Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

سیاست اور اخلاقیات کے تعلق کا معاملہ

جہاں تک سیاست اور سیاسی معاملات پر سنجیدگی کے ساتھ لکھنے کی بات ہے، تو خورشید ندیم ایسے ہی کالم لکھتے ہیں۔

سیاسی وقوعات جن دھاگوں میں پروئے ہوتے ہیں، وہ انھیں گرفت کرتے ہیں، اور پھر ان دھاگوں کو علمی و فکری مسائل کی شکل میں بیان کرتے ہیں۔ اور پھر ان مسائل کے حل سے بحث بھی کرتے ہیں۔

پاکستان بھر میں اخبارات کے کالموں میں کون ایسا کام کر رہا ہے، یا ایسی پُرمغز تحریر لکھ رہا ہے، غالباً کوئی نہیں۔

میں پہلے بھی ان کے بارے میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کر چکا ہوں۔ گو کہ اُس تحریر کا مقصد تعریف و تحسین نہیں، بلکہ ان کے ساتھ ایک اختلاف کو سامنے لانا تھا۔

آج بھی ان کا ایک کالم میرے پیشِ نظر ہے۔ یہ 10 مارچ (2022) کو چھپا۔ عنوان ہے: تحریکِ عدم اعتماد۔

اس میں انھوں نے سیاست اور اخلاقیات کے تعلق کے معاملے کو اٹھایا ہے۔ اور، کہنے کو، اپنی طرف سے ایک ’’فیصلہ‘‘ جاری کر دیا ہے۔ میں اسی فیصلے پر کچھ بات کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

ان کا کہنا ہے کہ اقتدار کی سیاست کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔

خود ان کے الفاظ درج کرنا مناسب رہے گا: ’’اقتدار کی سیاست اسی طرح ہوتی آئی ہے۔ اسی طرح ہوتی رہے گی۔ لوگ یہاں اصول و ضوابط تلاش کرتے ہیں۔ بھائی! چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟‘‘

پھر وہ مزید وضاحت کرتے ہیں: ’’اگر میں یہ کہوں کہ اقتدار کی سیاست کے اپنے اصول ہوتے ہیں، اس کا اپنا نظامِ اخلاق ہے، اپنے اطوار ہیں، جو عمومی اخلاقیات سے مختلف ہیں تو اس سے شاید ہی اختلاف کیا جا سکے۔ اہلِ سیاست اور ان سے وابستہ سیاسی کارکن بلاضرورت دوسروں کے تضادات کو نمایاں کرتے ہیں۔ بے وجہ ایک دوسرے کو طعنے دیتے ہیں۔ انھیں سمجھنا چاہیے کہ ’یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں‘۔‘‘

عیاں رہے کہ ان کا کہنا ہے کہ اقتدار کی سیاست، یعنی پاور پالیٹکس کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔ میں یہاں یہ توضیح کرنا چاہوں گا کہ تمام سیاست اس مفہوم میں اقتدار کی سیاست ہوتی ہے کہ اگرچہ اقتدار سے باہر رہ کر بھی کچھ نہ کچھ چیزیں کی جا سکتی ہیں، مگر بنیادی چیزوں کو اقتدار میں آ کر ہی پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر، ایک جماعت اقتدار سے باہر رہ کر جمہوری اقدار اور جمہوری کلچر کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ انھیں مستحکم بھی کر سکتی ہے۔ یا کچھ مخصوص آئینی ترامیم کے لیے رائے عامہ ہموار کر سکتی ہے۔ وغیرہم۔

اس کے برعکس، جہاں تک ریاست کے سیاسی و معاشی ڈھانچے کی تبدیلی اور اس میں اصلاحات کا تعلق ہے، اس ضمن میں آراء کو سامنے لایا جا سکتا ہے، اور لوگوں میں ایک بیداری پیدا کی جا سکتی ہے، تاہم، عمومی حالات کے تحت، تبدیلی و اصلاح کا کام، اقتدار میں آئے بغیر پایۂ تکمیل تک پہنچانا، اگر ناممکن نہیں، تو ناممکن کے قریب قریب ضرور ہے۔

یعنی پاکستانی سیاست پر یہ بہتان کہ اس کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں، محض بہتان نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔

پھر مسئلہ کیا ہے؟

خورشید ندیم کے الفاظ پر دوبارہ نظر ڈالیے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اخلاقیات کو سیاست کے ساتھ مس کیا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ اخلاقیات سے اسی طرح بے بہرہ رہے گی۔ یہ مسئلہ ہے۔

آگے چلنے سے پیشتر یہ بات بھی صاف کیے لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک یہ تصور بھی بہت قوی ہے کہ اقتداری سیاست اخلاقیات سے کوسوں دور ہے، اور یہ کہ اگر کوئی اقتداری سیاست کرنا چاہتا ہے، تو اسے اخلاقیات کو خیرباد کہنا پڑے گا۔ یعنی سیاست کو تو کسی نہ کسی طور اخلاقیات کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے، مگر اقتداری سیاست کے ساتھ ہرگز نہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر سیاست، اخلاقی ہو سکتی ہے، تو پھر اقتداری سیاست اخلاقی کیوں نہیں ہو سکتی۔

کیا سیاست اور اقتداری سیاست میں کوئی نوعی فرق موجود ہے؟

میری رائے یہ ہے کہ اگر سیاست، اخلاقی ہو سکتی ہے، تو پھر اقتداری سیاست بھی اخلاقی ہو سکتی ہے۔ بلکہ اصلاً میری رائے یہ ہے کہ اگر سماجی زندگی اخلاقی ہو سکتی ہے، تو پھر سیاست، جس کا تعلق سماج کی تنظیم سے ہے، یہ بھی اخلاقی ہو سکتی ہے۔ اسے اخلاقی ہونا چاہیے۔

یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ سیاست تو اخلاقی ہو سکتی ہو، مگر اقتداری سیاست نہیں۔ ایسا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں میں کوئی نوعی فرق موجود ہو۔

میں صراحت سے نہیں کہہ سکتا کہ خورشید ندیم اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سیاست، اخلاقی ہو سکتی ہے۔ اور یہ بھی کہ اقتداری سیاست، اخلاقی نہیں ہو سکتی۔

ایک بات اور صاف کر لینا مناسب ہو گا۔ آیا اخلاقی سیاست اور اصولی سیاست ایک ہی مفہوم کی حامل ہیں، یا یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

میری رائے میں اصولی سیاست اور اخلاقی سیاست ایک ہی مفہوم کی حامل ہیں۔

یہ بالکل وہی بات ہے، جیسا کہ پاکستان میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیاست اخلاقی نہیں ہو سکتی، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیاست، اصولی نہیں ہو سکتی۔ یا یہ کہ اقتداری سیاست، اصولی سیاست نہیں ہو سکتی۔ یعنی اگر کوئی کچھ اصولوں کا حامل ہے، تو سیاست اور اقتداری سیاست میں اُسے ان اصولوں کو قربان کرنا پڑے گا۔

ہاں، ان میں اتنا فرق ضرور کیا جا سکتا ہے، اور وہ بھی یہ گنجائش رکھنے کے لیے کہ نظری طور پر کسی سیاست دان کے اصول، غیراخلاقی ہو سکتے ہیں۔ تو ایسے میں، وہ اپنے ان اصولوں کا پابند ہو گا، اور یوں، اُس کی اصولی سیاست، اصل میں، غیراخلاقی سیاست بن جائے گی۔

لیکن یہ عیاں ہے کہ ایسا نہیں ہوتا، اور کوئی سیاست دان اعلانیہ یہ قبول نہیں کرتا کہ اس کے اصول، غیراخلاقی ہیں۔

سو اوپر بیان کیے گئے مفہوم میں، اصولی سیاست، غیراخلاقی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ جب کسی کو بااصول یا اصول پسند کہا جاتا ہے، تو یہ تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ اس کے اصول، اخلاقیات دشمن نہیں ہوں گے۔

اب اصل معاملے پر آتے ہیں۔ یعنی یہ کہ سیاست اور اقتداری سیاست، اخلاقی ہو سکتی ہیں، یا نہیں۔

اوپر میں اپنی رائے ظاہر کر چکا ہوں کہ سیاست اگر اخلاقی ہو سکتی ہے، تو اقتداری سیاست بھی اخلاقی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ سیاست کا منتہائے مقصود، اقتدار ہے۔

(یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اقتدار مقصود بالذات نہیں ہوتا، یہ کسی اور مقصد یا کچھ اور مقاصد کے تابع ہوتا ہے، جنھیں ابتداً آئین میں بیان کیا جاتا ہے، گو کہ ایک انتہائی مفوہم میں، آئین بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ اسی لیے ’’ابتداً‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔)

بلکہ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ کوئی سیاست دان یہ کہے کہ وہ اقتداری سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اور اس کی سیاست، اخلاقی سیاست ہے۔

لہٰذا، اب صرف سیاست اور اخلاقیات کے تعلق کے معاملے کو دیکھا جائے گا۔

اس بحث کو مجرد کے بجائے صاف اور ٹھوس مفہوم کا حامل بنانے کے لیے، ضروری ہے کہ کچھ اہم اخلاقی اصول سامنے رکھ لیے جائیں۔ جیسا کہ: سچ بولنے کا اصول۔ وعدے کی پاسداری کا اصول۔ دیانت داری کا اصول۔

میرے خیال میں یہ تین اصول، اخلاقیات کے بنیادی اصولوں میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کونسی سیاست ہے جو سیاست دانوں سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ سچ نہ بولیں، اپنے وعدوں کا پاس نہ کریں، اور دیانت داری نہ برتیں۔

عیاں ہے کہ سیاست کی ایسی کوئی قسم وجود نہیں رکھتی، جو جھوٹ بولنے کا، وعدہ خلافی کا، اور بد دیانتی کا سبق پڑھائے۔

ہاں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ سیاست، سچ نہ بولنے، وعدوں کی پاسداری نہ کرنے، اور دیانت داری نہ برتنے سے عبارت ہے۔ یعنی سیاست کو ایسا بنا دیا گیا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ جیسا کہ جب کوئی سیاست دان جھوٹ بولتا ہے، کسی دوسرے سیاست دان پر کوئی بہتان دھرتا ہے، جب اس سے اس جھوٹ اور بہتان کے بارے میں پرسش کی جاتی ہے، تو وہ جواباً کہتا ہے: وہ تو میرا سیاسی بیان تھا۔

یعنی اگر یہ سیاسی بیان تھا، تو، مراد یہ ہے کہ یہ جھوٹ تھا، جھوٹ پر مبنی تھا۔

دوسرے الفاظ میں یہ کہ سیاست دان، دوسرے سیاست دانوں کو جھوٹا، وعدہ خلاف، اور بددیانت دکھانے کے لیے، خود جھوٹ بولتے ہیں، اور پھر اس جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لیے سیاست کا سہارا لیتے ہیں۔ یعنی جھوٹ، وعدہ خلافی، اور بد دیانتی کو سیاست سے منسوب کرتے ہیں۔

یعنی خود سچ بولنے، وعدوں کی پاسداری کرنے، اور دیانت داری برتنے میں، دوسرے الفاظ میں یہ کہ خود اخلاقی اصولوں (یعنی اخلاقیات) میں ایسی کوئی خلقی یا نوعی خرابی موجود نہیں کہ وہ سیاست میں موثر اور کارگر نہ ہوں۔

یا سیاست دانوں کے لیے بھی ایسی کوئی مجبوری نہیں کہ وہ ان اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا نہ ہوں۔ یا اگر عمل پیرا نہیں، تو عمل پیرا ہو سکیں۔ یا اگر عمل پیرا ہیں، تو کسی سیاسی مقصد کے حصول کے لیے، یا کسی سیاسی اتحاد کے ضمن میں، ان اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا نہ رہیں۔

کونسا ایسا سیاسی مقصد ہو سکتا ہے، جس کے حصول کے لیے وہ جھوٹ بولیں (یعنی سچ نہ بولیں)، وعدہ خلافی کریں (یعنی وعدوں کی پاسداری نہ کریں)، اور بد دیانتی کریں (یعنی دیانت داری نہ برتیں)۔

چلیے انتخابات کے دوران میں، سیاست دان، ووٹروں سے جو مختلف وعدے کرتے ہیں، یا انتخابات سے قبل، جو مختلف عہد باندھتے ہیں، جیسا کہ وہ ایسا کریں گے، یا ایسا نہیں کریں گے، آیا انھیں اپنے ان وعدوں کی پاسداری نہیں کرنی چاہیے، یا اپنے باندھے ہوئے عہود کو بھلا دینا چاہیے، یا بدعہدی کرنی چاہیے۔ نہ تو سیاست ایسے طرزِ عمل کا تقاضا کرتی ہے، اور نہ ہی اخلاقیات۔ یعنی یہ طرزِ عمل خود سیاست دانوں کی ایجاد ہے۔

آئیے، ذرا یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ سیاست میں اخلاقیات کو گھاس کیوں نہیں ڈالتے۔

مثال کے طور پر ایک سیاست دان یہ دیکھتا ہے کہ انتخابات کے دوران میں، اس کا حریف سیاست دان، ووٹروں کو سبز باغ دکھا رہا ہے، بڑھ چڑھ کر وعدے کر رہا ہے، یا ناقابلِ یقین اور ناقابلِ عمل عہد باندھ رہا ہے، وہ سیاست دان خود کو مجبور پاتا ہے کہ وہ بھی ووٹروں کو سبز باغ دکھائے، بڑھ چڑھ کر وعدے کرے، اور بڑے بڑے عہد باندھے، تاکہ وہ اپنے حریف سیاست دان پر سبقت لے جا سکے، اور انتخابات جیت سکے۔

سوال یہ ہے کہ کونسی اخلاقیات، کسی فرد کی اس ’’مجبوری‘‘ کو قبول کرتی ہے یا کر سکتی ہے۔ یا کونسی سیاست یہ اجازت دیتی ہے کہ ووٹروں کے ساتھ جھوٹ بولا جائے، ان کے ساتھ خلافِ عقل عہد باندھے جائیں۔

یعنی اس قسم کا طرزِ عمل سیاست دان کا اپنا ایجاد کردہ طرزِ عمل ہے۔ یہ دھوکہ دہی اور فریب کاری کا طرزِ عمل ہے۔

اوپر کی مثال میں، ہمارا ’’مجبور‘‘ سیاست دان یہ بھی تو کر سکتا ہے کہ وہ سچ بولے، بتائے کہ کونسے وعدے قابلِ یقین اور قابلِ عمل ہیں۔ کونسے عہد، خلافِ عقل ہیں۔ اور اپنی سیاست کو سچائی پر تعمیر کرے۔

آیا کوئی شخص (اگر وہ ایک اخلاقی شخص ہے) خود کو اس بات پر ’’مجبور‘‘ نہیں پائے گا کہ وہ اخلاقی اصولوں کے خلاف طرزِ عمل کو اختیار نہ کرے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا سیاست دان، ایک اخلاقی شخص نہیں۔ اور گو کہ یہاں اس بات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک سیاسی شخص ہے، یا یہ کہ کیونکہ وہ ایک سیاسی شخص ہے، لہٰذا، وہ ایک غیراخلاقی شخص ہے۔ مگر میں یہاں یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ کیونکہ پاکستان کا سیاست دان، ایک اخلاقی شخص نہیں، اسی لیے وہ ایک اخلاقی سیاست دان بھی نہیں۔

یہاں اس بحث میں اخلاقیات سے متعلق ایک اہم معاملہ چھپا بیٹھا ہے۔ یعنی یہ سوال کہ آیا ایک جائز مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنے چاہییں۔

صاف بات ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ناجائز مقصد کا حامل ہے، تو وہ خواہ جیسے بھی ذرائع اختیار کرے، جائز یا ناجائز، اس سے اس کا مقصد، جائز نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح، اگر کسی نیک مقصد کی خاطر، ناجائز ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں، تو وہ اس مقصد کو بھی ناجائز بنا دیں گے۔

یہی چیز ہمارے اس سیاست دان پر بھی صادق آتی ہے، جو حریف کے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے، جو کسی جائز مقصد کے حصول کے لیے، ناجائز ذرائع کا سہارا لے رہا ہے۔ بلکہ ہمارے اس ’’مجبور‘‘ سیاست دان سے پہلے، اس سیاست دان کی بات ہونی چاہیے، جو لوگوں کے ووٹوں کے حصول کی خاطر ان کے ساتھ جھوٹ بول رہا ہے اور جھوٹ وعدے کر رہا ہے۔

سو اگر فرض کیا جائے کہ سیاست بحیثیتِ مجموعی اچھے اور نیک مقاصد کی حامل ہے، تو اس میں جیت کے لیے بد اور برے ذرائع اختیار کرنا کیسے قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔

یعنی سیاست کو اخلاقیات کی رہنمائی سے آزاد نہیں کیا جا سکتا۔ مگر کیا کیا جائے کہ سیاست دانوں نے خود کو اخلاقیات کی رہنمائی سے آزاد کر لیا ہوا ہے۔

آئیے اب سیاست سے متعلق کچھ اہم معاملات پر توجہ دیتے ہیں۔ ایسے اہم معاملات جن کے بغیر سیاسی پیش رفت اور سیاسی ارتقا ممکن نہیں۔

پہلا معاملہ اتحادی سیاست ہے۔

بالعموم ایسا ہوتا ہے کہ انتخابات سے قبل سیاسی جماعتیں، انتخاباات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے ایک یا دو یا زیادہ ہم خیال یا مختلف الخیال جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد بناتی ہیں۔

اس میں ایک مسئلہ تو یہی پوشیدہ ہے کہ آیا کسی سیاسی جماعت کا کسی دوسری مختلف الخیال جماعت کے ساتھ اتحاد بنانا ایک غیراصولی اور غیراخلاقی معاملہ نہیں۔

میرے نزدیک اس نوع کا انتخابی اتحاد، غیراصولی اور غیراخلاقی نہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے آئین اور اپنے انتخابی منشور اور اپنے سیاسی اصول (اگر کوئی ہیں!) اور اپنی سیاسی اقدار (اگر کوئی ہیں!) کو اس اتحاد کی خاطر ترک نہیں کر رہی، ان سے پھِر نہیں رہی، تو کسی مختلف الخیال جماعت کے ساتھ اس کا انتخابی اتحاد غیراصولی اور غیراخلاقی نہیں۔

ہاں، اس ضمن میں یہ شرط پوری ہونی چاہیے کہ وہ جماعت ظاہر اور عیاں انداز میں یہ بات سب کے سامنے رکھے کہ اس کے اتحاد کا مقصد کیا ہے، اس کی شرائط کیا ہیں، اور یہ اتحاد کس عرصے پر محیط ہے، اور کب غیرموثر ہو جائے گا۔

ایسے اتحاد، انتخابات کے بعد بھی بنائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ کولیشن حکومت یا اتحادانہ حکومت کا معاملہ ہوتا ہے۔

یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو کسی مختلف الخیال جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد نہیں بنانا چاہیے۔  مگر یہ اعتراض اس بات کو نظرانداز کرتا ہے، جیسا کہ اوپر بھی مذکور ہوا، کہ سیاست کا بڑا مقصد، اقتدار کا حصول ہے، اور اقتدار کے حصول کے لیے سیاست میں موجود تمام جماعتوں کے مابین ایک مسابقت موجود ہے۔ اور یہ کہ اس مسابقت کے پیشِ نظر اپنی قوت کو بڑھانے کی خاطر دوسروں کی شراکت اور تعاون ضروری ہوتا ہے۔

بالخصوص ایک ایسے ملک میں، جہاں کی سیاست کثیرالجماعتی ہو، وہاں سیاسی و انتخابی اتحاد اور پھر اتحادانہ حکومت کے ساتھ جڑی سیاست ناگزیر ہو جاتی ہے۔

کثیرالجماعتی سیاست سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ قانونی طور پر ایسا ہو، بلکہ عملاً بھی ایسا ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔

یعنی غالباً دنیا کے کسی ملک میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہو گی کہ دو جماعتوں سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکتا۔ عملاً یہ ہوتا ہے کہ مدت مدید کے بعد، ایک آزاد سیاسی عمل کے ذریعے، فطرتاً، دو بڑی سیاسی جماعتیں ابھر کر سامنے آ جاتی ہیں، اور وہ سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم کی عکاسی کرتی ہیں۔ جیسا کہ برطانیہ اور ریاست ہائے متحدہ کا معاملہ ہے۔

پاکستان میں بھی ایسا ہو سکتا تھا کہ سیاسی ارتقا کے ساتھ، سیاسی تقسیم سکڑ کر، عملاً، دائیں اور بائیں بازو کی دو بڑی  جماعتوں میں متشکل ہو جاتی، مگر چونکہ یہاں کی سیاست میں, اول روز سے غیرسیاسی، غیرسویلین اور خارجی مداخلت موجود رہی، بلکہ روز بروز بڑھتی اور پھیلتی رہی، اور اب تو یہاں سیاست کے بجائے غیرسیاست یا مداخلتی سیاست وجود رکھتی ہے، لہٰذا، یہاں ایسا نہ ہو سکا۔

باالفاظِ دیگر، پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی کثرت، ایک مفہوم میں، سیاست کے غیرفطری ارتقا کو بھی ظاہر کرتی ہے۔

جہاں تک انتخابی اور سیاسی اتحاد کی بات ہے، ان کے ضمن میں، اصل خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب ایک سیاسی جماعت کے سیاست دان، دوسری جماعت کے سیاست دان کو بد دیانت، کرپٹ (بدعنوان)، ملک دشمن، وغیرہ، وغیرہ، قرار دیتے ہیں، اور پھر وقت اور ضرورت پڑنے پر اسی جماعت کے ساتھ اتحاد بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ خرابی، انتخابی یا سیاسی اتحاد بنانے میں نہیں، یا اتحادانہ سیاست میں خرابی نہیں، بلکہ خرابی سیاست دانوں میں ہے، جو خود کو سچا، وعدوں کا پاسدار، اور دیانت دار دکھانے کے لیے دوسرے سیاست دانوں کو جھوٹا، وعدہ خلاف، اور بد دیانت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور پھر خود ہی ان ’’جھوٹے، وعدہ خلاف، اور بد دیانت‘‘ سیاست دانوں یا جماعتوں کے ساتھ متحد ہو جاتے ہیں۔

یعنی اس معاملے میں یہ بات کہاں سے آ گئی کہ انتخابی یا سیاسی اتحاد، یا اتحادانہ سیاست کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔ یعنی یہ چیزیں سیاست کے لیے بالکل فطری ہیں۔ اور اخلاقی بھی۔

ایک اور سیاسی معاملے کو دیکھتے ہیں۔ یہ ہے عدم اعتماد کی تحریک، جو نہ صرف ایک آئینی چیز ہے، بلکہ سیاست کے لیے بالکل فطری بھی۔ اور بالکل اخلاقی بھی۔

تاہم، پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کو ایک غیرآئینی، غیرفطری اور غیراخلاقی چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور یہ کام بالخصوص تحریکِ انصاف کے  پیروکاروں کی طرف سے ہو رہا ہے، کیونکہ عمران خان کو یہ قبول نہیں کہ انھیں اقتدار سے اٹھا کر باہر کر دیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ عدم اعتماد سے متعلق آئینی دفعہ کی کوئی سازگار تعبیر کے لیے صدر کی طرف سے ایک ریفرینس بھی سپریم کورٹ بھیجا گیا ہے، تاکہ کوئی اُپائے کیا جا سکے۔ دیکھیں پردۂ عدل سے کیا ظہور میں آتا ہے۔

بات یہ ہے کہ عدم اعتماد کی گنجائش آئین میں سوچ سمجھ کر رکھی گئی ہے، تاکہ ایک ایسی صورت میں جبکہ ریاست کا متنظمِ اعلیٰ نااہل ثابت ہو رہا ہو، تو اسے اسیمبلی کے اندر سے ہی عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے فارغ کیا جا سکے۔ تاکہ اسے مزید نقصان پہنچانے سے روک دیا جائے۔

یوں وہ ارکانِ اسیمبلی، جو پہلے اپنی جماعت کے متنظمِ اعلیٰ پر اعتماد رکھتے تھے، اب وہ اعتماد کھو دیتے ہیں، اور اپنی جماعت کی منشا کے خلاف ووٹ دیتے ہیں۔

چونکہ آئین میں ایک اور ترمیم کی رو سے ’’فلور کراسنگ‘‘ پر پابندی لگا دی گئی ہے، یعنی اگر کوئی رکن حزبِ اختلاف کی نشستوں سے اٹھ کر حزبِ اقتدار کی نشستوں پر جا بیٹھتا ہے، یا اس کے برعکس ہوتا ہے، اور باقاعدہ طور پر کسی ایسی جماعت کا حصہ بن جاتا ہے، جو حزبِ اقتدار میں شامل ہے، یا کسی معاملے پر اپنی جماعت کی منشا کے خلاف ووٹ دیتا ہے (اس ضمن میں آ ئین کی متعلقہ دفعات دیکھیے)، تو وہ اسیمبلی کی اپنی رکنیت سے نااہل ہو سکتا ہے۔

یعنی آئین، ارکان کو یہ اجازت تو دیتا ہے کہ وہ عدم اعتماد (اور کچھ دوسرے معاملات) کے ضمن میں اپنی رضا سے اور اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالیں، مگر چونکہ یوں وہ ’’فلور کراسنگ‘‘ کے مرتکب ہوتے ہیں، لہٰذا، ان کی جماعت چاہے تو ان کے خلاف نااہلی کے عمل کا آغاز کر سکتی ہے۔

یعنی ایک تو ارکان کو اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کی آزادی دی گئی ہے، کیونکہ اس کے بغیر سیاسی جماعتیں انھیں محض ایک کٹھ پتلی بنا کر استعمال کر سکتی ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ وہ جس جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہوتے ہیں، لوگوں نے انھیں اس جماعت کی طرف سے انتخاب لڑنے پر ووٹ دیا ہوتا ہے، چونکہ اب وہ اس جماعت کے رکن نہیں رہتے، اور انھوں نے اپنی جماعت کی منشا کے خلاف ووٹ دیا ہوتا ہے، لہٰذا، ان کے لیے دوبارہ لوگوں کے پاس جا کر خود بھی اعتماد کا ووٹ لینا ضروری ہو جاتا ہے۔

قبل اس کے کہ ان معاملات کو اخلاقی سیاق و سباق میں زیرِ بحث لایا جائے، ایک اور سیاسی معاملے پر بھی کچھ بات کر لیتے ہیں۔

یہ معاملہ ہے ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کا۔

اس ضمن میں اہم سوال یہ ہے کہ یہاں سیاست دان اپنی جماعتوں کے وفادار کیوں نہیں ہوتے، یا کیوں نہیں بنتے، یا کیوں نہیں رہتے۔ جماعتیں کیوں بدلتے ہیں، یا جماعتیں کیوں بدلتے رہتے ہیں۔

بہت سی دوسری وجوہات کے ساتھ، خود پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی نوعیت اور ان کا ڈھانچہ بھی ایک بڑی اور اہم وجہ ہے۔

ان جماعتوں میں جماعت کا سربراہ قریب قریب ایک آمر جیسے اثر اور طاقت کا حامل ہوتا ہے۔ ان جماعتوں میں کوئی ایسا عمل اور طریقِ کار موجود نہیں ہوتا، جس کے بل پر اور جس کے ذریعے، اس جماعت کا کوئی رکن جماعت کے اندر اوپر جا سکے، اور کسی عہدے پر منتخب ہو سکے۔ یا  انتخابات کے لیے نامزد ہو سکے۔ یا وزارت، یا مشاورت، یا وزارتِ عظمیٰ کے لیے منتخب یا نامزد ہو سکے۔

بالعموم، یہ جماعت کے سربراہ کی رضا، خواہش یا خوشنودی ہوتی ہے، جو ان چیزوں کے ضمن میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ لہذا، جماعت کے ساتھ وفاداری کسی بھی رکن کے لیے ایک ثانوی چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ اسے جہاں سے بھی کوئی پیش کش ہوتی ہے، وہ اُدھر لڑھک جاتا ہے۔ یا پھر پیش کشوں کے لیے جستجو کرتا پھرتا ہے۔

جبکہ برطانیہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایسا نہیں۔ کیونکہ وہاں جماعتوں کی نوعیت اور ڈھانچہ بالکل مختلف ہے، اور ہر چیز کے ضمن میں، جماعت، ایک باقاعدہ عمل اور طریقِ کار پر انحصار کرتی ہے۔

پاکستان میں ایسا کیوں ہے، یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔

تفصیل میں جائے بغیر، کیونکہ اس کے لیے بہت وقت اور جگہ درکار ہو گی، ایک نہایت بڑے اور غیرمعمولی طور پر اہم عامل کی طرف اشارہ کر دینا کافی ہو گا۔ یہی وہ عامل ہے، جس نے پاکستان کی سیاست کا چہرہ، اس کی نوعیت اور اس کے ڈھانچے کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس عامل کے سبب، پاکستان کی سیاست میں انتشار، افراتفری، نفسانفسی، بدعہدی، وعدہ خلافی، بد دیانتی کا دور دورہ ہو گیا ہے۔

اور یہ عامل ہے، یہاں کی سیاست میں غیرسیاسی، غیرسویلین، سیاست کے خارج سے ہونے والی مداخلت۔

اوپر جن سیاسی معاملات سے بحث کی گئی، ان سب کے ضمن میں جس اخلاقی اصول کو سامنے رکھا جا سکتا ہے، اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ جیسے کہ وعدہ خلافی۔ بدعہدی۔ وغیرہ۔

مگر جو چیز ان سب پر محیط ہے، وہ ہے معاہدے کا تصور۔ گو کہ وعدہ اور عہد بھی ایک طرح کا معاہدہ ہی ہیں۔

جیسا کہ انسانی معاشرے کی ابتدائی تاریخ کا معاملہ ہے، وہاں افراد ایک دوسرے کو جو بات کہہ دیتے تھے، جو وعدہ کر لیتے تھے، جو عہد باندھ لیتے تھے، اسے ایک معاہدہ سمجھا اور مانا جاتا تھا۔ اور اسے پورا کرنا، یا اپنی بات پر پورا اترنا، ایک اخلاقی عمل تھا۔ کیونکہ اس کے بغیر معاشرے میں کسی قسم کا لین دین ممکن نہیں تھا۔

یعنی یہ عیاں ہے  کہ عدم اعتماد اور بے اعتباری کی صورت میں کسی قسم کی انسانی معاملت اور معاشرت ممکن نہیں ہو سکتی تھی۔

بعدازاں، اس زبانی معاہدے کو مختلف وجوہات کی بنا پر قلم بند کیا جانے لگا۔ اور معاہدہ، ایک قانون بن گیا۔ لیکن اس کی اخلاقی حیثیت اپنی جگہ موجود ہے۔ اور معاشرہ اسی بنیاد پر قائم و استوار اور رواں دواں ہے۔

معاہدے کا یہی مفہوم ہے، جسے سیاست پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے، اور کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، سیاست، معاشرے کی تنظیم کے معاملات سے تعلق رکھتی ہے۔

جیسا کہ اگر کوئی شخص کسی جماعت کا رکن ہے، تو یہ ایک معاہدہ ہے۔ جیسا کہ کوئی رکن اگر انتخابات میں کسی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہوتا ہے، تو وہ ایک معاہدے کا پابند ہے کہ وہ اس جماعت کا وفادار رہے۔ جیسا کہ جب کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت، انتخابات کے دوران میں، یا کسی بھی موقعے پر، لوگوں کے ساتھ کوئی وعدہ یا وعدے کرتا ہے، کوئی عہد باندھتا ہے، تو اخلاقی طور پر یہ تمام اعمال ایک معاہدے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے پھِرنا، وعدہ خلافی اور بدعہدی کرنا، ایک انتہائی  غیراخلاقی عمل ہے۔

مزید برآں یہ بھی کہ جب کوئی وزیر، مشیر مقرر ہوتا ہے، یا کوئی ریاستی یا حکومتی عہدیدار بنتا ہے، خواہ وہ منتخب ہو، یا نامزد، یا مقررہ، تو یہ سب ایک حلف اٹھاتے ہیں، اور اس حلف کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ بہرحال اور بہرصورت بالکل وہی ایک معاہدے کی صورت ہے، جس سے منحرف ہونا، غیراخلاقی عمل ہے۔

بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سیاست مجموعی طور پر ایک اخلاقی معاہدہ ہے، سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں اور لوگوں کے مابین۔

یعنی خواہ یہ سیاست ہو، یا اقتداری سیاست، اخلاقی اصول و اقدار اسی طرح نافذ، موثر اور لاگو رہتے ہیں، جیسے یہ معاشرے کے افراد پر نافذ، موثر اور لاگو ہوتے ہیں۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments