Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

سادگی کا رنگ

ان کی سادگی کا رنگ اتنا گہرا ہے، اس کا احساس نہیں تھا مجھے۔ ہاں، اتنا ضرور معلوم تھا کہ ان کی زندگی سادگی سے عبارت ہے۔

آج ہی صبح مسجد کے سپیکر سے اعلان ہوا، ’تعظیم الدین کے والد احترام الدین کا قضائے الہٰی سے انتقال ہو گیا ہے، ان کی نمازِ جنازہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔‘

کوئی دو گھنٹے بعد میں باہر گلی میں آیا تو ان کے گھر کے باہر کرسیاں بچھی تھیں، اور چند لوگ بیٹھے اور کچھ کھڑے تھے۔

میں بھی وہاں جا کر چار پانچ لوگ گفتگو کر رہے تھے ان کے پاس کھڑا ہو گیا۔

احترام الدین کو صبح چار بجے کے قریب ہسپتال لے جایا گیا، مگر انھوں نے اصرار کیا کہ انھیں واپس گھر لے جائیں۔ بس کوئی سوا پانچ بجے ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔

انھیں ریٹائر ہوئے کوئی آٹھ دس سال تو ہو گئے ہوں گے۔ ریلوے میں ملازم تھے۔

میں نے انھیں ہمیشہ سائیکل پر آتے جاتے دیکھا۔ موٹر سائیکل پر کبھی نہیں۔ وہ موٹر سائیکل خرید سکتے ہوں گے، مگر خریدی نہیں۔

یا پھر انھیں مسجد آتے جاتے دیکھا۔

ہمیشہ شلوار قمیض میں ملبوس ہوتے۔ سر پر ٹوپی۔ کبھی کبھی اوپر واسکٹ پہنی ہوتی۔

سردیوں میں گرم کپڑوں کا مطلب جرسی وغیرہ تھا۔

نگاہیں نیچے جھکی ہوئیں۔ نہ کسی کی طرف دیکھنا، نہ کسی سے کچھ بولنا۔

ان کے گھر کے باہر پرانی وضع کا دروازہ لگا تھا، دو پٹ والا لکڑی کا دروازہ۔ جس کے باہر ایک گول سا کڑا تھا، جسے گھمانے سے دروازہ بند ہوتا یا کھلتا تھا۔

جتنا مجھے یاد ہے ایک مرتبہ گھر کی مرمت وغیرہ ہوئی تھی، اور باہر دیواروں پر پلستر ہوا تھا۔ وگرنہ اینٹیں چنی ہوئی تھیں۔

وہ دروازہ اب بھی ویسے ہی رہا۔

پھر جب وہ ریٹائر ہو گئے، تو ان کا ایک لڑکا تھا، تعظیم الدین، جس نے خراد کا کام سیکھا تھا، اس نے ساتھ کے بازار میں ایک دکان کرائے پر لے کر وہاں کام شروع کر دیا۔ اس کی شادی کر دی گئی تھی۔ سادگی کے ساتھ اور کوئی شور شرابہ ڈھول ڈھمکا نہیں ہوا تھا۔

دوسرا چھوٹا لڑکا، عظیم الدین، اے جی آفس میں ملازم تھا۔

ایک لڑکی تھی ان کی اس کی شادی بھی اسی طرح سادگی سے ہوئی تھی۔

اب انھیں وہاں تعظیم الدین کی دکان پر جاتے اور آتے دیکھا۔

پھر آہستہ آہستہ وہ ایک لاٹھی ٹیک کر چلتے نظر آنے لگے۔

پھر یہ لکٹری کی لاٹھی لوہے کی لاٹھی میں بدل گئی، جس کے نیچے گول سا پنجہ بنا تھا زمین پر گرفت کے لیے۔

کچھ اور برس گزرے تو وہ لوہے کی بنی کرسی کے سہارے چلتے دکھائی دیے۔

میں انھیں سلام کرتا۔ مگر اکثر وہ لاتعلق نظر آتے، اتنا لاتعلق کہ سلام کرنے کا حوصلہ ہی نہ پڑتا۔

میں نے پوچھا کہ تدفین کب ہو گی۔ پتا چلا کہ ظہر کے بعد۔

میں نے دیکھا کہ احترام الدین کا لڑکا، تعظیم الدین کہیں سے واپس آ گیا تھا، اور اپنے دروازے کے باہر دوتین لوگوں کے ہمراہ کھڑا تھا۔

میں ابھی سوچ ہی رہا تھا اس کے پاس جاؤں تعزیت کے لیے، دیکھا کہ کچھ خواتین برقعے میں ملبوس اور کچھ بچے آ رہے ہیں۔ ہم سب دیوار کے ساتھ ہو کر کھڑے ہو گئے۔ تعظیم انھیں لے کر اپنے گھر چلا گیا۔

کچھ دیر بعد عظیم الدین اپنے گھر سے نکلا۔ اس کے گالوں پر آنسو پُنچھے ہوئے تھے۔ میں تیز قدم اٹھاتا اس کے پاس آ گیا۔

بہت افسوس ہوا، آپ کے والد بہت نیک تھے۔ کیا ہوا تھا انھیں۔

بس کچھ مہینوں سے بیمار تھے۔ سانس کی تکلیف بھی تھی۔ دل کے بھی مریض تھے۔

دوسرے لوگ بھی سوال کر رہے تھے، اور مرحوم کی خوبیاں بیان کر رہے تھے۔

عظیم بتانے لگا۔ ابو بےحد سادہ تھے۔ ایک دفعہ میں اخبار گھر لے آیا۔ انھوں نے کہا اب نہ لانا۔ ہمیں اس سے کیا مطلب۔

انھوں نے ٹی وی بھی نہیں لانے دیا۔

اب جب سے موبائل آیا ہے، اسے بھی کبھی خود استعمال نہیں کیا۔ کسی کو کوئی پیغام دینا ہوتا تو ہم سے کہتے اسے یہ کہہ دو یا اس سے یہ پوچھ لو۔

بےحد سادہ تھے۔

میں حیران ہو رہا تھا۔ اس سادگی کی تحسین کیسے کروں۔ دل تو چاہتا ہے خود بھی ایسا ہی بن جاؤں۔ مگر اب تو چڑیاں کھیت چگ گئی ہیں۔

پھر بھی سادگی کا یہ رنگ خود پر چڑھانے کو دل کر رہا تھا۔

کتنا سادہ رنگ ہے یہ۔ دنیا سے بے نیاز۔ زندگی سے لاتعلق زندگی کا رنگ۔

اچھا تو کتنے بجے تدفین ہو گی۔ ظہر کے بعد۔

میں گھر واپس آ گیا۔

کچھ حیرانی، کچھ پریشانی، اور کچھ غم حاوی تھا مجھ پر۔

میں اس سادگی کی پیچیدگی میں الجھا رہا۔

؎ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

ظہر کے وقت جنازے میں شرکت کی۔ مجھے یوں احساس ہوا یہ سادگی کا جنازہ تھا۔

کے ایل سہگل کے گائے ہوئے نغمے کے بول ذہن میں گونجنے لگے۔

بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

جناز گا ہ سے واپسی پر مجھے مختلف خیال ستاتے رہے۔

یہ ایک شخص کی سادگی تھی کیا۔ یا پورے گھر کی سادگی۔ یا پورے گھر میں طاری کی گئی تھی یہ سادگی۔

کیا ان کے بچوں نے اس سادگی کو قبول کیا۔ کیا وہ اپنے والد کی سادگی کی تحسین کر سکتے تھے۔ کیا انھوں نے اس سادگی کی تحسین کرنا سیکھا۔ یا نہیں۔

یا وہ اس سادگی کی چکی میں پستے رہے۔

عورتیں اور لڑکیاں کیا کر سکتی ہیں۔ گھر میں جو کچھ بھی ہو جیسا بھی ہو عام طور پر انھیں قبول ہی کرنا ہوتا ہے۔ سادگی، یا کچھ اور۔

مجھے ان خیالات سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے انھیں جھٹک دیا۔

میں احترام الدین کی سادگی کے رنگ میں ڈوبا رہنا چاہتا تھا۔ ایک رومانس تھا اس میں۔ ایک رکھ رکھاؤ۔ ایک کڑی احتیاط سے مملو تھی یہ سادگی۔

اپنی زندگی کے ساتھ ایک تجربے کی طرح۔

مجھے یہ سادگی اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ بہت کشش تھی اس میں۔

اس کا رومانس بہت قاتل تھا۔ میں اس سادگی سے قتل ہونا چاہتا تھا۔

؎ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

پر مجھ میں اتنی طاقت نہیں تھی۔ اتنا حوصلہ نہیں تھا۔

ہاں، لڑکپن میں ایک مرتبہ دورہ پڑا تھا مجھ پر۔ سب کچھ تیاگنے کا۔ کھدر پہننا شروع کر دیا۔ کھُری چارپائی پرلیٹنا شروع کر دیا۔ ایک تکیے اور چادر کے ساتھ ۔

یہ اہتمام زیادہ دن، زیادہ دیر نہ چل سکا۔ زندگی کے اپنے تقاضے تھے۔

مگر یہ چاٹ ہمیشہ ساتھ رہی۔ سادگی کی چاٹ۔ جی چاہتا ترکِ علائق کر کے کہیں ویرانے میں چلا جاؤں۔

پھر سوچتا یہ ویرانہ کہاں ملے گا۔ اسے تو اپنے اندر ہی ڈھونڈنا ہو گا۔ جیسا کہتے ہیں کہ ہر چیز انسان کے اندر موجود ہے۔

احترام الدین نے دنیا میں رہتے ہوئے سادگی کا ساتھ کیونکر نبھایا۔ یعنی پانی میں رہتے ہوئے مگرمچھ سے بیر رکھا اور پانی میں بھیگے بھی نہیں۔

زندگی کا یہ ڈھنگ آدمی کیسے سیکھتا ہے، سادگی کے اس رنگ میں آدمی کیسے رنگتا ہے، میں اب بھی اسی سوچ میں گُم  ہوں۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments