اور ترقی پذیر دنیا کا انسان، ان باتوں کا احساس کرنے اور یوں زندگی سے محبت کرنے سے قاصر ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے عاری ہے کہ انسان نے جو یہ میلہ سجایا ہے، وہ زندگی کا حاصل بھی ہے اور زندگی کو ایک نئی جہت اور نئے معنی بھی عطا کرتا ہے۔ وہ زندگی، جسے انسان نے صدیوں کی کٹھنائیوں کے بعد زیادہ محفوظ، زیادہ آسان، زیادہ آسودہ حال، زیادہ خوبصورت، اور زیادہ زندہ رہنے کے لائق بنایا ہے، وہ اسی زندگی کو ارزاں سمجھنے لگا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے زندہ انسانوں میں زندگی کی محبت ماند پڑ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس میں زندگی کا قصور ہے، یا انسانوں کا!‘‘

تو کیا سقراط میں زندگی کی محبت تھی ہی نہیں، یا کمزور پڑ گئی تھی۔

یا وہ اپنے نظریات کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھتا تھا کہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھائے، اور یہ نہ سمجھے کہ فرار اختیار کر کے اس نے اپنے نظریات سے منہ پھیر لیا۔

یا یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ طوالتِ عمری کے سبب زندگی سے بہت لگاؤ کا حامل نہیں رہا تھا۔ ارادی موت کے وقت سقراط کی عمر 71 برس تھی۔ اور ایسے کوئی شواہد دستیاب نہیں کہ وہ ضعیف و لاغر ہو چکا تھا۔ یقیناً وہ باہوش و حواس اور شہر میں فعال تھا، جب ہی تو اس پر مقدمہ قائم ہوا۔

تو پھر کس چیز نے اسے موت کو قبول کرنے پر اکسایا۔ شاید ہم یہ کبھی نہ جان پائیں۔

لہذا، ہمیں اسی بات پر اکتفا کرنا چاہیے، جو اس نے بیان کی۔ یعنی یہ کہ وہ ان قوانین کو جھٹلانا نہیں چاہتا تھا، جنھوں نے اسے تحفظ دیا، اور جن کی اطاعت کا اس نے عہد کیا تھا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس توجیہہ کو قبول کرنا ہو گا کہ جس چیز کے لیے سقراط نے موت کو قبول کیا وہ یہ ہے کہ جیسے بھی قوانین موجود اور نافذ ہوں، ان کی پیروی و پابندی کی جانی چاہیے۔

اب یہ وہ تو جیہہ ہے، جسے ہضم کرنا مشکل ہی نہیں، قریب قریب ناممکن ہے۔ اور اگر سقراط نے ایسا کیا تو ایسا کرنے کے لیے اس نے جو دلیل پیش کی وہ نہایت بودی تھی۔

اس ’’شیطان‘‘ کی تفصیل میں جانا ضروری ہے۔

فرض کیجیے کسی ملک کے تمام قوانین، غلط، غیراخلاقی، مطلق العنانہ، وغیرہ، ہیں۔ غالباً عملاً ایسا ہونا ممکن نہیں۔ یا پھر پورے نظام ہی کو ایسا قرار دے دیا جائے۔

یعنی جو چیز ممکن ہو سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی ملک کے کچھ قوانین، غلط، غیراخلاقی، مطلق العنانہ، وغیرہ، ہوں۔ تو کیا ان قوانین کو تسلیم و قبول کر لینا چاہیے۔ اور ان کی اطاعت کرنی چاہیے۔

اس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں۔ اور یہ واضح رہے کہ یہاں ان معاملات کو نظری طور پر زیرِ بحث لایا جا رہا ہے۔

پہلا جواب تو یہ بنتا ہے کہ انھیں تبدیل کرنے کے لیے کوشش کی جانی چاہیے۔

لیکن فرض کیجیے کوئی قانون ایسا بنا دیا جاتا ہے کہ کسی بھی قانون کو تبدیل کرنے کے ضمن میں کوئی کوشش نہیں کی جائے گی، یا ایسی کوشش کو بزور کچل دیا جائے گا۔ تو پھر کیا ہو گا۔ پھر کیا کیا جانا چاہیے۔

ایک چیز کو یہاں مسلمہ سمجھ لینا ضروری ہے۔ یہ کہ جدید سیاسی تہذیب میں ایسا کوئی آئین یا قانون بنایا یا نافذ نہیں کیا جا سکتا، جو مطلق العنانی پر مبنی ہو، اور جسے حتمی، ناقابلِ ترمیم اور ناقابلِ تبدیل قرار دیا گیا ہو۔

اگر ایسا ہوتا ہے، یا ایسا کیا جاتا ہے، تو یہ بغاوت کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔ اور ’’سِول نافرمانی‘‘ کسی بھی سیاسی نظام کا ایک لازمی جزو ہے۔

یہ بالکل وہی معاملہ ہے کہ اگر کسی ملک میں آئین موجود نہیں، اور مطلق العنانی رائج ہے، یا کسی ملک میں آئین کو کلی طور پر یا جزوی طور پر معطل یا منسوخ کر دیا گیا ہے، یا آئین موجود تو ہے، مگر اس کا نفاذ مفقود ہے،  تو وہاں اول جدوجہد آئین کی تشکیل اور اس کے نفاذ اور بحالی اور نفاذ کے لیے ہو گی۔

اب آئیے اس بات کی طرف کہ بصورتِ دیگر، غلط، غیراخلاقی اور مطلق العنانہ، وغیرہ، قوانین کو تبدیل کرنے کے لیے کیا کیا جانا چاہیے۔

عیاں ہے کہ ان میں ترمیم و تبدل کے لیے سعی کی جانی چاہیے۔ یہ پُرامن، آئینی، قانونی اور اخلاقی ہونی چاہیے۔

اور فرض کیجیے کہ اس جد و جہد میں جان کے زیاں کا خطرہ ہو، تو پھر کیا کیا جائے۔

اس ضمن میں دو بڑی صورتیں خیال کی جا سکتی ہیں۔

ایک یہ کہ، فرض کیجیے، حاکمینِ وقت اس نوع کی جد وجہد کرنے والے کسی فرد کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں، اور اسے گرفتار کر لیتے ہیں، اور اس پر بغاوت یا ایسا ہی کوئی مقدمہ قائم کرتے اور اسے پھانسی دینا چاہتے ہیں۔

اب اس فرد کو کیا کرنا چاہیے۔ یقیناً جو بھی ممکنہ صورت دستیاب ہے، اسے اس کا فائدہ اٹھانا اور اپنی جان کو بچانا چاہیے۔ کیونکہ جان بچے گی، تو وہ مذکورہ قوانین کو تبدیل کرنے کی جد و جہد کر سکے گا۔

دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ حاکمینِ وقت ایسی کسی بھی ممکنہ صورت کو کوئی شکل اختیار کرنے ہی نہ دیں۔ یعنی جیسا کہ ’’معافی نامہ‘‘ یا ایسا اور کوئی موقع پیدا ہی نہ ہونے دیں، یا ایسی کوئی گنجائش بننے ہی نہ دیں۔ یعنی، ایسی صورت میں موت یقینی ہے، اور یہ ارادی موت قطعاً نہیں، جیسا کی سقراط کا معاملہ ہے۔ یہ جبری موت ہے۔

خیال کیا جا سکتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی موت ایسی ہی موت تھی، جس میں کوئی گنجائش پیدا ہی نہیں ہونے دی گئی۔ گو کہ خود بھٹو نے یہ گنجائش نکالنے کی کوشش ضرور کی ہو گی۔ یہاں تک کہ آخر میں ’’رحم کی استدعا‘‘ بھی کی گئی۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی طور، ایسی کوئی صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ متعلقہ فرد کو، جیسا کہ، ملک سے باہر جانے دیا جاتا ہے، اور وہ واپس نہیں آتا۔ جیسا کہ ممکنہ طور پر محمد نواز شریف کا معاملہ ہے۔ تو ایسے معاملے کے ضمن میں، دو چیزوں کو علاحدہ کرنا ضروری ہے۔

ایک تو یہ کہ جان بچانے کی خاطر جان بچانا۔ تاکہ کوئی فرد زندہ رہ سکے۔

دوسرے یہ کہ کسی جد و جہد کو جاری رکھنے کے لیے جان بچانا۔

یہ دونوں فیصلے نہایت ذاتی اور وجودی فیصلے ہو سکتے ہیں۔ نواز شریف کیا کرنا چاہتے ہیں، کسی کو کیا خبر۔

لیکن ان کا اپنی جان بچانے کا فیصلہ درست ہے۔ وہ زندہ رہیں گے، تو آج یا کل کوئی نہ کوئی جد و جہد کر سکیں گے۔ اگر وہ کرنا چاہیں گے، تو۔ اگر وہ قطعاً کوئی جد و جہد نہ کرنا چاہیں، تو کم از کم اتنا ضرور عیاں ہے کہ ان کی جان بچ گئی۔

یا جیسا کہ ان کے ساتھ پہلے بھی پیش آ چکا ہے کہ سازباز سے ان پر مقدمہ بنوایا گیا، اور پھر عمر قید کی سزا بھی دلوائی گئی۔ مگر پھر کسی نہ کسی طور انھوں نے پاکستان چھوڑ جانے کی گنجائش نکال لی۔

تو کیا نواز شریف کا یہ فیصلہ غلط تھا۔ میری نظر میں ہرگز نہیں۔

ایک ایسے وقت میں، جب آئین اور قانون کے غاصب کسی کی جان لینے پر تُلے ہوں، تو کیا اسے اپنی جان بچانے کے لیے کچھ نہیں کرنا چاہیے۔

مگر جیسا کہ آج کل یہ دلیل دی جا رہی ہے، اور یہ دلیل بعدازاں، بھی، دی جائے گی کہ نواز شریف کو ’’سیاسی شہید‘‘ بن جانا چاہیے تھا۔ انھوں نے بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے لوگوں کے ساتھ دغا کی۔ تو جواباً یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ متعدد برس برسرِ اقتدار رہ کر انھوں نے لوگوں کے ساتھ کونسی وفا کی۔

اس کا مزید جواب یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے ’’سیاسی شہید‘‘ بن کر پاکستان کے شہریوں کے لیے حالات کو کتنا بہتر بنا لیا۔ عیاں ہے کہ نہ صرف ان کی بلکہ کتنے اور بے نام لوگوں کی ’’سیاسی شہادت‘‘ کے باوجود، صورتِ حالات وہیں کی وہیں ہے، بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ پہلے سے کہیں زیادہ خراب اور مایوس کن ہے۔

جہاں تک عزت، غیرت، مردانگی، وغیرہ، کا معاملہ ہے، تو یہ سماجی تشکیلات ہیں۔ ایک صاف ذہن ان کے جال میں گرفتار نہیں ہوتا۔ اس کے سامنے یا تو خود اپنی زندگی ہوتی ہے، یا اپنا مقصد، جس کے لیے وہ تگ و دو کر رہا ہوتا ہے۔

یہاں برطانوی فلسفی، برٹرینڈ رسل کا یہ قول یاد دلانا ضروری ہے کہ میں اپنے نظریات کے لیے کبھی جان نہیں دوں گا، کیونکہ میں اپنے نظریات میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔

مزید برآں، جیسا کہ سائینس کی تاریخ بتاتی ہے، کتنے ہی محققوں اور مفکروں کو اپنی جان بچانے کی خاطر اپنے نظریات کو ترک کرنا پڑا، یا انھیں ترمیمی اور قابلِ قبول صورت میں لکھنا اور بیان کرنا پڑا۔ جیسا کہ کوپرنیکس، گیلیلو کے ساتھ پیش آیا۔ اور کئی ایک کو جان بھی گنوانی پڑی، جیسے کہ جاڈاناؤ بروناؤ۔

مگر اس سے ان کی نظریات کی سچائی اور افادیت کو کوئی فرق نہیں پڑا۔

یہ بھی عیاں رہے کہ مختلف مذاہب میں انسانی جان اور اس کی حرمت اور اس کی حفاظت کو احسن اور مقدم قرار دیا گیا ہے۔

یہاں اہلِ تشیع اور آغا خانی فرقے کے ایک نظریے کی طرف اشارہ بھی مفید رہے گا۔ یعنی تقیہ۔ یعنی اگر کسی فرد کی جان اور عزت و مال کو خطرہ لاحق ہو تو، وہ اپنے عقائد پر پردہ ڈالے رکھ سکتا ہے، اور یوں دشمنوں کے شر سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

عیاں ہے کہ اس تحریر میں سقراط سے منسلک سچائی اور موت کے فسانے کو کھولنے اور اس کا رد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

سو، اس معاملے کے ضمن میں جو استدلال وضع ہوا ہے، اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔

فرض کیجیے سقراط اپنے تصورات و نظریات (جیسا کہ سقراطی منہاج، اور اس کی اخلاقی تعلیمات) کے لیے جان دے رہا تھا، اور اس نے جان دے دی، تو کیا اس کے تصورات و نظریات اس لیے زندہ ہیں کہ اس نے ان کے لیے جان دی تھی۔ یا ان کے موثر اور مفید ہونے کا امر بھی اس کی موت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ پھر افلاطون اور ارسطو کے تصورات اور نظریات کیوں زندہ ہیں۔ انھوں نے تو ان کے لیے جان نہیں دی۔ بلکہ دوراندیشی کے ساتھ اپنی جان کو محفوظ رکھا۔

حاصل یہ کہ اپنے تصورات و نظریات کو موت کے ساتھ جوڑنا ایک خلطِ مبحث ہے۔ اور سقراط کے معاملے میں یہ خلطِ مبحث ایک ’’قدر‘‘ کی شکل اختیار کر گیا۔ جیسا کہ جو کوئی کسی جد و جہد میں کام آ جاتا ہے، تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے، اپنے وقت کا سقراط، وغیرہ۔

یعنی دو غیرمتعلقہ چیزوں کو باہم جوڑ دیا گیا۔ اور جنھیں رفتہ رفتہ لاینفک سمجھا جانے لگا۔

بلکہ سقراط کے ساتھ جڑے اس فسانے نے ان گنت لوگوں کو گمراہ بھی کیا ہو گا۔

قصہ مختصر، آخر میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے، درج ذیل قضایا وضع کیے جا سکتے ہیں۔

ایک تو یہ کہ جان بچانا بہرصورت افضل ہے۔ اور اگر کہیں کوئی ایسی صورت پیش آتی ہے، تو جان بچانے کا فیصلہ نہایت ذاتی اور وجودی فیصلہ ہوتا ہے۔

دوسرے یہ کہ کسی فرد کے تصورات و نظریات کا اس کی جان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

تیسرے یہ کہ کوئی فرد زندہ رہ کر اپنے تصورات و نظریات کی تشکیل و ترویج کر سکتا ہے، نہ کہ جان دے کر۔

چوتھے یہ کہ کسی فرد کے تصورات و نظریات کا اس کی موت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

پانچویں یہ کہ اگر موت کے بعد کسی فرد کے تصورات و نظریات کو فروغ حاصل ہوتا ہے، تو اس کی پشت پر سماجی و سیاسی اور دوسرے اسباب و حالات کارفرما ہو سکتے ہیں۔

چھٹے یہ کہ سقراط کی ارادی موت کا اس کے تصورات و نظریات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

ساتویں یہ کہ سچائی اور موت کا بھی ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments