Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

نہ بھولنے والی دو کہانیوں کی یاد

کوئی تین دہائیوں پہلے میں نے ایک کتاب پڑھی تھی، جس میں دنیا بھر سے چنی گئیں سو عظیم ’’شارٹ سٹوریز‘‘ شامل تھیں۔

ایک کہانی تو کمال ہی تھی۔ ویسے ایک اور کہانی بھی تھی اس میں، جو مجھے بھولتی نہیں۔

گاؤں کا باسی ایک امریکی پہلی مرتبہ قریبی شہر جاتا ہے۔ وہاں اسے ایک مشروب گاہ میں کچھ وقت گزارنا پڑتا ہے۔ وہ ایک میز پر بیٹھا ہوا ہے۔ ایک آدمی آتا ہے، اور اس سے اجازت لے کر خالی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔

کچھ دیر میں دونوں کے درمیان گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔

اور چند ہی لمحوں میں گفتگو کا محور عورتیں بن جاتی ہیں۔ اس کا سبب آنے والا آدمی ہے۔

یہ دوسرا آدمی اپنی فتوحات کے قصے سنائے جاتا ہے۔ درجنوں قصے۔ اس نے کیسے اور کہاں کس عورت کو اپنے جال میں پھنسایا۔ اس کے یہ قصے ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔

گاؤں والا آدمی چپ چاپ یہ قصے سنے جاتا ہے۔

آخر کافی دیر بعد، دوسرے آدمی کو احساس ہوتا ہے کہ تنہا وہی بولے جا رہا ہے۔ اس پر وہ یکدم خاموش ہو جاتا ہے۔ اور اس آدمی سے کہتا ہے تم بھی کچھ سناؤ۔ تمہیں کوئی عورت نہیں ملی کبھی۔

پہلا آدمی جھینپ جاتا ہے۔

جب دوسرے آدمی کا اصرار بڑھتا ہے تو وہ کہتا ہے۔ ہاں، ایک عورت ملی تھی۔ ایک دن میں اپنے گھر سے نکلا کھیتوں پر جانے کے لیے۔ دیکھا ہمسائے کی لڑکی اپنے باغیچے کو پانی دے رہی ہے۔ اس نے میری طرف دیکھا اور مسکرائی۔ میں بھی مسکرا دیا۔ پھر کچھ دنوں بعد ہماری شادی ہو گئی۔

بس۔

ہاں، بس۔

میں اسی ایک عورت کو جانتا ہوں۔

جب میں نے یہ کہانی ختم کی تھی، مجھے یاد ہے میں وہیں رک گیا تھا۔ جیسا کہ توقف کے لیے۔ سوچنے کے لیے۔ آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ یہ مقام ٹھہراؤ چاہتا تھا۔ رکا رہا۔ آج بھی جب یہ کہانی یاد آتی ہے، مجھے یوں معلوم ہوتا ہے میں وہیں رکا کھڑا ہوں۔

ہاں، ایک بات یہ کہ جو کچھ میں یہاں لکھ رہا ہوں، وہ صرف تاثرات ہیں۔ ان کہانیوں نے جو تاثرات مجھ میں پیدا کیے، اور جو ایک یاد کی صورت میں آج بھی زندہ  ہیں۔ بالکل ممکن ہے کہ کہانیوں کو اور طرح بیان کیا گیا ہو۔ تفصیلات میں فرق ہو۔ یہاں میری کوشش ہے کہ اس تاثر کو گرفت میں لاؤں، اور جِلاؤں۔

دوسری کہانی ایک کسک کی طرح تھی۔ آج بھی جب یہ کہانی یاد آتی ہے، تو یہ کسک جاگ اٹھتی ہے۔

اب میں بھی بچوں والا ہوں۔ بچے بڑے ہو گئے ہیں۔ کبھی کبھی ویسی تو نہیں، اس کہانی جیسی نہیں، مگر اسی قبیل کی کوئی کسک محسوس ہو جاتی ہے۔

بلکہ اس کسک کا اولین احساس ایک اور دوست کے ذریعے ہوا تھا۔ ہم دونوں اسلام آباد سے واپس آ رہے تھے۔ دوست گاڑی چلا رہا تھا۔ ہم قربیاً راستے کے درمیان میں تھے۔ اس دوست کے بیٹے کا میسیج آیا فون پر۔ اس نے بائیں ہاتھ سے موبائل پر میسیج کھولا۔ پڑھا اور موبائل کا رخ میری طرف کر دیا۔ لکھا تھا:

Where are you now

یہ ’’یو‘‘ عجیب سا نہیں لگتا؟ وہ دوست طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔

میں چپ رہا۔

یہ دوسری کہانی مجھے اس وقت بھی یاد آئی تھی۔

غالباً اس وقت امریکہ میں کامیابی کے لیے لوگوں کو شہر کی طرف رخ کرنا پڑتا تھا۔

ہاں، یہ کہانی بھی امریکی تھی۔

گاؤں میں رہنے والے والدین کا ایک ہی بیٹا تھا۔ جب اس کی تعلیم مکمل ہو گئی تو اسے کام کی غرض سے شہر جانا پڑا۔ ماں باپ دونوں خوش تھے کہ اب ان کی بیٹا کامیابی کی منزلیں طے کرے گا۔

اور اس نے یہ منزلیں طے کیں۔ بڑا کاروباری بن گیا۔ پہلے خود ملازم تھا، اب ملازم رکھ لیے۔ پہلے ہر ماہ گھر آتا تھا۔ پھر دو ماہ ہوئے۔ پھر تین۔ پھر چار۔ اور آخرِ کار کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی وہ والدین سے ملنے گاؤں نہیں آ سکا۔

جب چھ ماہ سے بھی زیادہ ہو گئے، تو دونوں نے سوچا اگر وہ نہیں آ سکتا، اتنی مصروفیت ہے، تو ہم خود اس سے ملنے چلے جاتے ہیں۔

انھوں نے اپنے بیٹے کو ٹیلی گرام بھیجا کہ ہم فلاں روز فلاں ٹرین سے اس کے پاس پہنچ رہے ہیں۔ بیٹے کا جواب آیا، میں منتظر ہوں آپ دونوں کا۔

وہ دونوں ٹرین کی کھڑکی سے پلیٹ فارم کے گزرتے منظر دیکھ رہے تھے۔ مگر انھیں اپنا بیٹا نظر نہیں آیا۔

ٹرین رک گئی۔ وہ نیچے اترے۔ پلیٹ فارم پر ٹرین کے منتظر لوگ موجود تھے۔ ایک نے دوسرے سے کہا، وہ انھی لوگوں میں ہو گا۔ ابھی مل جائے گا ہمیں۔

وہ ایک جانب ہو کر کھڑے ہو گئے۔ ہو سکتا ہے اسے آنے میں تاخیر ہو گئی ہو۔ ہاں، ہو سکتا ہے۔

کچھ دیر بعد، ایک نوجوان ان کے پاس آیا۔ مجھے ریمنڈ نے بھیجا ہے۔ آپ ہی ہیں اس کے والدین۔

ہاں، ہم ہی ہیں۔ ان میں امید پیدا ہو گئی۔

اسے آج اچانک ایک میٹنگ پر جانا پڑ گیا۔ وہ گھر ملے گا آپ سے۔

اس نے ان کا سامان اٹھا لیا۔ باہر آ کر ٹیکسی لی۔

وہ نوجوان انھیں گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ کچن، باتھ روم، وغیرہ، وغیرہ، ہر چیز سے ان کی شناسائی کروانے کے بعد۔

کوئی شام کے قریب ان کے بیٹے کا فون آیا۔ اس نے بہت معذرت کی کہ وہ انھیں لینے نہیں آ سکا۔ اور یہ کہ وہ رات تک گھر پہنچ جائے گا۔

وہ دونوں تھکے ہوئے تھے، مگر نیند ان سے کوسوں دور تھی۔

کوئی آدھی رات کے قریب اس نے پھر فون کیا اور بتایا کہ اسے وہاں اسی شہر میں رکنا پڑ رہا ہے۔ اور یہ کہ وہ کل دوپہر تک واپس پہنچے گا۔

اب نہ سونے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہے کہ ان کا بیٹا بہت مصروف ہے، اس نے اکیلے ہی تو کام سنبھالنا ہے سارا۔

وہ اگلے دن دوپہر تک بھی واپس نہ پہنچا۔

ہاں، وہ نوجوان ضرور واپس آ گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ انھیں شہر کی سیر کے لیے لے جائے، مگر انھوں نے تھکن اور نیند کی کمی کا بہانہ کیا۔ اور اپنے بیٹے کے منتظر رہے کہ ہو سکتا ہے وہ شام تک واپس پہنچ جائے۔ انھیں کل صبح کی ٹرین سے واپس گاؤں جانا تھا۔

شام بھی گزر گئی۔ رات ڈھلنے لگی تو ان کے بیٹے کا فون آ گیا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر بہت معذرت کی۔ وہ کچھ جلدی میں تھا، پر اس نے ماں باپ دونوں سے بات کی۔ اور انھیں اپنی ناگزیر مصروفیات کے بارے میں بتایا۔ اور انھیں یقین دلایا کہ وہ آئندہ ہفتے گاؤں لازمی آئے گا۔

فون بند ہوا، تو وہ دونوں ایک دوسرے کو حوصلہ دینا شروع ہو گئے۔ ان کا بیٹا ایک کامیاب آدمی بن گیا ہے۔ اسے اپنے کام کا خیال رکھنا ہے۔ اسے نقصان نہیں ہونا چاہیے۔

وہ لڑکا صبح صبح پہنچ گیا۔ انھیں لے کر سٹیشن آیا۔ ٹرین میں بٹھا کر بہت معذرت کرتا رہا۔ ٹرین چلی، تو وہ رخصت ہوا۔

وہ دونوں خاموش بیٹھے تھے۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے بھی کترا رہے تھے۔ جھینپ رہے تھے۔ ایک دوسرے کو کیا کہیں۔ کیا بتائیں۔ کیا کریں۔

ٹرین کی کھڑکی سے منظر بہت تیزی سے گزر رہے تھے۔ مگر وہ ان دونوں کو نظر نہیں آر ہے تھے، گو کہ ان کی نظریں باہر کی طرف ہی ٹکی ہوئی تھیں۔

وہ دونوں چپ اور ایک دوسرے سے شرمندہ تھے۔ کچھ کہنا کچھ بولنا نہیں چاہتے تھے۔ ٹرین کی رفتار کبھی تیز ہوتی، کبھی کم، مگر وہ اسے بے نیاز تھے۔ گم سم۔

جب وہ ٹرین سے اترے، تو آدمی نے اپنی بیوی کو تسلی دیتے ہوئے کہا، فکر نہ کرو، ہمارا بیٹا بڑا آدمی بن گیا ہے، وہ اگلے ماہ ہم سے ملنے گاؤں آئے گا۔ ضرور آئے گا۔

ہوں۔ بیوی نے کہا۔

اب جب میں نہ بھولنے والی ان دونوں کہانیوں کی یاد کو لکھ رہا ہوں، تو مجھے خیال آیا، ارشد صاحب نے کئی مرتبہ مجھ سے یہ سوال کیا کہ ادب کا کیا فائدہ ہے۔ ان کی مراد ناول اور افسانے سے تھی۔ یہ ہے ایک فائدہ کہ ادب اس تاریخ کو لکھتا ہے، جو ایک تبدیل ہوتی دنیا میں، اس دنیا کی تبدیل ہوتی چیزوں میں، بن اور بگڑ رہی ہوتی ہے۔ انسانوں کی ابتلا کی تاریخ۔ ان کی سادگی کی تاریخ۔ ان کی پیچیدگی کی تاریخ۔ ان کے خلوص کی تاریخ۔ ان کی کمینگی کی تاریخ۔ وغیرہ، وغیرہ۔ اور اس کے علاوہ بہت کچھ۔ بہت کچھ۔ اسے صرف ادب ہی بیان کر سکتا ہے۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments