Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

بُغض کی سیاست اور حُب کی سیاست

[نوٹ: ہمارے یہاں گفتگو میں ’’بُغض ۔۔۔‘‘ اور ’’حُب ۔۔۔‘‘ کی اصطلاحات عام ہیں۔ میں اصل الفاظ کے استعمال سے بوجوہ گریز کر رہا ہوں۔]

پاکستان کی بیشتر سے بھی زیادہ سیاست بُغض کی سیاست ہے۔

مراد یہ کہ یہ نفرت، عداوت، انتقام کے جذبات سے مغلوب سیاست ہے۔

اسے ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔

یعنی یہ مثبت اور تعمیر کی سیاست نہیں۔ یہ منفی اور تباہی کی سیاست ہے۔

تو کیا جو تھوڑی بہت سیاست باقی رہ جاتی ہے، وہ حُب کی سیاست ہے؟

اس کا جواب ’’شاید‘‘ یا ’’غالباً‘‘ کہہ کر دیا جا سکتا ہے۔ یعنی یہ ’’مبنی بر حُب سیاست‘‘ اگر کچھ وجود رکھتی ہے، تو اس کا یہ وجود محض عارضی، نمائشی اور ایک دھوکہ ہوتا ہے۔ نظر کا دھوکہ، سیاسی دھوکہ۔

اس مفہوم میں یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ پاکستان کی سیاست اصلاً ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ ہے۔ یعنی یہاں کی سیاست میں ’’مبنی بر حُب سیاست‘‘ کا کردار بہت کم ہے۔

یہاں جو لوگ گہری سیاسی وابستگیاں رکھتے ہیں، یہ نہیں کہ ان کی وابستگی اس سیاسی جماعت یا اس جماعت کی قیادت کے ساتھ ہوتی ہے، جس کے وہ وفادار ہوتے ہیں، بلکہ ان کی وابستگی اس نفرت، عداوت اور انتقام کے ساتھ ہوتی ہے، جو ان کی پسندیدہ جماعت کسی دوسرے سیاست دان یا سیاسی جماعت کے بارے میں رکھتی ہے۔ اور یہ جماعت یا اس جماعت کی قیادت ان کی پسندیدہ جماعت اور پسندیدہ قیادت اسی لیے ہوتی ہے، کیونکہ وہ کسی ایک سیاسی جماعت یا باقی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے خلاف نفرت، عداوت اور انتقام کی علم بردار ہوتی ہے۔

یعنی کسی سیاسی جماعت یا اس کی قیادت کے لیے ان لوگوں کی پسندیدگی ’’مبنی بر حُب سیاست‘‘ سے شروع نہیں ہوتی۔ یا یہ کہ ان کی سیاسی وابستگی کی بنیاد کسی سیاسی جماعت کا کوئی تعمیری پروگرام، یا منشور، وغیرہ، نہیں ہوتا۔

یا اگر شخصیت پرستی کی بات کی جائے، تو ان کی سیاسی وابستگی کی بنیاد، کسی سیاسی شخصیت کے لیے ان کی پسندیدگی نہیں، بلکہ کسی دوسری سیاست جماعت یا سیاسی شخصیت کے لیے ان کی نفرت، عداوت اور انتقام ہوتے ہیں۔ ان کی سیاسی وابستگی اور وفاداری، یعنی ان کی سیاست، اس نفرت، عداوت اور انتقام پر استوار ہوتے ہیں۔ یہ ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ ہے۔

مثال کے طور پر سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں  کی ایک بڑی تعداد یا تو نواز شریف یا آصف علی زرداری یا اب عمران خان یا دوسری سیاسی شخصیات کے ساتھ نفرت، عداوت اور انتقام کے جذبات میں مبتلا ہے۔ اور ان کی سیاسی وابستگیاں یا وفاداری انھی جذبات سے متعین ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ یہاں دو باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ اوپر جو تعمیم کی گئی ہے، وہ تعمیم ہے، حقیقت کا قطعی بیان نہیں۔ اور اس میں استنثیات کو پورا دخل حاصل ہے۔ یعنی ایسے لوگ ہوں گے کہ جو اگر کسی سیاسی جماعت یا سیاسی قیادت کے ساتھ وابستگی کے حامل ہیں، تو ان کی یہ ’’سیاست مبنی بر حُب‘‘ ہو گی۔ لیکن یہ مظہر ایک ذیلی اور غیراہم سیاسی مظہر ہو گا۔ یعنی اگر ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ ایک ذیلی مظہر ہوتا، تو اسے دریں صورت بیان کرنے اور اس کی تعمیم و تشکیل کی ضرورت پیدا ہی نہ ہوتی۔

دوسری بات یہ کہ ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ نہ صرف ایک اہم ترین سیاسی مظہر کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، بلکہ یہ پاکستان کی سیاست کی نوعیت کا تعین بھی کر رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس مظہر کو پیشِ نظر رکھے بغیر، پاکستان کی سیاست کو نہ تو سمجھا جا سکتا ہے، اور نہ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

مناسب ہو گا اگر کچھ نظر ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کے اس مظہر کی تاریخ پر ڈال لی جائے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے ظہور اور عروج تک، یعنی ذوالفقار علی بھٹو کے انجام تک، یہ مظہر ابھر کر سامنے نہیں آیا تھا۔ اس سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ سیاسی انتقام ناموجود تھا۔ پیپلز پارٹی کے اولین دور حکومت میں سیاسی انتقام بدرجہ اتم موجود تھا۔ مگر پیپلز پارٹی کے وفاداروں کی سیاست ’’مبنی بر حُب سیاست‘‘ تھی۔ اس میں اگر کہیں مبنی بر ’’بُغض کی سیاست‘‘ کی ملاوٹ تھی، تو بہت کم ہو گی۔

اسی لیے تو ان وفاداروں کو ’’جیالا‘‘ کہا جاتا تھا اور کہا جاتا ہے۔ ایک معروف جیالے ڈاکٹر اسرار شاہ ہیں۔ صحافی سلیم صافی نے ان کا جو انٹرویو کیا ہے، مثال کے طو پر اسے سنیے۔ یعنی جیالوں کی سیاسی وفاداری حُب پر مبنی تھی، بُغض پر نہیں۔

یہ جیالے اگر کہیں کسی دوسری سیاسی جماعت یا اس کی قیادت کے دشمن بنتے بھی تھے، تو یہ ایک ثانوی پیش رفت ہوتی تھی۔ اور اس کا سبب اس سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کا پیپلز پارٹی یا اس کی قیادت کے ساتھ اختلاف ہوتا تھا، یا یہ اختلاف جو بھی صورت اختیار کرے۔

یعنی ذوالفقار علی بھٹو کے جیالوں کی سیاست نفرت، عداوت اور انتقام پر مبنی سیاست نہیں تھی۔

تاہم، جہاں تک بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور گروہوں کا تعلق ہے، محدود ہونے کے باوجود ان کی سیاست ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ تھی۔ اور اس سیاسی مظہر کی تشکیل میں اس کا حصہ بقدر جثہ تھا۔

[یاد رہے کہ پاکستان میں ابتداً بائیں بازو کی سیاست محدود نہیں تھی۔ اس کی جڑیں بھی گہری تھیں اور اس کی شاخوں کا پھیلاؤ بھی وسیع تر تھا۔ مگر پیپلز پارٹی کی بڑی سیاسی مچھلی، بائیں بازو کی چھوٹی سیاسی مچھلی کو کھا گئی۔ بلکہ یہ چھوٹی مچھلی خود پیپلز پارٹی کی بڑی مچھلی کے منہہ میں جا کر بیٹھ گئی۔]

اس ضمن میں یہ اضافہ ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی سیاست اس مفہوم میں ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ ضرور تھی کہ یہ طبقاتی بُغض کو بنیاد بناتی تھی۔ یوں اس سیاست کا دائرۂ کار محدود تھا، اور عملاً ’’بائیس خانوادوں‘‘ کو ہدف بنایا گیا تھا۔ یعنی اس میں ’’حُب سوشلزم‘‘ کا عنصر ثانوی تھا۔

جینرل ضیا کے مارشل لا کے دور کے بعد کی سیاست، ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کے لیے سازگار تھی۔ مگر ابھی یہ ایک مظہر بننے سے بہت دور تھی۔

جینرل ضیا کی موت کے بعد جو سیاست سامنے آئی، اس میں ’’سیاسی انتقام‘‘ غالب رہا۔ لیکن یہ سیاسی انتقام ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ میں متشکل نہیں ہوا اور ایک مظہر نہیں بنا۔

جینرل مشرف کے مارشل لا کے دور میں بھی ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ ایک مظہر کے طور پر سامنے نہیں آئی۔

ہاں، اس دور میں ایک چیز تشکیل پا رہی تھی، اور یہ یہ نقطۂ نظر تھا کہ دو جماعتوں نے اقتدار پر اجارہ قائم کیا ہوا ہے، اور اپنی اپنی باریاں طے کی ہوئی ہیں۔

یہ نقطۂ نظر، تشکیل دئے گئے کرپشن کے نقطۂ نظر کے ساتھ متحد ہو رہا تھا۔ بلکہ انھیں جوڑ کر یہ بیانیہ بنایا جا رہا تھا کہ دونوں کرپٹ جماعتوں نے اقتدار پر قبضہ کیا ہوا ہے اور دونوں ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دیتے ہیں۔

یہ بھی عیاں رہے کہ یہ دونوں نقطہ ہائے نظر فوجی اشرافیہ نے وضع کیے۔ بلکہ کرپشن کو تو مارشل لا نافذ کرنے اور سیاسی حکومتوں کو غیرمستحکم رکھنے کے ایک حیلے کے طور پر خوب استعمال کیا گیا۔

جینرل مشرف کے دور کے خاتمے کے بعد، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی جس سیاست کا ظہور ہوا، وہ دو مفاہیم میں مثبت اور نتیجہ خیز تھی۔ یعنی یہ سیاست دونوں جماعتوں کو ایک مقبولِ عام پہچان کا حامل بنا رہی تھی (اس پہچان کی تشکیل جینرل ضیا کے دور کے میں شروع ہو چکی تھی)۔ یعنی ایک طرف پیپلز پارٹی تھی، جس کے ساتھ آئین سازی اور پھر آئینی ترمیمات (جیسا کہ اٹھارہویں ترمیم) کو جوڑا جاتا ہے، اور دوسری طرف مسلم لیگ ن تھی، جس کے ساتھ ترقیاتی کاموں کو جوڑا جاتا ہے۔

یہ مقبولِ عام تعمیمات ہیں۔ اور یہ دونوں جماعتوں کے ضمن میں کرپشن کے مظہر کو جھٹلاتی نہیں، بلکہ اسے یوں پیش کرتی ہیں: ایک کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔ یعنی دوسرا صرف کھاتا ہے۔

ایک مفہوم میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ 2008ء سے 2018ء تک کی دہائی، سیاست میں مقابلتاً ’’بہتری‘‘ کی نمائندگی کرتی ہے۔ سیاسی بہتری بھی اور ترقیاتی بہتری بھی۔

اس دور میں، جہاں تک ان دونوں جماعتوں کا تعلق ہے، ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کی جو شکل بنی تھی، وہ کمزور اور معدوم ہونے لگی تھی۔

یعنی جو تھوڑی بہت ’’مبنی بر حُب سیاست‘‘ سامنے آئی، اس نے کچھ نہ کچھ سیاسی اور ترقیاتی بہتری کو جنم دیا۔

مگر جینرل مشرف کے دور میں پاکستانی سیاست میں عمران خان (پاکستان تحریکِ انصاف) کا جو عمل دخل شروع ہوتا ہے، وہ اب پَر پُرزے نکالنے لگتا ہے۔

یہ اسی بیانیے کو پکڑتا ہے، جس کے مطابق ان دونوں کرپٹ جماعتوں نے اقتدار پر اجارہ قائم کیا ہوا ہے اور باری باری اقتدار پر قابض ہوتی رہتی ہیں۔ بلاشبہ، اس بیانیے کو کرپشن کے حقائق سے تقویت ملتی ہے۔

عیاں رہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں جماعتوں نے کرپشن کو قبول کر لیا تھا، اور اس کے تدارک کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کیے۔ اور ایک ایسے ملک میں جہاں عام لوگوں کو زندگی کہ بنیادی سہولیات اور سماجی خدمات بھی دستیاب نہ ہوں، جبکہ لوگوں کی جیب سے ٹیکس نچوڑنے میں کوئی کسر نہ رکھی جاتی ہو، وہاں کرپشن کے بیانیے کا جڑ پکڑنا اور لوگوں کو متاثر نہ کرنا ناقابلِ فہم ہو گا۔

سیاسی بہتری کی اس دہائی کے دوران میں ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ پھلنے پھولنے لگی تھی۔ یا اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس دور میں ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کو اپنی بقا کے لالے پڑ گئے تھے۔

عیاں ہے کہ سیاسی افہام و تفہیم اور سیاسی تسلسل اور سیاسی ارتقا، چاہے یہ قدم بھر ہی کیوں نہ ہو، اس سیاست کے لیے زہرِ قاتل کا درجہ رکھتا ہے۔

غالباً یہی سبب ہے کہ ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کی فوری سرپرستی شروع کر دی گئی۔ یہ سرپرستی سیاسی بھی تھی اور غیرسیاسی بھی۔ یعنی غیرسیاسی قوتوں نے ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کی قوت کی سرپرستی شروع کر دی۔ اور سیاسی قوتوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ جیسا کہ اس ضمن میں پیپلز پارٹی کا نام لیا جاتا ہے، جس نے، خاص طور پر پنجاب میں، مسلم لیگ ن کے بغض میں عمران خان کو تقویت دینے کی کوششوں میں ہاتھ بٹایا۔

عمران خان کی ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ نفرت، عداوت اور انتقام سے عبارت تھی، اور قریب قریب ایسے تمام لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے تھے، جو محض اس بنا پر نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ دشمنی رکھتے تھے کہ بار بار یہی سیاسی شخصیات اقتدار میں آ جاتی ہیں، اور یہ کہ انھوں نے کرپشن کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ لہٰذا، اقتدار پر ان کا اجارہ اور ان کی کرپشن کو ختم کرنا ضروری ہے۔

یہ نعرہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ دہرایا جاتا تھا، اور اسے ایک حقیقت بھی سمجھا جاتا تھا: میاں صاب جان دیو، ساڈی واری آن دیو۔

یعنی اس مطالبے میں کوئی عار نہیں تھا، نہ سمجھا جاتا تھا، نہ اس پر غور کیا جاتا تھا، کہ اب ہماری باری آنے دو۔ مراد یہ کہ اقتدار لوگوں کے ووٹ سے ملنے والی چیز نہیں تھا، بلکہ یہ باریاں لینے کا نام تھا۔

مگر 2013ء کے انتخابات میں عمران خان کی ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کو پذیرائی نہ مل سکی۔ گو کہ یہ سیاست اب ایک مظہر بن چکی تھی، اور بیشتر شہروں میں بسنے والے لوگوں اور نوجوانوں کی ایک معتد بہ تعلیم یافتہ تعداد ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کو گلے لگا چکی تھی۔ انھوں نے اسی بیانیے کو قبول کیا، جو دو جماعتوں کی کرپشن اور اقتدار پر ان جماعتوں کے اجارے کو ہدف بناتا تھا۔

خوش آئند بات یہ رہی کہ کم از کم لوگوں کی اتنی بڑی تعداد نے اس بیانیے کو قبول نہیں کیا، جن کے ووٹ کے ذریعے عمران خان کو اقتدار میں لایا جا سکتا۔ یہ اس بیانیے کی ناکامی بھی تھی۔ اور ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کی بے بسی بھی کہ لوگوں نے اسے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔

سو اب اس ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ اور اس کے بیانیے کو طاقت اور تشدد کے ذریعے اقتدار میں لانے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ 2014ء کا اسلام آباد کا دھرنا اس سیاست کا نقطۂ عروج تھا۔ مگر اسی برس 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور میں جو ہولناک سانحہ برپا ہوا، جس ڈیڑھ سو کے قریب بچے اور سکول کے عملے کے دوسرے لوگ دہشت گردوں کا نشانہ بنے، اس نے طاقت اور تشدد کے ذریعے حکومت کو گرانے کے منصوبے کو التوا میں ڈال دیا۔

تاہم، اس منصوبے پر کام جاری رہا۔ اور اب 2018ء کے انتخابات کو عمران خان کے حق میں یقینی جیت میں ڈھالنے کے لیے اس منصوبے کو مزید توسیع دی گئی۔ کُل ریاست اور میڈیا کو اس منصوبے کی گاڑی کے آگے جوت دیا گیا۔

یہاں اس خوش آئند حقیقت کا اظہار ایک مرتبہ پھر ضروری ہے کہ ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ اپنے زور پر کچھ نہیں کر سکی، اور ناکام رہی۔ اور یہ بھی کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ گو یہ کہ کہا جاتا ہے کہ نفرت کی سیاست بہت قوی ہوتی ہے اور بہت تیزی سے پھیلتی، اور قبولیت پاتی ہے۔

یعنی ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کو اس ملک پر بزور مسلط اور نافذ کیا گیا۔

اس کی کارکردگی ایک کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے ہے۔

آخر میں ایک اور بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ اصل میں فرد کے نفسیاتی تاروں کو چھیڑتی ہے، اور پاکستان میں اس سیاست کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک تجربی حقیقت ہے کہ ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ اصل میں پڑھے لکھے اور علم و عقل کی برتری کے زعم میں مبتلا لوگوں کے نفسیاتی تاروں کو تو چھیڑ سکتی ہے، لیکن عام لوگوں کو متاثر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ یہ عام لوگ حقیقت پسند ہوتے ہیں۔ ایجابیت پسند ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اگرچہ برے کو بدلنے کی قدرت نہیں رکھتے، مگر اسے برا کہنے اور اسے مسترد کرنے کے حوصلے کے حامل ضرور ہوتے ہیں۔

عمران خان کے ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کے تجربے سے یہ عیاں ہے کہ عام لوگوں نے اس سیاست کو ناکام کیا۔ وہ اگرچہ طاقت اور تشدد کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکے، کیونکہ کسی سیاسی جماعت نے ان کا ساتھ نہیں دیا، مگر انھوں نے اس سیاست کو قبول نہیں کیا۔ گو کہ اس کے نتائج انھیں ہی بھگنے پڑے اور بھگتنے پڑیں گے۔

مبارک ہو کہ پاکستان کے عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اب تک ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کو مسترد کیا ہے، اور امید ہے کہ وہ مستقبل میں بھی نفرت، عداوت اور انتقام کی اس سیاست کو گھاس نہیں ڈالیں گے۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments