Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

آیا پاکستان میں خیالات جنم لے رہے ہیں یا نہیں؟

مجھے جس چیز نے اس سوال پر غور کرنے اور اس کا جواب دینے پر اکسایا، وہ ڈاکٹر ندیم الحق کی یہ رائے ہے کہ پاکستان میں خیالات جنم نہیں لے رہے۔

ڈاکٹر ندیم الحق معیشت دان ہیں۔ وہ آج کل پائیڈ (پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمینٹ اکنامکس) کے وائس چانسلر ہیں۔ وہ اس عہدے پر پہلے بھی متمکن رہے ہیں۔ وہ منصوبہ بندی کمیشن کے چیئرمین بھی تھے۔

ان کی طرف سے یہ سوال حال ہی (3 فروری، 2022ء) میں ٹویٹر پر اٹھایا گیا۔

’’دہائیوں سے تدریسیاتی کاہلی کو فعالیت (مراد ہے سیاسی فعالیت۔ خلیل) میں چھپایا جاتا رہا ہے۔  فعالیت سہل ہے، تدریسیاتی سعی مشکل۔ احتجاج پسندی سہل ہے، خیالات کو جنم دینا مشکل ہے۔‘‘

یہ ٹویٹ جب میری نظر سے گزری تو میں نے اس کا یہ جواب لکھا۔ ’’خیالات کی پیدائش ہو رہی ہے۔ مسئلہ ہے ان کی ترسیل۔ اور ترسیل مشکل تر ہے۔‘‘

ڈاکٹر ندیم کا جواب تھا: ’’مجھے اختلاف ہے کافی خیالات جنم نہیں لے رہے گہرائی کے حامل خیالات۔ ہمارے ویبینار ہر روز تجزیے کی عدم موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں۔

ویبینار/سیمینار ترسیل کے لیے ہیں۔ ضروری ہے کہ لوگ سننے اور سیکھنے کے لیے تیار ہوں۔ احتجاج کرنے والے اس بات کو پسند نہیں کرتے اور رائے کے حامل لوگ بھی۔‘‘

میرا جواب تھا: ’’لوگ سیکھنے پر راضی ہیں یا نہیں یہ ایک علاحدہ مسئلہ ہے۔ پائیڈ ویبینار/سیمینار ایک پلیٹ فارم ہے۔ کیا کوئی دوسرے پلیٹ فارم میسر ہیں؟‘‘

ڈاکٹر ندیم نے ویبینار/سیمینار کے ضمن میں کہا: ’’میری خواہش ہے کہ تمام یونیورسٹیاں ایسا کریں۔ تمام اچھی یونیورسٹیاں جو میں نے دیکھی ہیں وہاں تمام شعبوں میں ہر ہفتے سیمینار ہوتے ہیں۔‘‘

میں نے اس پر ان سے یہ سوال پوچھا: ’’اور، یونیورسٹیوں کے علاوہ، اور دوسرے پلیٹ فارم کیا کر رہے ہیں۔ خیالات کی ترسیل میں آیا وہ کسی لیاقت و قابلیت اور طریقِ کار کو سامنے رکھتے ہیں؟‘‘

اب میں نے اپنے جواب کو ذرا پھیلایا:

’’پہلی چیز تو یہ ڈھونڈنا ہے کہ کیا کچھ شائع ہو رہا ہے اور دوسری اور نہایت اہم چیز یہ تلاش کرنا ہے کہ کیا کچھ شائع نہیں ہو رہا، یعنی کیا کچھ ہے جس کی ترسیل نہیں ہو رہی۔ یہ کچھ تجربی چیز ہے۔ اسے غیرتجربی انداز میں مسترد نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

یہاں پہنچ کر یہ مکالمہ ختم ہو گیا۔

میں چاہوں گا کہ اب کچھ تفصیل اس اجمال کی بیان ہو۔

فرض کریں یہ سوال درپیش ہو کہ آیا پاکستان میں خیالات کی پیدائش ہو رہی ہے یا نہیں، تو اس کا جواب، کچھ تحقیق کا متقاضی ہو گا۔

اس ضمن میں پہلی چیز یہ تو دیکھنا ہے کہ جب خیالات جنم لیتے ہیں، تو ان کی نمود و اشاعت کیسے ہوتی ہے۔

عیاں ہے کہ خیالات کی نمود و اشاعت، اول، کتابوں، کتابچوں، جریدوں، رسالوں، اخباروں، وغیرہ، میں اور ان کے ذریعے سے ہوتی ہے۔

دوم، نمود و اشاعت پانے والی چیزوں پر ریویو، یا تبصرے، تنقید و انتقاد، جمع و تدوین، وغیرہ، جو جرائد، رسائل، اخبارات، وغیرہ، میں ہی شائع ہوتے ہیں۔ اس میں کتابیات، اور اشارات، وغیرہ، بھی شامل ہیں۔

(واضح رہے کہ اول اور دوم کو جدا جدا رکھنا ضروری ہے، کیونکہ یہ خیالات کی نمود و اشاعت کے ضمن میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔)

سوم، خیالات کی نمود و اشاعت، سیمیناروں، ویبیناروں، کانفرینسوں، وغیرہ، میں اور ان کے ذریعے سے ہوتی ہے۔

چہارم، خیالات کی نمود و اشاعت، مباحثوں، مذاکروں، مناظروں، وغیرہ، میں اور ان کے ذریعے سے ہوتی ہے۔

(واضح رہے کہ میں سوم اور چہارم کے درمیان فرق ملحوظ رکھتے ہوئے میرے ذہن میں وہ انجمنیں اور حلقے ہیں، جو اپنے  اجلاس باقاعدگی کےساتھ منعقد کرتے ہیں۔ جبکہ سیمینار، ویبینار اور کانفرینس، وغیرہ، یک روزہ یا چند روزہ انعقاد پر مبنی ہوتے ہیں۔)

سو اگر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ آیا پاکستان میں خیالات کی پیدائش ہو رہی ہے، یا نہیں، تو اسے نمود و اشاعت کے ان ذرائع کو کھنگالنا ہو گا۔ جب تک وہ ایسا نہیں کرتا، اس کا جواب، خواہ وہ ہاں میں ہو یا ناں میں، محض تاثراتی رہے گا۔

لیکن معاملہ ابھی طے نہیں ہوا۔

ابھی ایک اور سوال درپیش ہے، جب تک جس کا مصدقہ جواب نہیں ملتا، خیالات کی پیدائش سے متعلق سوال کا جواب ادھورا رہے گا۔

یعنی اس چیز کو بھی تحقیقی انداز میں دیکھنا ہو گا کہ آیا کچھ ایسے خیالات بھی ہیں، جو اوپر بیان کیے گئے نمود و اشاعت کے ذرائع تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ یا اگر پہنچتے ہیں، تو وہاں انھیں درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا، اور مختلف وجوہات کی بنا پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، یا مسترد کر دیا جاتا ہے۔

یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ جس قدر اور جتنے زرائع موجود ہیں، اوپر چار قسموں کے تحت جن کا ذکر ہوا، ان میں سے بیشتر کبھی یہ بتانا پسند نہیں کریں گے کہ وہ خیالات، یعنی کتب، وغیرہ، کا انتخاب کیسے کرتے ہیں۔

یا محض یہ اعداد بھی اکٹھے کیے جا سکتے ہیں کہ وہ کتنی چیزوں کو نظرانداز یا مسترد کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں، ان کے ساتھ ایک اور معاملہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ان کے سامنے یہ سوال رکھا جا سکتا ہے کہ وہ جن چیزوں کو جیسا کہ قابلِ اشاعت سمجھتے ہیں، ان کا انتخاب کیسے کرتے ہیں۔ یا جن چیزوں کو نظرانداز و مسترد کرتے ہیں، ان کے لیے ان کے پاس کیا معیار موجود ہے۔

یعنی آیا ان کے پاس کوئی منضبط طریقِ کار اور کچھ معیارات موجود ہیں، یا انھوں نے کوئی ادارتی مجلس تشکیل دی ہوئی ہے، جو یہ کام کرتی ہے۔ اور یہ کہ اس ادارتی مجلس نے اپنی اور دوسروں کی رہنمائی کے لیے کیا کچھ قواعد و ضوابط اور معیارات وضع کیے ہیں۔

جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، اس پیچیدہ سوال کا جواب ناں میں ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہو گا کہ کہیں کوئی ادارتی یا انتخابی مجلس موجود ہو۔ یا معیارات وضع کیے گئے ہوں۔ یا کچھ قواعد و ضوابط بنائے گئے ہوں۔ یا کچھ رہنما اصول طے کیے گئے ہوں۔

اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں ہر جگہ شخصی رائے، پسند ناپسند، صوابدید، اثر و رسوخ، سفارش، روابط کام آتے ہیں۔ اور انھی کا راج ہے۔ اور یہ عیاں ہے کہ یہ تمام چیزیں لیاقت و قابلیت کے لیے سمِ قاتل کا درجہ رکھتی ہیں۔

لہٰذا، جو سوال اس تحریر کے شروع میں اٹھایا گیا کہ آیا پاکستان میں خیالات کی پیدائش ہو رہی ہے، اس کا جواب ہاں میں بھی دیا جا سکتا ہے، اور ناں میں بھی۔

ہاں، میں جواب اس لیے کہ پاکستان میں موجود خیالات کی نمود و اشاعت سے متعلق تمام ذرائع صوابدید پر قائم ہیں، قواعد و ضوابط پر نہیں۔ یعنی جو خیالات جنم لے رہے ہیں ان کی نمود و اشاعت نہیں ہونے دی جا رہی۔

اور اگر یہ کہا جائے، جیسا کہ ڈاکٹر ندیم الحق کی رائے ہے کہ پاکستان میں خیالات جنم نہیں لے رہے، تو اس کا مطلب ہے کہ جو چیزیں نمود و اشاعت کے ذریعے سامنے آ رہی ہیں، وہ بیشتر سے بھی زیادہ خیالات سے عاری اور پرانے خیالات کی جگالی پر مشتمل ہیں۔

یعنی خیالات جنم تو لے رہے ہیں، مگر انھیں سامنے نہیں آنے دیا جا رہا، اور جنھیں سامنے لایا جا رہا ہے، وہ مواد سے عاری ہیں۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments