Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

سعادت حسن منٹو ۔ کون؟

سعادت حسن منٹو ایک متنازعہ شخصیت ہیں۔ ایک متنازعہ مصنف ہیں۔ ایک متنازعہ افسانہ نگار ہیں۔

ان کے بارے میں متعدد سوالات تسلسل کے ساتھ زیرِ بحث ہیں۔

وہ ترقی پسند تھے یا نہیں۔ اول اول انھیں ترقی پسندوں نے مسترد کیا۔ بعدازاں، اپنے اس انکار سے پھِر گئے۔

حالیہ طور پر انجمنِ ترقی پسند مصنفین کی جو صورتیں سامنے آئیں اور موجود ہیں، وہ انھیں ترقی پسند قرار دیتی ہیں۔

رجعت پسند تو تھے ہی ان کے مخالف۔ وہ فحش نگار جو ٹھہرے۔ ’ان کے دماغ پر عورت جو سوار تھی۔‘

ان کی شخصیت کے بارے میں، کتنے ہی سوالات ہیں۔ وہ ایک اچھے شوہر تھے یا نہیں۔ وہ ایک اچھے باپ تھے یا نہیں۔

ان کی خودپسندی مناسب تھی یا نہیں۔

انھوں نے جو افسانے لکھے، آیا وہ ادب کا حصہ ہیں یا نہیں۔

اگر وہ افسانے نہیں، تو کیوں نہیں۔

جو کچھ انھوں نے لکھا، وہ اگر افسانے نہیں، تو پھر کیا بلا ہیں۔

وہ حقیقت نگار ہیں یا نہیں۔

ان کی زبان و بیان سے متعلق بھی سوالات موجود ہیں۔

یہ سب کچھ زیرِ بحث رہا ہے، اور ہے، اور رہے گا۔

مگر میں یہاں جو کچھ تجویز کرنا چاہتا ہوں، وہ ان تمام سوالات اور تنازعات کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ اور ان کا ایک جامع جواب بھی مہیا کرتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ سعادت حسن منٹو ایک ’’باغی‘‘ ہیں۔ انھیں ایک ’’باغی‘‘ کے طور پر قبول کرنا چاہیے۔ اپنانا چاہیے۔ دل سے لگانا چاہیے۔ سنبھال کر رکھنا چاہیے۔

تو ’’باغی‘‘ ہوتا کون ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں، ’’باغی‘‘ وہ ہوتا ہے، جو سماجیات، یعنی سماجی اقدار، سماجی رسوم و رواج، سماجی روایات کے مروجہ سانچے میں فِٹ نہیں بیٹھتا۔ وہ اس صدوقچے میں بند نہیں ہوتا۔ کسی بستربند میں بندھتا نہیں۔ ایک طرف سے لپیٹتے ہیں، تو دوسری طرف سے باہر نکل آتا ہے۔ ایک جانب سے باندھتے ہیں، تو دوسری جانب سے کھُل جاتا ہے۔

باالفاظِ دیگر، ممکن ہے وہ ہمیں ایک نئی سماجیات، یعنی نئی سماجی اقدار، نئے سماجی رسوم و رواج، نئی سماجی روایات کا سِرا پکڑا سکے۔ یعنی وہ ایک نئی سماجیات کا پیامبر ہو سکتا ہے۔ یا کئی ’’باغی‘‘ مل کر ایک نئی سماجیات کو تشکیل دے سکتے ہیں۔

یہی سبب ہے کہ ہمیں اپنے ’’باغیوں‘‘ کو ’’باغیوں‘‘ کی حیثیت سے قبول کرنا چاہیے۔ اپنانا چاہیے۔ دل سے لگانا چاہیے۔ انھیں سنبھال کر رکھنا چاہیے۔

یہ ’’باغی‘‘ ایک انمول اثاثہ ہیں۔

ان سے متعلق مختلف طرح کے سوالات اور تنازعات کو بھول جانا چاہیے۔

جیسے کہ وہ مصنف ہیں یا نہیں۔ ادیب ہیں یا نہیں۔ افسانہ نگار ہیں یا نہیں۔ وہ فحش نگار ہیں یا نہیں۔ وہ حقیقت نگار ہیں یا نہیں۔ ان کی زبان و بیان درست ہے یا نہیں۔ وغیرہ، وغیرہ۔

وہ اچھے شوہر ہیں یا نہیں۔ وہ اچھے باپ ہیں یا نہیں۔ یا ایسے ہی سوال۔

وہ ’’باغی‘‘ ہیں، انھیں قبول کرنے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔

وہ ہمارے ’’باغی‘‘ ہیں۔ وہ ہم سے مختلف ہیں۔ اس لیے ہم انھیں قبول کرتے ہیں۔ گلے سے لگاتے ہیں۔

ہم اپنے ’’باغیوں‘‘ کے لیے دل کشادہ رکھتے ہیں۔

معاشرے سے متعلق ہمارے تصوریے میں، اپنے ’’باغیوں‘‘ لیے کافی و وافی جگہ وقف ہونی چاہیے، وقف رہنی چاہیے۔ وہ ہمارے اپنے ہیں۔ فیملی ہیں۔ گھر کے ہیں۔

وہ، کہیں نہ کہیں، ہم خود ہیں۔

5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments