Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

سپریم کورٹ کا مخمصہ ۔ درونِ دائرہ حل

قومی اسیمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے سے متعلق، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی 3 اپریل کی رولنگ کے ضمن میں سپریم کورٹ کا از خود نوٹس، اور اس سے متعلق دوسری اپیلوں پر متعلقہ بینچ نے شنوائی پر کوئی پانچ دن صرف کیے۔ اور پانچویں دن شام ڈھلے مختصر فیصلہ سنایا۔ یہ پانچ دن، پاکستان کی سیاست اور مشوش شہری سولی پر لٹکے رہے۔ گو کہ جب فیصلہ آیا، تو غبار چھٹ گیا، اور سوائے تحریکِ انصاف اور اس کے پیروکاروں کے، کم و بیش ہر کسی نے اس پر مسرت و اطمینان کا اظہار کیا۔

تاہم، فیصلہ آنے کے بعد کچھ دیر اس مضمون پر توجہ قائم رہی کہ یہ پانچ دن کیسے گزرے۔ یہ پانچ دن ایسی تحریروں کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہیں، جیسے وہ پانچ دن، وہ سات دن، وغیرہم۔

بلاشبہ یہ پانچ دن پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں یادگار رہیں  گے۔ گو کہ یہاں سب کچھ جلد ہی فراموش ہو جاتا ہے۔

ایک یہ بات عیاں رہے کہ پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ متذکرہ رولنگ کی آئینی حیثیت کے معاملے پر قانونی رائے میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ ہاں، مگر وہ چند وکلا، یہ رولنگ غالباً جن کے ذہنِ رسا کی پیداوار تھی، تاویلیں تراشنے میں پیچھے نہیں تھے۔

اس ضمن میں قانونی حلقوں کی غالب رائے یہی تھی کہ یہ رولنگ، غیرآئینی ہے اور آئین میں ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ نہ ہی آئین، سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کو ایسا کوئی اختیار دیتا ہے۔

بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ یہ ’’ایک اوپن اور شٹ کیس‘‘ ہے۔ یعنی کسی شک و شبے سے بالا۔ یعنی ایسے جیسے کھولیں اور بند کر دیں۔ اس میں اتنا وقت لگنا ہی نہیں چاہیے تھا۔

ایک حیلہ یہ بھی پیش کیا گیا کہ سپریم کورٹ فیصلہ شتابی سے بھی دے سکتی تھی، مگر اس اعتراض کو رفع کرنے کے لیے وقت لیا گیا کہ ’’یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔‘‘

مگر اس میں پانچ دن لگے۔ ججوں کی آراء اور تبصرے لوگوں کے دلوں کو ڈُباتے اور تیراتے رہے۔ جیسے کسی ’’سسپینس‘‘ سے بھرپور فلم میں ہوتا ہے۔

اس پر دوستوں سے بھی بات ہوتی رہی۔ سوشل میڈیا پر بھی رائے زنی اور ’’رائے گیری‘‘ چل رہی تھی۔

میرا اصرار یہی تھا کہ اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے۔ کیوں لگنا چاہیے۔ کیا یہ کوئی آئینی تعبیر کا معاملہ ہے۔ سیدھا سادہ دو دو چار کی بات ہے۔ کیا کرنا چاہتے ہیں، جج صاحبان۔

تاہم، جب سے فیصلہ آیا ہے، لوگ دوسرے معاملات میں الجھ گئے ہیں۔ ان کی توجہ ان پانچ دنوں پر سے ہٹ گئی ہے۔ جیسے اکثر ہوتا ہے۔ آگا دوڑ، پیچھا چوڑ۔

مگر میں وہیں اڑا کھڑا ہوں۔ میں فیصلہ آنے سے پہلے بھی اس معاملے پر لکھنے کے بارے میں سوچ رہا تھا، جب فیصلہ آ گیا، تو مزید بحثیں شروع ہو گئیں، اور میں نے بھی چاہا کہ اسے نظرانداز کردوں، بھول جاؤں، اور آگے بڑھوں۔

پر میرا ذہن اس کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ جو نکتہ میں سامنے لانا چاہتا ہوں، وہ محض اس چیز سے تعلق نہیں رکھتا کہ اس پر غور و خوض میں پانچ دن کیوں لگے، بلکہ یہ اس ساکھ سے تعلق رکھتا ہے، جو پاکستان کے سپریم کورٹ کے ساتھ نتھی ہو چکی ہے۔

فیصلہ آنے کے بعد، میں نے فیس بُک پر یہ سوالات اٹھائے۔

ـ سوال یہ ہے کہ ہمیں یہ یقین کیوں نہیں تھا کہ سپریم کورٹ، آئین کو بالادست رکھے گی؟

ـ ٹھیک۔ یہی فیصلہ ہونا چاہیے تھا۔ مگر اتنا وقت کیوں لگا؟ کیا کوئی تکنیکی معاملات زیرِ بحث تھے؟ یا پھر کیا تھا؟

ـ کیا سپیکر کی رولنگ سے متعلق آئین میں کوئی ابہام تھا؟ یا کسی دفعہ یا شق کی تعبیر کا معاملہ درپیش تھا؟

ـ اور ہم میں سے بیشتر اس خدشے کا شکار کیوں تھے کہ معلوم نہیں کیا فیصلہ آئے؟ کیا سپریم کورٹ پر اعتماد نہیں تھا؟ مگر کیوں؟

میرے ذہن میں سوچ کی مشین چلتی رہی۔ اور آخرِکار میں ایک نکتے پر آ کر ٹھہر گیا۔

اس ضمن میں وقت بھی اہم نہیں۔ پانچ دن لگے، زیادہ بھی لگ سکتے تھے۔ لگ جاتے۔

تکنیکی معاملات درپیش تھے، یا نہیں۔ تعبیر درکار تھی، یا نہیں۔ یہ چیزیں غیراہم ہیں۔

یا حکومتی وکیل اور دوسرے فریقوں کے وکیلوں کو دلائل دینے میں وقت لگا۔ لگ سکتا ہے۔ پھر تو یہ پانچ دن کم تھے۔ یہ بات بھی غیرمتعلق ہے۔

تو پھر کیا سپریم کورٹ کی ساکھ کا معاملہ اصل مسئلہ ہے؟

بھئی ساکھ کا معاملہ تو ہر وقت ہوا میں معلق ہے۔ اس بارے میں ایسی ایسی باتیں زبان زدِ عام ہیں، جھنیں لکھنے کی تاب نہیں۔ بس سنائی جا سکتی ہیں۔

پھر یہ کہ نہ صرف ہر چیف جسٹس، بلکہ ہر حکومتی، وغیرہ، اور مفادِ عامہ، وغیرہ، کے کیس کے فیصلوں کے ساتھ، سپریم کورٹ کی ساکھ نیچے اوپر ہوتی رہتی ہے۔

جیسے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق فیصلے کے ساتھ یہ ساکھ کا گراف اوپر چلا گیا ہے۔

مراد یہ کہ ساکھ کا معاملہ بھی اصل معاملہ نہیں۔

پھر اصل معاملہ ہے کیا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے بارے میں یہ رائے، یقین میں کیوں نہیں بدل سکی کہ سپریم کورٹ، آئین کا محافظ ہے، اور یہ کہ اس کا ہر فیصلہ آئین کو بالادست بناتا ہے۔

اس ضمن میں فوری طور پر یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ چونکہ اس کے متعدد فیصلے ایسے رہے ہیں، جو کسی بھی طور آئین کو بالادست نہیں رکھ سکے، لہٰذا، ہر نئے کیس کے ضمن میں، ایک تذبذب حاوی رہتا ہے۔

یعنی، ایسے فیصلے، جن کے لیے آئین میں کوئی متطابق یا متوافق دفعہ یا شق دستیاب نہیں۔ اور یہ بھی کہ متعدد مثالوں میں، نہ صرف حکومتی، وغیرہ، بلکہ مفادِ عامہ، وغیرہ، کے فیصلوں کے ضمن میں، آئین کی کوئی دفعہ یا شق ان فیصلوں کی توثیق نہیں کرتی۔

یعنی یہ فیصلے خود متعلقہ جج یا ججوں کے تخئیل کی اختراع ہوتے ہیں۔

جیسا کہ بحریہ ٹاؤن کے ضمن میں (ملیر ڈویلپ مینٹ اتھاریٹی سے متعلق) سپریم کورٹ کا فیصلہ۔

یا پھر جسٹس انوار الحق کا فیصلہ، جس میں ضیا الحق کے مارشل کو درست قرار دیا گیا۔

یا پھر ارشاد حسن خان کا فیصلہ، جس میں جینرل مشرف کے مارشل لا کو جواز مہیا کیا گیا۔ وغیرہم۔

اس نوعیت کے فیصلوں نے سپریم کورٹ کی ساکھ کو مستقل گھاؤ لگا دیے ہیں۔ زخم بھر بھی جائیں، تو زخم کے نشان موجود رہیں گے۔

یہی سبب ہے کہ ہر اہم فیصلے کے وقت لوگ خدشات کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کیا جانے کیا فیصلہ آئے۔

بالکل درست۔ یہ بات حرف بحرف درست ہے۔ ساکھ کا یہی حال ہے۔

مگر میں پھر یہی کہوں گا کہ اصل معاملہ، ساکھ نہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ پر شہریوں کا یہ یقین پختہ کیوں نہیں ہو سکا کہ یہ آئین کو بالادست رکھے گا۔ اور جب بھی اس کے سامنے کوئی کیس آئے گا، تو شہریوں کو یہ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کہ دیکھیں کیا گُل کھِلتا ہے، یا کیا گُل کھِلایا جاتا ہے۔ یعنی کیا فیصلہ ہوتا ہے۔

میرا زور اسی بات پر ہے۔ اگر مجھے یہ یقین ہوتا کہ سپریم کورٹ، ایک ایسی عدالت ہے، جو آئین کو بالادست رکھنے والی عدالت ہے، اور بہرحال اور بہر صورت آئین کو بالادست رکھے گی، تو مجھے یہ فکر لاحق نہ ہوتی کہ پانچ دن لگے گئے، یا پانچ ماہ، یا جتنا عرصہ بھی لگے۔ کیونکہ مجھے یہ یقین ہوتا کہ سپریم کورٹ بہرحال اور بہر صورت آئین کو بالادست رکھتی ہے اور رکھے گی۔

سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ پر یہ یقین پیدا کیوں نہیں ہوا۔ پختہ کیوں نہیں ہوا۔

بلکہ اس کے برعکس، بیشتر صورتوں میں، ایک منفی یقین غالب رہتا ہے کہ فیصلہ تو آئین کے خلاف ہی آئے گا۔

ایسا کیوں ہے، یہی میرا مسئلہ ہے۔ بلکہ میرا نہیں، اصل مسئلہ یہی ہے۔ لوگ اس تذبذب میں کیوں رہتے ہیں کہ کیا فیصلہ آئے گا۔ انھیں اعتماد کیوں نہیں ہوتا کہ آئین بالادست رہے گا۔

یا اگر اس کے برعکس سوچا جائے، تو کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے، یا ہونا چاہیے، کہ سپریم کورٹ، جسے آئین کے محافظ اور نگہبان کا مرتبہ حاصل ہے، وہ آئین کے برخلاف فیصلہ کرے، یا کر دے۔ اور پھر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے؟

عیاں ہے کہ یہ تو ایک دشوار اور محال صورت ہے۔

یعنی سپریم کورٹ میں کہیں کوئی کمی ہے۔ کہیں خرابی ہے۔ تب ہی اس پر لوگوں کا یقین پختہ نہیں ہو سکا۔ وہ ہمیشہ ایک تذبذب اور خدشے میں مبتلا رہتے ہیں۔

ایک خرابی یہ بتائی جاتی تھی کہ انتظامیہ، عدلیہ کو نکیل ڈالنا چاہتی ہے، اور اپنی پسند کے فیصلے کروانا چاہتی ہے، اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا اور قائم رکھنا چاہتی ہے۔ لہٰذا، عدلیہ کے ادارے کو آزاد ہونا چاہیے۔

پھر عدلیہ آزاد بھی ہو گئی۔

(یہ آزادی جس میکانزم پر منحصر ہے، اس کی تفصیل سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ پر دستیاب ہے۔)

اس آزادی کا تعلق اس بات سے ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری چیف جسٹس کی رضا سے ہو اور اس معاملے میں ان کی رضا غالب رہے۔ اور یہ بھی کہ چیف جسٹس کے تقرر میں انتظامیہ کی مداخلت ختم ہو۔ یعنی جو بھی جج سینیئر ہو وہ از خود چیف جسٹس بن جائے۔ اور سپریم کورٹ کو مالی آزادی بھی حاصل رہے۔

مگر ثاقب نثار جیسے چیف جسٹس پھر بھی پیدا ہو گئے، اور وہ وہ کام انجام دے گئے کہ ریاست و حکومت سے لے کر معاشرے تک، سب کے سب جنھیں بھگت رہے ہیں، اور مستقبل میں بھی جس کے بداثرات موجود رہیں گے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ایک ایسے نظامِ حکومت میں، جہاں لوگوں کی رضا بالادست ہوتی ہے، اور ہے، یعنی ان کے نمائندوں کی وساطت سے، وہاں، عدلیہ یا کسی بھی ادارے کی آزادی کا کیا مطلب ہے۔

درست ہے کہ عدلیہ میں، انتظامیہ کی مداخلت نہ ہو، لیکن لوگوں کی رضا پر قائم ایک نظام میں، کسی بھی ادارے کی آزادی اس ادارے پر غالب نہیں ہو سکتی، جو لوگوں کی نمائندگی کی غرض سے قائم ہوا ہے، اور جسے لوگوں نے اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے اور جسے لوگوں نے اپنا حقِ حکمرانی (مینڈیٹ) تفویض کیا ہے۔

یعنی عدلیہ کے ادارے کو آزاد ہوتے ہوئے، اور انتظامیہ سے علاحدہ ہوتے ہوئے، پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا، اور جوابدہ ہونا چاہیے۔ یہ ایک اصولی معاملہ ہے۔

اور پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہونے کا مطلب محض یہ نہیں کہ ہر برس ایک کارکردگی رپورٹ صدر کو پیش کر دی جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ اپنے آئینی فرائض اور ذمے داریوں کی ادائیگی سے متعلق، اپنی کارکردگی کی جوابدہی کے لیے، پارلیمان کے سامنے پیش ہو۔ جہاں اس سے یہ سوال بھی پوچھا جا سکے کہ اس نے آئین کی بالادستی کے لیے کیا کردار ادا کیا۔ کیونکر اس نے نظریۂ ضرورت کو ایجاد و استعمال کیا۔ آئین میں نظریۂ ضرورت کہاں درج ہے۔ یا آئین میں اس کے لیے گنجائش کہاں موجود ہے، یا کیسے پیدا کی گئی۔ بحریہ ٹاؤن کے معاملے میں کس دفعہ یا کس دفعہ کی کس شق کے تحت اس کے مالکوں کو ’’ریلیف‘‘ دیا گیا۔ مارشل لاؤں کو بھی کس دفعہ یا کس دفعہ کی کس شق کی رو سے جواز مہیا کیا گیا۔

نظریۂ ضرورت، پاکستان کے آئین میں کہاں درج ہے۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آئین، نظریۂ ضرورت کو دفن کر کے وجود میں آیا ہے، آتا ہے۔

پارلیمان میں ہی سپریم کورٹ سے، سپریم جوڈیشل کونسل سے متعلق معاملات کے بارے میں بھی پُرسش کی جا سکے۔

یہ ایک درونِ دائرہ حل ہے۔ یعنی سپریم کورٹ کے مخمصے کا ایک درونِ دائرہ حل۔ یعنی ایک اِن دا باکس حل۔ یعنی موجودہ آئینی  نظم کے اندر رہتے ہوئے ایک حل۔

یعنی اس مخمصے کا حل کہ سات دہائیوں کے بعد بھی، سپریم کورٹ پر لوگوں کا یقین پختہ کیوں نہیں ہو سکا کہ یہ آئین کی بالادستی کا محافظ ادارہ ہے۔ اور یہ کہ ہر اہم کیس کے فیصلے سے متعلق لوگ تذبذب اور گومگو کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں کہ دیکھیں سپریم کورٹ اب کیا فیصلہ کرتا ہے۔ آئین کے حق میں فیصلہ کرتا ہے، یا کوئی درمیانی راستہ نکالتا ہے، یا کوئی ماورائے آئین حل ڈھونڈتا ہے۔

یعنی آزادی کے ساتھ، ذمے داری اور جوابدہی کو بھی جوڑا جائے۔ جوڑنا ہو گا۔ سپریم کورٹ کو یہ آزادی اس لیے نہیں دی گئی کہ یہ ماورائے آئین فیصلے اور کام کرتا رہے اور درمیانی راستے نکالتا رہے۔ اسے بہرحال اور بہرصورت آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے، چاہے آسمان گرتا ہے تو گرے، جیسا کہ کہا جاتا ہے۔

جیسا کہ پارلیمان، شہریوں کے سامنے جوابدہ ہے، تو سپریم کورٹ کو پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ جوابدہ ہونا چاہیے۔ وگرنہ پارلیمان کی بالادستی پر منحصر یہ نظام نامکمل رہے گا۔

مراد یہ بھی کہ سپریم کورٹ کوئی ایسا ادارہ نہیں، جو اس نظام کے اوپر متمکن ہے، جس نظام نے اسے قائم کیا ہے۔ جبکہ عملاً ایسی ہی صورت بنی ہوئی ہے۔ یہ ایک بڑی خامی ہے۔ اس خامی کا تدارک ضروری ہے۔

سپریم کورٹ کو پارلیمان کے سامنے جوابدہ بنانا ایک لازمی امر ہے۔ وگرنہ ہر اہم معاملے پر لوگ اسی طرح تذبذب اور خدشات میں گرفتار رہیں گے کہ دیکھیں اس معاملے میں سپریم کورٹ، آئین کو بالادست رکھتا ہے یا نہیں۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments