Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

گلیوں بازاروں کا چوکیداری نظام

چیزیں خودرو انداز میں کس طرح وجود میں آتی ہیں، اور کس طرح، روایت اور پھر ایک غیررسمی نظام میں ڈھل جاتی ہیں، اس تحریر کا مقصد اسی مشاہدے کو بیان کرنا ہے۔

دروازے پر دستک ہوئی۔ باہر وہی شناسا چہرہ تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، ہماری گلی اور دوسری کئی گلیوں میں یہی صاحب بہت عرصے سے چوکیداری کر رہے ہیں۔ اور جیسا کہ خاصی حد تک ایک معمول ہے کہ یہ صاحب بھی پختون ہیں۔

کئی برس قبل ان کے ساتھ میری تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔ انھیں جو پیسے ماہانہ دیے جاتے تھے، وہ دس روپے تھے، پھر بیس ہوئے۔ اور اب پچاس تھے۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ اگر وہ صرف چند گلیوں کا پہرہ دیں، تو فی گھر کتنے روپے دیے جانے چاہییں، اور یہ کہ ان گلیوں میں کل کتنے گھر بنتے ہیں۔ اس وقت کے حساب کتاب کے مطابق فی گھر دو سو روپے بنتے تھے۔ مگر لوگ پچاس دینے میں بھی لیت و لعل کرتے تھے، تو وہ دو سو کیسے دیں گے۔ سو یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔

یوں ان صاحب سے میری اچھی واقفیت ہو گئی۔ ان کا طریق بہت مہذب تھا۔ گھنٹی بجا کر یا دستک دے کر وہ دروازے کے سامنے سے ہٹ کر انتظار کرتے۔ سلام کرتے۔

حالیہ دنوں میں جب میں دروازے پر گیا، تو ان کے ساتھ ایک صاحب اور تھے۔ وہ جوان تھے اور ہلکی ہلکی داڑھی تھی۔ مگر کوئی بات نہیں ہوئی۔ میں نے سوچا یہ ویسے ہی ساتھ آئے ہوں گے۔

ابھی اس ماہ کے آغاز میں دستک ہوئی۔ دروازے پر وہی داڑھی والے جوان صاحب تھے، اور ان کے ساتھ ایک معمر شخص بھی تھے۔ میں نے انھیں سلام کیا۔

مجھے حیرانی ہوئی۔ میں نے پوچھا، وہ صاحب کدھر ہیں، جو آتے تھے۔

جواب ملا، وہ بیمار ہیں۔

مجھے تشویش ہوئی۔ کیا ہوا انھیں۔

گردوں کا مسئلہ ہے۔ وہ نہیں آ سکتے۔

یہ چوٹ جیسے میرے دل پر لگی۔

تو یہ انتظام تھا۔ میں نے حسبِ معمول جو چوکیدارہ وہ لیتے تھے، وہ دیا۔ تو جو معمر شخص ساتھ تھے، انھوں نے کہا، مہنگائی بہت ہو گئی ہے۔ یہ بہت کم ہیں۔ سو کر دیں۔

جی بالکل درست ہے۔

کیا معلوم چوکیداری کے اس نظام کی ابتدا کیسے ہوئی۔ مگر یہ موجود ہے، اور باقی ہے۔ اور جاری ہے۔ اور کیسے جاری ہے۔ اس کا انتظام کیسے ہوتا ہے۔ خودبخود ہوتا رہتا ہے۔

انسانی معاشرے میں جس چیز کی ضرورت پیدا ہوتی ہے، لوگ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے خود آگے آ جاتے ہیں۔ اور خودرو انداز میں ایک انتظام وجود میں آ جاتا ہے۔ اور چلتا رہتا ہے۔

ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے بھی یہ انتظام ایسے ہی چلتا تھا، اور ریاست و حکومت کی موجودگی اور مداخلت کے بغیر بھی چل رہا ہے۔

انسانی معاشرہ اپنے پاؤں پر چلنا جانتا ہے۔ اس نے ریاست کو بھی انسانی جان و مال اور حقوق کی چوکیدرای کے لیے قائم کیا تھا، مگر ریاست اپنے فرائض سے بے بہرہ ہو کر ایک ’’طفیلی بیل‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments