Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

ریاستی معیشت اور شہری معیشت” سے متلق ایک وضاحت طلب معاملہ”

متذکرۂ بالا کتابچے سے متعلق وٹس ایپ کے ذریعے ایک سوال پوچھا گیا ہے۔

’’اگر استدلال دولت کی تخلیق سے شروع ہو گا تو اس سے دولت کی تقسیم کا نتیجہ نکالنا کارے دارد بن جائے گا اور یہ اخلاقی طور پر تو بالکل ممکن نہیں۔ یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ ذرا تفصیل سے بتائیے گا مثالوں کے ساتھ ۔ صفحہ 19‘‘

جواب کو مختصر رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے، میں دو زاویوں کو سامنے لانا چاہوں گا۔

پہلا زاویہ: اخلاقی اقدار میں سے ’’چوری نہ کرو‘‘ ایک بنیادی قدر ہے۔

اس میں وہ تمام افعال شامل ہیں، جو کسی دوسرے فرد کے مال و دولت پر قبضہ جمانے سے لے کر ان کے غلط استعمال تک سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان پر اس کے تصرف میں کمی لاتے ہیں۔

یعنی جو شے یا اشیا یا جو مال، دولت، جائیداد، وغیرہ، کسی فرد کی جائز ملکیت ہے، اسے اخلاقی طور پر اسی فرد کی ملکیت سمجھا، جانا اور مانا جائے۔

اسی بات کے ساتھ یہ معاملہ بھی جڑا ہوا ہے کہ جو فرد کسی شے کی تخلیق کرتا ہے، وہ اس کی ملکیت ہے۔

اخلاقی طور پر اس کا مطلب یہ بنے گا، جو فرد کسی کاروبار کے ذریعے کوئی شے یا خدمت تخلیق کرتا ہے، وہ اس کی ملکیت ہے۔ یعنی اس شے یا خدمت کو وہ اپنے تصرف میں کس طرح لاتا ہے، یہ اس فرد کا حق ہے۔

اب اگر یہ کہا جائے کہ کسی فرد کی ملکیت، یعنی مال و دولت کو دوسرے لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے، یا ریاست اسے قبضے میں لے لے، تو یہ اخلاقی طور پر غلط ہو گا۔ کیونکہ مذکورہ مال و دولت اس شخص کی جائز ملکیت ہے۔

اس کی بڑی مثال ستر کی دہائی میں ریاست کے ہاتھوں نجی افراد کے مال و دولت کو قومیائے جانے کا عمل ہے۔

(یہاں جائز ملکیت سے کسی شے کی ملکیت کا اخلاقی مفہوم مراد ہے، قانونی مفہوم قطعاً نہیں۔)

جیسا کہ مذکورہ کتابچے میں بھی ذکر آیا، غالباً کارل مارکس اس بات کا احساس رکھتا تھا کہ اگر دولت کی تقسیم کے معاملے کو دولت کی تخلیق کے عمل سے اخذ نہ کیا گیا، تو یہ بے بنیاد رہے گا۔ یہی سبب ہے کہ اس نے دولت کی تقسیم کے ضمن میں، دولت کی تخلیق سے متعلق قدرِ زائد کے نظریے پر انحصار کیا۔ اور اسے ایک معاشی حقیقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، اخلاقی حقیقت کے طور پر نہیں۔

مارکس نے ’’غربت‘‘ کا حیلہ نہیں تراشا۔ بلکہ ’’استحصال‘‘ کی اصطلاح کے تحت، اس نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ محنت کار، دولت کی تخلیق کے دوران، اشیا میں جو ’’زائد قدر‘‘ پیدا کرتا ہے، وہ اسے ملنی چاہیے، وہ اس کا حق ہے۔ جبکہ یہ قدر، مارکس کے مطابق، سرمایہ دار اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔

گو کہ یہ عیاں ہے کہ مارکس کا یہ غیراخلاقی استدلال سرے سے غلط بنیاد پر استوار تھا۔ چیزوں میں قدر متعدد عوامل کے اشتراک سے پیدا ہوتی یا کی جاتی ہے اور اس قدر کی وقعت و قیمت کا تعین بازار (مارکیٹ) میں ہوتا ہے۔ بلکہ اصل میں کسی شے کی قدر کا تعین، بازار میں آ کر، صارف کی پسند اور ناپسند سے متعین ہوتا ہے۔

یعنی کسی کاروبار کا مالک یا آنٹرپرینیور، دولت کی تخلیق کے عوامل (سرمائے، زمین، محنت) کو ایک خاص انداز میں آمیز کرتا ہے، اور یوں ایک ایسی شے یا خدمت تخلیق کرتا ہے، جو لوگوں کی کسی ضرورت کو پورا کرتی ہے، یا اچھے انداز میں پورا کرتی ہے۔ مگر اس شے کی قدر کا تعین، بازار میں صارفین کے طرزِ عمل سے ہوتا ہے۔

مختصر یہ کہ کسی فرد کی تخلیق کی ہوئی دولت، اخلاقی طور پر اس کی ملکیت ہے۔ اس کی تقسیم صرف اور صرف اس کا حق ہے۔

دوسرا زاویہ، سیاسی اور قانونی ہے۔ یعنی یہ کہ ایسے سیاسی فلسفے موجود ہیں، جو افراد کی پیدا کی ہوئی دولت کو تقسیم کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ انھی سیاسی فلسفوں نے تقسیمی (ڈسٹری بیوٹو) ریاست اور باز تقسیمی (ری ڈسٹری بیوٹو) ریاست کا تصور بھی ایجاد کیا ہے۔

یہ تقیسمی اور بازتقسیمی ریاستیں، ایسے قوانین بھی وضع کر لیتی ہیں، بلکہ ایسے آئین بھی بنا لیتی ہیں، اور پہلے سے موجود آئینوں میں ایسی ترامیم بھی کر لیتی ہیں، جو دولت کی تقسیم در تقسیم سے تعلق رکھتے اور اسے قانونی طور پر جائز ٹھہراتے ہیں۔

واضح رہے کہ قانون، غیراخلاقی بھی ہو سکتے ہیں، اور ہوتے ہیں۔ جبکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ قانون، اخلاقیات سے اخذ ہوا، اور اسے اپنی اسی بنیاد پر ہی استوار ہونا چاہیے۔

سو ایسے سیاسی فلسفے، دولت کی تخلیق پر متوجہ نہیں ہوتے۔ ان کا سارا یا بیشتر زور دولت کی تقسیم پر ہوتا اور رہتا ہے، لہٰذا، جہاں ان فلسفوں پر مبنی سیاسی جماعتیں حکمران ہوتی ہیں، وہاں دولت کی تخلیق کم ہوتی ہے، اور یوں وہاں غربت، پسماندگی، اور بے چارگی، لوگوں کا مقدر بنی رہتی ہے۔

جملۂ معترضہ: دولت تخلیق کرنا ایک غیرمعمولی کام ہے۔ یہ آسان کام نہیں۔ یہی سبب ہے کہ سیاسی فلسفی اور سیاسی جماعتیں، دولت کی تقسیم کے نعرے کا استعمال کرتی ہیں۔ اور لوگوں کو ’’ہر چیز مفت ملے گی‘‘ کی ترغیب دیتی ہیں۔

[سِول پاکستان پارٹی، پاکستان کی واحد سیاسی پارٹی ہے، جو دولت کی تخلیق کے ضمن میں آسانیاں پیدا کرنے پر یقین رکھتی ہے۔]

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments